• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تقلید کی جامع تعریف

ندوی

رکن
شمولیت
نومبر 20، 2011
پیغامات
152
ری ایکشن اسکور
328
پوائنٹ
57
ہربوالہوس نے حسن پرستی شعار کی
اب آبروئے شیوہ اہل نظر گئی

جس کو دیکھو،اصولی اورفقیہہ بننے پر تلاہواہے خواہ پلے میں کچھ ہویانہ ہو۔ علم سے فہم سے اگر عاری ہیں توکیاہوا،زمانہ جمہوریت کاہے اورہرشخص اپنی ڈفلی بجانے کا حق رکھتاہے اورجوجتنی زور سے ڈفلی بجائے وہ اتناہی بڑاعلامہ اورمجتہد شمار ہوسکتاہے۔

وہ دور رخصت ہوگیاجب علم کی اوراہل علم اورالفاظ کی حرمت تھی ۔ اب سب کچھ تنگ نظری اورمسلک پرستی کی بھینٹ چڑھ گیاہے۔ اگربات ہمارے مسلک کے عالم کی ہے توان سے بڑاتوکوئی ہے نہیں۔ اورجوجتنی شدت کے الفاظ بولے وہ اتناہی حامی دین ومسلک شمار کیاجاتاہے خواہ وہ اپنے اس فعل میں سراسر ریاکار ہی کیوں نہ ہو۔

جب الفاظ کی شدت وحدت ہی حمایت دین ومسلک کا واحد ذریعہ بن جایاکرتی ہے تواس دور ہواوہوس میں معتدل اورغیرجانبدار افراد کی آواز دب جاتی ہےاوریہ صرف مسلک کا جھگڑانہیں ہے بلکہ ہوگوشہ حیات اورہرشعبہ زندگی میں جاری وساری ہے۔

نہ ابن ہمام کوئی غیرمعروف عالم دین ہیں اورنہ ہی ان کے شاگرد ابن امیرالحاج کی ابن ہمام کی اصول فقہ پر لکھی گئی کتاب نایاب اورعنقاء ہے۔ ابن ہمام کی کتاب کی شرح کئی افراد نے کی ہے ہرایک دیکھ سکتاہے کہ ابن ہمام کی مراد ان حضرات نے کیاسمجھاہے۔

لیکن جب بات خود رائی عجب پسندی اوراناکی آجاتی ہے توانسان اپنی رائے کو قطعی سمجھنے لگتاہے اوراسے ایک لمحہ کیلئے بھی یہ خیال نہیں آتاکہ شاید میری رائے غلط ہو شاید مجھ سے ہی سمجھنے میں غلطی ہوئی ہو۔ وہ نہ صرف اپنی رائے کی قطعیت پر اصرار کرنے لگتاہے بلکہ دوسرئے کی رائے کے غلط ہونے پر بھی مصر ہوجاتاہے۔ اوریہیں سے شدت پسندی اورغلوکی ابتداء ہوتی ہے۔

کبھی ایسابھی ہوتاہے کہ جوچیز ایک دور میں قابل تعریف ہوتی ہے بعد میں چل کر وہی چیز قابل نفرت اورتحقیر بن جایاکرتی ہے۔مشہور حدیث ہے جس میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاہے کہ تمہاراحال اس وقت کیاہوگا جب تم امربالمعروف اورنہی عن المنکر کو چھوڑدوگے ۔صحابہ نے پوچھاکیاایسابھی وقت آئے گا۔ حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہاں بلکہ اس سے بھی زیادہ کہ تم امربالمعروف کو براسمجھوگے اورنہی عن المنکر کو براسمجھنے لگوگے ۔صحابہ نے عرض کیاکیاایسابھی وقت آئے گاجب امربالمعروف اورنہی عن المنکر کو براسمجھاجائے گا۔حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں بلکہ اس سے بھی زیادہ کہ تم برائیوں کا حکم دوگے اورمعروف سے روکوگے۔

یہ میں نے روایت کا مفہوم بیان کیاہے پوری روایت مجھے یاد نہیں ہے۔


یہ زمانی تبدیلی اورلوگوں کے مزاج کی تبدیلی کی جانب واضح اشارہ ہے۔ ویسے بھی قرب قیامت کے تعلق سے جوپیش گوئی کی احادیث ہیں اس میں بھی اس مفہوم کی حدیثیں مل جائیں گی۔ مشہور حدیث تو ہے ہے کہ بداالاسلام غریباوسیعود غریبا

تقلید کی تعریف میں عمومااس پر زور دیاگیاہے کہ ایسے شخص کے قول کو ماننا جس کا قول حجت شرعیہ میں سے نہیں ہے۔یہ توقابل تعریف بات تھی کہ اصولین حضرات نے پہلے ہی مرحلہ میں یہ بات صاف کردی ہے کہ مجتہد کی اپنی رائے یامجتہد کی بات حجت شرعیہ نہیں ہے۔اس کو پہلے اوربنیادی طور پر ذکر کرکے اصولی اورفقہاء حضرات نے اس گمراہی کو ہی ختم کردیاکہ کوئی شخص مجتہد کی بات کو بذت خود حجت شرعیہ سمجھنے لگے۔ لیکن افسوس اب یار لوگوں کی نگاہوں میں یہی چیز عیب بن گئی ہے اوراس کو انہوں نے معکوس طورپر سمجھ لیاہے کہ کسی کے قول کا حجت شرعیہ نہ ہونا اس قول کے منافی کتاب وسنت ہونے کو مستلزم ہے۔

یہ ضروری نہیں ہے کہ ہرانسان ہروقت صحیح سمجھے غلطی کا امکان رہتاہے ۔ قدیم وجدید علماء کی کتب کی ورق گردانی کریں تو پتہ چلتاہے کہ باوجودیکہ وہ علم وفضل کا پہاڑ تھے لیکن ان سے بھی غلطیاں ہوئی ہیں۔اورجب بندہ بشر ہے توغلطیاں توہوں گی ۔ برسبیل تذکرہ شیخ ناصرالدین البانی کا عہد حاضر میں علم حدیث میں جو مقام ہے وہ محتاج بیان نہیں لیکن دیکھئے ان سے کیسی غلطیاں ہوئی ہیں۔ حدیث پر حکم لگانے میں ،حدیث سے مسئلہ کا استنباط کرنے میں ،لغت حدیث کو صحیح طورپر سمجھنے میں۔

گزارش کا منشاء یہ ہے کہ ایک خانہ خالی رکھاجائے کہ غلطیاں ہم سے بھی ہوسکتی ہیں اورکوئی رائے قائم کرنے سے پہلے مصنف کے شاگردوں اوران سے قریبی تعلق رکھنے والوں کی شروحات پر ایک نگاہ ڈال لی جائے ان سے کسی "استاد حدیث"کی شان میں بٹہ نہیں لگے گا بلکہ یہ ان کی جگ ہنسائی سے بچنے کیلئے بہتر ہوگا۔

عمومی طورپر لوگ بلادلیل کا بھی صحیح مطلب نہیں سمجھتے ہیں۔


تقلید عامی کرتاہے اورعامی کا مطلب ہی یہ ہوتاہے کہ اسے دلیل اوردلیل کی شناخت کا فہم نہیں ہے۔جس طرح ایک آدمی ڈاکٹر سے یہ بحث نہیں کرتاکہ اس بیماری کی یہی دواکیوں دے رہے ہیں۔کوئی جاہل شخص وکیل سے اس کی تعریزات اورقانون کی دفعات کے تعلق سے بحث نہیں کرتا۔

بلادلیل کا تعلق عامی اورعمل کرنے والے سے ہے مجتہد کے قول نہیں ہے۔

پتہ نہیں لوگ باوجود این وآن علم وفضل اورڈگریوں کے بوجھ معمولی عبارات کا مطلب سمجھنے میں کیوں غلطی کرتے ہیں۔ یاجہالت ہے یاتجاہل ہے واللہ اعلم بالصواب ۔ یاڈگریوں کا بوجھ انہیں کسی قابل نہیں رہتے دیتا۔جیساکہ فلسفہ کا پروفیسر سوائے فلسفہ پڑھانے کے اورکسی قابل نہیں رہتا۔(مشتاق احمد یوسفی)

اگرکچھ لوگ فقہ کو بخش دیاکریں اورخود کو علم حدیث کی درس وتدریس تک ہی محدود رکھیں توشاید بہتر ہوگا؟۔

مجتہد کے قول پر دلیل اورعدم دلیل سے تقلید کی تعریف خالی اورفارغ ہے۔

ویسے تقلید کی تعریف پر اچھی بحث تو حضرت شاہ ولی اللہ علیہ الرحمہ نے بھی عقید الجید میں کی ہے۔ تقلید کو منافی کتاب وسنت بتلانے والے ذرا اس پر بھی نگاہ ڈالیں شاید کچھ نفسیاتی اورذہنی گرہ کی عقدہ کشائی ہوجائے۔ ایساہوناکچھ بعید تونہیں۔ لعل اللہ یحدث ذلک امرا

یہ کچھ باتیں اس لئے لکھی گئی ہیں کہ تقلید کی تعریف سے انجان لوگ خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اوردوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں۔ (گمراہ لفظی معنوں میں)اصطلاحی معنوں میں نہیں۔
شاید کسی کیلئے نافع ہوجائے۔ویسے تقلید کے تعلق سے مولانا تقی عثمانی صاحب کا رسالہ بھی اچھاہے اورمولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے بھی "راہ اعتدال" میں اس پر اچھی بات کہی ہے۔
اللہ ہمیں صحیح فہم سے نوازے۔آمین
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,013
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
جس کو دیکھو،اصولی اورفقیہہ بننے پر تلاہواہے خواہ پلے میں کچھ ہویانہ ہو۔ علم سے فہم سے اگر عاری ہیں توکیاہوا،زمانہ جمہوریت کاہے اورہرشخص اپنی ڈفلی بجانے کا حق رکھتاہے اورجوجتنی زور سے ڈفلی بجائے وہ اتناہی بڑاعلامہ اورمجتہد شمار ہوسکتاہے۔
میرے بھائی اپنی چھوٹی سی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے اصولی اور فقیہہ تو آپ بننے پر تلے ہوئے ہیں۔جبکہ آپ مقلد یعنی جاہل ہیں بلکہ حنفیت میں ابوحنیفہ کے بعد ہر شخص جاہل یعنی مقلد ہے۔ کیا مقلد کو اتنا علم ہوتا ہے اتنی سمجھ ہوتی ہے جس کا اظہار اس پوسٹ میں ندوی صاحب فرمارہے ہیں؟؟؟

ندوی صاحب تو ہمیں مجتہد نظر آرہے ہیں لیکن خود کو جاہل (مقلد) کہلاوانے پر بضد ہیں۔ موجودہ دور کا ہر مقلد دو چہرے رکھتا ہے۔ یعنی خود دلائل کو بھی سمجھتا ہے لیکن مقلد بھی بنا پھرتا ہے۔ آخر اس دوغلی پالیسی سے مقلدین کب توبہ کریں گے؟؟؟
 

ندوی

رکن
شمولیت
نومبر 20، 2011
پیغامات
152
ری ایکشن اسکور
328
پوائنٹ
57
میرے بھائی اپنی چھوٹی سی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے اصولی اور فقیہہ تو آپ بننے پر تلے ہوئے ہیں۔جبکہ آپ مقلد یعنی جاہل ہیں بلکہ حنفیت میں ابوحنیفہ کے بعد ہر شخص جاہل یعنی مقلد ہے۔ کیا مقلد کو اتنا علم ہوتا ہے اتنی سمجھ ہوتی ہے جس کا اظہار اس پوسٹ میں ندوی صاحب فرمارہے ہیں؟؟؟

ندوی صاحب تو ہمیں مجتہد نظر آرہے ہیں لیکن خود کو جاہل (مقلد) کہلاوانے پر بضد ہیں۔ موجودہ دور کا ہر مقلد دو چہرے رکھتا ہے۔ یعنی خود دلائل کو بھی سمجھتا ہے لیکن مقلد بھی بنا پھرتا ہے۔ آخر اس دوغلی پالیسی سے مقلدین کب توبہ کریں گے؟؟؟
بھائی میرے!مجھے اپنی جہالت کااعتراف کل بھی تھا آج بھی ہے اورکل بھی رہے گا۔اولاتوانسانی علوم ہے ہی کتنا۔اس کو "قلیل علم"بخشاگیاہے پھر اس قلیل علم میں سے ہرشخص کس قدر"علم"کاحامل ہے یہ ہرشخص غورکرسکتاہے اورہرانسان جوکچھ جانتاہے وہ اس کے نہ جاننے کے مقابلہ میں کتناہے اس پر بھی غورکرسکتاہے۔ دعاہے کہ اللہ علم اورصحیح علم اورنافع علم سے نوازے۔
میں نے اپنی جانب سے کچھ بھی نہیں کہاہے۔ صرف اتنی گزارش کی ہے کہ ابن ہمام کی اقوال جوتشریحات ان کے شاگردوں نے کی ہے اورتقلید کی تعریف اورحقیقت وماہیت میں دیگر بزرگوں نے بھی جوکچھ فرمایاہے اس پر بھی نگاہ کی جائے۔

دوی صاحب تو ہمیں مجتہد نظر آرہے ہیں لیکن خود کو جاہل (مقلد) کہلاوانے پر بضد ہیں۔ موجودہ دور کا ہر مقلد دو چہرے رکھتا ہے۔ یعنی خود دلائل کو بھی سمجھتا ہے لیکن مقلد بھی بنا پھرتا ہے۔ آخر اس دوغلی پالیسی سے مقلدین کب توبہ کریں گے؟؟؟
ہم نے توکسی بھی عالم کے بارے میں نہیں سنا کہ وہ خود کی تعریف اورمدح سرائی کررہاہو کہ میں مجہتد ہوں یہ ہوں اوروہ ہوں بلکہ ہرایک انکسار سے ہی کام لیتاہے۔ یقین نہ آئے توتاریخ وسوانح کی کتابوں سے استفادہ کریں۔
ویسے ایک انسان کسی خوبی کا حامل ہو لیکن وہ اس سے تنازل کرے تویہ بہتر ہے یاپھر یہ کہ ایک شخص اندر سے خالی ہو لیکن دعوے بڑے بڑے ہوں یعنی ڈینگیں ہانک رہاہو۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,013
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
بھائی میرے!مجھے اپنی جہالت کااعتراف کل بھی تھا آج بھی ہے اورکل بھی رہے گا۔اولاتوانسانی علوم ہے ہی کتنا۔اس کو "قلیل علم"بخشاگیاہے پھر اس قلیل علم میں سے ہرشخص کس قدر"علم"کاحامل ہے یہ ہرشخص غورکرسکتاہے اورہرانسان جوکچھ جانتاہے وہ اس کے نہ جاننے کے مقابلہ میں کتناہے اس پر بھی غورکرسکتاہے۔ دعاہے کہ اللہ علم اورصحیح علم اورنافع علم سے نوازے۔
میں نے اپنی جانب سے کچھ بھی نہیں کہاہے۔ صرف اتنی گزارش کی ہے کہ ابن ہمام کی اقوال جوتشریحات ان کے شاگردوں نے کی ہے اورتقلید کی تعریف اورحقیقت وماہیت میں دیگر بزرگوں نے بھی جوکچھ فرمایاہے اس پر بھی نگاہ کی جائے۔
جتنا علم آپ کی تحریر سے چھلک رہا ہے مقلد کو تو اتنا بھی علم نہیں ملا۔ دنیا بھر میں اگر سب سے کم اور تقریبا نہ ہونے کے برابر کسی کو علم ہے وہ مقلد ہے اسی لئے بہت سے علماء نے مقلد اور جانور میں کوئی فرق روا نہیں رکھا۔ ہم تو صرف یہ عرض کرنا چاہ رہے تھے کہ اگر آپ مقلد ہیں تو آپ کی تحریر دیکھتے ہوئے آپ کا دعویٰ جھوٹا ہے۔

ہم نے توکسی بھی عالم کے بارے میں نہیں سنا کہ وہ خود کی تعریف اورمدح سرائی کررہاہو کہ میں مجہتد ہوں یہ ہوں اوروہ ہوں بلکہ ہرایک انکسار سے ہی کام لیتاہے۔ یقین نہ آئے توتاریخ وسوانح کی کتابوں سے استفادہ کریں۔
ویسے ایک انسان کسی خوبی کا حامل ہو لیکن وہ اس سے تنازل کرے تویہ بہتر ہے یاپھر یہ کہ ایک شخص اندر سے خالی ہو لیکن دعوے بڑے بڑے ہوں یعنی ڈینگیں ہانک رہاہو۔
یہ درست ہے کہ اہل علم خود اپنی تعریف نہیں کرتا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ آج تک کسی اہل علم نے اپنے مقلد ہونے کا دعویٰ بھی نہیں کیا۔ اور جو مقلد ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور اہل علم نہیں جاہل ہوتے ہیں۔ اور حنفیوں کے ہاں تو بڑے سے بڑا علامہ، محدث، مفتی، اور فقیہہ بھی مقلد یعنی جاہل ہوتا ہے اور اس کو اپنی جہالت کے سبب یہ حق کب پہنچتا ہے کہ وہ مفتی اور محدث جیسے القابات اپنے نام کے ساتھ لگائے۔ ندوی صاحب اگر آپ کو دعویٰ اجتہاد نہیں تو آپ اپنی تقلیدی حدود سے باہر نکل کر فقہی عبارات کی تشریح کرنے انہیں سمجھنے یا سمجھانے کی کوشش نہ فرمائیں کیونکہ مقلد ہونے کے ناطے یہ آپ کا وظیفہ نہیں۔ اگر لوگوں کو گمراہ کرنے کی خاطر خود جاہل بھی بنے رہتے ہو اور دلائل کو سمجھتے ہوئے مجتہد بھی بنتے ہو۔بھائی یہ ڈرامہ بازی اچھی چیز نہیں۔
 

ندوی

رکن
شمولیت
نومبر 20، 2011
پیغامات
152
ری ایکشن اسکور
328
پوائنٹ
57
یہ درست ہے کہ اہل علم خود اپنی تعریف نہیں کرتا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ آج تک کسی اہل علم نے اپنے مقلد ہونے کا دعویٰ بھی نہیں کیا۔ اور جو مقلد ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور اہل علم نہیں جاہل ہوتے ہیں۔
آپ نے بڑی آسانی سے دعوی کردیاکہ آج تک کسی اہل علم نے اپنے مقلد ہونے کا اعتراف نہیں کیا۔کیااس دعوی سے پہلے علماء کی کتب اورارشادات کو جاننے کی کوشش کی تھی یامحض طبعیت میں ابال آیااورایک دعوی کردیا۔اگرموخرالذکر صورت ہی ہے تویہ بھی جہالت کی ایک قسم ہے۔ لیکن اس میں انسان کو اپنی جہالت کاپتہ نہیں چلتا۔یہ دراصل جہل مرکب ہے اورجہل مرکب کا حامل ہمیشہ جہالت میں ہی مبتلارہتاہے۔

ہرکس کہ نداند ونداند کہ نداند
درجہل مرکب ابدالدہربماند

جوشخص نہیں جانتااوریہ بھی نہیں جانتاکہ وہ نہیں جانتاتووہ ہمیشہ جہالت میں مبتلارہے گا۔

علامہ شاطبی صاحب موافقات اوراعتصام فقہ مالکی کے چوٹی کے فقیہہ اورامام گزرے ہیں ان کی دونوں کتابیں اپنے موضوع پر اگرحرف آخر نہیں توبھی دیگر کتابوں سے بہت حد تک بے نیاز کرنے والی ہیں۔ موافقات مقاصد شریعت پر ہے اوراعتصام بدعت اورسنت کی حقیقت پر لکھی گئی ہے۔
کوشش کریں کہ اپنے مسلک کے علماء سے بھی ان کتابوں اوراس کے مولف کے تعلق سے کچھ واقفیت فراہم کرلیں۔
ان کا ایک فرمان ذیشان دیکھئے۔

علامہ شاطبی ایک فتوی کے جواب میں فرماتے ہیں۔

انالااستحل-ان شاء اللہ-فی دین اللہ وامانتہ ان اجد قولین فی المذہب فافتی باحدھما علی التخیر مع انی مقلد ،بل اتحری ماھو المشہور والمعمول بہ فھوالذی اذکرہ للمستفتی،ولااتعرض لہ الی القول الاخر،فان اشکل علی المشہور ولم ارلاحد من الشیوخ فی احد القولین ترجیحاتوفقت(فتاوی الامام الشاطبی صفحہ94)

میں اللہ کے دین میں اوراس کی امانت میں یہ حلال نہیں سمجھتا کہ کسی مسئلہ کے سلسلہ میں مذہب (مسلک مالکی)میں دوقول پاؤں اوراپنی مرضی سے کسی ایک پر فتوی دے دوں باوجود اس کے کہ میں مقلدہوں۔ بلکہ میں غوروفکر کرتاہوں کہ مشہور اورمعمول بہ کون سامسلک ہے اوراسی کو میں فتوی پوچھنے والے کو بتاتاہوں اوردوسرے قول سے تعرض نہیں کرتا اگرمشہور قول میں کسی وجہ سے کوئی اشکال پیش آئے اورمشائخ میں سے کسی نے دوقول میں سے کسی ایک کو ترجیح نہ دی ہوتو میں توقف کرتاہوں۔
اب سوال یہ ہے کہ علامہ شاطبی کو اپنے مقلد ہونے کا اعتراف ہے تو وہ علمی شخصیت اوراہل علم ہیں یانہیں اس کو اپنے علماء سے معلوم کرکے یہاں پوسٹ کردیں۔
 

ندوی

رکن
شمولیت
نومبر 20، 2011
پیغامات
152
ری ایکشن اسکور
328
پوائنٹ
57
مناسب ہے کہ جن دوحضرات نے تقلید کی جامع ومانع تعریف کی ہے ذرا اس کا ایک جائزہ لیاجائے اوردیکھاجائے کہ وہ کس حد تک جامع ومانع ہے ۔
طالب الرحمن راشدی صاحب لکھتے ہیں (بقول ارسلان صاحب)

"کسی آدمی کی بات ماننا،جو نہ اللہ کے قرآن میں ہو ،جو نہ نبی(ﷺ)کی حدیث میں ہو،نہ اُس پر اجماع ہو اور نہ وہ مسئلہ اجتہادیہ ہو ۔کسی آدمی کی وہ بات ماننا جو حجت شریعہ میں نہ ہو،اس کو تقلید کہا جاتا ہے۔
ایک تقریر سے اقتباس

ان کی تعریف کا پہلاشق ہے

کسی آدمی کی بات ماننا

یہ کسی کے اندر جوعمومیت ہے وہ اہل اصول کے یہاں نہیں ہے۔ ہرکسی کی بات ماننے کا نام تقلید اصطلاحی نہیں ہے بلکہ مجتہد کی بات ماننے کا نام تقلید ہے۔ کیاہم محدثین کی جرح وتعدیل کی جوباتیں ماننے ہیں اس کو تقلید سے تعبیر کیاجاسکتاہے۔محدثین کرام کے جرح وتعدیل کےارشادات کو تقلید سے تعبیر کرنے پر سب سے پرشورمخالفت کی آواز اہل حدیث حضرات کے یہاں سے ہی آتی ہے ایسے میں کسی آدمی کی بات ماننے سے جیسا عموم موصوف نے کہاں سے ڈھونڈنکالا۔

آگے موصوف فرماتے ہیں

جو نہ اللہ کے قرآن میں ہو ،جو نہ نبی(ﷺ)کی حدیث میں ہو،نہ اُس پر اجماع ہو اور نہ وہ مسئلہ اجتہادیہ ہو
اب ذرااس کا ہم جائزہ لیتے چلیں

جو نہ اللہ کے قرآن میں ہو

یہ کیسے پتہ چلے گاکہ کوئی بات قرآن میں ہے یانہیں ۔ بسااوقات ایساہوتاہے کہ ایک شخص کی نگاہ اس گہرائی تک نہیں پہنچتی جہاں تک دوسرے کی نگاہ پہنچتی ہے تواول الذکرکے خیال میں وہ مسئلہ قرآن میں نہیں ہے جب کہ دوسرے کے خیال میں وہ مسئلہ قرآن میں ہے۔

اس کی بہترین مثال حضرت عمر کا مہر کے سلسلہ میں فرمان اورپھرایک خاتون کے قرآن سے استدلال پر اپنے ارادہ سے باز آجانے کا واقعہ ہے۔ ایسے ایک دونہیں حضرات مجہتدین اورفقہائ کی زندگی میں بیشتر واقعات ملتے ہیں۔

،جو نہ نبی(ﷺ)کی حدیث میں ہو

جواشکال اول الذکر میں ہے وہی اشکال ثانی الذکر میں ہے۔ اسی کے ساتھ اس کا بھی اضافہ کرلیجئے کہ براہ راست کسی موضوع پر حدیث کا ہونا الگ چیز ہے اورکسی آیت اورحدیث کے اقتضائ النص اشارۃ النص ،دلالۃ النص اورعلت کی تخریج وغیرہ میں جو اختلافات فقہاء اورمجتہدین میں ہوتے ہیں کیااس بناء پر مجتہدین جومسائل کا استنباط کرتے ہیں ان مسائل میں مجتہدین کی آراء سے موافقت کرنے والے مقلد کہلائیں گے یانہیں۔

مثلا سود کا مسئلہ ہے۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طورپر چھ چیزوں کا تعین فرمایا لیکن مجتہدین میں سے ہرایک نے اپنے فہم وفکر کے مطابق ان چھ چیزوں کی علت نکالی اوراس کو دوسری چیزوں میں بھی جاری کیا۔

اب سوال یہ ہے کہ مجتہدین عظام کی علت کی جوپیروی کرتاہے کیاوہ تقلید کرتاہے یانہیں اوراس پر تقلید کا اطلاق صحیح ہے یانہیں ۔

کیونکہ یہ علت براہ راست حدیث نبوی میں موجود نہیں ہے اورمستنبط بھی حدیث نبوی سے ہی کیاگیاہے تویہ علم کلام کی اصطلاح میں کسی حد تک لاعین ولاغیر کی مثال ہے۔

اجماع کے معاملہ میں اہل حدیث حضرات کامعاملہ بہت مشکوک اورمشتبہ رہاکرتاہے۔

تراویح کے مسئلہ میں وہ فوراہی اجماع کاانکار کردیتے ہیں اورابن دائود جسے حافظ ذہبی نے خفیف الراس یعنی عقل کا ہلکا بتایاہے اس کی واحد روایت پر امام ابوحنیفہ کے خلاف اجماع ثابت کرتے ہیں۔ بہرحال قابل غورمسئلہ یہ ہے کہ بیشتراجماع اجماع سکوتی کے قبیل سے ہے اوراجماع سکوتی کے حجت وعدم حجت میں علماء کااختلاف ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ ایک شخص ایک بات کہتاہے دوسرے لوگ تائیدیاانکار کے طورپر کچھ نہیں کہتے خاموش رہتے ہیں پھراسی بات کو ہم اختیار کرتے ہیں تو یہ تقلید کیوں نہیں ہے؟براہ کرم معقول وضاحت کریں۔ اقوال الناس بیان نہ کریں۔

اور نہ وہ مسئلہ اجتہادیہ ہو

پھرآخر میں موصوف نے جو شرط بیان کی ہے یعنی وہ مسئلہ اجتہادیہ نہ ہو ۔اس نے توکمال ہی کردیاہے اوران کی "اہل حدیث یاغیرمقلدانہ فقاہت"کا سکہ دل پر جمادیاہے۔

کوئی موصوف سے یہ توجاکر پوچھے کہ حضرت مقلد حضرات جو اپنے مجتہدین اورآئمہ کی تقلید کرتے ہیں وہ مسائل اجتہادیہ میں کرتے ہیں یاکسی دوسری چیز میں کرتے ہیں۔ایسے فقاہت سے خدابچائے کہ اصولی فقہاء کی حضرات کتابیں بھری پڑی ہیں کہ تقلید فروعات میں ہواکرتی ہے اورموصوف فرماتے ہیں کہ مسائل اجتہادیہ دائرہ تقلید سے باہر ہیں۔

بہرحال موصوف نے جو تقلید کی تعریف کی ہے

"کسی آدمی کی بات ماننا،جو نہ اللہ کے قرآن میں ہو ،جو نہ نبی(ﷺ)کی حدیث میں ہو،نہ اُس پر اجماع ہو اور نہ وہ مسئلہ اجتہادیہ ہو ۔کسی آدمی کی وہ بات ماننا جو حجت شریعہ میں نہ ہو،اس کو تقلید کہا جاتا ہے۔"
اس پر توڈاکٹر کا نسخہ وکیل کی قانونی دفعات اوردیگر پیشوں کا ہی اطلاق کیاجاسکتاہے کیونکہ ڈاکٹر اوروکیل کی بات نہ تو قرآن میں ہے نہ حدیث میں ہے اورنہ ہی اس پر اجماع ہے اورنہ ہی وہ مسائل اجتہادیہ میں سے ہے ۔

اس پر توخود موصوف طالب الرحمن سے سوال کیاجاسکتاہے کہ موصوف کے پیش کردہ تقلید کی تعریف کی رو سے وہ خود کتنی مرتبہ ایسی "تقلید"کے مرتکب ہوئے ہیں کہ بیمار ہوئے ڈاکٹر کے پاس گئے اورڈاکٹر نے دوائی لکھ دی اسے بلاچوں وچرا اوربغیر کسی دلیل کے تسلیم کرلیا۔ اورخود ان کی جماعت کتنی زیادہ اس" تقلید "کاارتکاب کررہی ہے۔

کوئی صاحب اسے ہماری ضد اور خواہ مخواہ کی بحث کا شوق نہ سمجھیں بلکہ غیرجانبداری سے موصوف کے تقلید کے تعریف کی رو سے اس کو پرکھنے کی کوشش کریں ۔

اسی طرح کوئی صاحب کسی قانونی پیچیدگی سے دوچار ہوئے۔ وکیل کے پاس گئے وکیل نے ان کو کچھ رائے مشورہ دیاانہوں نے بلاچوں وچرا اس کو تسلیم کرلیا یہ بھی موصوف کے پیش کردہ تقلید کی تعریف کی رو سے تقلید ہی ہے۔

کیونکہ یہ کیسی کی بات کے عمومیت میں شامل ہے۔ نہ قرآن کی بات ہے نہ حدیث کی بات ہے نہ اجماع کی بات ہے اورنہ ہی مسائل اجتہادیہ میں سے ہے۔ طالب الرحمن کی پیش کردہ تقلید کی تعریف اس پر پورے طور پر صادق آرہی ہے۔

ایک مثال مزید عرض کردوں

طالب الرحمن صاحب کا کمپیوٹر خراب ہوگیا۔وہ خود اس تعلق سے کچھ نہیں جانتے ہارڈ ویئر انجینئر کے پاس گئے انہوں نے کچھ بتایاانہوں نے اس پر بلاچوں وچراوبلادلیل اسے تسلیم کرلیا یہ بھی تقلید ہے کیونکہ یہ کسی کی بات ماننے میں شامل ہے۔ اورنہ قرآن وحدیث اوراجماع س اس کا تعلق ہے اورنہ ہی مسائل اجتہادیہ میں سے ہےاورانہوں نے ہارڈ ویئر انجینئر کی بات بلادلیل تسلیم کرلی لہذا تقلید کے مرتکب ہوئے۔

یہ توہوئی طالب الرحمن صاحب کی تقلید کی تعلق سے جامع ومانع تعریف کا حال

آگے رفیق طاہر صاحب کے تقلید کے تعلق سے پیش کردہ تعریف کا جائزہ لیاجائے گا۔
 
Top