• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر سورۃ اخلاص از شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
نشاۃ ثانیہ میں لوگ عورت کے پیٹ میں نہ ہوں گے اور نہ خون سے غذا مہیا ہو گی ۔یہ بھی نہ ہوگا کوئی انسان مرد اور عورت کا نطفہ ہو اور پھر وہ اس نطفہ سے خون بستہ کی صورت اختیار کرے ۔بلکہ نشاۃ ثانیہ مٹی سے ہوگی چنانچہ اللہ تعالیٰ فرمایا ہے :
مِنْھَا خَلَقْنٰکُمْ وَفِیْھَا نُعِیْدُکُمْ رَمِنْھَاتُخْرِجُکُمْ تَارَۃً اُخْرٰیٌ۔(پارہ:16۔ع:12)
مٹی ہی سے ہم نے تم کو پیدا کیا اور دوبارہ ہم تمہیں اسی میں لے جائیں گے اور دوسری مرتبہ اسی سے نکالیں گے ۔
نیز فرمایا:
فِیْھَا تَحْبَوْنَ وَفِیْھَا تَمُوْتُوْنَ وَمِنْھَا تُخْرِجُوْنَ۔ (پارہ:8۔ع:9)
اس میں زندہ رہوگے اسی میں مروگے اور اسی سے نکالے جاؤگے ۔
نیز فرمایا:
وَاﷲُ اَنْبَتَکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ نَّبَاتًا ثُمَّ یُعِیْدُکُمْ فِیْھَا وَیُخْرِ جُکُمْ اِخْرَاجًا۔(پارہ:29۔ع:9)
اور اللہ تعالیٰ نے تم کو زمین سے روئیدگی کی طرح پیدا کیا ۔پھر تمہیں لوٹا کر اسی میں سے ایک مرتبہ اور تمہیں پیدا کرے گا۔
حدیث میں ہے کہ زمین پر مردوں کی منی طرح بارش ہوگی اور لوگ قبروں میں اس طرح پیدا ہوں گے جس طرح سبزی اگتی ہے ۔چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
''کذالک الخروج ''(ق) کذالک النشور(ناطر)کذالک نخرج الموتٰی لعلکم تذکرون''۔(پارہ:8۔ع:14)
تو معلوم ہوا کہ ان دو نشانیوں کی دنس ایک اور قسمیں دو ہیں ۔ایک لحاظ سے دونوں نشاتیں متفق متماثل اور متشابہ ہیں اور دوسرے لحاظ سے ان میں تنوع اور فرق ہے ۔یہی وجہ ہے کہ معادکو مبدابھی کہا گیا ۔اور مبدا کی مانند بھی کہا گیا ،اس لحاظ سے کہ مبداومعاد دونوں متفق چیزیں ہیں ،انہیں ایک چیز ہی سمجھنا چاہیے ۔اور اس لحاظ سے ان دونوں نشانوں میں فرق ہے ۔معاد مبدا کی مانند ہے اور دجو چیز بھی لوٹائی جاتی ہے اس کی یہی کیفیت ہو تی ہے
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
معانی اعادہ پر بحث
اعادہ کے لفظ کا اقتضایہ ہے کہ اس میں مبدا اور معاد ہو،خواہ وہ اعادہ اجسام کا ہو یا اعراض کا،ان میں کوئی فرق نہیں ۔مثال کے طور پر نماز کا اعادہ لے لیجئے ۔رسول اللہ ﷺ ایک شخص کے پاس سے گزرے جو صف کے پیچھے اکیلا نماز پڑھ رہا تھا،آپ نے اسے حکم دیا ، کہ وہ بارہ نماز پڑھو ۔
اسی طرح کہا جاتاہے کہ :اَعِدْ کَلاَمَکَ (اپنے کلام کو دہراؤ) فُلاَ صْتَدْ اَعَادَکلام فلان بعینہٖ۔(فلاں شخص نے فلاں کے کلام کو بعینہٖ دہرایا)فلان یعیدالدرس (کلام وہی ہے اگر چہ دوسرے شخص کی آوازوحرکت پہلے کی آوازوحرکت نہیں ہے ۔
رسول اللہ ﷺجب کوئی بات فرمایا کرتے تھے تو اسے تین مرتبہ دہرایا کرتے تھے اگرچہ اسی کسی حد تک مثل سے بھی موسوم کیا جاتا ہے ۔لیکن عمومًا ایسے مواقع پر مثل کا اطلاق نہیں ہوتا ،حتٰی کہ جو شخص کسی دوسرے کی بات نقل کرتا ہے ، اس کے متعلق کہا جاتا ہے
ھٰکَذَاقَالَ فُلَانٌ(فلاں
شخص نے یہی کہا )
اس سے مراد یہ ہے کہ اس کی مثل کہا ،اسی طرح فعل ھذاعوداعلیٰ بدئٍ (ایک دفعہ کرنے کے بعد پھر یہ کام کیا )بئرعدی اور بئر عادی کے نام بھی اسی نسبت سے پڑے ہیں،اول الذکر وہ ہے جس سے ابتدا کی جائے اور موخر الذکر وہ ہے جس پر اعادہ کیا جائے ۔
بئر عادی کا نام قوم عاد کی نسبت سے پڑا ہے ۔جیسا کہ بعض حضرات کا قول ہے ۔ کہاجاتا ہے استعدِتہ الشی فاعادہ (میں نے اس سے درخواست کی کہ وہ یہ کام دوبارہ کرے تو اس نے وہ کردیا) عادت کی وجہ تسمیہ بھی یہی ہے ۔عادہ اعتادہ اور تعودہ ۔ان سب کے یہی معنی ہیں ،کہ اس کی عادت ہو گئی ۔وعود کلبہ الصد نتعودہ۔(اور اس نے اپنے کتے کو شکار کی عادت ڈالی تو اس کی عادت ہو گئی )۔
عادت ،معاودت سے ہے اور معاودت کے معنے پہلے کام کی طرف رجوع کرنے کے ہیں ۔بہادر آدمی کو معا وو کہا جاتا ہے ،کیونکہ وہ باربار جنگ کرتا ہے اور تھکنے میں نہیں آتا ۔عاودتہ الحٰی(اسے باری کا بخار آتا ہے ) عاودہ بالمسئلہاس سے باربار سوال کیا جنگ وغیرہ میں کسی قوم کے تعاود کرنے کے یہ معنی ہیں کہ ہر فریق اپنے ساتھی کی طرف لوٹ کر آجاتا ہے ۔عواد اس کھانے کو کہتی ہیں جس میں سے کچھ ایک مرتبہ کھالیا جائے ،اور باقی کھانا دوبارہ سامنے لایا جائے ۔اور عوادکے معنی ہیں واپس آ ۔جس طرح نزال بمعنی انزل (اتر جا) آتا ہے ان تمام مقامات میں اعادہ کا لفظ بہ اعتبار حقیقت استعمال کیا گیا ، کیونکہ دوسری مرتبہ بھی حقیقت وہی ہے ۔جو پہلی مرتبہ تھی اگرچہ شخصیتیں متعدد ہوں ۔اسی لئے کہا جاتا ہے ۔ھو مثلہ(وہ اس کی مثل ہے ) اور ھذاھوھذا (یہ وہی ہے ) اور یہ دونوں صحیح ہیں ۔لیکن اس حقیقت کے اعتبار سے جو اس وجود سے مختص ہے ، اس سے دو فاعلوں کے درمیان کی قدر مشترک مراد نہیں ہے ۔کیونکہ جو شخص کسی دوسرے شخص کے کام کی مثل کوئی کام کرے گا تو یہ نہیں کہا جائیگا کہ اس نے اس کام کو دہرایا،بلکہ یہ کہا جائیگا کہ اس نے اس کے مشابہ کا م کیا ہے ۔بخلاف اس کے جو شخص کوئی ایسا فعل دوسری مرتبہ کرے جو وہ ایک مرتبہ کر چکاہے تو کہا جائیگا کہ اس نے اپنے کام کا اعادہ کیا ہے اسی طرح جب کوئی شخص دوسرے شخص کے کلام کا اعادہ کریگا تو کہا جائے گاکہ اس نے اس کا اعادہ کیا ،اور جو شخص اپنی طرف سے و یسا کلام پیدا کرکے کہے ،اس کو اعادہ نہیں بلکہ مثل کہا جائے گا ۔کہا جاتاہے ۔قوا علی ھذا (اس نے یہ پڑھا ) اعاد علی ھذا (اس نے اس کو دہرایا )ھذا یقرا(یہ پڑھتا ہے یعنی درس دیتا ہے )ھذا یعید (یہ دہراتا ہے )اگر کو ئی دوسرا مماثل کلام ہوتا تو یہ نہ کہا جاتا کہ وہ درس دیتا ہے ۔جو شخص انگشتری یا کسی اور ڈھلی ہوئی چیز کو توڑدے اسے کہا جاتا ہے ،اعدکماکان(اسے جیسی تھی ویسی ہی بنادے)اگر کوئی شخص اس انگشتری کی طرح کوئی اور انگشتری بنادے تو اس شخص کو معید(دوبارہ بنانے والا) اور انگشتری کو معاد (دوبارہ بنائی ہوئی ) نہیں کہا جائے گا ۔ اول الذکر کے متعلق کہا جائے گا، کہ یہ بعینہٖ پہلی ہے اور ثانی الذکر کے متعلق کہا جائے گا کہ وہ ہر لحاظ سے پہلی کی مثل ہے ۔اسی طرح جو شخص مکان گراوے اس سے کہا جائے کہ اسے دوبارہ ویسا ہی بنادے تو اسنے مثل نہیں کہا جائے گا بلکہ یہ کہا جائے گا کہ یہ بعینہٖ پہلا مکان ہے جو دوبارہ بنایا گیا ہے لیکن اگر اس مکان کی مثل ایک اور مکان بنادیا جائے گا کہ یہ پہلے مکان کی مثل ہے اسی طرح کی تمام عبارتیں اس امر پر دال ہیں کہ من وجہ معاد بعینہٖ مبدا ہے ،اور من وجہ وہ مبدا کی مثل ہے ۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
اس تفصیل وتشریح سے اس باب میں ذیل کے اعتراضات قطعًا زائل ہو جاتے ہیں ۔
1۔ اعادہ صرف اس صورت میں ہو سکتا ہے کہ وہی زمانہ بھی دوبارہ آجائے ۔
2۔ اعادہ عقلاً ممتنع ہے اور اس کی واحد صورت یہ ہے کہ پہلی چیزکی مثل لائی جائے
بعض متکلمین کہتے ہیں کہ اعادہ ہر گز خلاف عقل نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس باب میںجس اعادے کی خبر دی ہے وہ اعادہ منقولہ ہے اور یہی اعادہ ہے جو مشرکین و مسلمین کو رسول اللہ ﷺ کے ارشادات سے مستفاد ہوا اور یہی ہے جس پر لفظ اعادہ دلالت کرتا ہے اور معاد بعینہٖ اول ہوتا ہے، اگر چہ لوازم اعادہ اور لوازم ابتدا میں فرق ہو۔یہ فرق اس امر میں مانع نہیں ہے کہ اول کا اعادہ ہو ،کیونکہ بعض لوگوں کا دعویٰ ہے کہ جسم ثانی جسم اول سے ہر لحاظ سے مختلف ہو گا ۔اور بعض لوگوں کا خیال ہے کہ نشاۃ ثانیہ ہر لحاظ سے نشاۃ اولیٰ کی طرح ہو گی ۔ اور جس طرح اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے انسان کو ایسی حالت میں پیدا کیا ،کہ وہ کچھ بھی نہ تھا ،اسی طرح اسے جب دوبارہ پیدا کرے گا تو اسی وقت جب وہ کچھ بھی نہ ہو گا۔علاوہ ازیں جو انسان مٹی بن جاتا ہے اور اس مٹی سے سبزی اگتی ہے اور اس سبزی کو کوئی دوسرا انسان کھا لیتا ہے ۔وعلیٰ ہذاالقیاس اور جس انسان کودوسرا انسان یا حیوان کھا لیتا ہے اور اس حیوان کو کوئی دوسرا انسان کھالیتا ہے ،ان میں سے ہر ایک معدوم ہو گیا ۔پہلا انسان بھی مٹی بن گیا اور دوسرا بھی ،اور یہی حالت پیدا ہو نے سے قبل تھی ۔پھر ان دونوں انسانوں کو دوبارہ مٹی سے پیدا کیا جائے گا ۔ان کی ریڑھ کی ہڈی کا آخری حصہ باقی ہوگا، اسی سے ہر ایک پیدا کیا گیا ہے اور اسی سے اٹھایا جائے گا ۔اس کے علاوہ اس کا سارہ جسم معدوم ہو گیا ۔اب اس مادے سے جس کی حالت بدل چکی ہے دوبارہ پیدا کیا جائے گا ،ایک قبر میں ہزار میتوں کی حالت بدل جائے اور وہ مٹی ہو جائیں ،جب بھی وہ دوبارہ پیدا کیے جائیں گے اور اس قبر سے اٹھیں گے اور اللہ تعالیٰ ان کو ایسی حالت میں اٹھائے گا کہ وہ بالکل نیست ہو چکے ہو ں گے ۔جس طرح پہلی مرتبہ وہ عدم محض سے پیدا کیے گئے تھے ۔اور ان ہزار انسانوں کے مٹی ہو جانے کے بعد اللہ تعالیٰ انہیں اسی قبر سے اٹھائے گا اور اسے اس امر کی ہرگز ضرورت نہیں پڑے گی کہ باراول کی طرح پہلے نطفہ ،پھر خون بستہ اور پھر لوتھڑا پیدا کیا جائے بلکہ ان کی نشاۃ ان اشیائے خوردونوش کے ساتھ ہو گی جو اس کے جسموں میں بطریق ؎ٰ استحالہ شامل ہو چکی ہوہیں ۔علیٰ ہذالقیاس جس صورت میں کہ ایک انسان نے دوسرے انسان کو کھالیا ہو ،یا ایسے حیوان کو کھا لیا ہو جس نے کسی دوسرے انسان کو کھایا ہوتو اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو استحالہ کے ایک طریق سے دوبارہ پیدا کرے گا کہ پہلے نطفہ پیدا کیا جائے پھر خون بستہ بنایا جائے ۔اور اس سے لوتھڑا ظاہر ہو ۔پھر اسے حیض کے خون سے غذابہم پہنچائی جائے اور ماں کے دودھ اور دیگر اشیائے خوردونوش سے اس کی پرورش کی جائے ۔ یہ خیال غلط ہے کہ اعادہ کے لئے ان غذاؤں کا اعادہ بھی ضروری ہی مستحیل ہو کر ان کے بدنوں میں شامل ہو گئی ہیں۔اس وقت جب انسان نے انسان کو کھالیا تو دوسری تمام غذاؤں کی طرح یہ اس کی خوراک بن گئی اور ایسی غذاؤں کے اعادہ کی ضرورت نہیں ہے ۔یہ بات سب کو معلوم ہے کہ غذائیں جب معدے میں جاتی ہیں ،تو وہ انھیں توڑپھوڑ کر ٹرید بنا دیتا ہے جو ''کلوس''کہلاتی ہے اور اس کے بعد اور زیادہ پگھل کر غذائیں نرم ہو جاتی ہیں اور کیموس کی صورت اختیار کر لیتی ہیں ۔پھر کیموس پک کر خون بنتا ہے ۔اور اللہ تعالیٰ اس خون کو سارے بدن میں تقسیم کرتا ہے ،بدن کا ہر حصہ اپنا اپنا حصہ بانٹ لیتا ہے اور خون کی حالت بدل جاتی ہے ،وہ جزو بدن بن کر ہڈی،گوشت اور رگوں کی صورت اختیار کرلیتا ہے ۔یہی اس رزق کی حالت ہے ۔جو بدر خلق کے وقت نطفہ،علقہ (خون بستہ)اور مضغہ (لوتھڑا) کی صورت میں دیا جاتا ہے ۔جس طرح اللہ تعالیٰ اس امر کا محتاج نہیں کا کسی انسان کو دوبارہ پیدا کرنے کے لئے نطفہ ،علقہ اور مضفہ کی صورت دے ،اسی طرح اسے اس بات کی بھی ضرورت نہیں کہ وہ لوگوں کے غذاؤں کو بھی میووںاورگوشت کیصورت میں دوبارہ پیدا کرے اور پھر ان سے کیلوس ،کیموس ،خون،استخوان،گوشت اور رگیں بنائے بلکہ یہ بدن ایک اور حالت میں دوبارہ پیدا ہوگا،جو موجودہ پیدائش کی طرح نہ ہو گا۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا کہ'' ہم تمہیں دوبارہ اس صورت میں پیدا کریں گے جو تمہیں معلوم نہیں''۔
1۔کسی جسم کا ایک حالت سے دوسری حالت میں تبدیل ہونا استحالہ کہلاتا ہے ۔مثلاً نطفہ سے لوتھڑا اور لوتھڑے سے بچہ اور بچے سے بوڑھا انسان بن جاتا ہے (مترجم )
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
پہلی نشات کے وقت جس قدر استحالات واقع ہوئے ہیں۔نشات ثانیہ کے لئے ان میں سے کسی کی ضرورت نہیں ہے ۔وجوہ مذکورہ بالا سے اس اعتراض کا جواب بھی مل گیا کہ بدن کے اجزاء ہمیشہ تحلیل ہوتے رہتے ہیں ،کیونکہ بدن کا تحلیل اس بات سے زیادہ عجیب نہیں ہے کہ نطفہ سے علقہ اور علقہ سے مضغہ بنایاجاتا ہے ۔ان میں سے ہر ایک کی حقیقت دوسرے سے مختلف ہے اور متحلل جسم کے وسرے اجزاء سے مشابہ ومتماثل ہوتے ہیں ۔جب دوبارہ پیدا کرنے کے وقت جسم کو ایک حقیقت سے دوسری حقیقت میں تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں تو اس انقلاب کی کیا ضرورت ہے تحلل کے باعث واقع ہوتا ہے ایک شخص دوسرے شخص کو ایک مرتبہ حالتِ شباب میں دیکھتا ہے اور پھر اس صورت میں دیکھتا ہے کہ وہ بوڑھا ہو چکا ہوتا ہے لیکن اس استحالہ (تغیر حالت ) کے باوجود وہ معلوم کرلیتا ہے ،کہ یہ وہی شخص ہے جسے اس نے جوانی کی حالت میں دیکھا تھا ۔تمام حیوانات اور نباتات کی یہی حالت ہے۔ایک مدت تک ایک شخص ایک درخت سے غائب ہو جاتاہے ،اس کے بعد جب آکر دیکھتا ہے تو پہچان لیتا ہے کہ یہ وہی پہلا درخت ہے ،حالانکہ تحلل و استحالہ تمام حیوانات ونباتات میں بھی اسی طرح ہو تا رہتا ہے جس طرح بدن انسانی میں واقع ہو تا ہے ۔ایک انسان ِ عاقل کو یہ سمجھنے کے لئے کہ یہ وہی پہلا درخت ہے یہ وہی گھوڑا ہے جو چند سال قبل اس کے پاس تھا اور یہ وہی انسان ہے جسے بیس سال ہوئے اس نے دیکھا تھا اس بات کی ضرورت نہیں کہ وہ اصلی اجزاء کو باقی رکھنے پر قادر ہوجو تحلیل نہ ہوئے ہوں ۔یہ بات کسی کے دل میں کھٹکتی تک نہیں ،اس بات کی پہچان اور تمیز بھی نہیں ہو سکتی کہ یہ وہی اجزاء ہیں یا اور ہیں اور بسااوقات یہ چیزیں چھوٹی ہوتی ہیں اور مرور زمانہ پر بہت بڑی ہو جاتیں ہیں لیکن اس کے باوجود عقلاً نہ صرف یہ بتا دیتے ہیں کہ یہ فلاں چیزیں اس لحاظ سے فلاں چیزیں ہیں کہ نفس ناطقہ ایک ہے جیسا کہ ان لوگوں کا دعویٰ ہے جو اس بات کے قائل ہیں کہ دوسرا بدن پہلے بدن کا عین نہیں ہے ،بلکہ مقصود صرف نفس نعمت یا عذاب چکھانا ہے اور قرآن وسنت اور اجماع سلف صالحین کے مخالف ہے اور اعادہ کے جومعنی سمجھے جاتے ہیں ،وہ بھی اس وجیہ کے خلاف ہیں۔
ہم عرض کر چکے ہیں کہ تمام عقلاء کہہ دیتے ہیں کہ یہ گھوڑا وہی ہے اور یہ درخت وہی ہے جو کئی برس پہلے تھا ۔حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ نباتات کا نفس نالقہ ہوتا ہی نہیں جو اس سے جدا ہو جائے اور اپنی ذات پر قائم ہو ۔ حیوا ن وانسان کے متعلق بھی وہ یہی کہتے ہیں ۔حالانکہ ان کے دلوں میں یہ خیال تک نہیں گزرتا کہ ''یہ اوروہی ''کا مشار الیہ نفس ناطقہ ہے تو معلوم ہو اکہ عقلاء کے نزدیک یہ بات مسلم ہے کہ استحالہ کے باوجودمعاد کے وقت جسم وہی ہو گا جو مبدا کے وقت تھا ۔یہی وجہ ہے کہ دوبارہ پیدا شدہ جسم ان اعمال کی گواہی دے گا جو انسان نے دنیا میں کیے ہوں گے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے :
اَلْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰی اَفْوَاھِہِمْ وَتُکَلِّمُنَااَیْدِیْھِم ْ وَتَشْھَدُ اِرْجُلُہُمْ بِمَاکَانُوْایَکْسِبُوْنَ ۔(پارہ:23۔ع:3)
آج ہم ان کے لبوں پر مہر لگا دیں گے اور ان کے ہاتھ ہم سے باتیں کریں گے اور جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں ،اس کے متعلق ان کے پاؤں گواہی دیں گے۔
نیز فرمایا:
حَتّٰی اِذَامَاجَائُ وُھَا شَہِدَ عَلَیْہِمُ سَمْعُہُمْ وَاَبْصَارُ ھُمْ وَجُلُوْدُہُمْ بِمَاکَانُوْایَعْمَلُوْنَ ۔وَقَالُوْلِجُلُودِھِمْ لِمَ شَہِدْتُّمْ عَلَیْنَا قَالُوْاانْطَقَنَااﷲُ الَّذِیْ اَنْطَقَ کُلَّ شَیْئٍ۔(پارہ:24۔ع:17)
اتنے میں وہ سب دوزخ کے پاس آجمع ہوں گے ۔ان کے کان،ان کی آنکھیں اور انکے گوشت پوست انکے اعمال پر گواہی دے رہے ہوں گے۔اور وہ اپنے گوشت پوست سے کہیں گے کہ تم نے ہم پر گواہی کیوں دے دی تو وہ جواب دینگے کہ اسی اللہ تعالیٰ نے ہمسے باتیں کرائیں جسنے ہر چیز کو ناطق بنایا ہے ۔
یہ سب جانتے ہیں کہ اگر انسان کوئی بات کہے ،یا کوئی کام کرے یا کسی اور شخص کو کوئی کام کرتے دیکھے ،یا کوئی بات کرتا سنے اور پھر تیس سال کے بعد اپنے قول و فعل کی شہادت دے اور وہ ایسا اقرار ہو جس کے بموجب اس کا مواخذہ ہو یا اپنے سوا کسی اور چیز یعنی مال و دولت پر گواہی دے اور اس کے ذریعے سے حقوق کا اقرار کرے تو اس کی شہادت مقبول ہوگی ،خواہ اس طویل مدت میں اس کے بدن کی حالت میں تغیر ہی کیوں نہ ہو گئی ہو ،کوئی عقلمند آدمی یہ نہیں کہتا کہ یہ گواہی مشہود علیہ کی مثل یا اس کے غیر پر دی گئی ہے ۔اگر مشہود علیہ حیوان یا نبات ہو اور گواہی دینے والے نے کہہ دیا کہ یہ حیوان فلاں شخص نے فلاں شخص سے لیا تھااور یہ درخت فلاں شخص نے فلاں شخص کے سپرد کیا تھا تو استحالہ کے باوجود یہ شہادت معقول ہو گی اور جب استحالہ غیر موثر ہے تو یہ اعتراض محض جہل کا نتیجہ ہے کہ دوبارہ زندگی کے وقت جسم کی حالت مرنے کے وقت کی سی ہوگی،یا وہ جسم موٹا یا دبلا وغیرہ ہوگا ،کیونکہ اس نشاۃ ثانیہ کی صور اس صورت کی مماثل نہ ہو گی جو موجودہ زندگی کی ہے۔ یہاں تک کہا جاتا ہے کہ صفات ہی فنا ہو جائیں گی ،کونکہ وہاں نہ تو جسم کی حالت تبدیل ہو گی ،نہ کوئی پاخانہ وغیرہ پھرے گا ،نہ کھانے پینے سے سیری ہوگی اور نہ کوئی موٹا یا دبلا ہو گا ۔خصوصاً جنت میں داخل ہو نے کے وقت جب ہر انسان اپنے باپ ابوالبشر آدم علیہ السلام کی صورت میں داخل ہو گا ،اہل جنت نہ بول وبراز کریں گے ، نہ تھوکیں گے اور ناک جھاڑیں گے یہ نشاۃ متضاد خلطوں سے تو ہوگی نہیں کہ اس کا کچھ حصہ دوسرے حصے سے الگ ہو جائے جیسا کہ اس زندگی میں ہوتا ہے ،ان کا کھانا پینا مستحیل (تغیر پذیر ) نہ ہو گا ،کیونکہ وہ اس دنیا کے کھانے پینے کی طرح مٹی،پانی اور ہوا سے بنا ہو ا نہ ہوگا ۔
یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بستی سے گزرنے والے شخص ؎ٰکا کھانا پینا سو برس تک سلامت رکھا ،اور اس میں کسی طرح کا تسنہ اور تغیر واقع نہیں ہوا تھا،اس سے سبحانہ وتعالیٰ نے ہمیں اپنی قدرت کی طرف تو جہ دلائی ۔
جب اللہ تعالیٰ اس عالم کون و فساد میں طعام(کجھور ،انگور وغیرہ ) اور پانی وغیرہ کو سو سال تک بغیر تغیر کے باقی رکھنے پر قادر ہے تو وہ اس بات پر بدرجہ اولیٰ قادر ہے ،کہ آئندہ زندگی میں کھانے پینے کی چیزوں کو ایسا بنادے کہ وہ تغیر پذیر نہ ہوں ۔اور ان امور کی تفصیل کا مقام دوسرا ہے ۔
1۔اس بستی کے متعلق مفسرین کا اختلاف ہے ۔مشہور روایت کے مطابق اول الذکر القدس اور موخر الذکر عزیز علیہ السلام ہیں ۔ (مترجم )
 
Top