السلام علیکم مجھے اس آیت کی تفسیر درکار ہے تفصیل سے۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
(
يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ إِنِ اسْتَطَعْتُمْ أَنْ تَنْفُذُوا مِنْ أَقْطَارِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ فَانْفُذُوا لَا تَنْفُذُونَ إِلَّا بِسُلْطَانٍ (سورہ الرحمن 33)
ترجمہ : اے گروہِ جن و انس ! اگر تم آسمانوں اور زمین کی سرحدوں سے نکل سکتے ہو تو نکل جاؤ۔ نہیں نکل سکتے بغیر اختیار کے۔
توضیح :
٣١۔۔ آسمانوں اور زمین کی سرحدوں سے مراد اس عالم کے حدود ہیں اور انسان اور جن مجبور ہیں کہ وہ اسی عالم میں رہیں۔ آسمان میں جن پرواز کرتے ہیں اور اب انسان بھی خلا میں پرواز کر رہا ہے مگر ان کی یہ پرواز اس عالم کی سرحدوں سے باہر نہیں ہے۔ وہ اس عالم کے باہر کہیں نہیں جاسکتے۔ اگر جاسکتے ہیں تو اس صورت میں جب کہ انہیں اللہ تعالیٰ اس کا اختیار بخشے۔
بالفاظ دیگر اللہ کی طرف سے اس کا پروانہ (پاسپورٹ) مل جائے۔ مقصود یہاں انسانوں اور جنوں کی بے بسی کو ظاہر کرنا ہے کہ جب وہ اللہ کی بنائی ہوئی اسی دنیا میں رہنے کے لیے مجبور ہیں تو پھر اس سے بغاوت کر کے انہیں کہاں پناہ مل سکتی ہے؟
یہاں اس شبہ کا بھی ازالہ ہونا چاہیے کہ انسان نے خلا میں پہنچ کر زمین کے اقطار (حدود) سے نکلنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔
آیت میں زمین سے پہلے آسمانوں کا ذکر ہوا ہے چنانچہ اقطار السمٰوٰت والارض (آسمانوں اور زمین کے حدود) فرمایا گیا ہے اور مراد بحیثیت مجموعی یہ عالم رنگ و بو ہے ورنہ اگر زمین کی کشش سے باہر خلا میں نکل جانا مراد ہوتا تو یہ چیلنج جنوں کو کیس کیا جاسکتا تھا جو پہلے ہی سے اوپر پرواز کرتے رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علامہ عبد الرحمن کیلانیؒ تفسیر تیسیر القرآن میں لکھتے ہیں :
نفذ کا لغوی مفہوم :۔ نفذ بمعنی آر پار نکل جانا۔ جیسے لوہے کی سلاخ کے ایک سرے کو آگ پر گرم کیا جائے تو تھوڑی دیر بعد حرارت دوسرے سرے تک از خود جا پہنچتی ہے۔ اور نفاذ بمعنی قوت سے کسی چیز کا اجراء ہونا، جیسے کہتے ہیں کہ اس ملک میں کل سے فلاں فلاں قانون نافذ ہوچکا ہے اور بمعنی چیز کا بسرعت داخل ہونا اور آر پار ہوجانا۔ جیسے برقی رو آر پار نکل جاتی ہے۔
[٢٣]
سُلْطٰنٍ بمعنی غلبہ اور شدید قوت بھی اور اتھارٹی لیٹر یا پروانہ راہداری بھی۔ اب اگر اس آیت کا اطلاق اس مادی دنیا پر کیا جائے، تو مطلب یہ ہوگا کہ زمین و آسمان کے کناروں تک پہنچنے کے لیے انتہائی قوت کی ضرورت ہے، جیسے انسان چاند پر، جو زمین کا سب سے قریبی سیارچہ ہے، پہنچنے میں کامیاب ہوا ہے اور اس کے لیے انتہائی قوت اور بل بوتے کی ضرورت ہے۔
اور اتنا بل بوتا تم میں کبھی نہیں آسکتا کہ تم (
مِنْ اَقْـطَار السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ 33ۚ) 55۔ الرحمن :33) کو پھاند سکو۔ اور اگر تم چاہو تو زور لگا کے دیکھ سکتے ہو۔ اور اگر اس آیت کا ربط سابقہ آیت یعنی حساب کتاب سے ملایا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ حساب کتاب اور اللہ کی گرفت سے تم میں سے کوئی شخص بھی ادھر ادھر بھاگ کر بچ نہیں سکتا الا یہ کہ کسی کو جنت کا پروانہ مل جائے۔ اس صورت میں اسے بھاگنے کی ضرورت ہی نہ رہے گی۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور حافظ صلاح الدین یوسف صاحب لکھتے ہیں :
’’
یعنی اگر اللہ کی تقدیر اور قضا سے تم بھاگ کر کہیں جاسکتے ہو تو چلے جاؤ لیکن یہ طاقت کس میں ہے؟
اور بھاگ کر آخر کہاں جائے گا کون سی جگہ ایسی ہے، جو اللہ کے اختیار سے باہر ہو، بعض نے کہا کہ یہ میدان محشر میں کہا جائے گا، جبکہ فرشتے ہر طرف سے لوگوں کو گھیر رکھے ہونگے۔ دونوں ہی مفہوم اپنی اپنی جگہ صحیح ہیں۔ ‘‘
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ۔۔
والسبب في تقديم الجن على الإنس في هذه الآية: أن النفوذ من أقطار السموات والأرض بالجن أليق إن أمكن.
اور جنوں کو انسانوں سے پہلے ذکر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اگر زمین و آسمان کی حدود سے نکلنا ممکن ہوتا تو انسانوں کی نسبت جن اس کام کے لائق تھے ،