پہلی بات تو یہ آپ نے امام ابن کثیر رحمہ اللہ کا ذکر ایسے کیا۔جیسے وہ بریلی کا کوئی حقہ نوش مولوی ہو !یعنی ابن کثیر یہ اعتراف کررہا ہے کہ اس کے دور تک یہی کہا جاتا رہا کہ امام مسلم نے جس شخص پر تنقید کی وہ امام بخاری ہیں
پھر ابن کثیر بلادلیل ایک بات کہتا ہے کہ
اس کے برعکس امام سخاوی اور موجودہ دور کے محمود الطحان بھی اس کے لئے امام بخاری اور علی مدینی کا نام ہی لیتے ہیں
امام ابن کثیر رحمہ اللہ کا قول ہرگز بلا دلیل نہیں ۔۔۔آپ کو بلا دلیل اس لئے نظر آرہا ہے کہ آپ نے کبھی ’’ دواوین السنہ ‘‘ کایہ لیجیئے آپ کا " اقدام " والا مطالبہ بھی پورا ہوا لیکن اس کے باوجود آپ نے ماننا نہیں ہے آپ نے تو صرف اپنے امام ابن کثیر کا قول ہی بلا دلیل قبول کرنا ہے
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگیپہلی بات تو یہ آپ نے امام ابن کثیر رحمہ اللہ کا ذکر ایسے کیا۔جیسے وہ بریلی کا کوئی حقہ نوش مولوی ہو !
کہا جاتا ہے ،وہ امام بخاری ہیںدوسری بات یہ کہ آپ کو اردو سمجھ نہیں آتی ۔۔یا۔۔عمداً تحریف کی عادت شریفہ ہے ؟
ابن کثیر ؒ نے لکھا کہ : (حتى قيل: إنه يريد البخاري )،اس کا ترجمہ میں نے لکھا :(کہا جاتا ہے ،وہ امام بخاری ہیں)
دیتے ہیں دھوکہ یہ بازیگر کھلاامام ابن کثیر رحمہ اللہ کا قول ہرگز بلا دلیل نہیں ۔۔۔آپ کو بلا دلیل اس لئے نظر آرہا ہے کہ آپ نے کبھی ’’ دواوین السنہ ‘‘ کا
اطاعت رسول ﷺکیلئے کبھی مطالعہ ہی نہیں کیا ۔۔
بس صرف صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی تنقیص کیلئے روایات تلاش کرنا،جناب کا اصل مشن ہے ؛
خیر ۔۔۔۔۔ہم اپنے موقف ۔۔یعنی لقاء راوی کی شرط امام بخاری نے صرف اپنی صحیح ‘‘ کیلئے رکھی تھی ۔صحت حدیث کیلئے نہیں ‘‘
اس پر امام بخاری کے شاگرد ۔۔امام ترمذی کے پاس چلتے ہیں ، ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
حدثنا محمد بن عبد الأعلى , حدثنا سلمة بن رجاء , قال: حدثنا عبد الرحمن بن عبد الله بن دينار , عن زيد بن أسلم , عن عطاء بن يسار , عن أبي واقد الليثي , قال: قدم النبي صلى الله عليه وسلم المدينة وهم يجبون أسنمة الإبل ويقطعون أليات الغنم فقال: «ما قطع من البهيمة وهي حية فهي ميتة» .
سألت محمدا عن هذا الحديث فقلت له: أترى هذا الحديث محفوظا؟ قال: نعم. قلت له: عطاء بن يسار أدرك أبا واقد؟ فقال: ينبغي أن يكون أدركه , عطاء بن يسار قديم ‘‘ ( علل الترمذي الكبير1۔241 )
ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : میں نے اس حدیث کے متعلق امام بخاری ؒ سے پوچھا ،کہ کیا آپ اس حدیث کو محفوظ سمجھتے ہیں ؟ فرمایا :ہاں ‘‘
بات واضح ہے ۔یہاں امام بخاری ؒ اس حدیث کو بغیر ’’ ثبوت لقاء ‘‘ کے ۔۔امکان لقاء کی بنیاد پرصحیح کہہ رہے ہیں ۔
اب دیکھ لو امام ابن کثیر ؒ کی بات کی دلیل ۔۔جو امام بخاری کی اپنی زبانی ، انکے شاگرد امام ترمذی ؒ نقل کر رہے ہیں
اس کے بعد دسویں صدی کے علامہ سخاوی ؒ کے دعوی کے قبول کرنے کی کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی۔
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئیامام ترمذی نے اپنے شیخ محمد بن عبد الأعلى سے مذکورہ روایت سنی اور یہ حدیث سنتے ہی امام ترمذی بھاگے بھاگے امام بخاری کے پاس گئے اور عرض کی سألت محمدا عن هذا الحديث فقلت له: أترى هذا الحديث محفوظا؟
یعنی مطلب یہ کہ امام ترمذی نے یہ سوال اپنے شیخ محمد بن عبد الأعلى کہ جن سے یہ حدیث سماعت کی ان سے نہیں کیا بلکہ یہ سوال تو امام بخاری سے کیا تھا !!!!
کیوں اپنے آپ اور لوگوں کو دھوکہ دیا جارہا ہے
محمد بن عبد الأعلى اور امام بخاری دو الگ الگ شخصیات ہیں
کس جاہل نے آپ کو علل الحدیث کے میدان میں جھک مارنے کا مشورہ دیا تھا ۔۔جو ایسی اونگی بونگی مارتے چلے جا رہے ہیں ؟دیتے ہیں دھوکہ یہ بازیگر کھلا
امام ترمذی نے اپنے شیخ محمد بن عبد الأعلى سے مذکورہ روایت سنی اور یہ حدیث سنتے ہی امام ترمذی بھاگے بھاگے امام بخاری کے پاس گئے اور عرض کی سألت محمدا عن هذا الحديث فقلت له: أترى هذا الحديث محفوظا؟
یعنی مطلب یہ کہ امام ترمذی نے یہ سوال اپنے شیخ محمد بن عبد الأعلى کہ جن سے یہ حدیث سماعت کی ان سے نہیں کیا بلکہ یہ سوال تو امام بخاری سے کیا تھا !!!!
کیوں اپنے آپ اور لوگوں کو دھوکہ دیا جارہا ہے
محمد بن عبد الأعلى اور امام بخاری دو الگ الگ شخصیات ہیں
ایسی ۔۔واہی اور مضحکہ خیز بونگیاں۔۔ مارنے سے بہتر ہے کہ اس معاملہ پر کوئی عالم سامنے لاو ۔۔۔یعنی مطلب یہ کہ امام ترمذی نے یہ سوال اپنے شیخ محمد بن عبد الأعلى کہ جن سے یہ حدیث سماعت کی ان سے نہیں کیا بلکہ یہ سوال تو امام بخاری سے کیا تھا !!!!
کیوں اپنے آپ اور لوگوں کو دھوکہ دیا جارہا ہے
محمد بن عبد الأعلى اور امام بخاری دو الگ الگ شخصیات ہیں
جہاں سمع کی تصریح نہیں تو وہاں کیو ں سمع کی تصریح بیان کریں؟امام بخاری تاریخ کبیر میں عطاء بن یسار کے ترجمہ میں فرماتے ہیں کہ
2992 - عطاء بْن يسار أَبُو مُحَمَّد مولى مَيْمُونَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ وَأَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ويقَالَ ابْن مَسْعُود وابْن عُمَر رَضِيَ الله عَنْهُم
یعنی عطاء بن یسار 19ھ۔ 94 ھ ہم عصر اور ہم شہر ہیں ابی سعید خدری متوفی 65 ھ َ، اباھریرہ متوفی 57ھ ابن عمر متوفی 73 ھ اور ابن مسعودمتوفی 32ھکے لیکن امام بخاری نے صرف ابی سعید خدری َاور اباھریرہ ،سے عطاء بن یاسر کے سمع کی تصریح کی ہے لیکن باوجود ہم عصر اور ہم شہرہونے کے ابن مسعود اور ابن عمر سے سمع کی تصریح سے پہلو بچا گئے کیوں کہ انہیں ثبوت لقاء دستیاب نہیں تھا اور پھر بھی کہنے والے یہی کہتے رہٰیں گے کہ ثبوت القاء کا نظریہ صرف صحیح بخاری کے لئے تھا