• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر عثمانی اور عقائد اہلسنت

شمولیت
مارچ 08، 2018
پیغامات
36
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
12
تقی الدین عثمانی دیوبندی کی
تفسیر عثمانی پر ایک نظر

غیر الله سے استعانت کی شرط:
اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿الفاتحہ ۴﴾
تیری ہی ہم بندگی کرتے ہیں اور تجھی سے مدد چاہتے ہیں
تفسیر: اس آیت شریفہ سے معلوم ہوا کہ اس کی ذات پاک کے سوا کسی سے حقیقت میں مدد مانگنی بالکل ناجائز ہے۔ ہاں اگر کسی مقبول بندہ کو محض واسطہ رحمت الہٰی اور غیر مستقل سمجھ کر استعانت ظاہری اس سے کرے تو یہ جائز ہے کہ یہ استعانت درحقیقت حق تعالیٰ ہی سے استعانت ہے۔

نبی ﷺ کا علم مبارک:
*الَّذِیۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ وَ مَا بَیۡنَہُمَا فِیۡ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسۡتَوٰی عَلَی الۡعَرۡشِ ۚۛ اَلرَّحۡمٰنُ فَسۡـَٔلۡ بِہٖ خَبِیۡرًا ﴿فرقان، ۵۹﴾
تفسیر: مخلوق میں سب سے بڑے جاننے والے حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں جن کی ذات گرامی میں حق تعالیٰ نے اولین و آخرین کے تمام علوم جمع کردیئے، خدا تعالیٰ کی شانوں کو کوئی ان سے پوچھے۔

نبی ﷺ کا علم غیب :
وَ مَا ھُوا عَلَی الۡغَیۡبِ بِضَنِیۡنٍ ﴿التکویر، ۚ۲۴﴾
تفسیر: یعنی یہ پیغمبر ہر قسم کے غیوب کی خبر دیتا ہے ماضی سے متعلق ہوں یا مستقبل سے۔ یا اللہ کے اسماء و صفات سے یا احکام شرعیہ سے یا مذاہب کی حقیت و بطلان سے یا جنت و دوزخ کے احوال سے یا واقعات بعدالموت سے اور ان چیزوں کے بتلانے میں ذرا بخل نہیں کرتا نہ اجرت مانگتا ہے۔ نہ نذرانہ، نہ بخشش، پھر کاہن کا لقب اس پر کیسے چسپاں ہوسکتا ہے، کاہن محض ایک جزئی اور نامکمل بات غیب کی سو جھوٹ ملا کر بیان کرتا ہے اور اس کے بتلانے میں بھی اس قدر بخیل ہے کہ بدون مٹھائی یا نذرانہ وغیرہ وصول کئے ایک حرف زبان سے نہیں نکالتا پیغمبروں کی سیرت سے کاہنوں کی پوزیشن کو کیا نسبت۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
تفسیر عثمانی اور عقائد اہلسنت:

اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿الفاتحہ ۴﴾
تیری ہی ہم بندگی کرتے ہیں اور تجھی سے مدد چاہتے ہیں
اصلی اور حقیقی اہل سنت کا عقیدہ قرآن کی آیات اور احادیث نبویہ علی صاحبھا السلوۃ والسلام میں ہے ،کسی ہندی مولوی کی "تحریف " میں نہیں !
دیکھئے اللہ تعالیٰ کے کلام میں کتنا واضح اور آسان عقیدہ بیان کیا گیا ہے کہ :
إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ﴿5﴾
ترجمہ : ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں۔
ـــــــــــــــــــــــــ
اس میں " تجھ ہی سے " کا اقرار کتنا واضح ہے ، جو کسی شرکیہ ماحول کی دھول میں آنکھیں دھندلائے مولوی کے ممنانے سے نہیں بدل سکتا ،
اور سیدالانبیاء کی تعلیم بھی یہی تھی کہ بندے کو جب بھی مدد مانگنی ہو صرف اللہ سے مانگنی چاہیئے ، اس میں کسی مقبول و غیر مقبول بندے کا کوئی واسطہ ،وسیلہ کی ٹانگ اڑانے کی ضرورت نہیں ،
صحیح حدیث شریف ہے کہ :
عن ابن عباس، قال:‏‏‏‏ كنت خلف رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما، ‏‏‏‏‏‏فقال:‏‏‏‏ يا غلام،‏‏‏‏ " إني اعلمك كلمات:‏‏‏‏ احفظ الله يحفظك احفظ الله تجده تجاهك إذا سالت فاسال الله وإذا استعنت فاستعن بالله، ‏‏‏‏‏‏واعلم ان الامة لو اجتمعت على ان ينفعوك بشيء لم ينفعوك إلا بشيء قد كتبه الله لك، ‏‏‏‏‏‏ولو اجتمعوا على ان يضروك بشيء لم يضروك إلا بشيء قد كتبه الله عليك، ‏‏‏‏‏‏رفعت الاقلام وجفت الصحف "،‏‏‏‏
(قال:‏‏‏‏ هذا حديث حسن صحيح )

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سواری پر پیچھے تھا، آپ نے فرمایا: ”اے نوجوان! میں تمہیں چند اہم باتیں بتلا رہا ہوں: تم اللہ کے احکام کی حفاظت کرو، وہ تمہاری حفاظت فرمائے گا، تو اللہ کے حقوق کا خیال رکھو اسے تم اپنے سامنے پاؤ گے، جب تم کوئی چیز مانگو تو صرف اللہ سے مانگو، جب تو مدد چاہو تو صرف اللہ سے مدد طلب کرو،
اور یہ بات جان لو کہ اگر ساری امت بھی جمع ہو کر تمہیں کچھ نفع پہنچانا چاہے تو وہ تمہیں اس سے زیادہ کچھ بھی نفع نہیں پہنچا سکتی جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے، اور اگر وہ تمہیں کچھ نقصان پہنچانے کے لیے جمع ہو جائے تو اس سے زیادہ کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتی جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے، قلم اٹھا لیے گئے اور (تقدیر کے) صحیفے خشک ہو گئے ہیں“
(امام ترمذیؒ فرماتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔)
ـــــــــــــــــــ
اب اگر اللہ کریم سے مانگنے کیلئے کسی مقبول کا حوالہ یا واسطہ مفید ہوتا تو رحمت دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بھائی کو فرماتے کہ
" مدد تو اللہ کرتا ہے لیکن مقبول بندہ کے واسطہ سے کرتا ہے ،اور اس کائنات کی سب سے مقبول ہستی تمہارے گھر میں ہے اسلئے رحمت الہی کا واسطہ سمجھ کر اس ہستی سے مانگ لیا کرو !
"
ـــــــــــــــــــــــــــــــ
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
ہاں اگر کسی مقبول بندہ کو محض واسطہ رحمت الہٰی اور غیر مستقل سمجھ کر استعانت ظاہری اس سے کرے
اور سیدالانبیاء کی تعلیم بھی یہی تھی کہ بندے کو جب بھی مدد مانگنی ہو صرف اللہ سے مانگنی چاہیئے ، اس میں کسی مقبول و غیر مقبول بندے کا کوئی واسطہ ،وسیلہ کی ٹانگ اڑانے کی ضرورت نہیں
کوئی صریح دلیل ہے جس میں اس نوعیت کی استعانت کو بھی ناجائز کہا گیا ہو؟
 
شمولیت
مئی 05، 2014
پیغامات
202
ری ایکشن اسکور
40
پوائنٹ
81
کوئی صریح دلیل ہے جس میں اس نوعیت کی استعانت کو بھی ناجائز کہا گیا ہو؟
محترم و مکرم اشماریہ صاحب
اللہ تعالیٰ آپ کو خوش و خرم رکھے
محترم آپ نے لکھا ہے کہ "
کوئی صریح دلیل ہے جس میں اس نوعیت کی استعانت کو بھی ناجائز کہا گیا ہو؟
جناب من: دلیل مدعی کے ذمہ ہوتی ہے منکر کے نہیں (البینۃ علی مدعی والیمین علی من انکرا )
کیا خیال ہے آپ کا؟؟؟
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
محترم و مکرم اشماریہ صاحب
اللہ تعالیٰ آپ کو خوش و خرم رکھے
محترم آپ نے لکھا ہے کہ "
کوئی صریح دلیل ہے جس میں اس نوعیت کی استعانت کو بھی ناجائز کہا گیا ہو؟
جناب من: دلیل مدعی کے ذمہ ہوتی ہے منکر کے نہیں (البینۃ علی مدعی والیمین علی من انکرا )
کیا خیال ہے آپ کا؟؟؟
اب آگے میں پوچھوں گا کہ مدعی اور مدعی علیہ کی تعریف کیا ہوتی ہے؟ ظاہر کیا ہوتا ہے اور خلاف ظاہر کیا ہوتا ہے؟ مثبت کون ہوتا ہے اور نافی یا منکر کون ہوتا ہے؟ تو یہ ایک علمی بات سے نکل کر اچھا بھلا "مناظرہ" بن جائے گا۔ آپ تو قدیم رکن ہیں، اتنا تو واقف ہی ہوں گے ان معاملات سے۔
میں نے اس لیے عرض کیا ہے کہ اس بارے میں دونوں قسم کے عقائد ہیں۔ اگر صریح دلیل موجود ہے جس کی مخالفت میں بھی کوئی دلیل نہ ہو تو پھر یہ قطعی عقیدہ ہوگا اور اس کے خلاف عقیدہ رکھنے والوں کا رد کرنا ہوگا۔ اگر صریح غیر معارض دلیل نہیں ہے تو اس کا مطلب ہے کہ یہ ایک ظنی عقیدہ ہے اور عقائد ظنیہ میں اختلاف ہوتا رہتا ہے۔ اس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔
اللہ پاک آپ کو بھی خوش و خرم رکھیں۔ آمین۔ بس یہ وجہ تھی عرض کرنے کی۔
 
شمولیت
مئی 05، 2014
پیغامات
202
ری ایکشن اسکور
40
پوائنٹ
81
اب آگے میں پوچھوں گا کہ مدعی اور مدعی علیہ کی تعریف کیا ہوتی ہے؟ ظاہر کیا ہوتا ہے اور خلاف ظاہر کیا ہوتا ہے؟ مثبت کون ہوتا ہے اور نافی یا منکر کون ہوتا ہے؟ تو یہ ایک علمی بات سے نکل کر اچھا بھلا "مناظرہ" بن جائے گا۔ آپ تو قدیم رکن ہیں، اتنا تو واقف ہی ہوں گے ان معاملات سے۔
میں نے اس لیے عرض کیا ہے کہ اس بارے میں دونوں قسم کے عقائد ہیں۔ اگر صریح دلیل موجود ہے جس کی مخالفت میں بھی کوئی دلیل نہ ہو تو پھر یہ قطعی عقیدہ ہوگا اور اس کے خلاف عقیدہ رکھنے والوں کا رد کرنا ہوگا۔ اگر صریح غیر معارض دلیل نہیں ہے تو اس کا مطلب ہے کہ یہ ایک ظنی عقیدہ ہے اور عقائد ظنیہ میں اختلاف ہوتا رہتا ہے۔ اس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔
اللہ پاک آپ کو بھی خوش و خرم رکھیں۔ آمین۔ بس یہ وجہ تھی عرض کرنے کی۔
محترم و مکرم اشماریہ صاحب
اللہ تعالیٰ آپ کو خوش و خرم رکھے
محترم میں نے تو آج تک یہی پڑھا او ر سنا ہے کہ " عقائد " قطعی ہوتے ہیں اور ان کے دلائل بھی۔ لیکن آپ نے عقائد کی دو قسمیں بیان کر دی؟
 
شمولیت
مئی 05، 2014
پیغامات
202
ری ایکشن اسکور
40
پوائنٹ
81
شیخ الحدیث مولانا سرفراز خان صفدررحمہ اللہ لکھتےہیں

اہل سنت والجماعت اور علماء عقائد جن امور کو عقائد کہتے ہیں ان کے ہاں وہ سب قطعی ہوتے ہیں اور انکے دلائل بھی قطعی
ہوتے ہیں اور وہ سب کے سب ضروریات دین سے ہیں اور ضروریات دین کا انکاریا تاویل دونوں کفر ہے ۔ عقیدہ کوئی بھی ایسا نہیں جو غیر قطعی ہو یا جس کا انکار یا تاویل کفر نہ ہو

راہ ہدایت طبع دوم صفحہ 202

عقیدہ قطعی ہوتا ہے ظنی نہیں ہوتا اور قطعیات میں ظنیات کا کوئی دخل نہیں ہے

اتمام البرہان جلد 3 صفحہ 69
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
محترم و مکرم اشماریہ صاحب
اللہ تعالیٰ آپ کو خوش و خرم رکھے
محترم میں نے تو آج تک یہی پڑھا او ر سنا ہے کہ " عقائد " قطعی ہوتے ہیں اور ان کے دلائل بھی۔ لیکن آپ نے عقائد کی دو قسمیں بیان کر دی؟
شیخ الحدیث مولانا سرفراز خان صفدررحمہ اللہ لکھتےہیں

اہل سنت والجماعت اور علماء عقائد جن امور کو عقائد کہتے ہیں ان کے ہاں وہ سب قطعی ہوتے ہیں اور انکے دلائل بھی قطعی
ہوتے ہیں اور وہ سب کے سب ضروریات دین سے ہیں اور ضروریات دین کا انکاریا تاویل دونوں کفر ہے ۔ عقیدہ کوئی بھی ایسا نہیں جو غیر قطعی ہو یا جس کا انکار یا تاویل کفر نہ ہو

راہ ہدایت طبع دوم صفحہ 202

عقیدہ قطعی ہوتا ہے ظنی نہیں ہوتا اور قطعیات میں ظنیات کا کوئی دخل نہیں ہے

اتمام البرہان جلد 3 صفحہ 69
ممکن ہے انہوں نے یہی فرمایا ہو، میں نے ان کی یہ دونوں کتابیں پڑھی ہوئی نہیں ہیں۔ شیخ الحدیث مولانا سرفراز خان صفدر رح کی بات سر آنکھوں پر لیکن علم کی دنیا میں تقلید نہیں کرنی چاہیے۔
عقائد کی یہ دو قسمیں میں اس لیے الگ کرتا ہوں کہ ہمیں اسلاف میں کثرت سے یہ طریقہ کار ملتا ہے کہ وہ بعض عقائد پر کفر کا حکم لگاتے ہیں اور بعض کو صرف بدعت یا فسق کہتے ہیں۔ معتزلہ سے اہل سنت کا اختلاف عقائد میں ہی تھا لیکن اس کے باوجود انہیں مسلمان ہی سمجھا اور کہا گیا۔ شیعہ کے کئی فرقوں کو مسلمان سمجھا گیا اور ان کی روایت بھی لی گئی حالانکہ یہاں بھی عقائد کا اختلاف تھا۔ جہمیہ، جبریہ، قدریہ ان میں سے (میرے علم کی حد تک) کسی کو جمہور علماء نے کافر قرار نہیں دیا ہے۔ اس کے بر عکس نبی کریم ﷺ کے بعد کسی کو نبی ماننے والے، شرک کرنے والے اور شیعہ میں انتہائی غالی عقائد رکھنے والوں کے لیے سلف میں حکم مختلف تھا اور انہیں کافر یا کافروں کی طرح سمجھتے تھے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عقائد کی بھی دو مختلف قسمیں ہوتی ہیں۔
تمام عقائد پر جب غور کیا جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی عقیدہ نص قرآنی یا تواتر وغیرہ سے ثابت ہے (مثلاً اللہ کا ایک ہونا، نبی کریم ﷺ کا اللہ کا آخری نبی ہونا، نماز کا فرض ہونا، خنزیر اور شراب کا حرام ہونا وغیرہ) تو اس کے منکر کو کافر کہا گیا ہے۔ لیکن اگر کوئی عقیدہ ایسا ہے جس میں تاویل کی گنجائش ہے جیسے تقدیر کا عقیدہ ہے یا جو عقیدہ خبر واحد یا قیاس سے ثابت ہے جیسے صفات باری تعالی کے عین یا غیر ہونے کے عقائد تو ان میں غلط عقیدہ رکھنے والے کو بھی بدعتی تو کہا گیا ہے لیکن کافر نہیں کہا گیا۔یہاں تاویل کی گنجائش سے مراد شرعی طور پر گنجائش نہیں ہے بلکہ عقلی گنجائش مراد ہے۔ کئی سال قبل عقائد کا استقراء کیا تھا تو یہ نتیجہ نکلا تھا۔ ممکن ہے یہ درست نہ ہو، آپ میری تصحیح کر سکتے ہیں۔
اسے یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ "العقیدۃ الطحاویہ" میں مذکور تمام چیزیں ہیں تو "عقائد" ہی لیکن ان میں سے کئی کے نہ ماننے والے کو کافر نہیں کہا جا سکتا۔ و اللہ اعلم
 
شمولیت
مئی 05، 2014
پیغامات
202
ری ایکشن اسکور
40
پوائنٹ
81
محترم و مکرم اشماریہ صاحب
بہت خوشی ہوئی آپ کی یہ پوسٹ پڑھ کر کچھ باتوں سے اختلاف بھی ہو سکتا ہے لیکن میں بحث و مباحثہ میں نہیں پڑنا چاہتا ۔۔۔۔۔۔۔ راہِ اعتدال ہی بہتر ہوتی ہے
لیکن لیکن۔۔۔۔۔۔ یہاں ہند و پاک کے بعض متعصب قسم کے (دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث ) علماء کرام تو بس کسی نے اختلاف کیا جھٹ فتوی لگا دیتے ہیں ۔
آپ نے لکھا کہ
لیکن علم کی دنیا میں تقلید نہیں کرنی چاہیے۔
اگر یہی بات اشاعت توحید و سنت جو دیوبند مسلک کی ایک جماعت ہے کے لوگ لکھیں اور کہیں یا علماء دیوبند سے کسی مسئلہ یا عقیدہ میں اختلاف کریں تو ان پر جھٹ سے فتوی لگا دیا جاتا ہے آخر کیوں؟؟؟
مثلا اشاعت توحید والوں کا حیات النبی ﷺ پر یہ مسلک ہے جو المھند کے خلاف ہے لیکن ہیں وہ بھی حیات کے قائل لیکن انہیں بعض دیوبندی منکر حیات کہتے ہیں


"حضرت نبی کریم خاتم النبین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پر وعدہ الٰہی انک میت و انھم میتون کے مطابق حقیقۃ موت وقع ہوئی آپ کی روح اقدس جسد اطہر سے منقطع ہو کر جنت الفردوس میں رفیق اعلی کے ساتھ شامل ہوگئی۔ اور حضرات صحابہ کبار رضی اللہ عنھم نے آپ کے جسدِ اطہر کو واقعی میت سمجھ کر قبر میں دفن کیا۔اور اس عالمِ دنیا سے انتقال کے بعد آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو عالمِ برزخ میں مثل شھداء بلکہ شھداء سے اعلی و ارفع حیاتِ برزخیہ عطا فرمائی گئی وہ حیات ِ دنیویہ نہیں بلکہ اس سے بدرجہا اعلی و ارفع وافضل حیاتِ برزخیہ ہے نہ کہ حیات دنیویہ لیکن اگر کوئی اس(برزخی حیات ناقل) حیات کو دنیوی کے نام سے تعبیر کرے اور آپ کی حیات برزخیہ سے بھی انکار نہ کرے تو اُس کو جماعت اہل السنت سے خارج نہیں کرنا چاہئیے ،حضرات انبیاء کرام علیہم الصلاۃ و السلام اور خصوصا سید الانبیاء صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو بعد الموت سب سے اعلیٰ وارفع واجمل وافضل حیاتِ برزخیہ عطا فرمائی گئی ہے یہ جمہور اہل السنت والجماعت کا مسلک ہے اس پر کتاب اللہ احادیث صحیحہ اور ارشادات صحابہ رضوان اللہ علیہم شاہد ہیں"
(عنایت اللہ بخاری عفی عنہ مسجد جامع گجرات)

(ماہ نامہ تعلیم القرآن ،جولائی اگست 1960 ص 33 ۔۔۔و تسکین الصدور ص 283۔284) (انوارالباری جلد 18 صفحہ 250)

اس فتوی کی تصدیق اشاعت التوحید کے جلیل القدر پچاس اکابرین نے فرمائی تھی۔ اُن میں سے چند کے نام نقل کرتا ہوں

(1) شیخ الحدیث مولانا نصیر الدین صاحب غور غشتوی رحمہ اللہ تعالیٰ(2)شیخ الحدیث مولانا عبد الرحمن صاحب بہبودی رحمہ اللہ تعالیٰ
(3)جامع المعقول و المنقول مولانا ولی اللہ صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ، انہی والے)(4)شیخ الحدیث مولانا قاضی شمس الدین صاحب رحمہ اللہ
(5)شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ(6) شیخ الحدیث مولانا قاضی نور محمد صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ قلعہ دیدار سنگھ
(7)شیخ الادب مولانا قاضی غلام مصطفی صاحب مرجانوی رحمہ اللہ تعالیٰ(8)شیخ القرآن مولانا محمد طاہر صاحب پنج پیری رحمہ اللہ تعالیٰ
(9)شیخ التفسیر مولانا محمد امیر صاحب بندیالوی رحمہ اللہ تعالیٰ (10)شیخ الحدیث مولانا احمد حسین صاحب سجاد بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ
(11)شیخ الحدیث مولانا قاضی عصمت اللہ صاحب ابن قاضی نور محمد رحمہ اللہ تعالیٰ

لیکن اس کے باوجود انہیں اہل سنت سے خارج ، مماتی، بدعتی ، معتزلہ کہا جاتا ہے کیوں ؟؟؟
کیا اُن کا یہ مسلک قرآن و سنت کے مطابق نہیں؟؟؟ اگر ہے تو یہ فتوی بازی کیوں؟
بات موضوع سے ہٹ کر ہے معافی چاہونگا۔
 
شمولیت
مئی 05، 2014
پیغامات
202
ری ایکشن اسکور
40
پوائنٹ
81
(نوٹ)
بندہ نے لکھا تھا کہ
یہاں ہند و پاک کے بعض متعصب قسم کے (دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث ) علماء کرام تو بس کسی نے اختلاف کیا جھٹ فتوی لگا دیتے ہیں ۔
بندہ نے بعض بریلویوں کو متعصب لکھا یہ غلط ہے،بریلوی مولویوں میں تو اکثر متعصب ہیں چند غیر متعصب ہونگے ،
 
Top