زندگی گذارنے کے لیے استفادہ کو صرف اپنے ہی مسلک کے اکابرین ہی تک کیوں محدود کر دیا جاتا ہے۔ کیونکہ تقلید شخصی سے ہمارا اختلاف اسی بنیاد پر ہے کہ یہ ہم کو امت کے سارے اکابرین سے استفادہ سے روکتی ہے ۔
صرف خوش کن نعروں سے کام نہیں چلتا ، ان پر عمل بھی ہونا چاہئیے ۔
اگر واقعی آپ حضرات اس بات کے قائل ہیں
کیونکہ تقلید شخصی سے ہمارا اختلاف اسی بنیاد پر ہے کہ یہ ہم کو امت کے سارے اکابرین سے استفادہ سے روکتی ہے ۔
تو یہاں میرے دو سوالات ہیں
پہلا سوال
1- کیا آپ ثابت کرسکتے ہیں کہ کبھی اہل حدیث مسلک کے علماء نے اہل حدیث کے اکابریں کے فہم سے اختلاف کرکے ایسا فتوے دیے ہوں جو غیر اہل حدیث اکابر کے فہم کے مطابق ہوں ۔ اگر ایسا ہے تو حوالاجات مطلوب ہیں ورنہ آپ کی بات صرف نعرہ کہلائے گي عملا آپ حضرات بھی اپنے اکابرین کے فہم کے خلاف نہیں چلتے
دوسرا سوال سے پہلے امام ابن تیمیہ کا حوالہ جس میں انہوں نے کبھی ایک مسلک کے اکابر کی پیروی اور کبھی دوسرے مسلک کے اکابر کی پیروی کو خواہش کی وجہ سے بالاجماع غلط کہا ہے
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ایک فتوی میں لکھتے ہیں
يَكُونُونَ فِي وَقْتٍ يُقَلِّدُونَ مَنْ يُفْسِدُهُ وَفِي وَقْتٍ يُقَلِّدُونَ مَنْ يُصَحِّحُهُ بِحَسَبِ الْغَرَضِ وَالْهَوَى وَمِثْلُ هَذَا لَا يَجُوزُ بِاتِّفَاقِ الْأُمَّةِ
اس قسم کے لوگ ایک وقت میں اس کی تقلید کرتے ہیں جو نکاح کو فاسد قرار دیتا ہے اور دوسرے وقت میں اس کی جو اس کو درست قرار دیتا ہے اپنی خواہش کی وجہ سے ۔ اوراس طرح کا عمل باتفاق علماء نہ جائز ہے
وَنَظِيرُ هَذَا أَنْ يَعْتَقِدَ الرَّجُلُ ثُبُوتَ " شُفْعَةِ الْجِوَارِ " إذَا كَانَ طَالِبًا لَهَا وَيَعْتَقِدَ عَدَمَ الثُّبُوتِ إذَا كَانَ مُشْتَرِيًا ; فَإِنَّ هَذَا لَا يَجُوزُ بِالْإِجْمَاعِ
اس کی نظیر یہ ہے کہ ایک شخص جب خود طالب شفعہ ہو تو پڑوسی کے لئیے حق شفعہ کا اعتقاد رکھے(امام ابو حنیفہ کی فقہ میں پڑوسی کو حق شفعہ ہے) اور جب مشتری ہو تو اس کے ثابت ہونے کا اعتقاد نہ رکھے (امام شافعی کی فقہ میں پڑوسی کو حق شفعہ نہیں ) تو یہ باجماع ناجائز ہے ۔
علماء احناف بھی تقلید شخصی کے قائل اسی لئیے ہیں تاکہ خواہش پرستی کو روکا جاسکے ۔ ورنہ ایک مجتھد یا متبحرعالم اگر کسی مسئلہ میں دوسرے مسلک میں حق دیکھتا ہے تو اس دوسرے مسلک کے اختیار کرنے میں کوئی قباحت نہیں تفصیل کے لئیے تقلید کی شرعی حیثیت از محترم تقی عثمانی
ا
ب میرا سوال
کیا تن آسانی کے لئیے دوسرے مسلک کے اکابریں کے فتوی پر عمل کیا جاسکتا ہے ؟