قروء کی تشریح میں ہمارے علماء کی عام رائے امام شافعی کے بجائے احناف کی رائے کے مطابق ہے۔ لہذا اس مسئلہ میں سے نکلنے والے سارے فروعات میں ہمارا مسلک امام شافعی کے بجائے احناف کے مطابق ہے ۔
آپ نے ایک دعوی کردیا بغیر کسی تفصیل کے اور بغیر کسی دلیل کے ۔
تفصیل اس معاملہ کی یہ ہے قروء کے بارے میں شروع سے اختلاف ہے کہ قروء طہر کے عرصہ کو کہتے ہیں یا حیض کے دورانیہ کو ۔
آپ کا کہنا ہے کہ قروء سے مراد آپ حضرات کے نذدیک بھی حیض کا عرصہ ہے جیسا کہ علامہ سرخسی نے کہا ہے۔
یہ صرف علامہ سرخسی کے نذدیک حیض کا عرصہ نہیں بلکہ بعض صحابہ رضی اللہ عنہ کا بھی یہی موقف تھا۔
مثال واضح ہو
واختلف العلماء في الأقراء ، فقال أهل الكوفة : هي الحيض ، وهو قول عمر وعلي وابن مسعود وأبي موسى ومجاهد وقتادة والضحاك وعكرمة والسدي . وقال أهل الحجاز : هي الأطهار ، وهو قول عائشة وابن عمر وزيد بن ثابت والزهري وأبان بن عثمان والشافعي
تفسير القرطبي
از محمد بن أحمد الأنصاري القرطبي
-----------------------
وقد اختلف السلف والخلف والأئمة في المراد بالأقراء ما هو ؟ على قولين :
أحدهما : أن المراد بها : الأطهار ، وقال مالك في الموطأ عن ابن شهاب ، عن عروة ، عن عائشة أنها قالت : انتقلت حفصة بنت عبد الرحمن بن أبي بكر ، حين دخلت في الدم من الحيضة الثالثة ، قال الزهري : فذكرت ذلك لعمرة بنت عبد الرحمن ، فقالت : صدق عروة . وقد جادلها في ذلك ناس فقالوا : إن الله تعالى يقول في كتابه : ( ثلاثة قروء فقالت عائشة : صدقتم ، وتدرون ما الأقراء ؟ إنما الأقراء : الأطهار .
وقال مالك : عن ابن شهاب ، سمعت أبا بكر بن عبد الرحمن يقول : ما أدركت أحدا من فقهائنا إلا وهو يقول ذلك ، يريد قول عائشة . وقال مالك : عن نافع ، عن عبد الله بن عمر ، أنه كان يقول : إذا طلق الرجل امرأته فدخلت في الدم من الحيضة الثالثة فقد برئت منه وبرئ منها . وقال مالك : وهو الأمر عندنا . وروي مثله عن ابن عباس وزيد بن ثابت ، وسالم ، والقاسم ، وعروة ، وسليمان بن يسار ، وأبي بكر بن عبد الرحمن ، وأبان بن عثمان ، وعطاء بن أبي رباح ، وقتادة ، والزهري ، وبقية الفقهاء السبعة ، وهو مذهب مالك ، والشافعي [ وغير واحد ، وداود وأبي ثور ، وهو رواية عن أحمد ، واستدلوا عليه بقوله تعالى : ( فطلقوهن لعدتهن ) [ الطلاق : 1 ] أي : في الأطهار . ولما كان الطهر الذي يطلق فيه محتسبا ، دل على أنه أحد الأقراء الثلاثة المأمور بها ; ولهذا قال هؤلاء : إن المعتدة [ ص: 608 ] تنقضي عدتها وتبين من زوجها بالطعن في الحيضة الثالثة ، وأقل مدة تصدق فيها المرأة في انقضاء عدتها اثنان وثلاثون يوما ولحظتان ] .
وهكذا روي عن أبي بكر الصديق ، وعمر ، وعثمان ، وعلي ، وأبي الدرداء ، وعبادة بن الصامت ، وأنس بن مالك ، وابن مسعود ، ومعاذ ، وأبي بن كعب ، وأبي موسى الأشعري ، وابن عباس ، وسعيد بن المسيب ، وعلقمة ، والأسود ، وإبراهيم ، ومجاهد ، وعطاء ، وطاوس ، وسعيد بن جبير ، وعكرمة ، ومحمد بن سيرين ، والحسن ، وقتادة ، والشعبي ، والربيع ، ومقاتل بن حيان ، والسدي ، ومكحول ، والضحاك ، وعطاء الخراساني ، أنهم قالوا : الأقراء : الحيض .
وهذا مذهب أبي حنيفة وأصحابه ، وأصح الروايتين عن الإمام أحمد بن حنبل ، وحكى عنه الأثرم أنه قال : الأكابر من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم يقولون : الأقراء الحيض . وهو مذهب الثوري ، والأوزاعي ، وابن أبي ليلى ، وابن شبرمة ، والحسن بن صالح بن حي ، وأبي عبيد ، وإسحاق ابن راهويه .
تفسير ابن كثير
إسماعيل بن عمر بن كثير القرشي الدمشقي
جو حضرات عربی نہیں جانتے ان کے لئیے اوپر پیس کردہ عبارت کا مختصر سا مفہوم پیش کردوں
تفسیر ابن کثیر اور تفسیر قرطبی کے نذدیک جو جضرات قروء کو حیض مانتے ہیں حضرت عمر ، حضرت علی ، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم جیسے صحابہ ہیں اور بعد کے ائمہ جنہوں نے یہی معنی لئیے وہ الگ ہیں
آپ کس طرح کہ رہے ہیں کہ آپ حضرت کا جو قروء کا موقف ہے وہ
صرف احناف کے فہم کے مطابق ہے ۔ کیا اوپر ذکر کردہ صحابہ اور ائمہ آپ کے اکابر نہ تھے اگر تھے تو آپ کس طرح کہ سکتے ہیں آپ نے صحابہ اور ائمہ کے فہم چھوڑ کر قروء کے معاملہ میں احناف کے فہم سے اتفاق کیا۔
مذید یہ کہ تفسیر ابن کثیر نے لکھا ہے کہ امام احمد کا بھی یہی مسلک تھا قروء کو حیض کہتے تھے تو کیا آپ حضرات امام احمد اہل حدیث اکابرین میں شامل نہیں کرتے
اس بات کی دلیل آپ نے بتانی ہے ، تفصیل میں نے بتادی ہے