- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,763
- پوائنٹ
- 1,207
(۴) حدیث بھی منزل من اللہ ہے۔
اللہ تبارک و تعالی نے قرآن مجید میں فرمایا ہے:
وَقَدْ نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ أَنْ إِذَا سَمِعْتُمْ آيَاتِ اللَّـهِ يُكْفَرُ بِهَا وَيُسْتَهْزَأُ بِهَا فَلَا تَقْعُدُوا مَعَهُمْ حَتَّىٰ يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ ۚ إِنَّكُمْ إِذًا مِّثْلُهُمْ ۗ ۔۔۔۔ ﴿١٤٠﴾ (سورۃ النساء:140)
اور اللہ تعالیٰ تم پر کتاب میں یہ حکم نازل کر چکا ہے کہ جب تم اللہ کی آیات کے ساتھ کفر اور استہزاء ہوتا ہوا سنو تو ان لوگوں کے ساتھ مت بیٹھو جب تک وہ کوئی اور بات نہ کریں۔ اگر تم ان کے پاس بیٹھ گئے تو پھر تم بھی ان ہی کے مثل ہو گئے۔
اس آیت سے ظاہر ہوا کہ اس آیت کے نزول سے پہلے یہ حکم نازل ہو چکا تھا لیکن وہ حکم قرآن میں نہیں اور جو حکم قرآن میں ہے اس کا مضمون اور انداز تخاطب یہ نہیں ہے جو اس آیت میں بیان ہوا کہ کتاب سے مراد صرف قرآن ہی نہیں بلکہ حدیث بھی ہے۔
اللہ تعالی فرماتا ہے:
وَاَنْزَلَ اللہُ عَلَيْكَ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ۰ۭ وَكَانَ فَضْلُ اللہِ عَلَيْكَ عَظِيْمًا (سورۃ النساء:113)
اور اللہ نے آپ پر کتاب نازل فرمائی اور حکمت نازل فرمائی اور وہ چیزیں بتائیں جن کو آپ نہیں جانتے تھے اور آپ پر اللہ کا بڑا فضل ہے
اس آیت میں اگر کتاب سے مراد قرآن ہے تو حکمت سے مراد سوائے حدیث کے اور کیا ہے؟ اگر حکمت سے بھی قرآن مراد ہے تو متعدد مقامت پرکتاب و حکمت کی تکرار بے فائدہ ہے۔ پس ثابت ہوا کہ حکمت سے مراد حدیث ہے۔ اور یہ کہ حدیث بھی منزل من اللہ ہے۔
اللہ تعالی فرماتا ہے:
قُلْ أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ ۖ فَإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا عَلَيْهِ مَا حُمِّلَ وَعَلَيْكُم مَّا حُمِّلْتُمْ ۖ وَإِن تُطِيعُوهُ تَهْتَدُوا ۚ ۔۔۔۔ ﴿٥٤﴾ (سورۃ النور)
اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو۔ پھر اگر تم منہ پھیرو گے تو اس کے ذمہ ہے جو اس پر لازم ہے اور تم جوابدہ ہو اس چیز کے جو تم پر لازم ہے اور اگر تم رسول کی اطاعت کرو گے تو ہدایت پاؤ گے۔
دوسری جگہ فرماتا ہے:
قُلْ اِنَّ ھُدَى اللہِ ھُوَالْہُدٰى (سورۃ البقرۃ:120)۔
اللہ کی ہدایت ہی حقیقت میں ہدایت ہے۔
یہ ہدایت کس طرح آتی ہے؟ اللہ تعالی فرماتا ہے:
فَاِمَّا يَاْتِيَنَّكُمْ مِّنِّىْ ھُدًى فَمَنْ تَبِعَ ھُدَاىَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ (سورۃ البقرۃ: 38)
میری طرف سے وقتاً فوقتاً ہدایت آتی رہے گی۔ پس جن لوگوں نے میری ہدایت کی پیروی کی تو وہ بے خوف اور بےغم ہوں گے۔
پہلی آیت سے ثابت ہوا کہ اصل ہدایت اللہ کی ہدایت ہے جو اللہ کی طرف سے نازل ہوتی رہتی ہے۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ رسول کے تمام احکام منزل من اللہ ہیں۔ لہٰذا حدیث منزل من اللہ ہوئی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہ کہیں نہیں فرمایا کہ رسول کی اطاعت صرف قرآن کی اطاعت ہے اس کے علاوہ نہیں بلکہ مطلق اطاعت کا حکم دیا لہٰذا قرآن اور غیر قرآن ہر قسم کی اطاعت اس میں شامل ہے۔
اللہ تبارک و تعالی نے قرآن مجید میں فرمایا ہے:
وَقَدْ نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ أَنْ إِذَا سَمِعْتُمْ آيَاتِ اللَّـهِ يُكْفَرُ بِهَا وَيُسْتَهْزَأُ بِهَا فَلَا تَقْعُدُوا مَعَهُمْ حَتَّىٰ يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ ۚ إِنَّكُمْ إِذًا مِّثْلُهُمْ ۗ ۔۔۔۔ ﴿١٤٠﴾ (سورۃ النساء:140)
اور اللہ تعالیٰ تم پر کتاب میں یہ حکم نازل کر چکا ہے کہ جب تم اللہ کی آیات کے ساتھ کفر اور استہزاء ہوتا ہوا سنو تو ان لوگوں کے ساتھ مت بیٹھو جب تک وہ کوئی اور بات نہ کریں۔ اگر تم ان کے پاس بیٹھ گئے تو پھر تم بھی ان ہی کے مثل ہو گئے۔
اس آیت سے ظاہر ہوا کہ اس آیت کے نزول سے پہلے یہ حکم نازل ہو چکا تھا لیکن وہ حکم قرآن میں نہیں اور جو حکم قرآن میں ہے اس کا مضمون اور انداز تخاطب یہ نہیں ہے جو اس آیت میں بیان ہوا کہ کتاب سے مراد صرف قرآن ہی نہیں بلکہ حدیث بھی ہے۔
اللہ تعالی فرماتا ہے:
وَاَنْزَلَ اللہُ عَلَيْكَ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ۰ۭ وَكَانَ فَضْلُ اللہِ عَلَيْكَ عَظِيْمًا (سورۃ النساء:113)
اور اللہ نے آپ پر کتاب نازل فرمائی اور حکمت نازل فرمائی اور وہ چیزیں بتائیں جن کو آپ نہیں جانتے تھے اور آپ پر اللہ کا بڑا فضل ہے
اس آیت میں اگر کتاب سے مراد قرآن ہے تو حکمت سے مراد سوائے حدیث کے اور کیا ہے؟ اگر حکمت سے بھی قرآن مراد ہے تو متعدد مقامت پرکتاب و حکمت کی تکرار بے فائدہ ہے۔ پس ثابت ہوا کہ حکمت سے مراد حدیث ہے۔ اور یہ کہ حدیث بھی منزل من اللہ ہے۔
اللہ تعالی فرماتا ہے:
قُلْ أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ ۖ فَإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا عَلَيْهِ مَا حُمِّلَ وَعَلَيْكُم مَّا حُمِّلْتُمْ ۖ وَإِن تُطِيعُوهُ تَهْتَدُوا ۚ ۔۔۔۔ ﴿٥٤﴾ (سورۃ النور)
اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو۔ پھر اگر تم منہ پھیرو گے تو اس کے ذمہ ہے جو اس پر لازم ہے اور تم جوابدہ ہو اس چیز کے جو تم پر لازم ہے اور اگر تم رسول کی اطاعت کرو گے تو ہدایت پاؤ گے۔
دوسری جگہ فرماتا ہے:
قُلْ اِنَّ ھُدَى اللہِ ھُوَالْہُدٰى (سورۃ البقرۃ:120)۔
اللہ کی ہدایت ہی حقیقت میں ہدایت ہے۔
یہ ہدایت کس طرح آتی ہے؟ اللہ تعالی فرماتا ہے:
فَاِمَّا يَاْتِيَنَّكُمْ مِّنِّىْ ھُدًى فَمَنْ تَبِعَ ھُدَاىَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ (سورۃ البقرۃ: 38)
میری طرف سے وقتاً فوقتاً ہدایت آتی رہے گی۔ پس جن لوگوں نے میری ہدایت کی پیروی کی تو وہ بے خوف اور بےغم ہوں گے۔
پہلی آیت سے ثابت ہوا کہ اصل ہدایت اللہ کی ہدایت ہے جو اللہ کی طرف سے نازل ہوتی رہتی ہے۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ رسول کے تمام احکام منزل من اللہ ہیں۔ لہٰذا حدیث منزل من اللہ ہوئی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہ کہیں نہیں فرمایا کہ رسول کی اطاعت صرف قرآن کی اطاعت ہے اس کے علاوہ نہیں بلکہ مطلق اطاعت کا حکم دیا لہٰذا قرآن اور غیر قرآن ہر قسم کی اطاعت اس میں شامل ہے۔