• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر سورۃ اخلاص از شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
''علی اﷲ قصد السبیل''
قصہ السبیل سے مراد سبیلِ قصہ یعنی عدل کا راستہ ہے
اور آیت کریمہ کے معنی یہ ہوئے کہ عادل راہ اسی تک پہنچتی ہے۔
اسی طرح
''اِنَّ عَلَیْنَا لَلْھُدٰی''
سے مراد ''الھدی الینا'' یعنی تمام ہدایتیں ہم تک ہوتی ہیں۔
ان دونوں آیتوں کی تفسیر میں جس قدر اقوال وارد ہوئے ہیں ان سب میں سے یہ قول زیادہ صحیح ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
قَالَ ھٰذَا صِرَاطِ عَلَی مُسْتَقِیْم (آل عمران:14)
اس سے بھی اسی قول کی تائید ہوتی ہے۔ بلحاظ اشتقاق اوسط لفظ صد بھی اسی لفظ سے مشتق ہے کیونکہ اس میں وہی حروف ہیں جو قصد میں ہیں۔ اور کسی بات میں سچا ہونے سے مراد یہی ہے کہ وہ بات خبر دینے والے کے قول کے مطابق ہوئی ہے اور سدید کے معنی بھی یہی معنی ہیں جن کا ذکر آ چکا ہے۔ ''صدق '' سخت نیزے کو کہتے ہیں اور اس کے معنی مستوی بھی کئے گئے ہیں اور مستوی وہ ہوتا ہے جو معتدل اور سخت ہو اور اس میں خلل اور کجی نہ ہو۔ نیز صندوق کی جمع صنادلیق ہے، اس سے مشتق ہے کیونکہ جو کچھ اس میں رکھا جاتا ہے، اسے جمع رکھتا ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
اشتقاق کی تین قسمیں
باب اشتقاق میں یہ امر یاد رکھنے کے قابل ہے کہ جب ایک لفظ کو دوسرے لفظ سے مشتق کیا جائے تو اس کے دو معنی ہوتے ہیں:
اول یہ کہ ان دونوں لفظوں میں لفظًا و معنًا مناسبت ہوتی ہے۔ اہل لغت دو کلموں میں سے جسے چاہیں مقدم مانیں۔ اس بات میں کوئی مضائقہ نہیں۔ یہی میں سے ہر ایک کلمہ دوسرے کلمے سے مشتق ہوتا ہے کیونکہ وہ لفظًا اور معنًا اسی مناسب ہے جس طرح یہ کہا جاتا ہے کہ یہ پانی اسی پانی سے ہے، اور یہ کلام اسی کلام سے ہے۔ چنانچہ فعل کو مصدر سے اور مصدر کو فعل سے مشتق کہنا دونوں قول صحیح ہیں یہ وہ اشتقاق ہے جس پر صرف کی دلیل قائم ہو سکے۔
اشتقاق کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ ان دونوں میں سے ایک دوسرے میںنسبت ہو ، اگر اس کے یہ معنی ہوں کہ ان میں سے ایک دوسرے کی نسبت پہلے کیا گیا ہے تو اکثر مقامات میں اس پر دلیل نہیں قائم کی جاسکتی، اگر اس کے یہ معنی ہوں کہ ان دونوں میں سے ایک عقل میں دوسرے سے مقدم ہے، کیونکہ ایک مفرد اور دوسرا مرکب ہے تو فعل مصدر سے مشتق ہے''۔
اشتقاق ا صغر دوکلموں میں حروف اور ان کی ترکیب کی موافقت کو کہتے ہیں اشتقاق اوسط اس وقت ہوتا ہے جب حروف میں تو اتفاق ہو لیکن ان کی ترتیب میں اتفاق نہ ہو۔
اشتقاق اکبر اس وقت صادق آتا ہے جب بعض حروف میں تو بعینہٖ رفاقت ہو اور باقی حروف میں مطابقت جنسی ہو۔ مثلاً حزر، عزر اور ازر، تینوں میں قوت وشدت کے معنی پائے جاتے ہیں۔
''ر'' اور' 'ز'' میں تو اشتراک عینی ہے اور (ح) (ع) اور (ز) اس لحاظ سے مشترک مشترک ہیں کہ ان کی جنس ایک ہے۔ یعنی یہ کہ وہ تینوں حروف حلقی ہیں۔ جب یہ کہا جائے کہ صمد کے معنی مصمت کے ہیں اور وہ اس لحاظ سے مصمت سے مشتق ہے تو یہ بات صحیح ہے، کیونکہ (د) (ت) کی بہن ہے اور صمت خاموش کو کہتے ہیں، اور خاموشی بات چیت سے منہ بند رکھنے کو کہتے ہیں۔
ابو عبیدہ کا قول ہے کہ مصمت اس چیز کو کہتے ہیں جس کا جوف (کھوکھلا پن) نہ ہو۔ وقد اصمۃ انا (میں نے اسے صائم پایا) باب مصمت (بند دروازہ جس کے کھلنے کی راہ معلوم نہ ہوسکے) خیل مصمت (ایسے رنگ کے گھوڑے ہوں کہ ان کے رنگ میں کسی دوسرے رنگ کا اختلاط نہ ہو) یہ سب مثالیں اصلی معنی پر دلالت کرتی ہیں۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ حریر مصمت (یعنی خالص ریشم) حرام ہے مصمد اور مصمت اشتقاق اکبر میں متفق ہیں۔ ''د''، ''ت'' سے بدل کر نہیں بنی۔ بلکہ ''د'' اس سے قوی ترہے اور مصمت کی نسبت زیادہ کامل ہے، اور جتنا کوئی حرف قوی ہوگا اس کے معنی بھی قوی تر ہوں گے۔
زبان عرب نہایت محکم اور متناسب واقع ہوئی ہے۔ چنانچہ دیکھئے صمت اور صمد میں بھی ایک لطیف فرق ہے۔ صمت باوجود امکان کے کلام سے باز رہنے کو کہتے ہیں۔ انسان اجوف ہے، اس کے منہ سے کلام صادر ہوتا ہے لیکن وہ کبھی کبھی خاموش بھی ہو جاتا ہے۔ یہ خاموشی صمت کہلاتی ہے، بخلاف ازیں صمد کا اطلاق اس چیز پر ہوتا ہے جس میں تفریق مطلقاً نہ ہو۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
صبر کے معنیٰ
اور لفظ صبر کے معنی کو بھی ان معانی سے مناسبت ہے کیونکہ صبر میں بھی جمع و امساک پایا جاتا ہے۔ چنانچہ نفس کو گھبراہٹ سے روکنے پر صبر کا اطلاق کیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے '' صَبَرَ '' (وہ تھم گیا) ''صبرۃ انا '' (میں نے اسے روکا)۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
''واصبر نفسک''
(اور اپنے نفس کو تھام)
خوراک کے تودے کو بھی ''صبرۃ من الطعام'' اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ مجتمع اور ایک جگہ پر اکٹھا ہوا ہوتا ہے۔ صبارۃ پتھر کو کہتے ہیں۔ کسی چیز کا صبر اس چیز کی شدت و قوت ہو تا ہے۔ اور جزع فزع اس کی ضد ہے۔ اس میں ٹکڑے ٹکڑے اور جدا جدا ہونے کے معنی پائے جاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے ''جزع لہ جزعۃ من المال'' (یعنی اس کے لئے مال کا ایک حصہ علیحدہ کیا)۔ جزوعہ بکری کے ایک ٹکڑے کو کہتے ہیں۔
اجتزعت من الشجر عودا (میں نے درخت سے لکڑی کاٹی) اور جزعت الوادی (میں نے وادی کی مسافت عرضی قطع کی) انہی معنوں میں مستعمل ہیں۔ جزع وادی کے پھیر کو بھی کہتے ہیں۔ یمن کی اس کوڈی کو بھی کہتے ہیں، جس میں سفیدی اور سیاہی ہوتی ہے۔
جزع البر تجزیعا اس وقت کہا جاتا ہے جب سبز (کھجور) کا نصف یا دوتہائی حصہ پختہ ہو جائے۔
اللہ تعالیٰ فرمایا ہے :
''اِنَّ الْاِ نْسَانَ خُلِقَ ھَلُوْعَا o اِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ جَزُوْعَا o وَاِذَا مَسَّہُ الْخَیْرُ مَنُوْعًا''۔ (المعارج:19،20،21)
انسان خلقت ہی سے پرلے درجے کاحریص واقع ہوا ہے۔ تکلیف پہنچے، تو سر پیٹنے لگتا ہے اور اگر خیر و نعمت حاصل ہو جائے تو کسی کو فائدہ پہنچانے کا نام نہیں لیتا۔
جوہری کا قول ہے کہ ''ہلع '' گھبراہٹ کی بدترین صورت کے لئے بولا جاتا ہے۔ بعض کا قول ہے کہ ''ہلع'' شدید ترین حرص اور بدترین گھبراہٹ کو کہتے ہیں۔
نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے:
شرہا فی المرء شح ھالع وجبن خالع۔
مرد کی بدترین خصلت سخت لالچ، تنزل اور بزدلی ہے۔
''ناقۃ ھلواء''ا س اونٹنی کو کہتے ہیں جو پھرتیلی اور تیز رفتار ہو۔ ''ذئب ھلع بلع'' وہ بھیڑیا ہوتا ہے جو تیزی سے شکار کو ہڑپ کر جائے۔ ''ہلع'' کے معنی حرص اور ''بلع'' کے معنی نگلنے کے ہیں،ا سی لئے سلف نے جو کچھ اس کی تفسیر میں کہا ہو وہ ان معنو ں پر مشتمل ہے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ سے روایت ہے کہ ''ہلوع''ا س شخص کو کہتے ہیں جو مصیبت کے وقت جزع فزع کرے اور اچھے دنوں میں بخل اختیار کرے نیز انہی کا قول ہے کہ ''بلوع''ا س شخص کو کہتے ہیں جو اس چیز کا لالچ کرے جو اس کے لئے حلال نہ ہو۔
سعید بن جبیر ''بلوع'' کے معنی لالچی کرتے ہیں۔ عکرمہ کہتے ہیں کہ ''بلوع ضجور'' فریاد کرنے والے کو کہتے ہیں۔ جعفر نے اس کے معنی ''حریص''، حسن وضحاک نے ''بخیل'' اور مجاہد نے ''لالچی '' کے کئے ہیں۔ ضحاک سے یہ قول بھی مروی ہے کہ بلوع وہ شخص ہوتا ہے جو سیر ہونے میں نہ آئے۔ مقاتل نے اس کے معنی تنگ دل اور عطاء نے جلد باز کے بھی کئے ہیں۔ اور یہ سب معانی ثبات، قوت، اجتماع، امساک اور صبر کے منافی ہیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
لَا یَزَالُ بُنْیَا نَھُمُ الَّذِیْ بَنَوْرِیْبَۃً فِیْ قُلُوْبِہِمْ اِلَّا اَنْ تَقَطَّعَ قُلُوْبُہُمْ ۔(التوبۃ:110)
انہوں نے کہا جو عمارت قائم کر رکھی ہے اس کے باعث ان کے دلوں میں شک رہے گا۔ یہاں تک کہ ان کے دل نہ ٹوٹ جائیں ۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
لفظ''اَحد'' کا استعمال!
اور اس مقام پر مقصود یہ ہے کہ ''احد'' کا لفظ اعیان (مدد کرنے والوں) میں سے اللہ وحدہ لاشریک کے سوا اور کسی چیز پر نہیں بولا جاتا۔ اللہ کے سوا دوسرے مواقع پر بولا جائے تو یا تو وہ نفی کے مقام پر بولا جاتا ہے جیسا کہ اہلِ لغت کہتے ہیں ''لا احد فی الدار''( گھر میں کوئی نہیںہے)۔
فَمَا مِنْکُمْ مِنْ اَحَدٍ عَنْہُ حَاجِزِیْنَ۔ (الحاقہ48
پس تم میں سے کوئی بھی ہم کو اس سے روک نہ سکتا۔
اور اسی طر ح :
لَسْتُنَّ کَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآء۔ (احزاب32
تم عام عورتوں میں سے کسی ایک کی طرح نہیں ہو۔
اسی طرح اضافت کے موقع پر بھی لفظ احد کا استعمال آیا ہے ملا حظہ ہو!
فابعثوااحدکم ۔(الکھف: 19)
اپنوں میں سے کسی ایک کو بھیجو۔
اور:
جعلنا لاحد ھما جنتین ۔(الکھف: 32)
ہم نے ان دونوں میں سے ایک کو دو باغ دے رکھے تھے۔
''صمد'' کا لفظ چونکہ مخلوق کے لئے بھی استعمال کیا گیا ہے، اس لئے یہ نہیں فرمایا کہ اﷲ صمد بلکہ یہ فرمایا اﷲ الصمد اور اس بات کی وضاحت کردی کہ الصمد ہونے کا مستحق وہی ہے اور اس کے سوا کوئی نہیں، کیونکہ وہ بدرجہ غایت و کمال اس کا مستوجب ہے اور مخلوق اگر چہ بعض وجوہ سے صمد ہو لیکن حقیقت صمدیت اس میں نہیں پائی جاتی کیونکہ وہ مورو تفرق و تجزیہ ہو سکتی ہے اور وہ صمد ہونے کے باوجود دوسروں کی محتاج ہے اس لئے اللہ کے سوا باقی تمام چیزیں ہر بات میں اللہ کی محتاج ہیں اور اس کے سوا کوئی ایسی ہستی موجود نہیں ہے کہ ہر چیز اس کی طرف حاجتیں لے کر جائے اور وہ کسی چیز کے آگے دامنِ احتیاج نہ پھیلائے ۔
مخلوقات میں سے ہر ایک چیز کے اجزاء علیحدہ کئے جاسکتے ہیں۔ اس میں تفریق وتقسیم موجود ہے اور اس کا بعض حصہ دوسرے سے منفصل ہو سکتا ہے، اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ الصمد ہے۔ ان باتوں میں سے کوئی چیز اس پر وارد نہیں ہو سکتی بلکہ حقیقت ِ صمدیت اور اس کا کمال صرف اسی کے لئے واجب و لازم ہے جس طرح وہ ایک ہے اور اس کا دو ہونا غیر ممکن ہے۔ اسی طرح اس میں عدمِ صمدیت غیر ممکن ہے وہ ایک اور کسی صورت سے کوئی چیز اس کی مماثل نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ آخر سورت میں فرمایا:
ولم یکن لہ کفوااحد۔
اور نہ کوئی اس کے برابر ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
یہاں احد کا لفظ نفی کے مقام پر مستعمل ہوا ہے، اس کے معنی یہ ہیں کہ کوئی چیز کسی بات میں بھی اس کے برابر نہیں ہے کیونکہ وہ احد ہے۔
ایک شخص نے نبی کریم ﷺ سے عرض کیا کہ ''انت سیدنا'' (تو ہمارا سردار ہے ) تو آپ ﷺ نے فرمایا: ''السید اﷲ'' (حقیقی سردار اللہ ہے)۔
اللہ تعالیٰ کا قول الا حد اور الصمد اس بات پر بھی دلالت کرتا ہے کہ نہ اس سے کوئی پیدا ہو اور نہ وہ کسی سے پیدا ہو ا اور نہ کوئی اس کے برابر کا ہے، کیونکہ الصمد وہ ہوتا ہے جس کا نہ تو جوف(پیٹ) ہو اور نہ احشاء (انتڑیاں وغیرہ) اس میں کوئی چیز داخل نہیں ہو سکتی۔ وہ نہ کھا تا ہے نہ پیتا ہے، وہ پاک اور برتر ہے چنانچہ فرمایا:
قل اخیر اﷲ اتخذزلیا فاطر السموت والارض وھو یطعم ولا یطعم۔ (الا نعام :4)
کیا میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو ولی و مددگار بناؤں؟ حالانکہ اللہ تعالیٰ ہی آسمانوں اور زمینوں کا پیدا کرنے والا ہے، وہ کھانا کھلاتا ہے اور اسے کوئی نہیں کھلاتا۔
اعمش نے ''یُطْعَمُ'' کی بجائے ''یَطْعَمُ '' پڑھا ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ وہ کھانا نہیں کھاتا۔
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
وما خلقت الجن والانس الا بیعبدون ۔وما ارید منہم من رزق وما ارید ان یطمعون ان اﷲ ہو الرزاق ذوالقوۃ المتین ۔(الذاریات:56،57،58)
اور میں نے جن وانس کو صرف اس لئے پیدا کیا ہے کہ و ہ میری عبادت کریں۔ میں ان سے رزق کا طالب نہیں ہوں، اور نہ میں یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھانا کھلائیں۔ رازق تو صرف اللہ تعالیٰ ہے۔
ملائکہ اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں سے ہیں۔ جب وہ صمد ہیں اور کھاتے پیتے نہیں ہیں تو ان کے خالق جل جلالہ میں تو وہ غنا و کمال بطریق اولیٰ موجود ہونا چاہئے۔ جو وہ اپنی بعض مخلوقات کو عطاء کرتا ہے اس لئے بعض اسلاف کرام نے صمد کی تفسیر میں بیان فرمایا کہ جو نہ کھائے اور نہ پئے۔ اور صمد مصمد وہ ہوتا ہے جس کا جوف (پیٹ) نہ ہو اور اس میں سے کوئی وجود خارج نہ ہو ،چنانچہ وہ بچہ بھی نہیں جنتا۔ اسی لئے بعض نے کہا ہے کہ صمد وہ ہوتا ہے جس سے کوئی چیز نہیں نکلتی۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
خروجِ کلام کی تصریح
اس سے مراد یہ نہیں کہ وہ کلام نہیں کرتا، اگر چہ کلام کے متعلق یہ کہا جاسکتاہے کہ وہ اس سے نکلا ہے۔ چنانچہ حدیث میں آیا ہے:
ما تقرب العباد الی اﷲ بشی افضل مما خرج منہ۔
بندوں کو اللہ سے قریب کرنے والی کوئی چیز قرآن سے افضل نہیں جو اس کی زبان سے نکلی ہے۔
جب سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مسلیمہ کا قرآن سنا تو آپ نے کہا:
''ان ھذا لم یخرج من اﷲ'' (یہ اللہ کے منہ سے نہیں نکلا)۔
متکلم کے منہ سے کلام کے نکلنے کے یہ معنی ہیں کہ وہ بات کرتا ہے اور اس سے بات سنی جاتی ہے اور دوسرے آدمی تک پہنچ جاتی ہے، دوسرے میں پیدا نہیںہوتی جیسا کہ جہمیہ کا قول ہے۔
یہ خروج اس معنی میں نہیں ہوتا کہ جو اشیاء متکلم کے ساتھ قائم ہوتی ہیں ان میں سے کوئی چیز علیحدہ ہو کر دوسرے کی طرف منتقل ہو جاتی ہے یہ بات تو مخلوقات کی صفات سے بھی بعید ہے کہ صفت اپنے محل کو چھوڑ کر غیر محل میں چلی جائے۔ چہ جائیکہ خالق جل جلالہ کی صفات اپنے محل کو چھوڑ کر غیر محل میں چلی جائیں۔ چہ جائیکہ خالق جل جلالہ کی صفات کے ساتھ یہ کیفیت وارد ہو۔
اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کے کلام کے متعلق فرمایا ہے:
کبرت کلمۃ تخرج من افواھم ان یقولون الا کذبا۔ (الکھف)
ان کے منہ سے یہ بہت بڑے گناہ کا کلمہ نکل رہا ہے۔ وہ بالکل جھوٹ کہہ رہے ہیں!
یہ کلمہ متکلم کے ساتھ قائم ہے اور اس سے سنا گیا ہے، اس کا منہ سے نکلنا ایسا نہیں کہ کلام جو اس کی ذات کے ساتھ قائم تھا، اس سے علیحدہ ہو کر دوسرے کی طرف منتقل ہو گیا۔ ہر چیز کا خروج اس کی شان کے مطابق ہوتا ہے۔ علم وکلام کی شان یہ ہے کہ جب عالم اور متکلم سے استفادہ کیا جاتا ہے تو علم و کلام اپنے محل سے گھٹتا نہیں، وہ ایک روشنی ہے جس سے ہر شخص ضیا اندوز ہوتا ہے اور روشنی علی حالہٖ قائم رہتی ہے، ذرہ برابر کم ا نہیں ہوتی۔ اس لئے سلف کا یہ قول کہ الصمد وہ ہو تا ہے جس سے کوئی چیز نہ نکلے، اس معنی میں صحیح ہے کہ اس سے کوئی چیز جُدا نہیں ہوتی۔
چنانچہ کسی کا اس سے پیدا ہونا، یا اس کا کسی سے پیدا ہونا ممتنع (غیر ممکن) ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
ولادت کے معنی
ولادت ،متولد اور ان الفاظ کے قبیل سے جو کچھ بھی ہے اس کے لئے دو اصلوں کا وجود لازمی ہے جو متولد عین یعنی قائم بالذات ہو۔ اس کی لئے ایک ایسا مادہ لابدی ہے جس سے وہ خارج ہو اور جو عرض یعنی قائم بالغیر ہو، اس کے لئے ایک محل کا وجود لازمی ہے۔ جس کے ساتھ اس کا قیام وابستہ ہو۔
ان میں سے اول الذکر کی نفی تو احد سے ہو گئی، کیونکہ احد وہ ذات ہے جس کا نظیر و کفو کوئی نہ ہو لہٰذا اس کے لئے صاحبہ (بیوی) کا ہو نا بھی ممتنع ہے۔
اور تولد دو چیزوں سے ہو تا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
الٰی یکون لہ ولد ولم تکن لہ صاحبۃ وخلق کل شئی وھو بکل شئی علیم۔ (الانعام :101)
اس کا بچہ کیونکر ہو سکتا ہے، حالانکہ اس کی کوئی بیوی نہیں اسی نے ہر چیز پیدا کی اور وہ ہر چیز کو جاننے والا ہے ۔
بچے کی نفی ایک تو اس طریق پر کی گئی کہ بچے کے لئے بیوی کا ہو نا لازم ہے۔ اول اللہ تعالیٰ کی کوئی بیوی نہیں۔ یہ ظاہر ہے کہ نفی لازم نفی ملزوم پر دلا لت کرتی ہے۔
دوسرے یہ فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ ہر ایک چیز کا خالق ہے اور اس کے سوا جو چیز موجود ہے وہ اس کی مخلوق ہے۔ مخلوق میں کوئی چیز ایسی موجود نہیں جو اس سے پیدا ہوئی ہو۔ دوسری بات کی نفی اس طرح کر دی گئی کہ اللہ الصمد ہے اور یہ متولد دو اصلوں سے ایک ایک جزوے علیٰحدہ ہوتی ہے یہ ظاہر ہے کہ تولد دوسرے اصل کا محتاج ہے اور وہ اس امر کا بھی محتاج ہے کہ اصلوں میں سے ایک چیز خارج ہو اور اللہ تعالیٰ کی شان سے یہ چیزیں ممتنع ہیں، کیونکہ وہ احد (ایک) ہے اس کا کوئی برابری کرنے والا نہیں کہ اس کی بیوی یا نظیر بن سکے۔ وہ صمد ہے، اس سے کوئی چیز خارج نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ کا احد اور صمد ہونا دونوں اس امر کے مانع ہیں کہ وہ والد ہو اور یہی دونوں امر بطریق اولیٰ اس کے مولود (کسی سے پیدا شدہ ذات) ہونے کے مانع ہیں۔
حیوان میں توالد دو اصلوں سے واقع ہوتا ہے خواہ یہ دو اصل والد کی جنس سے ہوں جس طرح کہ حیوان متولد ہو تا ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
یا ولد کی جنس سے نہ ہوں مثلاً عام پیدا ہونے والی چیزیں، اسی طرح غیر حیوان میں بھی توالد دو اصلوں سے ہو تا ہے۔ آگ چقماق کے دو حصوں (زندین) سے پیداہوتی ہے۔ یہ دو چقماق لکڑی یا پتھر اور لوہے یا ان کے علاوہ اور چیزوں کے بھی ہو سکتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
فَالْمُؤرِ یٰتِ قَدْحًا۔ (سورہ العادیات)
قسم ہے پتھر پر ٹاپیں مارنے سے آگ نکالنے والوں کی۔
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اَفَرَ اَیْتُمُ النَّارَ الَّتِیْ تُورْوُنَ ئَ اَنْتُمْ اَنْشَاَ تُمْ شَجَرَتَھَاَ اَمْ نَحْنُ الْمنُشِْئُوْنَ، نَحْنُ جَعَلْنٰـھَا تَذْکِرَۃً وَّ مَتَاھًا لِّلْمُقْرِیْنَ۔ (الواقعہ:71)
یہ تم جو آگ جلاتے ہو، اسے تو دیکھتے ہی ہو۔ اس کا ایندھن جس درخت سے آتا ہے اسے تم نے پیدا کیا یا ہم نے؟ ہم نے آگ اس لئے بنائی ہے کہ ایک تو تم اسے دیکھ کر نارِ جہنم کا احساس کرو اور دوسرے مسافر لوگ اس سے فائدہ اٹھائیں۔
نیز فرمایا:
وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَّنَسِیَ خَلْقَہٗ قَالَ مَنْ یُّحِی الْعِظَامَ وَھِیَ رَمِیْمٌ o قَلْ یُحْیِیْھَا الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمْ مِّنَ الشَّجَرِ الْاَخْضَرِ نَارًا فَاِذَا اَنْتُمْ مِّنْہُ توْقِدُوْنَo ۔(یٰسین)
ہمارے سامنے تو مثالیں بیان کرنے لگا اور اپنی پیدائش کو بھول گیا۔ کہنے لگا کہ ان ہڈیوں کو کون زندہ کریگا یہ تو بوسیدہ ہو چکی ہیں؟ تم کہو کہ ان ہڈیوں کو وہ ہستی زندہ کرے گی جس نے پہلی مرتبہ انھیں پیدا کیا اور ہر مخلوق سے پوری طرح واقف ہے تمہارے لئے وہی سبز درخت سے آگ پیدا کرتا ہے۔ پھر تم اس سے آگ جلاتے ہو۔
متعدد مفسرین کا قول ہے کہ دو درخت ہو تے ہیں، ایک کا نام ''مرخ'' اور دوسرے کا نام ''عفار'' ہے جو شخص ان سے آگ نکالنا چاہے، وہ ان دونوں سے مسواکوں کے برابر دو سرسبز ٹہنیاں کاٹ لیتا ہے، ان سے خواہ پانی کے قطرے گر رہے ہوں لیکن اگر مرخ کو عفار پر رگڑا جائے تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے ان دونوں میں سے آگ نکل آتی ہے ان میں سے اول الذکر درخت نر اور موخرالذکر مادہ
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
عرب کہتے ہیں کہ ہر درخت میں آگ ہو تی ہے اور مرخ اور عفار کو سب پر امتیاز حاصل ہے۔ بعض لوگوںکا خیال ہے کہ عناب کے سوا ہر درخت میں آگ ہو تی ہے۔
فَاِذَا اَنْتُمْ مِّنْہُ تُوْقِدُوْنَ۔
کا اشارہ چقماق کی طرف ہے۔
اہلِ لغت جوہری وغیرہ نے کہا ہے کہ زند (چقماق) اس چیز کوکہتے ہیں، جسے رگڑنے سے آگ نکالی جاتی ہے اور یہ اوپر کی چیز کا نام ہے نیچے کی چیز کو زندہ کہتے ہیں۔ اور اس میں سوراخ ہو تا ہے۔ یہ نیچے والا چقماق مادہ کہلاتا ہے یہ جمع ہو جائیں تو زندین (دو چقماق) کہلاتے ہیں۔
دونوں کو رگڑنے سے جو نرم اجزاء نکلتے ہیں جن سے آگ نکلتی ہے۔
پس معلوم ہو کہ جس طرح مرد اور عورت کے مادہ سے بچہ تولد ہو تا ہے اسی طرح آگ بھی نر اور مادہ سے خارج ہونے والے مواد ہی سے پیداہوتی ہے۔ مادہ کو نر سے رگڑنے اور اس سے ٹکرانے کی وجہ سے ان دونوں میں حرارت پیداہو تی ہے جس سے ان دونوں کے مواد تحلیل ہو کر آگ پیدا کرتے ہیں۔
ایک قول یہ بھی ہے کہ جس مقام پر چقماق رگڑا جاتا ہے وہ رحم کی شکل کا ہو تا ہے اور اس جگہ آگ کا لوتھڑا بنتا ہے، جسے حراق (وصوفان) کہا جاتا ہے اور دوسری چیزوں کی بہ نسبت زیادہ سرعت کے ساتھ آگ پکڑ لیتا ہے اور جس طرح بعض اوقات عورت کے رحم میں لوتھڑا نہیں بنتا، اسی طرح چقماق میں بھی لوتھڑا نہیں بنتا۔
اب دیکھئے کہ آگ زندین (چقماقوں) کی جنس میں سے نہیں ہے بلکہ اور سے پیدا ہوتی ہے۔ جیسے حیوان کا تولد پانی اور کیچڑ سے ہوتا ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
حیوان متوالد و حیوان متولد
حیوان دو قسم کے ہوتے ہیں۔ پہلی قسم متوالد حیوان کی ہے، مثلاً انسان چوپائے وغیرہ جو ماں اور باپ سے پیداہوتے ہیں۔
دوسری قسم متولد حیوانوں کی ہے، جو میوہ سرکہ وغیرہ سے پیدا ہوتے ہیں، مثلاً جوئیں جو جلد ِانسانی کی میل کچیل سے پید ا ہوتی ہیں، یا چوپائے، پسو وغیرہ جو پانی اور مٹی سے پیداہوتے ہیں، اور اس قسم کے دوسرے حیوان۔
حیوانات، نباتات، معدنیات، بارش اور چقماق وغیرہ سے پیدا ہونے والی آگ اور دیگر مخلوقاتِ الٰہی کے متعلق لوگوں کا اس بات میں اختلاف ہے کہ آیا ان چیزوں کی جنسیں حادث؎ٰ ہوتی ہیں اور جس طرح منی سے خون بستہ اور خون بستہ سے لوتھڑا بنتا ہے، اسی طرح یہ چیزیں بھی ایک جنس سے دوسری جنس میں تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔ یا صرف ان کے اعراض حادث ہوتے ہیں اور اعیان جو درحقیقت جواہر ہیں، اجتماع، افتراق، حرکت اور سکون کی صفات حادثہ کے سوا قائم وباقی ہوتے ہیں۔
اس کے متعلق بعض کہتے ہیں کہ اجسام ان جواہر منفرد سے مرکب ہیں جن کے اجزاء علیٰحدہ نہیں کئے جاسکتے۔ بہت سے اہل کلام کا یہی قول ہے ۔
1۔کسی چیز کا عدم سے وجود میں آنا اس کا حدوث کہلاتا ہے ۔
نظام سے مروی ہے کہ اجسام جواہر غیر متناہیہ سے پیدا ہو تے ہیں۔ پس جو لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ اجسام جواہر سے مرکب ہیں وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی ایسی چیز کو حادث نہیں کرتا جو اپنی ذات پر قائم ہو، اعراض یعنی اجتماع، افتراق، حرکت، سکون وغیرہ حادث ہوتے ہیں، ان میں سے جو لوگ احداث جواہر کے بھی قائل ہیں وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں ابتداء حادث بنایا ہے لیکن اس کے بعد ان میں حدوث نہیں ہوتا۔ صرف ان کی اعراض میں حدوث ہو تاہے۔
اکثر معتزلہ جہمیہ اور اشعریہ وغیرہ کا قول یہی ہے، اور ان لوگوں میں سے بعض اکابر کا خیا ل ہے کہ مسلمانوں کا اجماع اور عقیدہ اسی قول پر ہے، حالانکہ سلف اُمت بلکہ جمہورِ اُمت میں سے کسی نے یہ قول پیش نہیں کیا اور بعض جمہورِ اُمت ہی نہیں بلکہ اہل کلام کی بعض جماعتوں نے بھی جوہر فرد اور اجسام کے جواہر اور اجسام کے جواہر سے مرکب ہونے سے انکا ر کیا ہے۔
ابنِ کلام نے بھی جو ایک جماعت کا امام ہے ہر فرد سے انکار کیا ہے۔ ابوبکر بن فورک نے مقالات ابن کلاب کے متعلق ایک کتاب تصنیف کی ہے جس میں اس نے اس بات کا ذکر کیا ہے اور اشعری کے ساتھ ان کا جو اختلاف ہے، اس کے چہرے سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ ہشامیہ ،ضراریہ اور بہت سے کرامیہ اور نجاریہ نے بھی جوہر فرد سے انکار کیا ہے۔
 
Top