• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تقلید کی حقیقت

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
علامہ کرخی حنفی کا قرآن وحدیث کے مقابلہ میں اصول گھڑنا

قرآنی آیات اور حدیثوں کی تاویلات کر کے اپنے مذہب کے تابع بنانا حنفیوں کا بنیادی اصول ہے ۔ اس سے بڑھ کرحنفی علماء نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ جو آیت اور حدیث ہمارے مذہب کے خلاف ہو گی وہ آیت یا وہ حدیث بھی منسوخ ہے ۔ دیکھئے لکھتے ہیں۔:
إن کل آیۃ تخالف قول أصحابنا فانھا تحمل علی النسخ أو علی الترجیح والأولی ان تحمل علی التأویل من جھۃ التوفیق۔ (اصول الکرخی ص ۸)۔
ترجمہ:
ہر وہ آیت جو ہمارے فقہاء کے قول کے خلاف ہو گی اسے یا تو نسخ پر محمول کیا جائے گا یا ترجیح پر محمول کیا جائے گا اور بہتر یہ ہے کہ اس آیت کو تاویل پر محمول کیا جائے تا کہ توافق ظاہر ہو جائے۔
اسی طرح لکھتے ہیں :۔
ان کل خبر یجيء بخلاف قول أصحابنا فانہ یحمل علی النسخ أوعلی أنہ معارض بمثلہ (اصول الکرخی ص۲۹)
ترجمہ :
بیشک ہر اس حدیث کو ، جو ہمارے اصحاب (یعنی فقہاء احناف) کے خلاف ہو گی ، نسخ پر محمول کی جائے گی یا یہ سمجھا جائے گا کہ یہ حدیث اس جیسی کسی دوسری حدیث کے خلاف ہے۔
بالکل یہی اصول کفار قریش نے بھی نبی کریم ﷺ کو پیش کیا تھا کہ جو کچھ قرآن میں ہمارے عقیدے کے خلاف ہے اس کو منسوخ کر دو یعنی مٹادو پھر ہم تمہاری بات مانیں گے اور تم پر ایمان لائیں گے۔ اعاذنا اﷲ من مثل ھذا التحریف۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
میر محمد صاحب کا فرشتوں کو آدم علیہ السلام کا مقلد قرار دینا

اب آئیے ہم اپنی بحث کی طرف لوٹتے ہیں جس میں میر محمد ربانی صاحب نے ابلیس ملعون کو غیر مقلد ثابت کیا ہے لکھتے ہیں۔
جب آدم علیہ السلام اپنے وقت کے خلیفہ بمعنی امام اعظم ثابت ہوئے تو ان کی تقلید و اطاعت کرنے والے فرشتگان تھے اور مقلدین آدم علیہ السلام کے نام سے موسوم ہوئے اور پہلے مقلدین قرار پائے اور ان کی تقلید و اطاعت سے بھاگنے والا ابلیس تھا جو پہلا غیر مقلد بن کر سامنے آیا۔ بعینہٖ اسی طرح امت محمدیہﷺ کے امام اعظم جناب ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید و اتباع سے بھاگنے والوں کے نام غیر مقلدین ہے جو ابلیس لعین کی تقلید اتباع کو بخوشی اور عمداً اپناتے ہیں لیکن امام اعظمؒ کی تقلید سے گھبراتے ہیں اور احناف کرام امام اعظم کے مقلدین ہیں اور فرشتگان کی مانند اپنے امام اعظم کی تقلید کو اپنانے والے ہیں
اب نتیجہ اور خلاصہ کلام یہ رہا کہ امام اعظم کا منکر یا ابلیس ہے یا ابلیس کا یار ہے۔ اور ان کا مقلد یا فرشتہ ہے یا فرشتوں کا پیروکار ہے۔ انتھٰی
جواب:
پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ نے آدم علیہ السلام کو خلیفہ یعنی امام اعظم مان لیا ہے تو دیکھیے ‘ـخلیفہ کسے کہتے ہیں ؟
الخلیفۃ:الامام الذي لیس فوقہ إمام: خلیفہ کہتے ہیں اس امام کو جس کے اوپر کوئی اور امام نہ ہو۔
پھر آپ نے ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو امام اعظم کیسے مانا۔ کیا ان کے حق میں بھی کوئی قرآنی آیت نازل ہوئی ہے ؟ کہ امام اعظم ابو حنیفہ ہیں
جیسے کہ حضرات ابراہیم علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
’’ قَالَ اِنِّيْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ إمَامًا ‘‘ (البقرۃ۱۲۴) ترجمہ:کہ میں آپ کو لوگوں کا امام بنانے والا ہوں ۔
تو جب آپ نے امام اعظم ابو ـحنیفہ رحمہ اللہ کو بنا دیا تو ثابت ہوا کہ آپ نے آدم علیہ السلام کی امامت کو نہیں مانا ۔ پھر تو ابلیس کے یار آپ بھی بن گئے ہیں اور غیر مقلد بن کر ظاہر ہو ئے۔
پھر آپ نے لکھا ہے کہ اس کی ( یعنی آدم علیہ السلام ) کی تقلید واطاعت کرنے والے فرشتگان تھے اور مقلدین آدم علیہ السلام کے نام سے موسوم ہوئے۔
عجیب بات ہے دعویٰ تو آپ کا عالم اور حکیم ہونے کا ہے اور غلطی اتنی فحش کی ہے کہ علم و حکمت کا جنازہ نکال دیا ۔ آپ کو اتنی بھی خبر نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو زمین والوں کے لئے خلیفہ بنا کر بھیجا ہے نہ کہ آسمان والوں کے لئے کہ فرشتے بھی ان کی تقلید اور اطاعت کے مکلف ہوں ۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ آپ قرآن شریف کی تفسیر سے بھی ناواقف ہیں ۔
تو دیکھئے۔
’’ وَاِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلٰکَۃِ إنِّيْ جَاعِلٌ فِی الأرْضِ خَلِیْفَۃً ‘‘ (البقرۃ ۳۰) ترجمہ: اور جب آپ کے رب نے کہا فرشتوں سے کہ میں زمین پر اپنا نائب بنانے والا ہوں ۔
صاحب جلالین اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں۔
یخلفنی في تنفیذ أحکامي فیھا وھو آدم۔ (تفسیر الجلالین ص۸)
جو زمین میں میرے احکام کو نافذ کرنے میں میرا نائب بنے گا وہ آدم علیہ السلام ہو گا۔
دوسری بات یہ کہ آپ نے فرشتوں کو آدم علیہ السلام کا مقلد قرار دیا جبکہ آدم علیہ السلام فرشتوں کے امام نہیں تھے جیسے کہ اوپر کی آیت سے ثابت ہو چکا۔وہ سجدہ جو کہ فرشتوں نے آدم علیہ السلام کو کیا تھا وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے تھا۔ نہ کہ آدم علیہ السلام کے حکم سے۔
تقلید کے نشہ میں آپ اتنے مدہوش ہو گئے ہیں کہ فرشتوں کے گلے میں بھی تقلید کا پھندہ ڈال دیا ۔ اور آگے جا کر آپ نے موسی علیہ السلام کو خضر علیہ السلام کا مقلد بنا دیا ہے۔
یعنی فرشتے بھی مقلد ہوئے، انبیاء کرام بھی مقلد ہوئے اور امام صرف ابو حنیفہ رحمہ اللہ ہیں۔ تعجب کی بات تو یہ ہے کہ جب کوئی ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو مقلد کہہ دے تو آپ کو برا لگتا ہے ۔ اور ادھر سے آپ نے فرشتوں سے لے کر انبیاء تک کو مقلد بنا دیا ہے ہمیں تو یہ خوف ہونے لگا کہ کہیں آپ لوگ آگے جا کر اللہ رب العزت کو بھی کسی کا مقلد نہ قرار دے دیں
۔ نعوذ باللہ من ھمزاتکم۔
اور پھر آپ نے لکھا ہے کہ ( یہ فرشتے پہلے مقلد ین قرار پائے) تو سوال آپ سے یہ ہے
کہ ان کو مقلدین آدم علیہ السلام قرار دینے والے اللہ اور اس کے رسول ﷺ ہیں یا آپ ہیں ؟ اگر آپ ہیں تو آپ کی بات کسی پر حجت نہیں ہے ۔
اس لئے ہمارا آپ سے وہی مطالبہ ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے:۔
’’ قُلْ ھَاتُوْا بُرْھَانَکُمْ إِنْ کُنْتُمْ صَادِقِیْنَ ‘‘ (بقرۃ ۱۱۱) ترجمہ : اگر تم اپنے دعویٰ میں سچے ہو تو دلیل لائو۔
پھر آپ نے کہا کہ ( اس کی تقلید و اطاعت سے بھاگنے والا ابلیس تھا) تو آپ جان لیں کہ آدم علیہ السلام نے ابلیس کو کوئی حکم نہیں دیا تھا ۔ جس کی وہ تقلید و اطاعت کرتا۔ اور یہ آپ کی سینہ زوری یا علمی خیانت ہے کہ ابلیس آدم علیہ السلام کی تقلید و اطاعت سے بھاگا ہے بلکہ ابلیس اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے بھاگا ہے۔قرآن میں نظر ڈالیں تو پتہ چل جائے گا کہ آپ کی بات کہاں تک درست ہے۔ قال تعالیٰ: (ففسق عن أمر ربہ) ترجمہ:پس ( ابلیس ) اپنے رب کی اطاعت سے نکل گیا۔
اور اگر آپ کا یہ دعویٰ ہے کہ کسی کو سجدہ کرنا اس کی اطاعت و تقلید کرنا ہے تو یہ دعویٰ بھی آپ کا غلط ہو گا ۔ کیوں کہ یوسف علیہ السلام کے بارے میں آتا ہے (وخروا لہ سجداً) یعنی یوسف علیہ السلام کے لئے ان کے والدین اور تمام بھائی سجدے میں گر گئے ۔ اور اس کا قائل کوئی نہیں ہے کہ یعقوب علیہ السلام اپنے بیٹوں سمیت یوسف علیہ السلام کی تقلید کرتے تھے۔
فافھم ولا تکن من الغافلین۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
میر محمد ربانی صاحب کا ابلیس کو پہلا غیر مقلد قرار دینا

موصوف لکھتے ہیں کہ
’’ ابلیس پہلا غیر مقلد بن کر سامنے آیا‘‘
تو آپ جان لیں کہ حقیقت یہ ہے کہ ابلیس ہی سب سے پہلا مقلد بن کر منظر عام پر آیا وہ اس لئے کہ اس نے اللہ تعالیٰ کے حکم کو پس پشت ڈال کر اپنی نفسانی خواہش کی تقلید کی۔تو آئیے ہم قرآن حکیم سے پوچھتے ہیں کہ کیا واقعی اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی یا اپنی خواہش کی تقلید کی۔
پہلی دلیل:
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے’’ فَفَسَقَ عَنْ أمرِ رَبَّہ ‘‘
ترجمہ:
ابلیس اپنے رب کی اطاعت سے نکل گیا۔ تو پتہ چلا کہ ابلیس نے اپنے رب کی اطاعت نہیں کی اور گمراہ ہوا بلکہ سب سے بڑا گمراہ ہوا۔
دوسری دلیل:
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’ وَمَنْ أضَلُّ مِمَّنْ اتَّبَعَ ھَوَاہُ بِغَیْرِ ھُدیً مِنَ اللّٰہ ‘‘ (القصص۵)
ترجمہ:
اس سے بڑا گمراہ کون ہو سکتا ہے جس نے اپنی خواہش کی تقلید اور تابعداری کی بغیر اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے۔
تیسری دلیل:
اللہ تعالی کا فرمان ہے: ’’ أفَرَأیِتَ مَنْ اَّتَخَذَ إلٰـھَہُ ھَوَاہُ وَأضَلَّہُ اﷲُ عَلٰی عِلْمٍ ‘‘ (الجاثیہ ۲۳)
ترجمہ:
کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو اپنا رب بنا لیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کو علم ہونے کے باوجود گمراہ کر دیا۔
تو یہ بات ہمارے لئے ان دلائل کی رو سے روز روشن کی طرح واضح ہو گئی کہ ابلیس ہی پہلا شخص تھا جس نے اپنی نفسانی خواہش کو رب بنا لیا تھا اور پھر اس کی تقلید کی اور پہلا مقلد بن کر منظر عام پر آیا۔
تو ہماری بھی احناف سے وہی نصیحت ہے جو نصیحت اللہ رب العزت نے تمام انسانیت کو کی ہے؟
’’ اِتَّبِعُوْا مَا اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِنْ رَّبِّکُمْ وَلا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِہٖ اَوْلِیَائَ قَلِیْلاً مَّا تَذکَّرُوْنَ ‘‘ (الاعراف ۳)
ترجمہ:
تم لوگ اس کی اتباع کر و جو تمہارے رب کی طرف سے آئی ہے اور اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر دوسرے رفیقوں کی اتباع مت کرو تم لوگ بہت ہی کم نصیحت مانتے ہو۔
’’ وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِیْہِ مِنْ شَیئٍ فَحُکْمُہُ اِلٰی اللّٰہِ ‘‘ (الشوری۱۰)
ترجمہ:
اور جس میں تمہارا اختلاف پڑ جائے پس لے جائو فیصلہ اس کا اللہ کی طرف۔
وقال تعالیٰ:’’ ولاَ تَتَّبِعُوْا اَھْوَائَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوا مِنْ قَبْلُ وَاَضَلُّوْا کَثِیْرًا وَضَلُّواعَنْ سَوَائِ السَّبِیْلٍ‘‘ (المائدہ ۷۷)۔
ترجمہ:
اور ان لوگوں کی نفسانی خواہشوں کی پیروی نہ کرو جو پہلے سے بہک چکے ہیں اور بہتوں کو بہکاچکے ہیں اور سیدھی راہ سے ہٹ گئے ہیں۔
وَقَالَ تَعَالیٰ’’ وَلَئِنْ اتَّبَعْتَ أھْوَائَھُمْ بَعْدَ الَّذِیْ جَائَکَ مِنَ الْعِلْمِ ماَلَکَ مِنَ اللّٰہِ مِنْ وَّلِی وَّلاَ نَصِیْرٌ‘‘ (البقرۃ ۱۲۰)
ترجمہ:
اگر آپ نے علم آنے کے باوجود بھی انکی خواہشات کی پیروی کی تو پھر اللہ کی طرف سے نہ کوئی کارساز ہو گا اور نہ مددگار۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
اور یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ ابلیس کو علم بھی تھا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے( آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنا ) لیکن پھر بھی اس نے اپنی خواہش کی تقلید کی اور گمراہ ہوا۔
میر محمد صاحب کہتے ہیں کہ مقلدین فرشتوں کی مانند اور غیر مقلدین ابلیس کی مانند ہیں ۔ اب بات ظاہر ہو گئی ہے کہ مقلدین فرشتوں کی مانند ہیں یا ابلیس ملعون کی مانند ہیں جو سب سے پہلے اپنے نفس کی تقلید کر کے مقلد ثابت ہوا۔
میر محمد صاحب آگے جا کر لکھتے ہیں۔ غیر مقلدین ’’ جو ابلیس لعین کی تقلید و اتباع کو بخوشی اور عمداً اپناتے ہیں لیکن امام اعظم کی تقلید سے گھبراتے ہیں ‘‘۔
میں کہتا ہوں مقلدین جو ابلیس لعین کی تقلید و اتباع کو بخوشی اور عمدا اپناتے ہیں ۔لیکن اس ہستی کی اتباع و پیروی سے بھاگتے ہیں جس کو رب کائنات نے تمام امت کا امام اعظم بلکہ امام الأنبیاء بنایا ہے اور اس کی پیروی کرنے کا حکم دیا ہے۔
جس کی گواہی خود قرآن پاک دے رہا ہے:
’’ وَاِذَا قِیْلَ لَھُمُ اتَّبِعُوْا مَا اَنْزَلَ اللّٰہُ قَالُوْا بَلْ نَتَّبِعُ مَاوَجَدْنَا عَلَیْہِ أبَائَنَا‘‘(سورۃ لقمان ۲۱)
ترجمہ:
جب ان سے کہا جائے کہ اتباع کرو اس کی جو کچھ اللہ تعالیٰ نے نازل کیا تو وہ ( جواب میں ) کہتے ہیں ہم تو اتباع کریں گے اسی کی جس پر ہم نے اپنے باپ دادوں کو پایا۔
اور اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
’’ وَاِذَا قِیْلَ لَھُمْ تَعَالَوْا اِلٰی مَا اَنْزَلَ اللّٰہُ وَاِلٰي الرَّسُوْلِ قَالُوْا حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَیْہِ أَبَائَنَا ‘‘ (سورۃ المائدۃ ۱۰۴)
ترجمہ:
اور جب کہا جائے ان سے آئو اس کی طرف جو کچھ اللہ تعالیٰ نے نازل کیا ( قرآن) اور رسول کی طرف( حدیث) تو وہ (جواب میں) کہتے ہیں ہمارے لئے وہی کافی ہے جس پر ہم نے اپنے باپ دادوں کو پایا ۔
تو آئیں ہم یہی سوال اللہ تعالیٰ سے کرتے ہیں کہ جو آپ کے پیارے نبی محمد ﷺ کے فیصلہ کو نہیں مانتے اور امام کے قول کے ساتھ چمٹ جاتے ہیں اور آپ کی پکار پر لبیک نہیں کہتے ہیں آپکی حدیثوں پر تب تک عمل نہیں کرتے جب تک امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا تصدیق نامہ نہ ہو اور ان کی رائے کے مطابق نہ ہو کیا یہ شخص نبی کریم ﷺ کی اتباع کر رہا ہے یا شیطان کی تقلید کر رہا ہے؟
اللہ تعالیٰ کا جواب: قال تعالیٰ:
’’ فَاِنْ لَمْ یَسْتَجِیُبوا لَکَ فَاعْلَمْ اَنَّمَا یَتَّبِعُوْنَ اَھْوَائَھُمْ ‘‘ (سورۃ القصص۵۰)
ترجمہ:
اگر یہ لوگ آپ کی بات نہیں مانتے تو اس بات کا یقین کر لیں کہ یہ صرف اپنی خواہشات کی پیروی کررہے ہیں ۔
تو پتہ چلا کہ یہ مقلدین کا پرانا مرض ہے کہ جب بھی کتاب و سنت کی طرف ان کو بلایا جائے تو وہ منہ موڑ لیتے ہیں اور اپنے عمل کے استدلال میں باپ دادوں کو پیش کرتے ہیں ۔ اور اللہ تعالیٰ نے بھی ایسے معاندین کے بارے میں ہمیں مطلع کر دیا ہے کہ یہ لوگ اگر محمد رسول اللہ ﷺ کی بات نہیں مانتے تو یقین کر لینا کہ یہ محض اپنی خواہشات کی پیروی میں سرگرداں ہیں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
مولانا عبد الغنی جاجروی اور مفتی محمدو لی درویش صاحب کا ایک شبہ اور اس کا ازالہ

مولانا عبد الغنی جاجروی صاحب اپنی کتاب اغراض الجلالین میں’’ خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَ خَلَقْتَہُ مِنْ طِیْنٍ‘‘ اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
’’ ابلیس‘‘ پہلا شخص تھا جو غیر مقلد ہوا اور یہ سوال کرتے ہیں کہ اگر تم کہو کہ وہ غیر مقلد نہیں تھا تو بتائو مقلد تھا تو کس کا تھا پس جب تم ابلیس کو مقلد ثابت نہیں کر سکے تو پتہ چلا کہ ابلیس غیر مقلد تھا…اور یہی دعویٰ مفتی محمد ولی درویش صاحب نے اپنی کتاب ’’ کیا نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ پڑھنا سنت ہے ‘‘ میں کیا ہے۔
جواب:
دونوں حضرات کے سوال کے جواب اگرچہ ہم میر محمد ربانی صاحب کے اعتراض کے جواب میں مفصل ذکر کر چکے ہیں لیکن پھر بھی موصوف کو ان کے اپنے انداز میں جواب دینا ضروری سمجھتا ہوں۔
تو جواب یہ ہے کہ جس طرح آپ کا دعویٰ ہے کہ پہلا غیر مقلد ابلیس ہے تو ہمارا دعویٰ یہ ہے کہ پہلے غیر مقلد ین فرشتے ہیں اگر آپ کہتے ہیں کہ وہ غیر مقلد نہیں تھے بلکہ مقلدین تھے تو بتائیے مقلدین تھے تو کس کے تھے؟ پس جب آپ فرشتوں کو مقلد ثابت نہیں کر سکے اور ہر گز نہیں کر سکتے تو مان لیجئے اور ایمان لائیے کہ فرشتے غیر مقلدین ہیں …اور اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا فرمان۔ ’’ اِنَّیْ جَاعِلٌ فِی الأرْضِ خَلِیْفَۃً ‘‘ ’’میں زمین میں (آدم کو) خلیفہ بنانے والا ہوں‘‘ یہ نہیں کہا کہ آسمان میں خلیفہ بنانے والا ہوں ۔
وللہ الحمد
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
اتباع اور تقلید میں فرق

اس سے پہلے کہ میر محمد صاحب کے ایک اورشبہ کا جواب دوں جس میں انہوں نے موسی علیہ السلام کو خضر علیہ السلام کا مقلد ثابت کرنے کی کوشش کی ہے ( اتباع اور تقلید کے مابین) فرق بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔
تقلید کی تعریف ہم نے پہلے صفحات میں تفصیلاً احناف کی کتابوں سے ہی بیان کر دی ہے کہ تقلید نام ہے کسی کی بات کو بغیر کسی دلیل کے قبول کر لینا۔
لیکن محترم استاذ مفتی نیو ٹائون کراچی مفتی ولی درویش صاحب کی ضد ہے کہ اتباع اور تقلید میں کوئی فرق نہیں بلکہ دونوں ایک ہی چیز ہیں کیوں کہ قرآن شریف میں لفظ اتباع تقلید کے لئے بھی استعمال ہوا ہے جیسے (فَاتَّبَعُوْا اَمْرَ فِرْعَوْنَ) کہ انہوں نے فرعون کے امر کی اتباع کی ہے ۔ اور اسی طرح دوسری جگہ میں فرمایا:
(قَالُوْا بَلْ نَتَّبِعُ مَا وَجَدْنَا عَلَیْہِ آبَائَنَا)
ہم تو اتباع کریں گے اسی چیز کی جس پر ہم نے اپنے باپ دادوں کو پایا ہے۔
تو پتہ چلا تقلید میں اتباع ہے اتباع اور تقلید میں کوئی فرق نہیں ہے۔
جواب:
پہلی بات تو یہ ہے کہ مفتی ولی صاحب نے امت کے تمام علماء کو جھٹلایا ـحنفی و غیرحنفی جنہوں نے تقلید کی تعریف کر کے اسے اتباع سے الگ کیا ہے اور اس پر رد کیا ہے۔ ذرا پھر سے صفحہ نمبر (۱۶ ۔ ۱۷) کی طرف رجوع کیجئے پھر آگے پڑھیے۔
ہمارا دعویٰ یہی ہے کہ تقلید سرا سر جہل اور گمراہی ہے پھر بھی آپ کی یاد دہانی کے لئے کچھ نقل کر دیتا ہوں ۔
کتاب التوضیح والتلویح میں ہے:
فالمعرفۃ ادراک الجزئیات عن دلیل فخرج التقلید (التوضیح والتلویح ص۱۱)
دلیل کے ساتھ جزئیات کے ادراک کو معرفت کہتے ہیں پس تقلید اس سے خارج ہو گئی۔
اسی طرح امام شافعی رحمہ اللہ نے بھی تقلید کو جہل قرار دیا ہے فرمایا:۔
وبالظن والتقلید لا یحصل العلم والمعرفۃ (فقہ الأکبر ص۷) ظن اورتقلید سے علم اور معرفت حاصل نہیں ہوتی۔
پھر آگے جا کر فرماتے ہیں ( وذلک لا یکون علماً) تقلید تو جہل ہے علم نہیں۔ اسی طرح امام احمد ابن حنبل کا فرمان ہے
(لا تقلدنی ولا تقلد مالکاً ولا الشافعي ولا الأوزاعي ولا الثوري وخذ من حیث اخذوا۔ (الاعلام ج۲ ص۳۲)
ترجمہ: تم میری تقلیدمت کرو اور نہ ہی مالک اور شافعی اور اوزاعي اور ثوری کی ۔تم بھی وہیں سے ( احکام) لو جہاں سے ان لوگون نے لئے ہیں۔
اسی طرح علامہ الوسی حنفی نے بھی تقلید کو گمراہی قرار دیا ہے لکھتے ہیں ۔
إن کان للضلالۃ أب فالتقلید ابوھا: اگر گمراہی کا کوئی باپ ہے تو تقلید اس کا باپ ہے۔(روح المعانی ج۱ ص ۹۷)
اسی طرح علامہ طحاوی رحمہ اللہ ـحنفی کا کہنا ہے:۔
لایقلد إلاعصبی أوغبي :تقلید تو متعصب یا کوئی بیوقوف ہی کرتا ہے (عقود رسم المفتی ص ۲۷)
لگتا ہے مفتی ولی صاحب قرآن کریم کو سمجھنے میں اپنے آئمہ کرام سے دو قدم آگے بڑھ گئے ہیں یا ان آئمہ کی غیر مقلد ین سے دوستی تھی جس کی بناء پر انہوں نے تقلید کے بارے میں الٹی سیدھی کہہ دی۔
بہر حال یہ تو آپ کے آپس کا مسئلہ ہے ہمیں معلوم نہیں کہ کون سچے ہیں اور کون جھوٹے اب آئیے تحقیقی جواب کی طرف:۔
تو میں یہ کہوں گا کہ شاید موصوف عربی لغت سے ناواقف ہونے کی بنا پر اتباع اور تقلید میں تمیز نہ کر سکے یا تو متجاہل بن رہے ہیں یا عوام الناس کو دھوکے میں ڈال رہے ہیں ۔
بیشک قرآن کریم میں تقلید کے لئے لفظ اتباع ہی استعمال کیا گیا ہے۔ اس سے یہ کہاں لازم آتا ہے کہ اتباع اور تقلید ایک ہی چیز ہے۔
اب آئیے دیکھئے قرآن کریم میں (سمک) یعنی مچھلی کے لئے لفظ (لحم) یعنی گوشت استعمال کیا گیا ہے۔اور اسی طرح کہیں مدینہ ( یعنی شہر) کے لئے لفظ(قریۃ) یعنی گائوں استعمال کیا گیا ہے۔ کیا اب اس سے مچھلی گوشت بن جاتی ہے اور شہر گائوں بن جاتا ہے۔ہر گز نہیں!
توپھر آئیے میں آپ کو عربی زبان کے کچھ ایسے الفاظ پر مطلع کروں جو کہ کئی معنوں کے لئے استعمال ہوئے ہیں۔کبھی تو ایک ہی لفظ اپنی ضد کے لئے بھی استعمال ہوا ہے دیکھ لیجئے لفظ ’’قرئ‘‘ عربی زبان میں حیض کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے اور طہر کے لئے بھی۔کیا اب آپ یہ کہیں گے کہ حیض اور طہر ایک ہی چیز ہے اور ان دونوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔اسی طرح لفظ ’’مولی‘‘ عربی زبان میں مالک کے معنی میں بھی آتا ہے اور غلام کے معنی کے لئے بھی آتا ہے ۔ اسی طرح لفظ’’جاریۃ‘‘ عربی زبان میں کشتی کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے اور لونڈی کیلئے بھی۔
اور اسی طرح لفظ ’’ عین‘‘ کے معنی آنکھ بھی ہے اور چشمے کو بھی کہتے ہیں اور سونے کو بھی کہتے ہیں۔
میرے خیال میں یہ چند الفاظ مثال کے طور پر مفتی ولی صاحب کو سمجھنے کے لئے کافی ہیں۔
کیا اب بھی مفتی ولی صاحب یہی کہیں گے کہ مالک اور غلام ایک ہی چیز ہے۔کشتی اور لونڈی ایک ہی چیز ہے ‘آنکھ اور چشمہ اور سونا ایک ہی چیز ہیں۔
حق تو یہ ہے کہ محل بدل جانے سے اس لفظ کا ترجمہ اور معنی بھی بدل جاتا ہے جس طرح غلام کے لئے لفظ ’’مولی‘‘ استعمال کرنے سے غلام مالک نہیں بن جاتا ہے اور مالک غلام نہیں بن جاتا اسی طرح تقلید کے لئے لفظ ’’اتباع‘‘ استعمال کرنے سے تقلید اطاعت رسول نہیں بن جاتی بلکہ تقلید ہی رہتی ہے۔
ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ اتباع اور تقلید دونوں کی ظاہری شکل ایک ہے لیکن حقیقت میں آسمان و زمین کا فرق ہے ۔ جیسے کہ پانی اور پیشاب دونوں کی ظاہری شکل تو ایک ہی ہے لیکن حقیقت میں ایک پاک دوسرا ناپاک ہے۔ اس لئے تمام آئمہ کرام نے اس ناپاکی سے سختی سے منع فرمایا ہے۔
آئیے ہم آپ کو دکھاتے ہیں کہ اس دعویٰ میں ہم اکیلے نہیں ہیں بلکہ اور بھی علماء سلف نے تقلید اور اتباع میں فر ق کیا ہے۔
دیکھئے کتاب ’’ التقلید وأحکامہ‘‘ سعد بن عبد العزیز الششری لکھتے ہیں۔
التقلید التزام المکلف مذھب غیرہ بلا حجۃ ۔اما الإتباع فھو ماثبت علیہ حجۃ ۔وممن قال بذلک ابن خویذ منداد وابن عبد البر وابن القیم والشاطبی وغیرھم۔(جامع بیان العلم ۲/۱۴۳۲ الإعتصام ص ۳۴۲ اعلام الموقعین ۲/۱۸۲)۔
ترجمہ: تقلید نام ہے چمٹ جانا مکلف کا کسی غیر کے مذہب کے ساتھ بغیر کسی دلیل کے اور اتباع کہتے ہیں جس پر دلیل ثابت ہوئی ہو ۔ اور یہ تعریف امام ابن خویذ امام ابن عبد البر ‘امام ابن القیم اور شاطبی نے کی ہے اور ان کے علاوہ کئی علماء نے بھی یہ تعریف کی ہے۔
اور اسی طرح ابو عمر ابن عبد البر رحمہ اللہ نے اس پر تمام علماء کا اجماع نقل کیا ہے فرماتے ہیں:۔
أجمع الناس علی أن المقلد لیس معدودا من اھل العلم وأن العلم معرفۃ الحق بدلیلہ فإن الناس لا یختلفون أن العلم ھو المعرفۃ الحاصلۃ عن الدلیل وأما بدون الدلیل فانما ھو تقلید (إعلام الموقعین ج۱ ص۱۷، وانظر مختصر جامع بیان العلم و فضلہ باب فساد التقلید و نفیہ ص ۲۹۲ ـ ۳۰۴)
ترجمہ: لوگوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ مقلد کو اہل علم میں سے شمار نہیںکیا گیا کیونکہ علم تو حق کو اس کی دلیل سے پہچان لینے کا نام ہے۔ لہٰذا اس بات پر کوئی اختلاف نہیں کہ علم دلیل سے حاصل شدہ معرفت کا نام ہے۔
(یاد رہے کہ تقلید کا سلسلہ باتفاق العلماء چوتھی صدی کے بعد شروع ہوا ہے اگر مفتی ولی صاحب کو تقلید اور اتباع میں فرق نظر نہیں آتا تو کیا چیز تھی جو چوتھی صدی کے بعد شروع ہوئی تھی ۔ہم نے سنا ہے کہ پیلیا کی بیماری آنکھوں میں ظاہر ہوتی ہے یہاں تو عقلوں میں بھی لگنے لگی جس کی وجہ سے تقلید بھی اتباع نظر آتی ہے۔)
یہی وجہ ہے کہ آج تک کسی بھی عالم نے اللہ کے رسول ﷺ کی اتباع کی تعریف تقلید سے نہیں کی اگر یقین نہ آئے تو کوئی بھی تفسیر اٹھا کر دیکھ لیں چاہے کسی مقلد کی یا غیرمقلد کی عربی کی ہو یا اردو کی کہیں بھی قرآن کریم میں اتباع کا لفظ رسول کے ساتھ آیا ہو اور اس کا ترجمہ یا تفسیر تقلید سے کیا گیا ہو۔ کیونکہ اتباع صرف اور صرف رسول کی ہوتی ہے اور رسول کے علاوہ دوسروں کی تقلید ہوتی ہے۔ فافھم وتدبر ولا تکن من الغافلین۔
 
شمولیت
جون 20، 2011
پیغامات
162
ری ایکشن اسکور
850
پوائنٹ
75
میر صاحب کا موسیٰ علیہ السلام کو خضر علیہ السلام کا مقلد قرار دینا


لکھتے ہیں ’’ جب سیدنا موسیٰ علیہ السلام بامر خداوندی جناب خضر علیہ السلام کی خدمت میں پہنچے تو آداب مقلدانہ بجا لاکر فرمایا:۔
﴿ ھَلْ اَتَّبِعُکَ عَلٰی اَنْ تُعَلِّمَنِی مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا﴾
ترجمہ کرتے ہیں۔ کیا میں اس شرط پر آپ کا مقلد اور متبع بن سکتا ہوں کہ اپ اپنی سکھائی گئی تعلیم کے رشدو علم سے مجھے بھی کچھ قدر بتا دیں۔
جواب: جناب میر محمد صاحب آ پ کی عبارت کا پہلا حصہ دوسرے حصہ کے متضاد ہے۔
آپ نے کہا کہ موسیٰ علیہ السلام بأمر خداوندی جناب خضرعلیہ السلام کی خدمت میں پہنچے ۔ تو یہ ثابت ہوا کہ ان کی خدمت میں جانا یہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہوا آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ جو کام اللہ تعالیٰ کے حکم سے کیا جاتا ہے وہ اتباع ہوتی ہے نہ کہ تقلید تو پھر اس عبارت میں آپ کا یوں کہنا کہ آداب مقلدانہ کو بجا لاتے ہوئے یہ بالکل ہٹ دھرمی اور سینہ زوری ہے۔
پھر آگے جا کر اس آیت کے ترجمہ میں مقلد اور متبع دونوں لفظ استعمال کئے ہیں کیوں کہ آپ کو معلوم ہے کہ نبی کبھی کسی کا مقلد نہیں ہوتا اس لئے آپ نے لفظ متبع کو ذکر کر دیا ہے تا کہ کوئی آپ پر اعتراض نہ کر سکے۔
اور ویسے بھی اس آیت سے آداب مقلد نہیں بلکہ آداب متعلم ثابت ہوتے ہیں جس پر آیت خود دلالت کرتی ہے۔
﴿ ھَلْ اَتَّبِعُکَ عَلٰی اَنْ تُعَلِّمَنِی مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا﴾
اور اس آیت کے بارے میں جمہور مفسرین یہی کہتے ہیں کہ موسیٰ علیہ السلام کا یہ سفر تحصیل علم کے لئے تھا نہ کہ تقلید کے لئے اور آپ نے ابھی ابھی جان لیا کہ علم اور تقلید دونوں متضاد چیزیں ہیں ۔
تعجب کی بات تو یہ ہے کہ جس آیت کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں علم کی اہمیت بیان کر نے کے لئے ذکر کیا ہے اس آیت سے میر محمد صاحب نے غالیانہ طریقے سے تقلید کو ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی ہے ۔ اصل بات تو یہ ہے کہ جب میر محمد صاحب سے تحریف قرآن نہ ہو سکی تو انہوں نے اس کی تفسیر میں تحریف کر دی اور ایسے ہی لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:۔
﴿وَقَدْ کاَنَ فَرِیْقٌ مِنْھُمْ یَسْمَعُوْنَ کَلاَمَ اللّٰہِ ثُمَّ یُحَرِّفُوْنَہُ مِنْ بَعْدِ مَا عَقَلُوْہُ وَھُمْ یَعْلَمُوْنَ﴾ (سورۃ البقرۃ ۷۵)
ترجمہ:تحقیق یہ ہے کہ ان میں سے ایسے لوگ بھی ہیں جو کلام اللہ کو سن کر عقل و علم والے ہوتے ہوئے پھر بھی بدل ڈالا کرتے ہیں اور وہ خوب جانتے ہیں۔
پھر آگے جا کر میر محمد صاحب کہتے ہیں ’’ اس پر موسیٰ کو خضر علیہ السلام نے کہا کہ راہ تقلیدو اتباع ایک مشکل راہ ہے اس پر آپ نہیں چل سکیں گے اور ہمت ہار کر آداب تقلید کو جواب دے دیں گے۔
﴿اِنَّکَ لَنْ تَسْتَطِیْعَ مَعِي صَبْرَا﴾
جواب:
قارئین کرام ! آپ نے میر محمد صاحب کی واضح تحریف قرآن کو دیکھ لیا ہے ۔ ہم میر محمد صاحب سے پوچھتے ہیںکہ یہ بات جو آپ نے خضر علیہ السلام کی طرف منسوب کی ہے یہ قرآن کی کون سی آیت میں ملتی ہے یا کونسی حدیث میں آئی ہے یا خضر علیہ السلام خواب میں آکر آپ کو بتا کے گئے ہیں ۔ ہم تو سمجھ رہے تھے کہ آپ لوگ صرف امام ابو ـحنیفہ رحمہ اللہ پر ہی جھوٹ باندھتے ہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ مقلد تعصب میںآکر انبیاء اور اولیاء کرام پر بھی جھوٹ باندھتا ہے۔ فلعنۃ اللہ علی الکاذبین۔
حالانکہ خضر علیہ السلام کا موسیٰ علیہ السلام سے ﴿ اِنَّکَ لَنْ تَسْتَطِیْعَ مَعِي صَبْرًا﴾ کہنے کا سبب خود قرآن میں موجود ہے کہ آگے جا کر جو کام خضر علیہ السلام سے صادر ہونے والے ہیں وہ سب ظاہری شریعت کے خلاف ہیں۔ بھلا ایک پیغمبر شریعت کے خلاف ہوتے ہوئے کام کو کس طرح برداشت کر سکتا ہے اس لئے خضر علیہ السلام نے پہلے سے ہی موسیٰ علیہ السلام کو اس بات کی تنبیہ کر دی تھی کہ آپ میرے افعال پر جو کہ شریعت کے مخالف ہوں گے میرے ساتھ صبر نہیں کر سکیں گے ۔ یہ ہے اس قصہ کی حقیقت جس کو میر محمد صاحب نے تقلید کا جامہ پہنایا ہے ۔ دیکھ لیں ۔تفسیر ابن کثیر ج ۳، ص ۱۲۵ سے ۱۳۳، تفسیر قرطبی ص ۱۳ سے ۲۸، تفسیر فتح القدیر ج ۳، ص ۴۲۵ سے ۴۳۷، تفسیر المنیرج ۸، ص ۲۸۹۔
اور آگے جا کر لکھتے ہیں:۔
﴿فَلا تَسْئلْنِیْ عَنْ شِیْئٍ حَتّٰی اُحْدِثَ لَکَ مِنْہُ ذِکْرًا﴾
یعنی تم مجھ سے کسی چیز کا سوال نہیں کرو گے جب تک کہ میں خود تم کو نہ بتائوں۔
چنانچہ تقلید امام کا مفہوم بھی یہی ہے کہ مقلد آدمی اپنے امام سے کسی دلیل کا مطالبہ نہیںکر سکتا۔ انتھی کلامہ
جواب:
جناب! اس آیت سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ دلیل کا مطالبہ نہیں کر سکتا ‘ہاں اتنا ضرور ثابت ہوتا ہے کہ دلیل کا مطالبہ کرنے میں جلدی نہ کرنا جو کہ لفظ {حَتّٰی اُحْدِثَ} سے معلوم ہوتا ہے ۔ یوں لگتا ہے تقلید کی پٹی آپ کی آنکھوں پر بندھی ہوئی ہے۔ یہاں تک کہ قرآن کی ہر جگہ میں تقلید ہی تقلید نظر آتی ہے ا س کے علاوہ کچھ اور نظر نہیںآتا۔
جناب میر محمد صاحب موسیٰ علیہ السلام کا یہ واقعہ آپ کے مذہب کے خلاف اور ہماری تائید میں ہے۔آپ ذرا قرآن پر نظر ڈال کر دیکھ لیں اور یہ بات کسی بھی عالم پر مخفی نہیںہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے ہر جگہ پر خضر علیہ السلام سے دلیل کا مطالبہ کیا ہے کہ آپ نے یہ کام کیوں کیا؟سورۃ کہف کو غور سے پڑھ لیں اور اس واقعہ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ شریعت کے خلاف کوئی بھی کام ہوتے ہوئے دیکھو تو دلیل کا مطالبہ کرو بلکہ ہمیں تو قرآن کریم یہی تعلیم دیتا ہے۔
﴿ وَلاَ تَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ﴾
ترجمہ:اس چیز کی پیروی مت کر و جس کا تم کو علم نہ ہو۔
وقال تعالیٰ:﴿قُلْ ھٰذِہٖ سَبِْیلِْی أَدْعُوْا اِلٰی اللّٰہِ عَلٰی بَصِیْرَۃٍ أنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِیْ﴾ (یوسف ۱۰۸)۔
ترجمہ: آپ فرما دیجئے کہ یہ ہے میرا راستہ میں بلاتا ہوں اللہ کی طرف معرفت اور دلیل کے ساتھ یہ میرا بھی کام ہے اور میرے ماننے والوں کا بھی۔
اب بتائیے میر محمد صاحب… قرآن کریم کی تعلیم تو یہ ہے کہ کوئی بھی کام دین کا کرو تو دلیل کے ساتھ کرو۔ اور یہ کام صرف نبی کا نہیں یا صرف مجتہد کا نہیں بلکہ ہر وہ انسان جو نبی کریم ﷺ کا امتی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے ۔ کیوں کہ قرآن میں آیا ہے ﴿ مَنِ اتَّبَعَنِیْ ﴾ جو بھی میری اتباع کرنے وا لا ہے ۔بلکہ دنیا میں جو بھی شخص دین میں کوئی بات کرے گا اس سے دلیل کا مطالبہ کرنا قرآن کریم کا حکم ہے۔
قال تعالٰی:
﴿ قُلْ ھَاتُوْا بُرْھَانَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ صَادِقِیْنَ ﴾ (الأنبیاء ۲۲)۔
ترجمہ:کہو اپنے دعویٰ پر دلیل پیش کرو اگر تم اپنے دعویٰ میں سچے ہو۔
قارئین کرام! اب آپ خود فیصلہ کریں کہ حکم اللہ تعالیٰ کا مانیں یا میر محمد صاحب کا ۔میر محمد صاحب کہتے ہیں تقلید کرتے ہوئے دلیل نہ طلب کرو اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے دلیل کے بغیر عمل نہ کرو۔یوں معلوم ہوتا ہے کہ میر محمد صاحب اللہ تبارک وتعالیٰ سے جھگڑ رہے ہیں اللہ تعالیٰ کے قوانین رد کرنے اور اپنے مذموم قوانین نافذ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ (اﷲ یھدیہ إلی صراط مستقیم)۔
 
شمولیت
جون 20، 2011
پیغامات
162
ری ایکشن اسکور
850
پوائنٹ
75
احناف کا لفظ اعتبار سے قیاس مراد لینا


ووجوب الاعتبار أی القیاس حکم مع انہ لیس من افعال الجوارح (التوضیح والتلویح ص ۳۲)۔ترجمہ: اعتبار کا واجب ہونا یعنی قیاس ( یہ اللہ تعالیٰ کا ) حکم ہے اس کے باوجود کہ یہ حکم افعال جوارح میں سے نہیں ہے ۔
یعنی احناف کا یہ کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان
﴿فَاعْتَبِرُوْا یَا أولِي الأبْصَارِ﴾ کے معنی قیاس کرو اے عقل مندو۔ تو پتہ چلا قیاس کرنا یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے دیکھئے (اصول البزدوی ص ۲۵۰، نور الأنوار ص ۲۲۴)۔
اب آئیے دیکھتے ہیں کہ احناف کا یہ دعویٰ کہاں تک صحیح ہے، سورۃ مؤمنون میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔
﴿وَاِنَّ لَکُمْ فِی الأنْعَامِ لَعِبْرَۃٌ ﴾ (مؤمنون ۲۱)
ترجمہ: ’’ تمہارے لئے ان جانوروں میں عبرت ہے ‘‘۔
اگر احناف کے مذہب کے مطابق یہاں پر معنی قیاس کا کیا جائے تو مطلب ہو گا
’’تمہارے لئے ان جانوروں میں قیاس کرنا ہے ‘‘
پھر تو مطلب یہ ہوا کہ جس طرح جانور کرتے ہیں تم بھی اسی طرح کرو نہ کھانے پینے میں کوئی پابندی جو دل میں آئے کھاو پیو اور نہ شادی بیاہ میں ۔جس سے چاہو نکاح کرلو جس طرح جانوروں کا کوئی حساب کتاب نہیں اسی طرح تمہارا بھی کوئی حساب کتاب نہیں ہو گا۔میرے خیال میں اس قیاس پر کسی حنفی کا عمل نہیں ہے۔
اسی طرح سورۃ نور میں ہے:
﴿یُقَلِّبُ اللّٰہُ اللَّیْلَ وَالنَّھَارَ اِنَّ فِی ذٰلِکَ لَعِبْرَۃٌ لأولِي الأبْصَارِ﴾ (آیت ۴۴)
اللہ تعالیٰ بادلوں میں اپنی قدرت کو بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے وہی ذات رات اور دن کو پھیرتی رہتی ہے بیشک عقلمندوں کے لئے اس میں عبرت ہے ۔
اب احناف کس پر قیاس کریں گے؟ اور ہر گز کر بھی نہیں سکتے کیوںکہ قیاس کے لئے یہاں پر کچھ نہیں ہے اگر کیا بھی ہو گا تو اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے والے ہوں گے۔ اعاذنا اﷲ من الافتراء علیہ۔
اسی طرح سورۃ یوسف میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿لَقَدْکَانَ فِي قَصَصِھِمْ عِبْرَۃٌ لأِولِي الألْبَابِ﴾ (آیت ۱۱۱)
ترجمہ: بیشک یوسف علیہ السلام اور ان کے بھائیوں کے قصہ میں بصیرت والوں کے لئے عبرت ہے۔
اس جگہ میں بھی اگر قیاس کا معنی لیا جائے تو مطلب یہ ہو گا کہ جس طرح یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے اپنے چھوٹے بھائی یوسف علیہ السلام کو کنوئیں میں ڈالا اسی طرح تم بھی اپنے چھوٹے بھائیوں کے ساتھ یہی برتائو کرو اور جس طرح انہوں نے یوسف علیہ السلام کو فروخت کیا تم بھی اپنے بھائیوں کو فروخت کر دو۔
اور شاید اس قیاس پر بھی احناف کا عمل نہیں ہے۔
علامہ ابن حزم رحمہ اللہ لکھتے ہیں۔
فلم یستح ھؤلاء القوم أن یسموا القیاس اعتبارا (الإحکام فی اصول الأحکام ج ۲ ص۳۸۷) کہ ان لوگوںکو شرم بھی نہیں آئی قیاس کو اعتبار کا نام دیتے ہوئے إنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَولُھُمْ اس سے زیادہ تعجب کی بات تو ان کا یہ کہنا ہے کہ:
لوعمل بالحدیث لانسد باب الرأی (نورالأنوار ۱۷۹)
اگر ( غیر فقیہ صحابی کی) حدیث پر عمل کیا جائے تو قیاس کا دروازہ بند ہو جاتا ہے۔
علامہ ابن حزم رحمہ اللہ لکھتے ہیں،
ولا علم أحد قط فی اللغۃ التی بھا نزل القرآن أن الإعتبار ھو القیاس (الإحکام فی اصول الأحکام ج ۲ ص ۳۸۷)
ترجمہ : آج تک کسی نے بھی نہیں جانا لغت کے اندر جس لغت میں قرآن نازل ہوا ہے کہ اعتبار کا مطلب قیاس ہے۔
بلکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس کی عظیم قدرت آسمان اور زمین کو بنانے میں اور جو کچھ اس نے اپنے دشمنوں کے ساتھ معاملہ کیا ہے اس پر فکر و تدبر کرنے کا حکم دیا ہے ۔ تا کہ ہم جان لیں کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے ۔ ایک اکیلا متصرف ہے ۔
جس کے پاس تھوڑی بھی عقل و شعور ہو اس چیز کو اچھی طرح سمجھ سکتا ہے کہ عبرت کے معنی قیاس نہیں ہیں ۔ کیوں کہ یہ پھر قرآن کریم کی تکذیب ہو گی جب کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو قیاس کے لئے کبھی استعمال نہیں کیا۔
 
شمولیت
جون 20، 2011
پیغامات
162
ری ایکشن اسکور
850
پوائنٹ
75
قیاس کی بنیاد کس نے ڈالی؟


ہمارا دعویٰ یہ ہے کہ قیاس شریعت نہیں ہے ۔

بلکہ یہ تو اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ شریعت مطہرہ پر ایک دھّبہ ہے ۔کیونکہ قیاس سے حرمت اور حلت ثابت نہیں ہوسکتی۔
احناف یہ کہتے ہیں کہ ہم قیاس کو مثبت لل حکم نہیں مانتے بلکہ مظہر للحکم مانتے ہیں ۔یعنی قیاس کسی چیز پر حکم نہیں لگاتا بلکہ جو حکم پوشیدہ ہے اس کو ظاہر کر دیتا ہے ۔تو عرض یہ ہے کہ یہ محض ایک باطل دعویٰ ہے ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور۔ اگر یہ مظہر للحکم ہوتا تو یہ آپس کے قیاس میں کبھی اختلاف نہیں کرتے کیوں کہ حکم تو ایک ہی ہو گا دو نہیں یہاں تو ایک ہی چیز پر چار چار حکم لگ رہے ہیں تو پتہ چلا کہ قیاس مثبت للحکم ہے نہ کہ مظہر للحکم۔
اور یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لیں کہ کسی چیز کو حرام یا حلال قرار دینا یہ صرف اللہ تعالیٰ کا کام ہے کسی ملک مقرب یا نبی مرسل کو بھی اس بات کا حق نہیں ہے کہ وہ کسی چیز کو اپنی طرف سے حرام یا حلال کہے ‘چہ جائیکہ مجتہد۔اس بات کا حق ناکسی نبی کو ہے جیسے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿ یَاأیُّھَاالنَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَاأحَلَّ اللّٰہ لَکَ﴾
ترجمہ:اے نبی کیوں حرام کرتا ہے اس چیز کو جس کو اللہ نے حلال کیا تیرے لی۔
اور ناہی کسی مجتہد کو جیسے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَلاتَقُوْلُوْا لِمَا تَصِفُ ألْسِنَتُکُمُ الْکَذِبَ ھٰذَا حَلالٌ وَھٰذَا حَرَام ٌلِتَفْتَرُوْا عَلٰی اللّٰہِ الْکَذِبَ﴾ (سورۃ النحل ۱۱۶)
ترجمہ: کسی چیز کو اپنی زبانوں سے جھوٹ موٹ نہ کہہ دیا کرو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے کہ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھ لو ۔
اور جس نے قیاس کے ذریعہ کسی چیز کو حرام یا حلال قرار دیا ہے گویا کہ اس نے اللہ پر جھوٹ باندھا ہے کیوں کہ قیاس کرنے کا مطلب یہ ہوا کہ اس کا حکم اللہ تعالیٰ نے نہیں اتارا اس لئے ہم نے اس پر حکم لگایا ہے جب کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ﴾
آج میں نے تمہارے لئے دین کو مکمل کر دیا ہے
بلکہ اللہ تعالیٰ نے تو اپنے پیارے نبی کو بھی قیاس کرنے کی اجازت نہیں دی بلکہ فرمایا،
﴿وَأنِ احْکُمْ بَیْنَھُمَ بِمَااَنْزَلَ اللّٰہُ﴾ (مائدہ ۴۹)
ترجمہ:آپ ان کے معاملات میں اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ وحی کے مطابق فیصلہ کیا کیجئے۔
اور اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔
﴿ وَمَنْ لَمْ یَحْکُمْ بِمَا اَنْزَلَ اللّٰہُ فَأولٰئِکَ ھُمُ الْکَافِرُوْنَ ﴾ (المائدہ ۴۴)
ترجمہ: اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کی اتاری ہوئی وحی کے ساتھ فیصلے نہ کریں وہ پورے اور پختہ کافر ہیں۔
دوسری آیت میں ہے ﴿ فَأولٰئِکَ ھُمُ الظَّالِمُوْنَ﴾ وہی لوگ ظالم ہیں۔ تیسری آیت میں﴿ فَأولٰئِکَ ھُمُ الْفَاسِقُوْنَ﴾ وہی لوگ فاسق ہیں ۔یہ آیتیں بار بار اس بات کی طرف توجہ دلا رہی ہے کہ جو لوگ اپنی طرف سے یا کسی مجتہد کے غلط فتوے سے چیزوں پر حلال اور حرام کی مہر لگاتے ہیں وہ یا تو کافر ہیں یا ظالم ہیں یا فاسق ہیں۔ قیاس کے بطلان کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ اہل قیاس خود قیاس کرتے ہوئے آپس میں اختلاف کرتے ہیں ۔
جس سے اللہ تعالیٰ نے سختی سے منع فرمایا ہے۔﴿ وَلا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ تَفَرَّقُوْا وَاخْتَلَفُوْا مِنْ بَعْدِ مَا جَآئَہُمُ الْبَیِّنَات ﴾ (آل عمران۔ آیۃ ۱۰۵)۔
ترجمہ: (اور مت ہو ان لوگوں کی طرح جو فرقوں میں بٹ گئے ہیں اور آپس میں اختلاف کئے ہوئے ہیں )۔
تو ان کا قیاس میں اختلاف کرنا س بات کی دلیل ہے کہ قیاس شریعت نہیں ہے کیوں کہ شریعت میں اختلاف محال ہے جیسے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔
﴿ وَلَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلاَفًا کَثَیْرً ﴾ (النسائ۔ آیۃ۸۲)
اگر یہ شریعت اللہ کے علاوہ کسی اور کی طرف سے ہوتی تو ضرور اس کے اندر ان لوگوں کو بہت سارے اختلافات نظر آتے۔
یہاں تو بات اختلافات تک نہیں رہی بلکہ اس کی وجہ سے فرقوں میں بٹ گئے جس سے شریعت نے منع کیا ہے۔مثلاً شوافع کہتے ہیں تین بال برابر مسح کرنے سے وضوء ہو جائے گا اور احناف کہتے ہیں جب تک چوتھائی سر کا مسح نہیں کرے گا وضوء نہیں ہو گا لیکن مالکی حضرات کہتے ہیں نہ پہلے والے کا وضوء صحیح اور نہ دوسرے کا بلکہ جب تک پورے سر کا مسح نہیں کرے گا اس کا وضوء نہیں ہو گا۔
مثال نمبر ۲۔احناف کہتے ہیں کہ اگر کسی نے اﷲ أجل یا اﷲ أعظم کہتے ہوئے نیت باندھ لی تو اس کی نماز ہو جائے گی لیکن شوافع کے نزدیک یہ بے نمازی شمار ہو گا جب تک اللہ اکبر نہ کہے گا اس کی نماز نہیں ہو گی۔
مثال نمبر ۳۔احناف کہتے ہیں لفظ ھبہ یا تملیک سے نکاح منعقد ہو جائے گا اور وہ مرد اور عورت آپس میں میاں بیوی شمار ہو ں گے جو بچہ ہو گا وہ حلا ل کا ہو گا دونوں میں سے کوئی مر جائے تو دوسرا وارث بنے گا۔
لیکن شوافع کہتے ہیں کہ بغیر لفظ ( نکاح یا تزویج) کے نکاح منعقد نہیںہو گا اگر وہ صحبت کرے تو وہ زنا شمار ہو گا اور اس صحبت سے جو بچہ پیدا ہو گا وہ ـحرام کا ہو گا اور ایک مر جائے تو دوسرا مرنے والے کا وارث نہیں بنے گا ۔قارئین کرام! آپ نے دیکھ لیا کہ اہل قیاس کے قیاسات میں کتنا آسمان و زمین کا فرق اور اختلاف ہے۔ یعنی بالفاظ دیگر یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے نبی محمد ﷺ نے نہ ہمیں وضوء کاطریقہ بتا یا ہے اور نہ نماز کا طریقہ بتایا ہے اور نہ ہی شادی بیاہ کا صحیح طریقہ بتا یا ہے جس کی وجہ سے ہم قیاس کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ جبکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ﴿اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ﴾ میں نے آج تمہارے لئے دین اسلام کو مکمل کر دیا ہے۔
﴿وَأطِیْعُوْا اللّٰہُ وَرَسُوْلَہُ وَلاَ تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْھَبَ رِیْحُکُمْ﴾ (سورۃ أنفال۔ آیۃ۴۶)
اور اطاعت کرو اللہ اور اس کے رسول کی اور آپس میں مت جھگڑو ورنہ تم بزدل ہو جائو گے اور تمہاری قوت جاتی رہے گی۔
اور اسی طرح نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے:
﴿لاَ تَخْتَلِفُوْا فَتَخْتَلِفَ قُلُوْبُکُم ﴾
(نسائی ج۲ ص۹۰، مستدرک حاکم ج۱ ص۷۶۵)
آپس میں اختلاف مت کرو ورنہ تمہارے دلوں میں بھی پھوٹ پڑ جائے گی۔
تو یہ بات ثابت ہو گئی کہ قیاس قطعاً شریعت نہیں ہے کیوں کہ قیاس نہ اللہ تعالیٰ کا قرآن ہے اور نہ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے
جبکہ اللہ کا ارشاد ہے کہ
﴿فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہٌ اِلٰی اللّٰہِ وَالرَّسُوْل﴾
ترجمہ: جب تم آپس میں اختلاف کر بیٹھو کسی بھی چیز میں تو رجوع کرو اللہ اور رسول کی طرف۔
اور یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ رجوع الی القیاس نہ رجوع الی اللہ اور نہ رجوع الی الرسول ہے اور اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتا دیا ہے کہ
قول یا فعل میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے آگے مت بڑھو:
﴿یَاأیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لاَ تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ﴾ (حجرات آیۃ۱)
دوسری بات یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے نہ خود کبھی قیاس کیا اور نہ ہی صحابہ کرام کو اس کی تعلیم دی ہے ‘اللہ تعالی کا فرمان ہے ۔
﴿وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی اِنْ ھُوَ اِلاَّ وَحْيٌ یُوْحٰی﴾ (النجم آیۃ۳،۴)
ترجمہ: محمد ﷺ اپنی خواہش سے کچھ نہیں بولتے ہیں مگر وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی کی جاتی ہے۔
اور جن لوگوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے بھی قیاس کیا ہے ان کا قول اس آیت کی رو سے مردود ہے۔ تیسری بات یہ ہے کہ یہ نبی کریم ﷺ کے فرمان کے خلاف ہے۔
عن مالک بن انس رحمہ اللہ یقول: ألزم ماقالہ رسول اللہ ﷺ فی حجۃ الوداع (أمران ترکتھما فیکم لن تضلوا ما تمسکتم بھما کتاب اللہ وسنۃ نبیہ (اعلام الموقعین ص ۲۲۶ ج۱)
امام مالک کا ارشاد ہے کہ اس بات کو مضبوطی سے پکڑ کر رکھو جو بات نبی کریم ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمائی تھی کہ ( دو چیزیں میں تمہارے درمیان چھوڑ کے جا رہا ہوں جب تک ان کو مضبوطی سے پکڑ کر رکھو گے تم ہر گز گمراہ نہیں ہو گے۔اللہ تعالیٰ کی کتاب اور اس کے نبی کریم کی سنت)۔
اسی طرح علامہ ابن عبد البر اپنی کتاب جامع بیان العلم میں نقل کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا۔
لا تھلک أمتی حتی تقع فی المقاییس فاذا وقعت فی المقاییس فقد ھلکت (مختصر جامع بیان العلم و فضلہ ص ۲۵۰)
میری امت ہلاک نہیں ہو گی جب تک قیاسات میں نہ پڑ جائے اور جب یہ قیاسات میں پڑ جائے گی تو ہلاک ہو جائے گی۔
تو اس سے یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہو گئی ہے کہ مسلمانوں کا مرجع صرف قرآن عظیم اور سنت رسول ﷺہیں جیسے کہ اللہ رب العزت کا فرمان بھی ہے۔
﴿فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلٰي اللّٰہ وَالرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ﴾ (سورۃ النساء ۵۹)
ترجمہ: ’’ اگر تمہارا آپس میں کسی بھی چیز میں جھگڑا ہو جائے تو اسے اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹائو اگر تم اللہ اور آخری دن پر ایمان رکھنے والے ہو‘‘۔
اور پوری امت کا اس پر اجماع ہے کہ اختلاف پڑ جانے کی صورت میں کتاب اللہ اور سنت رسول کو مرجع بنانا واجب ہے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے اور جمیع مفسرین امت نے اس آیت سے یہی مراد لی ہے کہ رسول ﷺ کی زندگی میں رسول کی طرف رجوع کیا جائے گا اور ان کی عدم موجودگی کی صورت میں ان کی سنت کی طرف۔
لیکن آئیے ہم آپ کو ایک ایسی شخصیت کا تعارف کرواتے ہیں جو کہ
اصول و فروع میں حنفیوں کا مرجع ہے جن کی کتابیں پڑھے بغیر کوئی حنفی مفتی یا قاضی نہیں بن سکتا بلکہ کوئی مجتہد بھی نہیں بن سکتا جب تک ان کی کتاب ’’المبسوط‘‘ یاد نہ ہو۔جن کو علامہ سرخسي کے نام سے یاد کیا جاتا ہے دیکھئے اس آیت کی معنوی تحریف کس طرح کی ہے صرف قیاس کو ثابت کرنے کے لئے اپنی کتاب ( جوکہ اصول سرخسی کے نام سے مشہور ہے ) لکھتے ہیں :۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے!
فان تنازعتم في شيء فردوہ الي اللہ والرسول ان کنتم تؤمنون باللہ والیوم الآخر أن المراد بہ القیاس الصحیح والرجوع الیہ عند المنازعۃ، وفیہ بیان أن الرجوع الیہ یکون بأمر اللہ وأمر الرسول ولا یجوز ان یقال المراد ھو الرجوع الي الکتاب والسنۃ (أصول السرخي ج۲ ص ۱۲۹)
ترجمہ: ﴿ فان تنازعتم في شيء فردوہ الی اللہ والرسول ﴾
بیشک اس سے مراد قیاس صحیح ہے اور تنازع کے وقت اسی (قیاس) کی طرف لوٹنا مراد ہے اور اس میں اس بات کا بیان ہے کہ قیاس کی طرف رجوع کرنا اللہ اور اس کے رسول کے حکم سے ہے اور یہ جائز نہیں ہے کہ یہ کہا جائے اس آیت سے مراد کتاب اللہ اور سنت رسول ہے۔
قارئین کرام! یہ بات آسمان کے ٹوٹنے سے بھی زیادہ بھاری ہے کہ کتاب اور سنت سے مراد قیاس کہا جائے ۔ یہ ہے ان کی دین داری اور یہ ہے ان کی للہیت جو کہ اپنے مذہب کو ثابت کرنے کے لئے تحریف قرآن سے بھی گریز نہیں کرتے ۔ لیکن یہ حضرات بھول گئے ہیں کہ تحریف قرآن کر کے یہ لوگ یہود و نصاریٰ کی تقلید کر رہے ہیں نہ کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی۔ جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:۔
﴿یُحَرِّفُوْنَ الْکَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِہٖ وَنَسُوْا حَظاً مِمَّا ذُکَّرُوْا بِہٖ﴾ (سورۃ مائدہ آیۃ۱۳)
وہ لوگ کلام کو اس کی جگہ سے بدل ڈالتے ہیں اور جو کچھ نصیحت انہیں کی گئی تھی اس کا بہت بڑا حصہ بھلا بیٹھے۔
صاحب تفسیر نسفی فرماتے ہیں کہ تـحریف کا مطلب (یفسرونہ علی غیر ما أنزل) یعنی خلاف منزَّل اپنی طرف سے تفسیر کرتے ہیں ۔ (تفسیر النسفی ج ۱، ص ۳۱۲)۔
آیئے آپ کو کچھ اور خطرناک تحریفات پر مطلع کرتا چلوں
مولانا محمود الحسن دیو بندی جو کہ شیخ الہند کے نام سے مشہور ہیں اپنی کتاب ایضاح الأدلۃ (ص۱۰۳) میں اسی آیت کی صریح تحریف کرتے ہیں ۔ اصل آیت یوں ہے۔
﴿ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلٰي اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الآخِر ﴾
لیکن حضرتِ اعلی صرف تقلید کو ثابت کرنے کیلئے لفظ (اولي الأمر منکم) کو بڑھاتے ہیں۔ فرماتے ہیں۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلٰي اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ وَأولِي الأمْرِ مِنْکُمْ﴾
لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ آج تک کسی حنفی عالم نے اس پر نکیر نہیں کی۔
اسی طرح مولانا محمود الحسن دیو بندی صاحب نے سنن ابی دائود میں بھی تحریف کی ہے ( امام ابو دائود رحمہ اللہ ) نے کتاب الصلاۃ میں ایک باب باندھا ہے جو کہ موسوم ہے (باب من رأی القرائۃ اذا لم یجھر) لیکن مولانا نے اس باب کو اس طرح تبدیل کر دیا اور یوں کہا (باب من کرہ القرآئۃ بفاتحۃ الکتاب اذا جھر الامام) اور اس تحریف کو ثابت کرنے کے لئے ایک اور تحریف کی طرف مجبور ہوئے کہتے ہیں ( یہ باب اور طرح سے بھی ثابت ہے) (باب من ترک القراء ۃ فیما جھر الامام) ۔
جبکہ دنیابھر کے اور دوسرے نسخوں میںیہ باب اس طرح نہیں ملتا سوائے نسخہ (مجتبائیہ) کے۔ (دیکھئے کتاب الردود ص ۲۴۱‘۲۴۶)۔
اسی طرح مولوی شبلی نعمانی حنفی عمل کو ایمان سے الگ ثابت کرنے کے لئے
ایک آیت میں لفظ(و) کے بجائے حرف(ف) استعمال کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ( ف) تعقیب کا معنی دیتی ہے جو کہ ایمان کے بعد حاصل ہوتا ہے۔
اصل آیت یوں ہے:
﴿وَمَنْ یُّوْمِنُ بِاللّٰہِ وَیَعْمَلْ صَالِحًا﴾ (الطلاق۔۱۱)
تحریف شدہ آیت ﴿وَمَنْ یُّوْمِنُ بِاللّٰہِ فَیَعْمَلْ صَالِحًا﴾
(دیکھئے کتاب الردود ص ۲۴۸)
اسی طرح ادارۃ القرآن و العلوم الالسلامیۃ کراچی والے نے بھی مصنف ابن ابی شیبہ میں ایک حدیث میں لفظ ( تحت السرۃ) کا اضافہ کیا ہے ۔ تاکہ اس سے ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا ثابت ہو۔مصنف ابن ابی شیبہ ج۱ ص ۳۹۰۔ جبکہ اس ادارہ کے وجود سے پہلے دنیا کے کسی بھی نسخہ میں اس حدیث میں یہ لفظ نہیں تھا۔
اسی طرح محمود الحسن دیو بندی صاحب نے
سنن ابی دائود کی ایک اور حدیث جس میں ( عشرین لیلۃ) کا لفظ ہے اس کو حاشیہ میں (عشرین رکعۃ) سے تحریف کر دیا ہے تا کہ بیس رکعت تراویح کو ثابت کر دیں جب کہ اس سے پہلے تمام نسخوں میں لفظ عشرین لیلۃ ہی ثابت ہے (الردود ص۵۸ ۲) یہ ہے ان بزرگوں کی دینداری اور تقویٰ۔
اور جو لوگ دین کے اندر تحریف کرتے ہیں ان لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔
{لَھُمْ فِی الدُّنْیَا خِزْيٌ وَلَھُمْ فِی الآخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ} (سورۃ المائدہ آیۃ ۳۳،۴۱)
ایسے لوگوں کے لئے دنیا میں رسوائی ہے اورآخرت میں بڑا عذاب ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو قرآن و حدیث میں تحریف کرنے سے محفوظ رکھے۔ آمین۔
آئیے اب دیکھتے ہیں قیاس کا موجد کون ہے اور اس کی بنیاد کس نے ڈالی ہے۔
ابلیس لعین سے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿قَالَ مَا مَنَعَکَ اِذْ أمَرْتُکَ قَالَ اَنَا خَیْرٌ مِّنْہُ خَلَقْتَنِی مِنْ نَّارٍ وَخَلَقْتَہُ مِنْ طِیْنٍ﴾ (الأعراف آیۃ ۱۲)
ترجمہ: فرمایا اللہ تعالیٰ نے ( ابلیس لعین سے) کیا بات ہے تجھے کس چیز نے روکا(آدم کو سجدہ کرنے سے)؟ جب میں نے تجھے حکم دیا۔ ابلیس نے جواب دیا میں تو اس سے بہتر ہوں مجھے آپ نے آگ سے پیدا کیا اور آدم کو مٹی سے۔
اس آیت کی تفسیر میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اور حسن بصری رحمہ اللہ اور محمد بن سیرین رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
أول من قاس ابلیس فأخطأ القیاس فمن قاس الدین برأیہ قرنہ مع إبلیس (تفیسرکبیر، ج ۱۴ ص ۲۹، تفسیر القرطبی ج۴ ص۱۱۰)۔
ترجمہ: سب سے پہلے قیاس کرنے والا ابلیس تھا اور پھر قیاس میں خطا کی پس جس نے بھی دین کے اندر اپنی رائے سے قیاس کیا، اللہ تعالیٰ اسے ابلیس کے ساتھ کر دے گا ۔
پس اسی طرح ابلیس لعین نے قیاس کیا اور گمراہ ہوا اور قیاس کرنے والوں کا امام بننے کا شرف حاصل کیا۔ (مزید تفصیل کے لئے سنن دارمي باب تغیر الزمان وما یحدث فیہ اور تفسیر کبیر للامام فخر الدین الرازی کا مطالعہ کریں)۔
جاری ہے.................!!!!!
 
شمولیت
جون 20، 2011
پیغامات
162
ری ایکشن اسکور
850
پوائنٹ
75
اسلام صرف ایک ہے


۱۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿ اِنَّ الدَّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الاِسْلاَمُ﴾ (سورۃ أل عمران آیہ ۱۹)
ایک اور جگہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَمَنْ یَبْتَغِ غَیْرَالاِسْلاَمِ دِیْنًا فَلَنْ یُقْبَلَ مِنْہُ (آل عمران ۸۵)
۳۔اسی طرح اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿شَھرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْآنُ ھُدًی لَّلنَّاسِ﴾ (البقرۃ ۱۸۵)
۴۔اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿ وَمَا اَرْسَلْنَاکَ اِلاَّ کَافَّۃً لِلنَّاسِ﴾ (الأنبیائ۱۰۷)
قارئین کرام!
۱۔ مذکورہ بالا دونوں آیتوں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اسلام صرف ایک ہے جو کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک قابل قبول ہے اور جو اس کے علاوہ کوئی اور دین کی تلاش میں ہے اس کا دین مردود ہے۔
۲۔ اور تیسری آیت سے یہ بات ثابت ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کی ہدایت کے و اسطے صرف ایک قرآن نازل فرمایا دو نہیں ۔
۳۔ اور چوتھی آیت سے یہ بات ثابت ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے پوری دنیا کے انسانوں کی رہنمائی کے لئے آخری نبی محمد ﷺ کو بھیجا ہے اور کوئی نبی نہیں۔ ان تینوں اصولوں میں کسی بھی مسلمان کا اختلاف نہیں ہے۔
قارئین کرام! یاد رہے کہ جس طرح نبی سب کا ایک ہے، قرآن سب کا ایک ہے، دین اسلام سب کا ایک ہے اور جو شخص دو اسلام ہونے کا قائل ہے وہ بالا تفاق سب کے نزدیک قرآن و حدیث کی روشنی میں کافر ہے ۔ او ر اسی طرح جو حکم اللہ تعالیٰ نے مشرق والوں کے لئے نازل فرمایا ہے وہی حکم مغرب والوں کے لئے بھی ہے اور جو حکم عربیوں کے لئے ہے وہی حکم عجمیوں کے لئے بھی ہو گا۔ اور جو یہ کہتا ہے کہ نہیںبلکہ ہندوستانیوں کے لئے الگ حکم ہے عربیوں کے لئے الگ حکم ہے پاکستانیوں کیلئے الگ حکم ہے اور سعودیوں کیلئے الگ حکم ہے تو گویا کہ وہ یہ کہنا چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دو اسلام نازل کئے ہیں۔کسی پر سختی کا حکم نازل فرمایا ہے اور کسی پر نرمی کا کسی پر کسی چیز کو حلال قرار دیا ہے اور کسی پر حرام کسی کے لئے جائز قرار دیا ہے اور کسی کے لئے ناجائز جیسے کہ ماسٹر امین اوکاڑوی حنفی متعصب کا خیال ہے کہ علاقہ کے اعتبار سے حلال حرام جائز یا ناجائز کا اختلاف کرنا درست ہے ۔
نعوذ باللہ یہ اللہ تعالیٰ سے کبھی صادر نہیں ہو سکتا ۔ کیوں کہ یہ چیز اللہ تعالی کی شریعت مطہرہ میں اختلافات کو ثابت کرتی ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کی شریعت اختلافات سے پاک ہے جس کی گواہی خود قرآن کریم دے رہا ہے۔
﴿ لَوْکَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلافًا کَثِیْرَا﴾ (النساء :۸۲)
ترجمہ:اگر یہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کی طرف سے ہوتا تو ضرور یہ لوگ اس کے اندر بہت سارے اختلافات پاتے۔
اور اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَلاَ تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ تَفَرَّقُوْا وَاخْتَلَفُوْا مِنْ بَعْدِ مَا جَائَ تْھُمُ الْبَیَّنَاتُ﴾ (آل عمران ۱۰۵)
ترجمہ:’’ تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے اپنے پاس روشن دلیلیں آ جانے کے بعد بھی تفرقہ ڈالا‘‘
اس جگہ پر کوئی یہ اعتراض نہ کرے کہ اس طرح کے اختلافات تو صحابہ کرام کے درمیان بھی تھے۔تو پھر وعید ان کو بھی شامل ہے؟
تو ہم عرض کریں گے کہ کوئی بھی صحابی ایسے متعصب نہیں تھے کہ ان کے سامنے قرآن و حدیث پیش کرنے کے بعد بھی وہ اپنی رائے پر ڈٹے رہیں بلکہ اپنی رائے کو چھوڑ کر قرآن و حدیث سے چمٹ جاتے جبکہ مقلدین اس کے بر خلاف ہیں بلکہ اپنی رائے کو ثابت کرنے کے لئے قرآن و حدیث میں بھی تحریف کر ڈالتے ہیں جیسے کہ پیچھے مثالیں گزر چکی ہیں۔
اس لئے صحابہ کرام اس وعید میں داخل نہیں ہیں۔
اب آئیے دیکھتے ہیں کہ مقلدین کا یہ دعویٰ کہاں تک صحیح ہے کہ ہمارے مذاہب کے درمیان حلا ل و حرام، جائز و ناجائز کا اختلاف نہیں ہے بلکہ افضل و غیر افضل کا اختلاف ہے ۔ پھر آپ خود ہی فیصلہ کر لیں کہ یہ اختلافات حرام و حلال میں ہے یا افضل و غیر افضل میں۔ یاد رہے اسلام کے اندر بالا تفاق تمام علماء کے نزدیک ایک چیز یا تو حلال ہو گی یا حرام ہو گی یا ناجائز ہو گی یا جائز ہوگی یا تو پاک یا ناپاک دونوںحکم ایک ہی چیز میں جمع ہونا ناممکن اور محال ہے ۔ جیسے کہ امام شافعی رحمہ اللہ کا فرمان ہے (الأقوال کثیرۃ والحق فی واحد) کہ اقوال بہت سارے ہیں لیکن حق صرف ایک کے اندر ہے۔ کچھ مثالیں طہارت کے اندر دیکھ لیں۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top