قیاس کی بنیاد کس نے ڈالی؟
ہمارا دعویٰ یہ ہے کہ قیاس شریعت نہیں ہے ۔
بلکہ یہ تو اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ شریعت مطہرہ پر ایک دھّبہ ہے ۔کیونکہ قیاس سے حرمت اور حلت ثابت نہیں ہوسکتی۔
احناف یہ کہتے ہیں کہ ہم قیاس کو مثبت لل حکم نہیں مانتے بلکہ مظہر للحکم مانتے ہیں ۔یعنی قیاس کسی چیز پر حکم نہیں لگاتا بلکہ جو حکم پوشیدہ ہے اس کو ظاہر کر دیتا ہے ۔تو عرض یہ ہے کہ یہ محض ایک باطل دعویٰ ہے ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور۔ اگر یہ مظہر للحکم ہوتا تو یہ آپس کے قیاس میں کبھی اختلاف نہیں کرتے کیوں کہ حکم تو ایک ہی ہو گا دو نہیں یہاں تو ایک ہی چیز پر چار چار حکم لگ رہے ہیں تو پتہ چلا کہ قیاس مثبت للحکم ہے نہ کہ مظہر للحکم۔
اور یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لیں کہ کسی چیز کو حرام یا حلال قرار دینا یہ صرف اللہ تعالیٰ کا کام ہے کسی ملک مقرب یا نبی مرسل کو بھی اس بات کا حق نہیں ہے کہ وہ کسی چیز کو اپنی طرف سے حرام یا حلال کہے ‘چہ جائیکہ مجتہد۔اس بات کا حق ناکسی نبی کو ہے جیسے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿ یَاأیُّھَاالنَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَاأحَلَّ اللّٰہ لَکَ﴾
ترجمہ:اے نبی کیوں حرام کرتا ہے اس چیز کو جس کو اللہ نے حلال کیا تیرے لی۔
اور ناہی کسی مجتہد کو جیسے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَلاتَقُوْلُوْا لِمَا تَصِفُ ألْسِنَتُکُمُ الْکَذِبَ ھٰذَا حَلالٌ وَھٰذَا حَرَام ٌلِتَفْتَرُوْا عَلٰی اللّٰہِ الْکَذِبَ﴾ (سورۃ النحل ۱۱۶)
ترجمہ: کسی چیز کو اپنی زبانوں سے جھوٹ موٹ نہ کہہ دیا کرو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے کہ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھ لو ۔
اور جس نے قیاس کے ذریعہ کسی چیز کو حرام یا حلال قرار دیا ہے گویا کہ اس نے اللہ پر جھوٹ باندھا ہے کیوں کہ قیاس کرنے کا مطلب یہ ہوا کہ اس کا حکم اللہ تعالیٰ نے نہیں اتارا اس لئے ہم نے اس پر حکم لگایا ہے جب کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ﴾
آج میں نے تمہارے لئے دین کو مکمل کر دیا ہے
بلکہ اللہ تعالیٰ نے تو اپنے پیارے نبی کو بھی قیاس کرنے کی اجازت نہیں دی بلکہ فرمایا،
﴿وَأنِ احْکُمْ بَیْنَھُمَ بِمَااَنْزَلَ اللّٰہُ﴾ (مائدہ ۴۹)
ترجمہ:آپ ان کے معاملات میں اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ وحی کے مطابق فیصلہ کیا کیجئے۔
اور اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔
﴿ وَمَنْ لَمْ یَحْکُمْ بِمَا اَنْزَلَ اللّٰہُ فَأولٰئِکَ ھُمُ الْکَافِرُوْنَ ﴾ (المائدہ ۴۴)
ترجمہ: اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کی اتاری ہوئی وحی کے ساتھ فیصلے نہ کریں وہ پورے اور پختہ کافر ہیں۔
دوسری آیت میں ہے
﴿ فَأولٰئِکَ ھُمُ الظَّالِمُوْنَ﴾ وہی لوگ ظالم ہیں۔ تیسری آیت میں
﴿ فَأولٰئِکَ ھُمُ الْفَاسِقُوْنَ﴾ وہی لوگ فاسق ہیں ۔یہ آیتیں بار بار اس بات کی طرف توجہ دلا رہی ہے کہ جو لوگ اپنی طرف سے یا کسی مجتہد کے غلط فتوے سے چیزوں پر حلال اور حرام کی مہر لگاتے ہیں وہ یا تو کافر ہیں یا ظالم ہیں یا فاسق ہیں۔ قیاس کے بطلان کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ اہل قیاس خود قیاس کرتے ہوئے آپس میں اختلاف کرتے ہیں ۔
جس سے اللہ تعالیٰ نے سختی سے منع فرمایا ہے۔﴿ وَلا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ تَفَرَّقُوْا وَاخْتَلَفُوْا مِنْ بَعْدِ مَا جَآئَہُمُ الْبَیِّنَات ﴾ (آل عمران۔ آیۃ ۱۰۵)۔
ترجمہ: (اور مت ہو ان لوگوں کی طرح جو فرقوں میں بٹ گئے ہیں اور آپس میں اختلاف کئے ہوئے ہیں )۔
تو ان کا قیاس میں اختلاف کرنا س بات کی دلیل ہے کہ قیاس شریعت نہیں ہے کیوں کہ شریعت میں اختلاف محال ہے جیسے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔
﴿ وَلَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلاَفًا کَثَیْرً ﴾ (النسائ۔ آیۃ۸۲)
اگر یہ شریعت اللہ کے علاوہ کسی اور کی طرف سے ہوتی تو ضرور اس کے اندر ان لوگوں کو بہت سارے اختلافات نظر آتے۔
یہاں تو بات اختلافات تک نہیں رہی بلکہ اس کی وجہ سے فرقوں میں بٹ گئے جس سے شریعت نے منع کیا ہے۔مثلاً شوافع کہتے ہیں تین بال برابر مسح کرنے سے وضوء ہو جائے گا اور احناف کہتے ہیں جب تک چوتھائی سر کا مسح نہیں کرے گا وضوء نہیں ہو گا لیکن مالکی حضرات کہتے ہیں نہ پہلے والے کا وضوء صحیح اور نہ دوسرے کا بلکہ جب تک پورے سر کا مسح نہیں کرے گا اس کا وضوء نہیں ہو گا۔
مثال نمبر ۲۔احناف کہتے ہیں کہ اگر کسی نے اﷲ أجل یا اﷲ أعظم کہتے ہوئے نیت باندھ لی تو اس کی نماز ہو جائے گی لیکن شوافع کے نزدیک یہ بے نمازی شمار ہو گا جب تک اللہ اکبر نہ کہے گا اس کی نماز نہیں ہو گی۔
مثال نمبر ۳۔احناف کہتے ہیں لفظ ھبہ یا تملیک سے نکاح منعقد ہو جائے گا اور وہ مرد اور عورت آپس میں میاں بیوی شمار ہو ں گے جو بچہ ہو گا وہ حلا ل کا ہو گا دونوں میں سے کوئی مر جائے تو دوسرا وارث بنے گا۔
لیکن شوافع کہتے ہیں کہ بغیر لفظ ( نکاح یا تزویج) کے نکاح منعقد نہیںہو گا اگر وہ صحبت کرے تو وہ زنا شمار ہو گا اور اس صحبت سے جو بچہ پیدا ہو گا وہ ـحرام کا ہو گا اور ایک مر جائے تو دوسرا مرنے والے کا وارث نہیں بنے گا ۔قارئین کرام! آپ نے دیکھ لیا کہ اہل قیاس کے قیاسات میں کتنا آسمان و زمین کا فرق اور اختلاف ہے۔ یعنی بالفاظ دیگر یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے نبی محمد ﷺ نے نہ ہمیں وضوء کاطریقہ بتا یا ہے اور نہ نماز کا طریقہ بتایا ہے اور نہ ہی شادی بیاہ کا صحیح طریقہ بتا یا ہے جس کی وجہ سے ہم قیاس کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ جبکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے
﴿اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ﴾ میں نے آج تمہارے لئے دین اسلام کو مکمل کر دیا ہے۔
﴿وَأطِیْعُوْا اللّٰہُ وَرَسُوْلَہُ وَلاَ تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْھَبَ رِیْحُکُمْ﴾ (سورۃ أنفال۔ آیۃ۴۶)
اور اطاعت کرو اللہ اور اس کے رسول کی اور آپس میں مت جھگڑو ورنہ تم بزدل ہو جائو گے اور تمہاری قوت جاتی رہے گی۔
اور اسی طرح نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے:
﴿لاَ تَخْتَلِفُوْا فَتَخْتَلِفَ قُلُوْبُکُم ﴾
(نسائی ج۲ ص۹۰، مستدرک حاکم ج۱ ص۷۶۵)
آپس میں اختلاف مت کرو ورنہ تمہارے دلوں میں بھی پھوٹ پڑ جائے گی۔
تو یہ بات ثابت ہو گئی کہ قیاس قطعاً شریعت نہیں ہے کیوں کہ قیاس نہ اللہ تعالیٰ کا قرآن ہے اور نہ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے
جبکہ اللہ کا ارشاد ہے کہ
﴿فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہٌ اِلٰی اللّٰہِ وَالرَّسُوْل﴾
ترجمہ: جب تم آپس میں اختلاف کر بیٹھو کسی بھی چیز میں تو رجوع کرو اللہ اور رسول کی طرف۔
اور یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ رجوع الی القیاس نہ رجوع الی اللہ اور نہ رجوع الی الرسول ہے اور اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتا دیا ہے کہ
قول یا فعل میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے آگے مت بڑھو:
﴿یَاأیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لاَ تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ﴾ (حجرات آیۃ۱)
دوسری بات یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے نہ خود کبھی قیاس کیا اور نہ ہی صحابہ کرام کو اس کی تعلیم دی ہے ‘اللہ تعالی کا فرمان ہے ۔
﴿وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی اِنْ ھُوَ اِلاَّ وَحْيٌ یُوْحٰی﴾ (النجم آیۃ۳،۴)
ترجمہ: محمد ﷺ اپنی خواہش سے کچھ نہیں بولتے ہیں مگر وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی کی جاتی ہے۔
اور جن لوگوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے بھی قیاس کیا ہے ان کا قول اس آیت کی رو سے مردود ہے۔ تیسری بات یہ ہے کہ یہ نبی کریم ﷺ کے فرمان کے خلاف ہے۔
عن مالک بن انس رحمہ اللہ یقول: ألزم ماقالہ رسول اللہ ﷺ فی حجۃ الوداع (أمران ترکتھما فیکم لن تضلوا ما تمسکتم بھما کتاب اللہ وسنۃ نبیہ (اعلام الموقعین ص ۲۲۶ ج۱)
امام مالک کا ارشاد ہے کہ اس بات کو مضبوطی سے پکڑ کر رکھو جو بات نبی کریم ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمائی تھی کہ ( دو چیزیں میں تمہارے درمیان چھوڑ کے جا رہا ہوں جب تک ان کو مضبوطی سے پکڑ کر رکھو گے تم ہر گز گمراہ نہیں ہو گے۔اللہ تعالیٰ کی کتاب اور اس کے نبی کریم کی سنت)۔
اسی طرح علامہ ابن عبد البر اپنی کتاب جامع بیان العلم میں نقل کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا۔
لا تھلک أمتی حتی تقع فی المقاییس فاذا وقعت فی المقاییس فقد ھلکت (مختصر جامع بیان العلم و فضلہ ص ۲۵۰)
میری امت ہلاک نہیں ہو گی جب تک قیاسات میں نہ پڑ جائے اور جب یہ قیاسات میں پڑ جائے گی تو ہلاک ہو جائے گی۔
تو اس سے یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہو گئی ہے کہ مسلمانوں کا مرجع صرف قرآن عظیم اور سنت رسول ﷺہیں جیسے کہ اللہ رب العزت کا فرمان بھی ہے۔
﴿فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلٰي اللّٰہ وَالرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ﴾ (سورۃ النساء ۵۹)
ترجمہ: ’’ اگر تمہارا آپس میں کسی بھی چیز میں جھگڑا ہو جائے تو اسے اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹائو اگر تم اللہ اور آخری دن پر ایمان رکھنے والے ہو‘‘۔
اور پوری امت کا اس پر اجماع ہے کہ اختلاف پڑ جانے کی صورت میں کتاب اللہ اور سنت رسول کو مرجع بنانا واجب ہے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے اور جمیع مفسرین امت نے اس آیت سے یہی مراد لی ہے کہ رسول ﷺ کی زندگی میں رسول کی طرف رجوع کیا جائے گا اور ان کی عدم موجودگی کی صورت میں ان کی سنت کی طرف۔
لیکن آئیے ہم آپ کو ایک ایسی شخصیت کا تعارف کرواتے ہیں جو کہ
اصول و فروع میں حنفیوں کا مرجع ہے جن کی کتابیں پڑھے بغیر کوئی حنفی مفتی یا قاضی نہیں بن سکتا بلکہ کوئی مجتہد بھی نہیں بن سکتا جب تک ان کی کتاب ’’المبسوط‘‘ یاد نہ ہو۔جن کو علامہ سرخسي کے نام سے یاد کیا جاتا ہے دیکھئے اس آیت کی معنوی تحریف کس طرح کی ہے صرف قیاس کو ثابت کرنے کے لئے اپنی کتاب ( جوکہ اصول سرخسی کے نام سے مشہور ہے ) لکھتے ہیں :۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے!
فان تنازعتم في شيء فردوہ الي اللہ والرسول ان کنتم تؤمنون باللہ والیوم الآخر أن المراد بہ القیاس الصحیح والرجوع الیہ عند المنازعۃ، وفیہ بیان أن الرجوع الیہ یکون بأمر اللہ وأمر الرسول ولا یجوز ان یقال المراد ھو الرجوع الي الکتاب والسنۃ (أصول السرخي ج۲ ص ۱۲۹)
ترجمہ: ﴿ فان تنازعتم في شيء فردوہ الی اللہ والرسول ﴾
بیشک اس سے مراد قیاس صحیح ہے اور تنازع کے وقت اسی (قیاس) کی طرف لوٹنا مراد ہے اور اس میں اس بات کا بیان ہے کہ قیاس کی طرف رجوع کرنا اللہ اور اس کے رسول کے حکم سے ہے اور یہ جائز نہیں ہے کہ یہ کہا جائے اس آیت سے مراد کتاب اللہ اور سنت رسول ہے۔
قارئین کرام! یہ بات آسمان کے ٹوٹنے سے بھی زیادہ بھاری ہے کہ کتاب اور سنت سے مراد قیاس کہا جائے ۔ یہ ہے ان کی دین داری اور یہ ہے ان کی للہیت جو کہ اپنے مذہب کو ثابت کرنے کے لئے تحریف قرآن سے بھی گریز نہیں کرتے ۔ لیکن یہ حضرات بھول گئے ہیں کہ تحریف قرآن کر کے یہ لوگ یہود و نصاریٰ کی تقلید کر رہے ہیں نہ کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی۔ جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:۔
﴿یُحَرِّفُوْنَ الْکَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِہٖ وَنَسُوْا حَظاً مِمَّا ذُکَّرُوْا بِہٖ﴾ (سورۃ مائدہ آیۃ۱۳)
وہ لوگ کلام کو اس کی جگہ سے بدل ڈالتے ہیں اور جو کچھ نصیحت انہیں کی گئی تھی اس کا بہت بڑا حصہ بھلا بیٹھے۔
صاحب تفسیر نسفی فرماتے ہیں کہ تـحریف کا مطلب (یفسرونہ علی غیر ما أنزل) یعنی خلاف منزَّل اپنی طرف سے تفسیر کرتے ہیں ۔ (تفسیر النسفی ج ۱، ص ۳۱۲)۔
آیئے آپ کو کچھ اور خطرناک تحریفات پر مطلع کرتا چلوں
مولانا محمود الحسن دیو بندی جو کہ شیخ الہند کے نام سے مشہور ہیں اپنی کتاب ایضاح الأدلۃ (ص۱۰۳) میں اسی آیت کی صریح تحریف کرتے ہیں ۔ اصل آیت یوں ہے۔
﴿ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلٰي اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الآخِر ﴾
لیکن حضرتِ اعلی صرف تقلید کو ثابت کرنے کیلئے لفظ (اولي الأمر منکم) کو بڑھاتے ہیں۔ فرماتے ہیں۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلٰي اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ وَأولِي الأمْرِ مِنْکُمْ﴾
لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ آج تک کسی حنفی عالم نے اس پر نکیر نہیں کی۔
اسی طرح مولانا محمود الحسن دیو بندی صاحب نے سنن ابی دائود میں بھی تحریف کی ہے ( امام ابو دائود رحمہ اللہ ) نے کتاب الصلاۃ میں ایک باب باندھا ہے جو کہ موسوم ہے (باب من رأی القرائۃ اذا لم یجھر) لیکن مولانا نے اس باب کو اس طرح تبدیل کر دیا اور یوں کہا (باب من کرہ القرآئۃ بفاتحۃ الکتاب اذا جھر الامام) اور اس تحریف کو ثابت کرنے کے لئے ایک اور تحریف کی طرف مجبور ہوئے کہتے ہیں ( یہ باب اور طرح سے بھی ثابت ہے) (باب من ترک القراء ۃ فیما جھر الامام) ۔
جبکہ دنیابھر کے اور دوسرے نسخوں میںیہ باب اس طرح نہیں ملتا سوائے نسخہ (مجتبائیہ) کے۔ (دیکھئے کتاب الردود ص ۲۴۱‘۲۴۶)۔
اسی طرح مولوی شبلی نعمانی حنفی عمل کو ایمان سے الگ ثابت کرنے کے لئے
ایک آیت میں لفظ(و) کے بجائے حرف(ف) استعمال کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ( ف) تعقیب کا معنی دیتی ہے جو کہ ایمان کے بعد حاصل ہوتا ہے۔
اصل آیت یوں ہے:
﴿وَمَنْ یُّوْمِنُ بِاللّٰہِ وَیَعْمَلْ صَالِحًا﴾ (الطلاق۔۱۱)
تحریف شدہ آیت ﴿وَمَنْ یُّوْمِنُ بِاللّٰہِ فَیَعْمَلْ صَالِحًا﴾
(دیکھئے کتاب الردود ص ۲۴۸)
اسی طرح ادارۃ القرآن و العلوم الالسلامیۃ کراچی والے نے بھی مصنف ابن ابی شیبہ میں ایک حدیث میں لفظ ( تحت السرۃ) کا اضافہ کیا ہے ۔ تاکہ اس سے ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا ثابت ہو۔مصنف ابن ابی شیبہ ج۱ ص ۳۹۰۔ جبکہ اس ادارہ کے وجود سے پہلے دنیا کے کسی بھی نسخہ میں اس حدیث میں یہ لفظ نہیں تھا۔
اسی طرح محمود الحسن دیو بندی صاحب نے
سنن ابی دائود کی ایک اور حدیث جس میں ( عشرین لیلۃ) کا لفظ ہے اس کو حاشیہ میں (عشرین رکعۃ) سے تحریف کر دیا ہے تا کہ بیس رکعت تراویح کو ثابت کر دیں جب کہ اس سے پہلے تمام نسخوں میں لفظ عشرین لیلۃ ہی ثابت ہے (الردود ص۵۸ ۲) یہ ہے ان بزرگوں کی دینداری اور تقویٰ۔
اور جو لوگ دین کے اندر تحریف کرتے ہیں ان لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔
{لَھُمْ فِی الدُّنْیَا خِزْيٌ وَلَھُمْ فِی الآخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ} (سورۃ المائدہ آیۃ ۳۳،۴۱)
ایسے لوگوں کے لئے دنیا میں رسوائی ہے اورآخرت میں بڑا عذاب ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو قرآن و حدیث میں تحریف کرنے سے محفوظ رکھے۔ آمین۔
آئیے اب دیکھتے ہیں قیاس کا موجد کون ہے اور اس کی بنیاد کس نے ڈالی ہے۔
ابلیس لعین سے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿قَالَ مَا مَنَعَکَ اِذْ أمَرْتُکَ قَالَ اَنَا خَیْرٌ مِّنْہُ خَلَقْتَنِی مِنْ نَّارٍ وَخَلَقْتَہُ مِنْ طِیْنٍ﴾ (الأعراف آیۃ ۱۲)
ترجمہ: فرمایا اللہ تعالیٰ نے ( ابلیس لعین سے) کیا بات ہے تجھے کس چیز نے روکا(آدم کو سجدہ کرنے سے)؟ جب میں نے تجھے حکم دیا۔ ابلیس نے جواب دیا میں تو اس سے بہتر ہوں مجھے آپ نے آگ سے پیدا کیا اور آدم کو مٹی سے۔
اس آیت کی تفسیر میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اور حسن بصری رحمہ اللہ اور محمد بن سیرین رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
أول من قاس ابلیس فأخطأ القیاس فمن قاس الدین برأیہ قرنہ مع إبلیس (تفیسرکبیر، ج ۱۴ ص ۲۹، تفسیر القرطبی ج۴ ص۱۱۰)۔
ترجمہ: سب سے پہلے قیاس کرنے والا ابلیس تھا اور پھر قیاس میں خطا کی پس جس نے بھی دین کے اندر اپنی رائے سے قیاس کیا، اللہ تعالیٰ اسے ابلیس کے ساتھ کر دے گا ۔
پس اسی طرح ابلیس لعین نے قیاس کیا اور گمراہ ہوا اور قیاس کرنے والوں کا امام بننے کا شرف حاصل کیا۔ (مزید تفصیل کے لئے سنن دارمي باب تغیر الزمان وما یحدث فیہ اور تفسیر کبیر للامام فخر الدین الرازی کا مطالعہ کریں)۔
جاری ہے.................!!!!!