• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفصیل درکار ہے

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
حوالہ : التقريب والتيسير لمعرفة سنن البشير النذير في أصول الحديث صفحہ 4
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
یعنی ابن کثیر یہ اعتراف کررہا ہے کہ اس کے دور تک یہی کہا جاتا رہا کہ امام مسلم نے جس شخص پر تنقید کی وہ امام بخاری ہیں
پھر ابن کثیر بلادلیل ایک بات کہتا ہے کہ
اس کے برعکس امام سخاوی اور موجودہ دور کے محمود الطحان بھی اس کے لئے امام بخاری اور علی مدینی کا نام ہی لیتے ہیں
پہلی بات تو یہ آپ نے امام ابن کثیر رحمہ اللہ کا ذکر ایسے کیا۔جیسے وہ بریلی کا کوئی حقہ نوش مولوی ہو !
اور ابن کثیر ؒ سے دو سو سال بعد آنے والے علامہ سخاوی ؒ کا ذکر۔۔امام سخاوی ۔۔کہہ کر کیا ۔۔۔اس سوء ادب کا کیا مطلب ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسری بات یہ کہ آپ کو اردو سمجھ نہیں آتی ۔۔یا۔۔عمداً تحریف کی عادت شریفہ ہے ؟
ابن کثیر ؒ نے لکھا کہ : (حتى قيل: إنه يريد البخاري )،اس کا ترجمہ میں نے لکھا :(کہا جاتا ہے ،وہ امام بخاری ہیں)
آپ نے اس کو بدل کر لکھ مارا ( ابن کثیر یہ اعتراف کررہا ہے کہ اس کے دور تک یہی کہا جاتا رہا )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
یہ لیجیئے آپ کا " اقدام " والا مطالبہ بھی پورا ہوا لیکن اس کے باوجود آپ نے ماننا نہیں ہے آپ نے تو صرف اپنے امام ابن کثیر کا قول ہی بلا دلیل قبول کرنا ہے
امام ابن کثیر رحمہ اللہ کا قول ہرگز بلا دلیل نہیں ۔۔۔آپ کو بلا دلیل اس لئے نظر آرہا ہے کہ آپ نے کبھی ’’ دواوین السنہ ‘‘ کا
اطاعت رسول ﷺ
کیلئے کبھی مطالعہ ہی نہیں کیا ۔۔
بس صرف صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی تنقیص کیلئے روایات تلاش کرنا،جناب کا اصل مشن ہے ؛

خیر ۔۔۔۔۔ہم اپنے موقف ۔۔یعنی لقاء راوی کی شرط امام بخاری نے صرف اپنی صحیح ‘‘ کیلئے رکھی تھی ۔صحت حدیث کیلئے نہیں ‘‘
اس پر امام بخاری کے شاگرد ۔۔امام ترمذی کے پاس چلتے ہیں ، ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
حدثنا محمد بن عبد الأعلى , حدثنا سلمة بن رجاء , قال: حدثنا عبد الرحمن بن عبد الله بن دينار , عن زيد بن أسلم , عن عطاء بن يسار , عن أبي واقد الليثي , قال: قدم النبي صلى الله عليه وسلم المدينة وهم يجبون أسنمة الإبل ويقطعون أليات الغنم فقال: «ما قطع من البهيمة وهي حية فهي ميتة» .
سألت محمدا عن هذا الحديث فقلت له: أترى هذا الحديث محفوظا؟ قال: نعم. قلت له: عطاء بن يسار أدرك أبا واقد؟ فقال: ينبغي أن يكون أدركه , عطاء بن يسار قديم ‘‘
( علل الترمذي الكبير1۔241 )

ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : میں نے اس حدیث کے متعلق امام بخاری ؒ سے پوچھا ،کہ کیا آپ اس حدیث کو محفوظ سمجھتے ہیں ؟ فرمایا :ہاں ‘‘
بات واضح ہے ۔یہاں امام بخاری ؒ اس حدیث کو بغیر ’’ ثبوت لقاء ‘‘ کے ۔۔امکان لقاء کی بنیاد پرصحیح کہہ رہے ہیں ۔
اب دیکھ لو امام ابن کثیر ؒ کی بات کی دلیل ۔۔جو امام بخاری کی اپنی زبانی ، انکے شاگرد امام ترمذی ؒ نقل کر رہے ہیں
اس کے بعد دسویں صدی کے علامہ سخاوی ؒ کے دعوی کے قبول کرنے کی کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی۔
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
پہلی بات تو یہ آپ نے امام ابن کثیر رحمہ اللہ کا ذکر ایسے کیا۔جیسے وہ بریلی کا کوئی حقہ نوش مولوی ہو !
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی
دوسری بات یہ کہ آپ کو اردو سمجھ نہیں آتی ۔۔یا۔۔عمداً تحریف کی عادت شریفہ ہے ؟
ابن کثیر ؒ نے لکھا کہ : (حتى قيل: إنه يريد البخاري )،اس کا ترجمہ میں نے لکھا :(کہا جاتا ہے ،وہ امام بخاری ہیں)
کہا جاتا ہے ،وہ امام بخاری ہیں
مولوی صاحب ! اتنا تو بتادیں کہ اگر ایسا کہا جاتا ہے تو وہ کون سے لوگ تھے جو ایسا کہتے تھے ابن کثیر سے پہلے گذرے محدث یا ابن کثیر کے بعد آنے والے
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
امام ابن کثیر رحمہ اللہ کا قول ہرگز بلا دلیل نہیں ۔۔۔آپ کو بلا دلیل اس لئے نظر آرہا ہے کہ آپ نے کبھی ’’ دواوین السنہ ‘‘ کا
اطاعت رسول ﷺ
کیلئے کبھی مطالعہ ہی نہیں کیا ۔۔
بس صرف صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی تنقیص کیلئے روایات تلاش کرنا،جناب کا اصل مشن ہے ؛

خیر ۔۔۔۔۔ہم اپنے موقف ۔۔یعنی لقاء راوی کی شرط امام بخاری نے صرف اپنی صحیح ‘‘ کیلئے رکھی تھی ۔صحت حدیث کیلئے نہیں ‘‘
اس پر امام بخاری کے شاگرد ۔۔امام ترمذی کے پاس چلتے ہیں ، ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
حدثنا محمد بن عبد الأعلى , حدثنا سلمة بن رجاء , قال: حدثنا عبد الرحمن بن عبد الله بن دينار , عن زيد بن أسلم , عن عطاء بن يسار , عن أبي واقد الليثي , قال: قدم النبي صلى الله عليه وسلم المدينة وهم يجبون أسنمة الإبل ويقطعون أليات الغنم فقال: «ما قطع من البهيمة وهي حية فهي ميتة» .
سألت محمدا عن هذا الحديث فقلت له: أترى هذا الحديث محفوظا؟ قال: نعم. قلت له: عطاء بن يسار أدرك أبا واقد؟ فقال: ينبغي أن يكون أدركه , عطاء بن يسار قديم ‘‘
( علل الترمذي الكبير1۔241 )

ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : میں نے اس حدیث کے متعلق امام بخاری ؒ سے پوچھا ،کہ کیا آپ اس حدیث کو محفوظ سمجھتے ہیں ؟ فرمایا :ہاں ‘‘
بات واضح ہے ۔یہاں امام بخاری ؒ اس حدیث کو بغیر ’’ ثبوت لقاء ‘‘ کے ۔۔امکان لقاء کی بنیاد پرصحیح کہہ رہے ہیں ۔
اب دیکھ لو امام ابن کثیر ؒ کی بات کی دلیل ۔۔جو امام بخاری کی اپنی زبانی ، انکے شاگرد امام ترمذی ؒ نقل کر رہے ہیں
اس کے بعد دسویں صدی کے علامہ سخاوی ؒ کے دعوی کے قبول کرنے کی کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی۔
دیتے ہیں دھوکہ یہ بازیگر کھلا
امام ترمذی نے اپنے شیخ محمد بن عبد الأعلى سے مذکورہ روایت سنی اور یہ حدیث سنتے ہی امام ترمذی بھاگے بھاگے امام بخاری کے پاس گئے اور عرض کی سألت محمدا عن هذا الحديث فقلت له: أترى هذا الحديث محفوظا؟
یعنی مطلب یہ کہ امام ترمذی نے یہ سوال اپنے شیخ محمد بن عبد الأعلى کہ جن سے یہ حدیث سماعت کی ان سے نہیں کیا بلکہ یہ سوال تو امام بخاری سے کیا تھا !!!!
کیوں اپنے آپ اور لوگوں کو دھوکہ دیا جارہا ہے
محمد بن عبد الأعلى اور امام بخاری دو الگ الگ شخصیات ہیں

ویسے میں نے آپ کا "اقدام "والا مطالبہ پورا کردیا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی عرض کردیا تھا آپ نے ماننا نہیں اور ہوا بھی یہی ٖ!
اب اگربفرض محال امام بخاری خود آکر آپ سے کہیں کہ ثبوت القاء کا نظریہ صرف صحیح بخاری کے لئے نہیں تھا بلکہ یہ نظریہ مطلقا احادیث کے لئے تھا تب بھی آپ نے امام بخاری سے یہی کہنا ہے کہ یہ آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے کیونکہ میں جن کی تقلید کرتا ہوں ان کا قول یہ کہ آپ کا نظریہ لقاء صرف صحیح کے لئے تھا میں تو اپنے امام کی ہی مانوں گا چاہے کوئی کچھ بھی کہتا رہے
وما علينا إلا البلاغ المبين
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
امام ترمذی نے اپنے شیخ محمد بن عبد الأعلى سے مذکورہ روایت سنی اور یہ حدیث سنتے ہی امام ترمذی بھاگے بھاگے امام بخاری کے پاس گئے اور عرض کی سألت محمدا عن هذا الحديث فقلت له: أترى هذا الحديث محفوظا؟
یعنی مطلب یہ کہ امام ترمذی نے یہ سوال اپنے شیخ محمد بن عبد الأعلى کہ جن سے یہ حدیث سماعت کی ان سے نہیں کیا بلکہ یہ سوال تو امام بخاری سے کیا تھا !!!!
کیوں اپنے آپ اور لوگوں کو دھوکہ دیا جارہا ہے
محمد بن عبد الأعلى اور امام بخاری دو الگ الگ شخصیات ہیں
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
دیتے ہیں دھوکہ یہ بازیگر کھلا
امام ترمذی نے اپنے شیخ محمد بن عبد الأعلى سے مذکورہ روایت سنی اور یہ حدیث سنتے ہی امام ترمذی بھاگے بھاگے امام بخاری کے پاس گئے اور عرض کی سألت محمدا عن هذا الحديث فقلت له: أترى هذا الحديث محفوظا؟
یعنی مطلب یہ کہ امام ترمذی نے یہ سوال اپنے شیخ محمد بن عبد الأعلى کہ جن سے یہ حدیث سماعت کی ان سے نہیں کیا بلکہ یہ سوال تو امام بخاری سے کیا تھا !!!!
کیوں اپنے آپ اور لوگوں کو دھوکہ دیا جارہا ہے
محمد بن عبد الأعلى اور امام بخاری دو الگ الگ شخصیات ہیں
کس جاہل نے آپ کو علل الحدیث کے میدان میں جھک مارنے کا مشورہ دیا تھا ۔۔جو ایسی اونگی بونگی مارتے چلے جا رہے ہیں ؟
اگر کبھی محبت رسول ﷺ اور اطاعت النبی ﷺ کی غرض سے امام ترمذیؒ کی کتب کا مطالعہ کیا ہوتا ،تو کبھی
’’ محمد بن اسمعیل ‘‘ کو ’’ محمد بن عبد الأعلى ‘‘ نہ بناتے !

یہ بات تو عام طلباء بھی جانتے ہیں کہ امام ترمذیؒ جب کسی حدیث پر ’’ حکم ‘‘ کے ضمن میں ’’ سالت محمدا ‘‘ اور ’’ قال محمد ‘‘ کہتے ہیں ،تو انکی مراد
صرف امیر المومنین فی الحدیث ’’ محمد بن اسمعیل ‘‘ ہی ہوتے ہیں ؛
اور ’’ العلل الکبیر ‘‘ میں تو یہ بات بطور کلیہ پائی جاتی ہے ۔۔
اسی لئے ’’ العلل الکبیر ‘‘ کے شروع میں بتایا گیا ہے کہ :
امام ترمذیؒ اس کتاب میں جب ’’ سالت محمدا ‘‘ اور ’’ قال محمد ‘‘ کہتے ہیں ،تو اس مراد صاحب الصحیح ’’ محمد بن اسمعیل البخاری ‘‘ ہی ہوتے ہیں ؛

اور ’’ محمد بن عبد الأعلى ‘‘ کا یہ مقام اور میدان نہیں کہ امام ترمذی ان سے ’’ علل الحدیث ‘‘ کے متعلق سوال کریں ؛
سالت محمد.jpg
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
یعنی مطلب یہ کہ امام ترمذی نے یہ سوال اپنے شیخ محمد بن عبد الأعلى کہ جن سے یہ حدیث سماعت کی ان سے نہیں کیا بلکہ یہ سوال تو امام بخاری سے کیا تھا !!!!
کیوں اپنے آپ اور لوگوں کو دھوکہ دیا جارہا ہے
محمد بن عبد الأعلى اور امام بخاری دو الگ الگ شخصیات ہیں
ایسی ۔۔واہی اور مضحکہ خیز بونگیاں۔۔ مارنے سے بہتر ہے کہ اس معاملہ پر کوئی عالم سامنے لاو ۔۔۔
جس کو کم از کم ’’ مصطلح الحدیث ‘‘ کی بنیادی باتوں کا علم تو ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ ابھی تک اپنی پیش کردہ سابقہ عربی عبارات کا ترجمہ تک نہیں کرسکے ۔۔اور چلے ہیں ۔۔علل ۔۔کی گتھیاں سلجھانے ۔
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
امام بخاری تاریخ کبیر میں عطاء بن یسار کے ترجمہ میں فرماتے ہیں کہ
2992 - عطاء بْن يسار أَبُو مُحَمَّد مولى مَيْمُونَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ وَأَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ويقَالَ ابْن مَسْعُود وابْن عُمَر رَضِيَ الله عَنْهُم

یعنی عطاء بن یسار 19ھ۔ 94 ھ ہم عصر اور ہم شہر ہیں ابی سعید خدری متوفی 65 ھ َ، اباھریرہ متوفی 57ھ ابن عمر متوفی 73 ھ اور ابن مسعودمتوفی 32ھکے لیکن امام بخاری نے صرف ابی سعید خدری َاور اباھریرہ ،سے عطاء بن یاسر کے سمع کی تصریح کی ہے لیکن باوجود ہم عصر اور ہم شہرہونے کے ابن مسعود اور ابن عمر سے سمع کی تصریح سے پہلو بچا گئے کیوں کہ انہیں ثبوت لقاء دستیاب نہیں تھا اور پھر بھی کہنے والے یہی کہتے رہٰیں گے کہ ثبوت القاء کا نظریہ صرف صحیح بخاری کے لئے تھا
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
امام بخاری تاریخ کبیر میں عطاء بن یسار کے ترجمہ میں فرماتے ہیں کہ
2992 - عطاء بْن يسار أَبُو مُحَمَّد مولى مَيْمُونَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ وَأَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ويقَالَ ابْن مَسْعُود وابْن عُمَر رَضِيَ الله عَنْهُم

یعنی عطاء بن یسار 19ھ۔ 94 ھ ہم عصر اور ہم شہر ہیں ابی سعید خدری متوفی 65 ھ َ، اباھریرہ متوفی 57ھ ابن عمر متوفی 73 ھ اور ابن مسعودمتوفی 32ھکے لیکن امام بخاری نے صرف ابی سعید خدری َاور اباھریرہ ،سے عطاء بن یاسر کے سمع کی تصریح کی ہے لیکن باوجود ہم عصر اور ہم شہرہونے کے ابن مسعود اور ابن عمر سے سمع کی تصریح سے پہلو بچا گئے کیوں کہ انہیں ثبوت لقاء دستیاب نہیں تھا اور پھر بھی کہنے والے یہی کہتے رہٰیں گے کہ ثبوت القاء کا نظریہ صرف صحیح بخاری کے لئے تھا
جہاں سمع کی تصریح نہیں تو وہاں کیو ں سمع کی تصریح بیان کریں؟
یہاں پر تو ثبوت لقاء کی شرط کی بات ہی نہیں، یہاں تو یہ بیان کیا ہے کہ ان کا لقا ء ثابت ہے!
 
Top