رفیق طاہر صاحب نے ابن ہمام کے پیش کردہ تعریف کو جامع اورمانع تعریف قراردیاہے لیکن وہ یہ بتانابھول گئے کہ یہ تعریف جامع اورمانع کس طرح سے ہے۔ کیونکہ جو اعتراض طالب الرحمن صاحب کے پیش کردہ تعریف پرواردہوتاہے ۔وہی صورت حال یہاں بھی ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ ایسے شخص کاقول ماننا جس کا قول دلائل شرعیہ میں سے نہ ہو تویہ ہرشخص کے ساتھ خاص ہے۔ تمام پیشوں کے افراد اس میں داخل ہورہے ہیں۔ انجینئر،ڈاکٹر وکیل، عالم مجتہد،وغیرہ وغیرہ ۔ پھر یہ تعریف جامع ومانع کس طرح ہوگئی؟
رفیق طاہر صاحب کو غلط فہمی یہ ہوئی ہے کہ بلادلیل کا تعلق انہوں نے قول سے متعلق سمجھ لیاہے جب کہ بلادلیل کا تعلق عمل کرنے سے ہے۔ یعنی عامی جو اس پر عمل کررہاہے اس کے تعلق سے ہے کہ وہ دلیل کا مطالبہ کئے بغیر عمل کرے۔ بلادلیل کا تعلق قول سے قطعانہیں ہے۔ اگررفیق طاہر صاحب کو ہماری بات پر شبہ ہو تو وہ ابن ہمام کی اصول فقہ میں لکھی گئی اس کتاب کی شروحات پر ایک نگاہ دوڑالیں اوراس کے علاوہ تقلید کی تعریف پر دوسری کتابوں کو بھی دیکھ لیں ہرجگہ بلادلیل کا تعلق عمل کرنے والے سے ہے مجتہد کے قول سے نہیں ہے۔
پھر اس کے بعد رفیق طاہرصاحب نے جوکچھ خلاصہ کلام کے طورپر فرمایاہے وہ مزید باعث حیرت ہے کہ
"تقلید خلاف قرآن وسنت قول کو ماننے کانام ہے"
یہ نتیجہ انہوں نے جس طرح اخذ کیاہے وہ ادھر کا پتھر ادھر کا روڑا لے کر بھان متی کا کنبہ جوڑنے سے کسی طرح مختلف نہیں ہے۔
کیارفیق طاہر صاحب نے تقلید کایہ خلاصہ نکالنے سے قبل حنفی مالکی، شافعی حنبلی فقہاء کی تقلید کی تعریف پر نظرڈالنے کی کوشش کی ہے؟یااپنی خود ساختہ فہم اورفکر تقلید کی تعریف اورخلاصہ بنانے کی کوشش کی ہے۔
ان سب امور سے قطع نظر ان کیلئے ضروری ہے کہ وہ یہ بتائیں کہ ابن ہمام کی تعریف کس طورپر جامع اورمانع ہے؟اس سلسلے میں وہ ابن ہمام کا نام اورشخصیت کو بطوردلیل نہ پیش کریں بلکہ معقول طورپر واضح کریں کہ جامع اورمانع جس کو کہاجاتاہے کیایہ تعریف اس کی مصداق ہے ۔ اگرہے توکس طور پر ؟
کیوں کہ جو اعتراض طالب الرحمن کی تعریف پر وارد ہورہاہے وہی بلکہ اس سے زیادہ اعتراض ابن ہمام کی تعریف پر ہورہاہے؟
کیونکہ اس میں قائل کی نہ مجتہد کے طورپر تصریح ہے اورنہ جس قول پر عمل کیاجارہاہے اس کے اصول دین اورفروع دین میں ہونے کی تصریح ہے اورنہ عمل کرنے والے کے عامی ہونے کی تصریح ہے۔ پھر اس قول کی رو سے تو ڈاکٹر انجینئر،وکیل کسی کی بھی بات بلادلیل تسلیم کرناتقلید ہے؟
مسئلہ یہ ہے کہ ایسے شخص کاقول ماننا جس کا قول دلائل شرعیہ میں سے نہ ہو تویہ ہرشخص کے ساتھ خاص ہے۔ تمام پیشوں کے افراد اس میں داخل ہورہے ہیں۔ انجینئر،ڈاکٹر وکیل، عالم مجتہد،وغیرہ وغیرہ ۔ پھر یہ تعریف جامع ومانع کس طرح ہوگئی؟
اس تعریف کی وضاحت میں رفیق طاہر صاحب یوں فرماتے ہیںایسے شخص کے قول پر بلا دلیل عمل کرنا جسکا قول دلائل شرعیہ ( کتاب وسنت) میں سے نہ ہو۔
رفیق طاہر صاحب نے وضاحت میں جو ملون جملہ لکھاہے کیاوہ ابن ہمام کی پیش کردہ تعریف سے مستنبط ہورہاہے۔اس تعریف کو ذرا غور سے سمجھیں کہ ایسے شخص کا قول مان لیا جائے جسکا قول قرآن یا حدیث نہ ہو یعنی اللہ اور اسکے رسول کے علاوہ کسی اور کا قول مان لیا جائے اور پھر اسکے قول پر کوئی دلیل بھی نہ ہو ۔ یعنی اس نے جو بات کہی ہے اسکی دلیل کتاب وسنت میں موجود نہ ہو
رفیق طاہر صاحب کو غلط فہمی یہ ہوئی ہے کہ بلادلیل کا تعلق انہوں نے قول سے متعلق سمجھ لیاہے جب کہ بلادلیل کا تعلق عمل کرنے سے ہے۔ یعنی عامی جو اس پر عمل کررہاہے اس کے تعلق سے ہے کہ وہ دلیل کا مطالبہ کئے بغیر عمل کرے۔ بلادلیل کا تعلق قول سے قطعانہیں ہے۔ اگررفیق طاہر صاحب کو ہماری بات پر شبہ ہو تو وہ ابن ہمام کی اصول فقہ میں لکھی گئی اس کتاب کی شروحات پر ایک نگاہ دوڑالیں اوراس کے علاوہ تقلید کی تعریف پر دوسری کتابوں کو بھی دیکھ لیں ہرجگہ بلادلیل کا تعلق عمل کرنے والے سے ہے مجتہد کے قول سے نہیں ہے۔
پھر اس کے بعد رفیق طاہرصاحب نے جوکچھ خلاصہ کلام کے طورپر فرمایاہے وہ مزید باعث حیرت ہے کہ
"تقلید خلاف قرآن وسنت قول کو ماننے کانام ہے"
یہ نتیجہ انہوں نے جس طرح اخذ کیاہے وہ ادھر کا پتھر ادھر کا روڑا لے کر بھان متی کا کنبہ جوڑنے سے کسی طرح مختلف نہیں ہے۔
کیارفیق طاہر صاحب نے تقلید کایہ خلاصہ نکالنے سے قبل حنفی مالکی، شافعی حنبلی فقہاء کی تقلید کی تعریف پر نظرڈالنے کی کوشش کی ہے؟یااپنی خود ساختہ فہم اورفکر تقلید کی تعریف اورخلاصہ بنانے کی کوشش کی ہے۔
ان سب امور سے قطع نظر ان کیلئے ضروری ہے کہ وہ یہ بتائیں کہ ابن ہمام کی تعریف کس طورپر جامع اورمانع ہے؟اس سلسلے میں وہ ابن ہمام کا نام اورشخصیت کو بطوردلیل نہ پیش کریں بلکہ معقول طورپر واضح کریں کہ جامع اورمانع جس کو کہاجاتاہے کیایہ تعریف اس کی مصداق ہے ۔ اگرہے توکس طور پر ؟
کیوں کہ جو اعتراض طالب الرحمن کی تعریف پر وارد ہورہاہے وہی بلکہ اس سے زیادہ اعتراض ابن ہمام کی تعریف پر ہورہاہے؟
کیونکہ اس میں قائل کی نہ مجتہد کے طورپر تصریح ہے اورنہ جس قول پر عمل کیاجارہاہے اس کے اصول دین اورفروع دین میں ہونے کی تصریح ہے اورنہ عمل کرنے والے کے عامی ہونے کی تصریح ہے۔ پھر اس قول کی رو سے تو ڈاکٹر انجینئر،وکیل کسی کی بھی بات بلادلیل تسلیم کرناتقلید ہے؟