بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ رب العالمین والصلوۃ والسلام علی سید المرسلین و علی سائر الانبیاء والصالحین اما بعد
تمہید
چند روز ہوئے ڈاکٹر غلام جیلانی برق صاحب کی کتاب '' دو اسلام '' دیکھنے میں آئی پڑھ کر بڑی حیرت ہوئی کہ ڈاکٹر صاحب جیسا آدمی اور اس قسم کی باتیں ڈاکٹریٹ کی ڈگری وسیع مطالعہ ،اور گہرے علم وتحقیقات کے بعد ہی ملاکرتی ہے ،وسیع مطالعہ سے ذہن صاف ہوجاتا ہے ۔اور غوروفکر کی عادت پیداہوتی ہے ،ایسا آدمی جب کسی بات کوسنتاہے ،توبغیر تحقیق کے اس کوقبول نہیں کرتا اور بغیر غوروفکر کے اس کورد نہیں کرتا ،لیکن تعجب ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے صرف حدیث ہی کانہیں بلکہ قرآن مجید کامطالعہ بھی سرسری کیا،اس وجہ سے آپ کوبہت غلط فہمیاں ہوگئیں ،کتاب '' دواسلام '' ان ہی غلط فہمیوں کامجموعہ ہے ۔اور ہماری یہ کتاب غلط فہمیوں کے ازالہ کے لئے لکھی جارہی ہے ، اللہ تعالی ان کی غلط فہمیوں کودور فرمائے ۔آمین ۔برق صاحب تحریر فرماتے ہیں :۔
ملا کی تعریف
'' ملاسے مراد متعصب تنگ نظر،کم علم اور کوتاہ اندیش واعظ اور امام مسجد ہے نہ کہ صحیح النظر عالم ''(دواسلام حاشیہ ص 278)میں بھی ان مضامین میں لفظ '' ملا'' کوانہی معنوں میں استعمال کروں گا جن معنوں میں ڈاکٹر صاحب نے استعمال کیاہے
عالم کی تعریف
ڈاکٹر صاحب کی محولہ بالا عبارت سے معلوم ہوتاہے کہ عالم در حقیقت وہ ہے جوصحیح النظر ہوقرآن کی اصطلاح میں اسکو راسخ فی العلم کہتے ہیں ڈاکٹر صاحب ایک اور جگہ رقم طراز ہیں بحمد للہ کہ اسلام میں کچھ محققین بھی ہوگذرے تھے جنہوں نے ایسے تمام واقعات سخت تنقید کی ۔فجزاہم اللہ احسن الجزاء (دواسلام ص90)
میں بھی اس کتاب میں جہاں کہیں عالم کالفظ استعمال کروں گاانہی معنوں میں استعمال کروں گاجن معنوں میں ڈاکٹر صاحب نے کیاہے ۔
جماعت حقہ
ڈاکٹر صاحب شاید ناواقف نہ ہوں کہ مسلمانوں میں ایک جمات ہمیشہ ایسی رہی اور اب بھی موجود ہے جو تمام خرافات، بدعات، موضوعات، مشرکانہ اور جاہلانہ رسوم سے اسی طرح بیزار تھی اور ہے جس طرح خود ڈاکٹر صاحب بیزار ہیں۔ اس جماعت کی ایک تبلیغی تحریک بھی ہمیشہ سے جاری ہے۔ مختلف ادوار اور مختلف ممالک میں اس کے مختلف نام رہے۔ یہ تحریک کبھی شدت اختیار کر لیتی ہے اور کبھی حالات کے ناسازگار ہونے کے باعث سست بھی ہو جایا کرتی ہے۔ اس جماعت کا ذکر مسلم اور غیر مسلم حضرات نے مختلف کتابوں میں ایک ایسی جماعت کی حیثیت سے کیا ہے جو اسلام کو اپنے اصل خدوخال میں پیش کرنا چاہتی ہے اور اس اسلام کی دعوت دیتی ہے جو عہد رسالت میں تھا۔ ہندوستان میں حکومت برطانیہ اور خود ان خرافات کے پرستار نام نہاد مسلمانوں نے جس طرح اس تحریک کی مخالفت کی یہ ایک خونچکاں داستاں ہے جس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں۔ یہ تحریک اگرچہ آج کل بہت سست ہو گئی ہے لیکن بحمد اللہ مردہ نہیں ہوئی ہے۔ ہندوستان میں اس تحریک کا ابتدائی دور جہاد فی سبیل اللہ سے معمور ہے۔ یہی وہ لوگ تھے جو ایک طرف اللہ کے ذکر میں سرشار تو دوسری طرف میدانِ جنگ میں کفار کے مقابلہ کے لئے سینہ سپر تھے۔ ذکر اللہ کے فضائل کی احادیث نے انہیں جہاد سے غافل نہ بنایا تھا کیونکہ وہ ان احادیث کے مفہوم کو اچھی طرح سمجھتے تھے اور کبھی غلط فہمیوں میں مبتلا نہیں ہوئے تھے آج بھی اگر برق صاحب کے ممدوح امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ جیسا مصلح پیدا ہو جائے تو یہ بکھرے ہوئے سپاہی پھر جہاد کے لئے صف آراء ہونے کو تیار ہیں۔
ایک بات اور بھی ذہن نشین کر لیجیے یہ جماعت فرقہ کی حیثیت سے کبھی نمودار نہیں ہوئی نہ اس نے اپنا کوئی ایسا امام بنایا جس کی وہ تقلید کرتی ہو، نہ ایسی فرقہ ورانہ کتابیں تصنیف کیں جو دوسرے فرقوں کے لئے ناقابل حجت ہوں اس جماعت کا اصول وہی ہے جو صحابہ کرام کا تھا۔ یعنی قرآن و حدیث یا دوسرے لفظوں میں اتباع رسول۔ یہ جماعت انہی احادیث کو واجب العمل سمجھتی ہے جن کے متعلق برق صاحب نے تحریر فرمایا ہے کہ:
'' اس طرح کی ہزارہا احادیث ہمارے پاس موجود ہیں جونہ صرف تعلیمات قرآن کے عین مطابق ہیں بلکہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مطہرہ کی مکمل تصویر پیش کرتی ہیں ''(دواسلام ص342)
'' یہ تمام تفاصیل احادیث میں ملتی ہیں اور یہی وہ بیش بہا سرمایہ ہے جس پہ ہم نازاں ہیں اور جس سے اب تک کروڑوں غیرمسلم متاثر ہوچکے ہیں ''(دواسلام ص343)
' ' اس میں کلام نہیں کہ حضور کے ان اوصاف جمیلہ کاچرچا صرف احادیث کی بدولت ہوا اور ہم حدیث کے اس گراں بہاذخیرے پرہمیشہ ناز کرتے رہیں گے '' (دواسلام ص 199)
یہ جماعت خود ساختہ اسلام کو اتنا ہی برا سمجھتی ہے جتنا آپ گھڑی ہوئی احادیث سے اتنا ہی بیزار ہے جتنا آپ لہذا آپ یہ نہ سمجھئے کہ اس معاملہ میں آپ تنہا ہیں بلکہ یہ پوری جماعت بھی آپ کے ساتھ ہے ہاں فرق صرف اتنا ہے کہ بعض صحیح احادیث کوآپ غلط سمجھ بیٹھے اور اس ہی میں غلط فہمی کے ازالہ کے لئے یہ کتاب لکھی جارہی ہے