وقال السخاوي: (وممن صرح باشتراط ثبوت اللقاء علي بن المديني والبخاري وجعلاه شرطًا في أصل الصحة)اب جواب میں کسی ہم عصر کو پیش کرنے کی ضرورت نہیں، بلکہ کسی اقدم کو تلاش کرو
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرےالسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
@بہرام آپ کا ضد پر مبنی مراسلہ حذف کر دیا گیا ہے!
آپ کو کہا تھا کہ ابن کثیر رحمہ اللہ سے پہلے کے کسی محدث کا حوالہ دیں ؛وقال السخاوي: (وممن صرح باشتراط ثبوت اللقاء علي بن المديني والبخاري وجعلاه شرطًا في أصل الصحة)
فتح المغيث للسخاوي (1/165)
ابن کثیر کے رد میں علامہ سخاوی آگے فرماتے ہیں کہ
وَإِنْ زَعَمَ بَعْضُهُمْ أَنَّ الْبُخَارِيَّ إِنَّمَا الْتَزَمَ ذَلِكَ فِي جَامِعِهِ فَقَطْ،
ابن کثیر کی بلادلیل رائے کو جب اہل سنت کے علامہ سخاوی قبول نہیں فرمارہے ہیں تو پھر آپ دوسروں سے یہ امید کیوں کرتے ہیں کہ وہ ابن کثیر کا بلا دلیل قول قبول کر لیں گے ہاں آپ کی بات دوسری ہے کیوں کہ آپ ابن کثیر کے مقلد ہیں اس لئے اپنے امام کا قول آپ کے لئے حجت ہےآپ کو کہا تھا کہ ابن کثیر رحمہ اللہ سے پہلے کے کسی محدث کا حوالہ دیں ؛
لیکن آپ نے اس بات کو سمجھے بغیر علامہ سخاوی کی عبارت پیش کردی ۔۔
اور وہ بھی ترجمہ کے بغیر ۔۔۔۔۔جبکہ ہم نے ابن کثیر ؒ کی عبارت ترجمہ کے ساتھ پیش کی تھی ۔
ترجمہ کے بغیر اس لئے پیش کی کہ میں یہ سمجھ رہا تھا کہ میرا مخاطب ایک عالم ہے اور وہ عربی زبان سے واقف ہے کیا ایسا نہیں ہے ؟؟؟اور وہ بھی ترجمہ کے بغیر ۔۔۔۔
میرے عالم ہونے ۔۔یا۔۔نہ ہونے کی بات نہیںترجمہ کے بغیر اس لئے پیش کی کہ میں یہ سمجھ رہا تھا کہ میرا مخاطب ایک عالم ہے اور وہ عربی زبان سے واقف ہے کیا ایسا نہیں ہے ؟؟؟
یعنی ابن کثیر یہ اعتراف کررہا ہے کہ اس کے دور تک یہی کہا جاتا رہا کہ امام مسلم نے جس شخص پر تنقید کی وہ امام بخاری ہیںعلامہ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :یہی وہ بات ہے جس پر امام مسلم نے اپنی صحیح میں اعتماد کیا ہے ،اور اپنی کتاب کے مقدمہ میں انہوں نے
اس شخص پر تنقید کی ہے جس نے معاصرت کے باوجود ’’ لقاء ‘‘ کی شرط رکھی ہے ،اور (جس پر امام مسلم نے تنقید کی )
کہا جاتا ہے ،وہ امام بخاری
ہیں ۔
اس کے برعکس امام سخاوی اور موجودہ دور کے محمود الطحان بھی اس کے لئے امام بخاری اور علی مدینی کا نام ہی لیتے ہیںلیکن صحیح اور ظاہر بات یہ ہے کہ جس پر امام مسلم نے نقد فرمایا ،وہ علی بن مدینی رحمہ اللہ ہیں (نہ کہ بخاری ؒ)