یہ بات بھی ابھی تو دلیل ًمحتاج ہے کہ امام بخاری کا معیارلقاء صرف صحیح بخاری کے لئے تھا
دوسری بات یہ کہ محمود الطحان اپنی کتاب " تيسير مصطلح الحديث " میں المعنعِن کی بحث میں امام بخاری کا معنعِن کی حدیث کے بارے مطلقا نظریہ پیش کرتے ہیں کہ
ثبوت اللقاء: وهو قول البخاري
ایسا لگتا ہے کہ محمود الطحان صاحب بھی یہ بات نہیں جانتے تھے کہ امام بخاری کا نظریہ لقاء صرف صحیح بخاری کے لئے تھا ورنہ یہاں ضرور اس کی وضاحت فرمادیتے ان سب باتوں سے نہیں لگتا کہ آپ کا یہ ""تخیل "" تخیل ہی ہے کہ امام بخاری کا یہ نظریہ صرف صحیح بخاری کے لئے تھا
’’ محمود الطحان ‘‘ تو ہمارے دور کے عالم ہیں ؛(ولد في قضاء الباب من أعمال حلب ، وذلك في عام 1935 للميلاد-وانتسب إلى كلية الشريعة بجامعة دمشق وذلك في عام 1956 ، وتخرج فيها عام 1960 م)
ہم آپ کو علم حدیث کے مشہور و مستند عالم ،محدث علامہ ابن کثیر ؒ کا بیان پیش کرتے ہیں ،اگر سمجھ آجائے ،اور پسند بھی آجائے تو مسئلہ حل ہو جائے ؛
علامہ ابن کثیر ؒ ’’ الباعث الحثیث ‘‘ میں لکھتے ہیں :
’’ قال: وقد حاول بعضهم أن يطلق على الإسناد المعنعن اسم " الإرسال " أو " الإنقطاع ".
قال: والصحيح الذي عليه العمل: أنه متصل محمول على السماع، إذا تعاصروا، مع البراءة من وصمة التدليس.
وقد ادعى الشيخ أبو عمرو والداني المقريء إجماع أهل النقل على ذلك، وكاد ابن عبد البر أن يدعي ذلك أيضاً.
" قلت ": وهذا هو الذي اعتمده مسلم في صحيحه: وشنَّع في خطبته على من يشترط مع المعاصرة اللقيَّ، حتى قيل: إنه يريد البخاري، والظاهر أنه يريد علي بن المديني، فإنه يشترط ذلك في أصل صحة الحديث، وأما البخاري فإنه لا يشترطه في أصل الصحة، ولكن التزم ذلك في كتابه " الصحيح ".
(امام ابن الصلاح ) فرماتے ہیں :کچھ محدثین نے ’’ معنعن اسناد ‘‘ پر مرسل و منقطع کا اطلاق کیا ہے ،
ابن الصلاح رحمہ اللہ فرماتے ہیں : لیکن صحیح بات جس پر محدثین کا عمل ہے ، وہ یہ ہے کہ ’’ معنعن اسناد ‘‘ کے رواۃ میں اگر معاصرت ثابت ہو ،اور تدلیس کا عیب نہ پایا جائے،تو ایسی معنعن اسناد ،سماع پر محمول ہوگی ،
اور شیخ ابن عمرو الدانی نے اس پر اجماع کا دعوی کیا ہے ،اور ابن عبد البر ؒ بھی ایسے دعوے کے قریب ہیں ؛
علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :یہی وہ بات ہے جس پر امام مسلم نے اپنی صحیح میں اعتماد کیا ہے ،اور اپنی کتاب کے مقدمہ میں انہوں نے
اس شخص پر تنقید کی ہے جس نے معاصرت کے باوجود ’’ لقاء ‘‘ کی شرط رکھی ہے ،اور (جس پر امام مسلم نے تنقید کی ) کہا جاتا ہے ،وہ امام بخاری
ہیں ۔لیکن صحیح اور ظاہر بات یہ ہے کہ جس پر امام مسلم نے نقد فرمایا ،وہ علی بن مدینی رحمہ اللہ ہیں (نہ کہ بخاری ؒ)
کیونکہ امام علی بن مدینی ؒ نے معاصرت کے باوجود ’‘ لقاء ‘‘ کو صحت حدیث کی شرط قرار دیا ہے ،
جبکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے لقاء کی شرط کا صرف اپنی ’’ صحیح ‘‘ میں التزام فرمایا ہے ،اور حدیث کی صحت کیلئے اسے شرط نہیں کہا ۔
(یعنی صحیح بخاری کے علاوہ ان کے ہاں یہ لقاء حدیث کے صحیح ہونے کیلئے شرط نہیں )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ کے اس بیان سے دو باتیں واضح ہو گئیں :
(۱)۔۔امام مسلم نے جناب امام بخاری پر تنقید نہیں کی بلکہ امام علی بن مدینی ؒ پر رد کیا ہے
(۲) ۔۔امام بخاری رحمہ اللہ نے لقاء کی شرط کا صرف اپنی ’’ صحیح ‘‘ میں التزام فرمایا ہے ،اور حدیث کی صحت کیلئے اسے شرط نہیں کہا ۔
اب جواب میں کسی ہم عصر کو پیش کرنے کی ضرورت نہیں، بلکہ کسی اقدم کو تلاش کرو