- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,763
- پوائنٹ
- 1,207
دنیا کسے کہتے ہیں؟
اب سوا ل یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر دنیاوی عیش و راحت کے سامان مومن کے لئے پیدا ہی نہیں کئے گئے تو پھر اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ان دنیاوی نعمتوں کا احسان کیوں جتایا ہے اور مال و دولت کو اپنا فضل کیوں قرار دیا ہے؟ یہ سوال صرف اس لئے پیدا ہوتا ہے کہ ہم نے دنیا کی صرف ایک قسم سمجھ رکھی ہے حالانکہ دنیا کی دو قسمیں ہیں۔ مومن کی دنیا اور کافر کی دُنیا۔ جہاں کہیں قرآن و حدیث میں لفظ دنیا کا لفظ آیا ہے اس سے کافر کی دنیا مراد ہے۔ قرآن نے کافر کی دنیا کی چند خصوصیات بیان کی ہیں جو مندرجہ ذیل آیات مبارکات میں ملاحظہ فرمایئے
وَقَالُوا مَا هِيَ إِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا وَمَا يُهْلِكُنَا إِلَّا الدَّهْرُ ۚ وَمَا لَهُم بِذَٰلِكَ مِنْ عِلْمٍ ۖ إِنْ هُمْ إِلَّا يَظُنُّونَ ﴿٢٤﴾ (الجاثیۃ)
کافر کہتے ہیں بجز اس دنیا کی زندگی کے اور کوئی زندگی نہیں۔ ہم مرتے ہیں اور جیتے ہیں اور ہم کو صرف زمانہ کی گردش سے موت آتی ہے۔ اس کے متعلق ان کے پاس کوئی علم نہیں وہ محض گمان کرتے ہیں۔
نتیجہ: منکر قیامت کی دنیا حساب و کتاب سے بے خوفی کی دنیا ہے۔ اور جب حساب و کتاب نہیں تو پھر ڈر ہی کس بات کا؟ خوب مزے اڑاؤ۔ ایسے آدمی کی دنیا اس مصرع کا مصداق ہوتی ہے۔
؎ بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست
۔۔وَوَيْلٌ لِّلْكَافِرِينَ مِنْ عَذَابٍ شَدِيدٍ ﴿٢﴾ الَّذِينَ يَسْتَحِبُّونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا عَلَى الْآخِرَةِ ۔۔۔۔ ﴿٣﴾(سورۃ ابراہیم)
ان منکروں کے لئے بڑا سخت عذاب ہے جو آخرت کے مقابلہ میں دنیا کی زندگی سے محبت کرتے ہیں۔
دوسرے مقام پر اللہ تعالی فرماتا ہے:
بَلْ تُؤْثِرُونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا ﴿١٦﴾ وَالْآخِرَةُ خَيْرٌ وَأَبْقَىٰ ﴿١٧﴾ (سورۃ الاعلی)
بلکہ تم دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو حالانکہ آخرت بہتر ہے اور باقی رہنے والی۔
وَالَّذِينَ كَفَرُوا يَتَمَتَّعُونَ وَيَأْكُلُونَ كَمَا تَأْكُلُ الْأَنْعَامُ وَالنَّارُ مَثْوًى لَّهُمْ ﴿١٢﴾ (سورۃ محمد)
اور کافر جو مزے اڑا رہے ہیں اور اس طرح کھا رہے ہیں جس طرح چوپائے کھاتے ہیں ان کا ٹھکانہ جہنم ہے۔
نتیجہ: جانور ہر جگہ منہ مارتے ہیں۔ ان کو حلا ل و حرام کی کوئی تمیز نہیں ہوتی نہ حساب و کتاب کا خوف ہوتا ہے اور یہی حالت کافر کی ہے کہ وہ حلال و حرام کی کوئی تمیز نہیں کرتا جو کچھ مل جائے اور جس طرح مل جائے، سب ہضم کر لیتا ہے، آخرت سے بالکل بے خوف ہوتا ہے۔
وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا لَعِبٌ وَلَهْوٌ ۖ وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِّلَّذِينَ يَتَّقُونَ ۗ أَفَلَا تَعْقِلُونَ ﴿٣٢﴾ (سورۃ الانعام)
دنیا کی زندگی کچھ نہیں بجز لہو و لعب کے اور آخرت تو انہی کے لئے ہے جو پرہیزگاری کرتے ہیں۔ کیا اب بھی تمہاری سمجھ میں نہیں آئے گا۔
اعْلَمُوا أَنَّمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهْوٌ وَزِينَةٌ وَتَفَاخُرٌ بَيْنَكُمْ وَتَكَاثُرٌ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ ۖ كَمَثَلِ غَيْثٍ أَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهُ ثُمَّ يَهِيجُ فَتَرَاهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَكُونُ حُطَامًا ۖ وَفِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ شَدِيدٌ وَمَغْفِرَةٌ مِّنَ اللَّـهِ وَرِضْوَانٌ ۚ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ ﴿٢٠﴾ (سورۃ الحدید)
جان لو کہ دنیاوی زندگی لہو و لعب، زینت اور آپس میں ایک دوسرے پر فخر کرنا اور مال و اولاد میں کثرت کی خواہش کا نام ہے اس دنیا کی مثال ایسی ہے جیسے پانی برسا، فصل اچھی ہوئی اور کسان اس کو دیکھ کر خوش ہوئے لیکن پھر خشک ہو کر زرد نظر آنے لگی اور پھر ریزہ ریزہ ہو گئی۔ اور آخرت میں سب عذاب اور مغفرت اور رضوان بھی ہے اور دنیا کی زندگی تو محض دھوکے کا سرمایہ ہے۔
أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ ﴿١﴾ حَتَّىٰ زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ ﴿٢﴾(سورۃ التکاثر)
زیادتی کی خواہش نے تم کو غافل رکھا یہاں تک کہ تم قبرستان پہنچ گئے۔
وَيْلٌ لِّكُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةٍ ﴿١﴾ الَّذِي جَمَعَ مَالًا وَعَدَّدَهُ ﴿٢﴾ يَحْسَبُ أَنَّ مَالَهُ أَخْلَدَهُ ﴿٣﴾ كَلَّا ۖ لَيُنبَذَنَّ فِي الْحُطَمَةِ ﴿٤﴾(سورۃ ھمزہ)
ہر عیب کنندہ اور غیبت گو بندہ کی خرابی ہے جس نے مال کو جمع کیا اور گن گن کر رکھا وہ یہ سمجھتا ہے کہ یہ مال ہمیشہ رہے گا ہرگز نہیں بلکہ (ایک وقت آنے والا ہے جب) وہ دوزخ میں پھینک دیا جائے گا۔
وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُم بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ ۖ وَلَا تَعْدُ عَيْنَاكَ عَنْهُمْ تُرِيدُ زِينَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ ۔۔۔۔ ﴿٢٨﴾(سورۃ الکہف)
اور اپنے نفس کو ان لوگوں کے ساتھ مقید رکھ جو صبح و شام اپنے رب کی عبادت کرتے رہتے ہیں اور اللہ کی رضا کے طالب ہیں۔ اور کہیں ایسا نہ ہو کہ دنیاوی زندگی کی زینت کی طلب میں تو ان سے کنارہ کشی کر لے۔
خلاصہ
مندرجہ بالا آیات سے واضح ہوا کہ قرآن کی اصطلاح میں دنیا کہتے ہیں لعب و لہو، نام و نمود، فخر و ریا، تکبر اور اِترانے کو، مال و دولت کی فراوانی کی حرص کو، مال جمع کرنے، ننانوے کے پھیر میں رہنے کو، مال کو اس طرح ہڑپ کر جانے کو جس طرح جانور ہڑپ کر جاتے ہیں۔ دنیا کی زندگی کو آخرت پر ترجیح دینے کو، بلکہ آخرت و حساب و کتاب کے انکار کو۔ حلا ل و حرام کی تمیز کے اُٹھ جانے کو۔ مال و دولت کے حصول میں اس قدر انہماک کو کہ اللہ اور اس کے احکام سے غفلت ہو جائے۔ اللہ والوں کو چھوڑ کر مال اور مالداروں کی طرف رغبت کرنے کو۔ فرائض کے ترک کو۔ وغیرہ وغیرہ۔ اگر یہ دنیا مردار نہیں تو اور کیا ہے۔ اور اس کے طالب کتے نہیں تو اور کیا ہیں۔ یہی وہ دنیا ہے جس کو حدیث میں مردار کہا گیا ہے اور اس کے طالب کو کتا۔ قرآن و حدیث کی اصطلاح ایک ہے، کاش برق صاحب دنیا کے اصطلاح معنوں پر جو قرآن و حدیث میں بیان ہوئے ہیں غور کرتے تو کبھی غلط فہمی نہ پیدا ہوتی۔ اس مشہور مصرع میں کس خوبی سے ان اصطلاحی معنوں کو ادا کیا گیا ہے:
؎ چیست دنیا؟ از خدا غافل بدن
یعنی دنیا کیا چیز ہے؟ دنیا نام ہے اللہ سے غافل ہونے کا۔ اور اگر اللہ سے غافل نہ ہو تو پھر یہ دنیا مومن کی دنیا ہے اور یہ اصطلاحی دنیا سے علیحدہ ایک چیز ہے۔ اللہ تعالی مسلمانوں کو اس اصطلاحی دنیا سے علیحدہ رہنے کی بار بار تاکید فرماتا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُلْهِكُمْ أَمْوَالُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُمْ عَن ذِكْرِ اللَّـهِ ۚ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ ﴿٩﴾(سورۃ المنافقون)
اے ایمان والو! تمہارے مال اور تمہاری اولاد تم کو اللہ کے ذکر سے غافل نہ کر دے اور جو ایسا کرے گا وہ آخرت میں نقصان اٹھائے گا۔
إِنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ ۚ وَاللَّـهُ عِندَهُ أَجْرٌ عَظِيمٌ ﴿١٥﴾(سورۃ التغابن)
اے مسلمانو! تمہارے مال اور تمہاری اولاد آزمائش کی چیزیں ہیں اور اللہ کے پاس اجر عظیم ہے
یعنی کہیں ایسا نہ ہو کہ مال و اولاد کی حرص میں تم اللہ کو بھول جاؤ، اور اجر اعظیم سے محروم ہو جاؤ۔ پھر فرمایا:
وَمَن يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ﴿١٦﴾(سورۃ التغابن)
جو شخص نفسانی حرص و طمع سے محفوظ رہا پس ایسے ہی لوگ نجات پانے والے ہیں۔
اب سوا ل یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر دنیاوی عیش و راحت کے سامان مومن کے لئے پیدا ہی نہیں کئے گئے تو پھر اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ان دنیاوی نعمتوں کا احسان کیوں جتایا ہے اور مال و دولت کو اپنا فضل کیوں قرار دیا ہے؟ یہ سوال صرف اس لئے پیدا ہوتا ہے کہ ہم نے دنیا کی صرف ایک قسم سمجھ رکھی ہے حالانکہ دنیا کی دو قسمیں ہیں۔ مومن کی دنیا اور کافر کی دُنیا۔ جہاں کہیں قرآن و حدیث میں لفظ دنیا کا لفظ آیا ہے اس سے کافر کی دنیا مراد ہے۔ قرآن نے کافر کی دنیا کی چند خصوصیات بیان کی ہیں جو مندرجہ ذیل آیات مبارکات میں ملاحظہ فرمایئے
وَقَالُوا مَا هِيَ إِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا وَمَا يُهْلِكُنَا إِلَّا الدَّهْرُ ۚ وَمَا لَهُم بِذَٰلِكَ مِنْ عِلْمٍ ۖ إِنْ هُمْ إِلَّا يَظُنُّونَ ﴿٢٤﴾ (الجاثیۃ)
کافر کہتے ہیں بجز اس دنیا کی زندگی کے اور کوئی زندگی نہیں۔ ہم مرتے ہیں اور جیتے ہیں اور ہم کو صرف زمانہ کی گردش سے موت آتی ہے۔ اس کے متعلق ان کے پاس کوئی علم نہیں وہ محض گمان کرتے ہیں۔
نتیجہ: منکر قیامت کی دنیا حساب و کتاب سے بے خوفی کی دنیا ہے۔ اور جب حساب و کتاب نہیں تو پھر ڈر ہی کس بات کا؟ خوب مزے اڑاؤ۔ ایسے آدمی کی دنیا اس مصرع کا مصداق ہوتی ہے۔
؎ بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست
۔۔وَوَيْلٌ لِّلْكَافِرِينَ مِنْ عَذَابٍ شَدِيدٍ ﴿٢﴾ الَّذِينَ يَسْتَحِبُّونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا عَلَى الْآخِرَةِ ۔۔۔۔ ﴿٣﴾(سورۃ ابراہیم)
ان منکروں کے لئے بڑا سخت عذاب ہے جو آخرت کے مقابلہ میں دنیا کی زندگی سے محبت کرتے ہیں۔
دوسرے مقام پر اللہ تعالی فرماتا ہے:
بَلْ تُؤْثِرُونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا ﴿١٦﴾ وَالْآخِرَةُ خَيْرٌ وَأَبْقَىٰ ﴿١٧﴾ (سورۃ الاعلی)
بلکہ تم دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو حالانکہ آخرت بہتر ہے اور باقی رہنے والی۔
وَالَّذِينَ كَفَرُوا يَتَمَتَّعُونَ وَيَأْكُلُونَ كَمَا تَأْكُلُ الْأَنْعَامُ وَالنَّارُ مَثْوًى لَّهُمْ ﴿١٢﴾ (سورۃ محمد)
اور کافر جو مزے اڑا رہے ہیں اور اس طرح کھا رہے ہیں جس طرح چوپائے کھاتے ہیں ان کا ٹھکانہ جہنم ہے۔
نتیجہ: جانور ہر جگہ منہ مارتے ہیں۔ ان کو حلا ل و حرام کی کوئی تمیز نہیں ہوتی نہ حساب و کتاب کا خوف ہوتا ہے اور یہی حالت کافر کی ہے کہ وہ حلال و حرام کی کوئی تمیز نہیں کرتا جو کچھ مل جائے اور جس طرح مل جائے، سب ہضم کر لیتا ہے، آخرت سے بالکل بے خوف ہوتا ہے۔
وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا لَعِبٌ وَلَهْوٌ ۖ وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِّلَّذِينَ يَتَّقُونَ ۗ أَفَلَا تَعْقِلُونَ ﴿٣٢﴾ (سورۃ الانعام)
دنیا کی زندگی کچھ نہیں بجز لہو و لعب کے اور آخرت تو انہی کے لئے ہے جو پرہیزگاری کرتے ہیں۔ کیا اب بھی تمہاری سمجھ میں نہیں آئے گا۔
اعْلَمُوا أَنَّمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهْوٌ وَزِينَةٌ وَتَفَاخُرٌ بَيْنَكُمْ وَتَكَاثُرٌ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ ۖ كَمَثَلِ غَيْثٍ أَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهُ ثُمَّ يَهِيجُ فَتَرَاهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَكُونُ حُطَامًا ۖ وَفِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ شَدِيدٌ وَمَغْفِرَةٌ مِّنَ اللَّـهِ وَرِضْوَانٌ ۚ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ ﴿٢٠﴾ (سورۃ الحدید)
جان لو کہ دنیاوی زندگی لہو و لعب، زینت اور آپس میں ایک دوسرے پر فخر کرنا اور مال و اولاد میں کثرت کی خواہش کا نام ہے اس دنیا کی مثال ایسی ہے جیسے پانی برسا، فصل اچھی ہوئی اور کسان اس کو دیکھ کر خوش ہوئے لیکن پھر خشک ہو کر زرد نظر آنے لگی اور پھر ریزہ ریزہ ہو گئی۔ اور آخرت میں سب عذاب اور مغفرت اور رضوان بھی ہے اور دنیا کی زندگی تو محض دھوکے کا سرمایہ ہے۔
أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ ﴿١﴾ حَتَّىٰ زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ ﴿٢﴾(سورۃ التکاثر)
زیادتی کی خواہش نے تم کو غافل رکھا یہاں تک کہ تم قبرستان پہنچ گئے۔
وَيْلٌ لِّكُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةٍ ﴿١﴾ الَّذِي جَمَعَ مَالًا وَعَدَّدَهُ ﴿٢﴾ يَحْسَبُ أَنَّ مَالَهُ أَخْلَدَهُ ﴿٣﴾ كَلَّا ۖ لَيُنبَذَنَّ فِي الْحُطَمَةِ ﴿٤﴾(سورۃ ھمزہ)
ہر عیب کنندہ اور غیبت گو بندہ کی خرابی ہے جس نے مال کو جمع کیا اور گن گن کر رکھا وہ یہ سمجھتا ہے کہ یہ مال ہمیشہ رہے گا ہرگز نہیں بلکہ (ایک وقت آنے والا ہے جب) وہ دوزخ میں پھینک دیا جائے گا۔
وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُم بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ ۖ وَلَا تَعْدُ عَيْنَاكَ عَنْهُمْ تُرِيدُ زِينَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ ۔۔۔۔ ﴿٢٨﴾(سورۃ الکہف)
اور اپنے نفس کو ان لوگوں کے ساتھ مقید رکھ جو صبح و شام اپنے رب کی عبادت کرتے رہتے ہیں اور اللہ کی رضا کے طالب ہیں۔ اور کہیں ایسا نہ ہو کہ دنیاوی زندگی کی زینت کی طلب میں تو ان سے کنارہ کشی کر لے۔
خلاصہ
مندرجہ بالا آیات سے واضح ہوا کہ قرآن کی اصطلاح میں دنیا کہتے ہیں لعب و لہو، نام و نمود، فخر و ریا، تکبر اور اِترانے کو، مال و دولت کی فراوانی کی حرص کو، مال جمع کرنے، ننانوے کے پھیر میں رہنے کو، مال کو اس طرح ہڑپ کر جانے کو جس طرح جانور ہڑپ کر جاتے ہیں۔ دنیا کی زندگی کو آخرت پر ترجیح دینے کو، بلکہ آخرت و حساب و کتاب کے انکار کو۔ حلا ل و حرام کی تمیز کے اُٹھ جانے کو۔ مال و دولت کے حصول میں اس قدر انہماک کو کہ اللہ اور اس کے احکام سے غفلت ہو جائے۔ اللہ والوں کو چھوڑ کر مال اور مالداروں کی طرف رغبت کرنے کو۔ فرائض کے ترک کو۔ وغیرہ وغیرہ۔ اگر یہ دنیا مردار نہیں تو اور کیا ہے۔ اور اس کے طالب کتے نہیں تو اور کیا ہیں۔ یہی وہ دنیا ہے جس کو حدیث میں مردار کہا گیا ہے اور اس کے طالب کو کتا۔ قرآن و حدیث کی اصطلاح ایک ہے، کاش برق صاحب دنیا کے اصطلاح معنوں پر جو قرآن و حدیث میں بیان ہوئے ہیں غور کرتے تو کبھی غلط فہمی نہ پیدا ہوتی۔ اس مشہور مصرع میں کس خوبی سے ان اصطلاحی معنوں کو ادا کیا گیا ہے:
؎ چیست دنیا؟ از خدا غافل بدن
یعنی دنیا کیا چیز ہے؟ دنیا نام ہے اللہ سے غافل ہونے کا۔ اور اگر اللہ سے غافل نہ ہو تو پھر یہ دنیا مومن کی دنیا ہے اور یہ اصطلاحی دنیا سے علیحدہ ایک چیز ہے۔ اللہ تعالی مسلمانوں کو اس اصطلاحی دنیا سے علیحدہ رہنے کی بار بار تاکید فرماتا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُلْهِكُمْ أَمْوَالُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُمْ عَن ذِكْرِ اللَّـهِ ۚ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ ﴿٩﴾(سورۃ المنافقون)
اے ایمان والو! تمہارے مال اور تمہاری اولاد تم کو اللہ کے ذکر سے غافل نہ کر دے اور جو ایسا کرے گا وہ آخرت میں نقصان اٹھائے گا۔
إِنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ ۚ وَاللَّـهُ عِندَهُ أَجْرٌ عَظِيمٌ ﴿١٥﴾(سورۃ التغابن)
اے مسلمانو! تمہارے مال اور تمہاری اولاد آزمائش کی چیزیں ہیں اور اللہ کے پاس اجر عظیم ہے
یعنی کہیں ایسا نہ ہو کہ مال و اولاد کی حرص میں تم اللہ کو بھول جاؤ، اور اجر اعظیم سے محروم ہو جاؤ۔ پھر فرمایا:
وَمَن يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ﴿١٦﴾(سورۃ التغابن)
جو شخص نفسانی حرص و طمع سے محفوظ رہا پس ایسے ہی لوگ نجات پانے والے ہیں۔