• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تلمیذ بھائی کے سوالوں کا جواب

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
پہلا سوال
1- کیا آپ ثابت کرسکتے ہیں کہ کبھی اہل حدیث مسلک کے علماء نے اہل حدیث کے اکابریں کے فہم سے اختلاف کرکے ایسا فتوے دیے ہوں جو غیر اہل حدیث اکابر کے فہم کے مطابق ہوں ۔ اگر ایسا ہے تو حوالاجات مطلوب ہیں ورنہ آپ کی بات صرف نعرہ کہلائے گي عملا آپ حضرات بھی اپنے اکابرین کے فہم کے خلاف نہیں چلتے
سوال میں اہل حدیث مسلک کے علماء اوراہل حدیث کے اکابرین سے آپ کی کیا مراد ہے؟
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
الحمد للہ ایک اس نکتہ پر اتفاق ہوا کہ تن آسانی کے لئیے دوسرے مسلک کے اکابریں کے فتوی پر عمل نہیں کیا جاسکتا ہے

اب ایک عامی دلائل سے لا علم ہوتا ہے وہ اگر ایک مسلک چھوڑ کر دوسرے مسلک کی طرف جاتا ہے تو تن آسانی (خواہش پرستی) کے علاوہ اور کوئی وجہ نہیں ہوسکتی جیسے طلاق کے مسئلے میں عامی احناف دنیاوی فائدہ کے لئیے اہل حدیث علماء کے پاس جاتا ہے ۔
اگر ایک شخص دلائل کو پوری طرح سمجھ کر دوسرے مسلک کے فہم کے مطابق چلتا ہے تو یہ عامی نہ کہلائے گا بلکہ متبحر عالم کہلائے گا اور احناف کے ہاں بھی متبحر عالم کا دلائل کی روشنی میں دوسرے مسلک کے اکابریں کی طرف رجوع کرنا چاہئیے جیسا کہ میں تقی عثمانی صاحب کے اقتباس سے بتایا
تو یہ بھی نکتہ اتفاق ہوا

سوال میں اہل حدیث مسلک کے علماء اوراہل حدیث کے اکابرین سے آپ کی کیا مراد ہے؟
جب آپ کہتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ یا دوسرے حنفی اکابریں اہل حدیث کے مسلک پر نہیں تھے تو ظاہر ہے آپ کے زعم میں وہ اہل حدیث جماعت سے خارج ہوئے
اب آپ کا کہنا ہے کہ ہم دین پر عمل کرنے کے بارے میں کسی مسلک کی کوئی قید نہیں لگاتے تو آپ مجھے کچھ عملی نمونے دکھائيں کہ آپ نے اہل حدیث مسلک کے اکابریں کے فہم کو چھوڑ کر حنفی اکابریں کے فہم کے مطابق عمل کیا ہو ورنہ یہ صرف آپ کا نعرہ کہلائے گا کہ آپ ہر مسلک کے اکابریں کی فہم کو قبول کرتے ہیں
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
اگر ایک شخص دلائل کو پوری طرح سمجھ کر دوسرے مسلک کے فہم کے مطابق چلتا ہے تو یہ عامی نہ کہلائے گا بلکہ متبحر عالم کہلائے گا اور احناف کے ہاں بھی متبحر عالم کا د
لائل کی روشنی میں دوسرے مسلک کے اکابریں کی طرف رجوع کرنا چاہئیے جیسا کہ میں تقی عثمانی صاحب کے اقتباس سے بتایا
اگر کوئی شخص دلائل کا تجزیہ کرکے کسی مسلک کو اختیار کرتا ہے تو یہ تقلید نہیں ہوئی ۔ کیونکہ تقلید بہر حال اس چیز کا نام ہے کہ بندہ دلائل کے بجائے شخصیت پر اعتماد کرے ۔ تقلید اور دلیل کا تجزیہ تو دو متضاد چیزیں ہیں۔
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
جب آپ کہتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ یا دوسرے حنفی اکابریں اہل حدیث کے مسلک پر نہیں تھے تو ظاہر ہے آپ کے زعم میں وہ اہل حدیث جماعت سے خارج ہوئے
اب آپ کا کہنا ہے کہ ہم دین پر عمل کرنے کے بارے میں کسی مسلک کی کوئی قید نہیں لگاتے تو آپ مجھے کچھ عملی نمونے دکھائيں کہ آپ نے اہل حدیث مسلک کے اکابریں کے فہم کو چھوڑ کر حنفی اکابریں کے فہم کے مطابق عمل کیا ہو ورنہ یہ صرف آپ کا نعرہ کہلائے گا کہ آپ ہر مسلک کے اکابریں کی فہم کو قبول کرتے ہیں
اہل حدیث مسلک کے اکابرین سے آپ کی کیا مراد ہے؟
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
اگر کوئی شخص دلائل کا تجزیہ کرکے کسی مسلک کو اختیار کرتا ہے تو یہ تقلید نہیں ہوئی ۔
چوں کہ عامی دلائل سے لا علم ہوتا ہے اس لئيے وہ تقلید ہی کرتا ہے

کیونکہ تقلید بہر حال اس چیز کا نام ہے کہ بندہ دلائل کے بجائے شخصیت پر اعتماد کرے ۔ تقلید اور دلیل کا تجزیہ تو دو متضاد چیزیں ہیں۔
یہ تقلید کی تعریف آپ نے کہاں سے اخذ کی ۔ حوالہ جات مطلوب ہیں
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
اہل حدیث مسلک کے اکابرین سے آپ کی کیا مراد ہے؟
یا تو آپ اپنے مسلک کے اکابریں سے نا واقف ہیں یا جواب سے بھاگنے کے لئیے بھولے بن رہے ہیں
آپ کے فورم میں بھی فہم سلف لکھا ہے ۔ جن کو آپ حضرات اسلاف مانتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ اہل حدیث کے منہج پر تھے وہی اہل حدیث کے اکابریں ہے اور وہی میری مراد ہے

اگر اب بھی سمجھ میں نہیں آیا یا جواب سے بھاگنے کے لئیے مذید بھولے بننے کا ارادہ ہے تو بتائیے گا ، میں مذید وضاحت کردوں گا
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
یا تو آپ اپنے مسلک کے اکابریں سے نا واقف ہیں یا جواب سے بھاگنے کے لئیے بھولے بن رہے ہیں
آپ کے فورم میں بھی فہم سلف لکھا ہے ۔ جن کو آپ حضرات اسلاف مانتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ اہل حدیث کے منہج پر تھے وہی اہل حدیث کے اکابریں ہے اور وہی میری مراد ہے

اگر اب بھی سمجھ میں نہیں آیا یا جواب سے بھاگنے کے لئیے مذید بھولے بننے کا ارادہ ہے تو بتائیے گا ، میں مذید وضاحت کردوں گا
قروء کی تشریح میں ہمارے علماء کی عام رائے امام شافعی کے بجائے احناف کی رائے کے مطابق ہے۔ لہذا اس مسئلہ میں سے نکلنے والے سارے فروعات میں ہمارا مسلک امام شافعی کے بجائے احناف کے مطابق ہے ۔
المبسوط للسرخسي (6/ 13)
الْقُرْءُ هِيَ الْحَيْضُ وَهَذَا عِنْدَنَا وَعِنْدَ الشَّافِعِيِّ - رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى - هِيَ الْأَطْهَارُ
المبسوط للسرخسي (6/ 13)
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
قروء کی تشریح میں ہمارے علماء کی عام رائے امام شافعی کے بجائے احناف کی رائے کے مطابق ہے۔ لہذا اس مسئلہ میں سے نکلنے والے سارے فروعات میں ہمارا مسلک امام شافعی کے بجائے احناف کے مطابق ہے ۔
آپ نے ایک دعوی کردیا بغیر کسی تفصیل کے اور بغیر کسی دلیل کے ۔
تفصیل اس معاملہ کی یہ ہے قروء کے بارے میں شروع سے اختلاف ہے کہ قروء طہر کے عرصہ کو کہتے ہیں یا حیض کے دورانیہ کو ۔
آپ کا کہنا ہے کہ قروء سے مراد آپ حضرات کے نذدیک بھی حیض کا عرصہ ہے جیسا کہ علامہ سرخسی نے کہا ہے۔
یہ صرف علامہ سرخسی کے نذدیک حیض کا عرصہ نہیں بلکہ بعض صحابہ رضی اللہ عنہ کا بھی یہی موقف تھا۔
مثال واضح ہو


واختلف العلماء في الأقراء ، فقال أهل الكوفة : هي الحيض ، وهو قول عمر وعلي وابن مسعود وأبي موسى ومجاهد وقتادة والضحاك وعكرمة والسدي . وقال أهل الحجاز : هي الأطهار ، وهو قول عائشة وابن عمر وزيد بن ثابت والزهري وأبان بن عثمان والشافعي

تفسير القرطبي

از محمد بن أحمد الأنصاري القرطبي

-----------------------
وقد اختلف السلف والخلف والأئمة في المراد بالأقراء ما هو ؟ على قولين :

أحدهما : أن المراد بها : الأطهار ، وقال مالك في الموطأ عن ابن شهاب ، عن عروة ، عن عائشة أنها قالت : انتقلت حفصة بنت عبد الرحمن بن أبي بكر ، حين دخلت في الدم من الحيضة الثالثة ، قال الزهري : فذكرت ذلك لعمرة بنت عبد الرحمن ، فقالت : صدق عروة . وقد جادلها في ذلك ناس فقالوا : إن الله تعالى يقول في كتابه : ( ثلاثة قروء فقالت عائشة : صدقتم ، وتدرون ما الأقراء ؟ إنما الأقراء : الأطهار .

وقال مالك : عن ابن شهاب ، سمعت أبا بكر بن عبد الرحمن يقول : ما أدركت أحدا من فقهائنا إلا وهو يقول ذلك ، يريد قول عائشة . وقال مالك : عن نافع ، عن عبد الله بن عمر ، أنه كان يقول : إذا طلق الرجل امرأته فدخلت في الدم من الحيضة الثالثة فقد برئت منه وبرئ منها . وقال مالك : وهو الأمر عندنا . وروي مثله عن ابن عباس وزيد بن ثابت ، وسالم ، والقاسم ، وعروة ، وسليمان بن يسار ، وأبي بكر بن عبد الرحمن ، وأبان بن عثمان ، وعطاء بن أبي رباح ، وقتادة ، والزهري ، وبقية الفقهاء السبعة ، وهو مذهب مالك ، والشافعي [ وغير واحد ، وداود وأبي ثور ، وهو رواية عن أحمد ، واستدلوا عليه بقوله تعالى : ( فطلقوهن لعدتهن ) [ الطلاق : 1 ] أي : في الأطهار . ولما كان الطهر الذي يطلق فيه محتسبا ، دل على أنه أحد الأقراء الثلاثة المأمور بها ; ولهذا قال هؤلاء : إن المعتدة [ ص: 608 ] تنقضي عدتها وتبين من زوجها بالطعن في الحيضة الثالثة ، وأقل مدة تصدق فيها المرأة في انقضاء عدتها اثنان وثلاثون يوما ولحظتان ] .
وهكذا روي عن أبي بكر الصديق ، وعمر ، وعثمان ، وعلي ، وأبي الدرداء ، وعبادة بن الصامت ، وأنس بن مالك ، وابن مسعود ، ومعاذ ، وأبي بن كعب ، وأبي موسى الأشعري ، وابن عباس ، وسعيد بن المسيب ، وعلقمة ، والأسود ، وإبراهيم ، ومجاهد ، وعطاء ، وطاوس ، وسعيد بن جبير ، وعكرمة ، ومحمد بن سيرين ، والحسن ، وقتادة ، والشعبي ، والربيع ، ومقاتل بن حيان ، والسدي ، ومكحول ، والضحاك ، وعطاء الخراساني ، أنهم قالوا : الأقراء : الحيض .

وهذا مذهب أبي حنيفة وأصحابه ، وأصح الروايتين عن الإمام أحمد بن حنبل ، وحكى عنه الأثرم أنه قال : الأكابر من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم يقولون : الأقراء الحيض . وهو مذهب الثوري ، والأوزاعي ، وابن أبي ليلى ، وابن شبرمة ، والحسن بن صالح بن حي ، وأبي عبيد ، وإسحاق ابن راهويه .
تفسير ابن كثير
إسماعيل بن عمر بن كثير القرشي الدمشقي

جو حضرات عربی نہیں جانتے ان کے لئیے اوپر پیس کردہ عبارت کا مختصر سا مفہوم پیش کردوں
تفسیر ابن کثیر اور تفسیر قرطبی کے نذدیک جو جضرات قروء کو حیض مانتے ہیں حضرت عمر ، حضرت علی ، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم جیسے صحابہ ہیں اور بعد کے ائمہ جنہوں نے یہی معنی لئیے وہ الگ ہیں
آپ کس طرح کہ رہے ہیں کہ آپ حضرت کا جو قروء کا موقف ہے وہ صرف احناف کے فہم کے مطابق ہے ۔ کیا اوپر ذکر کردہ صحابہ اور ائمہ آپ کے اکابر نہ تھے اگر تھے تو آپ کس طرح کہ سکتے ہیں آپ نے صحابہ اور ائمہ کے فہم چھوڑ کر قروء کے معاملہ میں احناف کے فہم سے اتفاق کیا۔
مذید یہ کہ تفسیر ابن کثیر نے لکھا ہے کہ امام احمد کا بھی یہی مسلک تھا قروء کو حیض کہتے تھے تو کیا آپ حضرات امام احمد اہل حدیث اکابرین میں شامل نہیں کرتے

اس بات کی دلیل آپ نے بتانی ہے ، تفصیل میں نے بتادی ہے
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,332
پوائنٹ
180
تلمیذ صاحب!
بنیادی اختلاف یہیں سے شروع ہوتاہے کہ یہ حضرات ابھی تک طے نہیں کرسکے ہیں کہ تقلید اوراتباع میں جوہری فرق کیاہے۔ اس موضوع پر راقم الحروف کی اولاخضرحیات اورپھر رفیق طاہر سے گفتگو ہوئی لیکن بات کسی نتیجہ تک پہنچی ہی نہیں۔
یہ فورابیان کرناشروع کردیتے ہیں کہ تقلید اوراتباع میں جوہری فرق دلیل کاہے؟تقلید بغیر دلیل کے اوراتباع دلیل کے ساتھ عمل کرنے کو کہتے ہیں۔ بہت اچھی بات ہے تسلیم کرلیا
جب ان سے کہاجاتاہے کہ مصنف عبدالرزاق اورمصنف ابن ابی شیبہ وغیرہ میں ہزاروں مسائل ایسے ہیں جہاں سائلین کے سوال کے جواب میں صحابہ اورتابعین عظام نے صرف مسئلہ بیان کیادلیل بیان نہیں کی اورسائل نے بھی دلیل نہیں پوچھی تووہ تقلید ہوایانہیں
اس کے بعد یہ لوگ یہ فلسفہ شروع کرتے ہیں کہ کسی مسئلہ میں دلیل کا نہ ہونااورچیز ہے اوردلیل کا بیان نہ کرنا اورچیز ۔یہ فلسفہ بھی ہم نے ہضم کرلیا
لیکن جب یہ کہاجاتاہے کہ پھر آپ حضرات کویہ کہاں سے معلوم ہواکہ حنفیوں کے تمام مسائل دلیل سے خالی ہیں لہذا وہ مقلد اورہمارے تمام مسائل بادلائل لہذا ہم متبع ؟
حقیقت یہ ہے کہ لاعلم اورعامی افرادکا مسئلہ ہرجگہ ایک ہے چاہے وہ احناف کے عامی ہوں یاغیرمقلدین کے عامی ہوں۔
لیکن اپنے کو متبع اوردوسرے کو مقلد گردان لینا محض خوش فہمی اورخوش خیالی ہے لیکن کچھ لوگ اس کے بھی شوقین ہوتے ہیں اوردل کے بہلانے کیلئے اس خیال سے کام لیتے رہتے ہیں ۔
اس کے بعد دوسرامسئلہ آتاہے کہ تقلید مطلق اورتقلید شخصی کا
شاہ ولی اللہ کہتے ہیں کہ تقلید مطلق کا رواج دورصحابہ اورتابعین سے تھا۔
تواس میں کیافرق پڑتاہے کہ ایک شخص اپنے شہر کے پانچ علماء سے مسائل پوچھ کر عمل کرتاہے اورایک شخص تمام مسائل میں ایک ہی عالم سے رہنمائی حاصل کرتاہے۔
سرفراز فیضی صاحب اگرتقلید شخصی کے بجائے تقلید مطلق کے قائل ہیں توان کو اپنے لوگوں کو یہ نصیحت کرنی چاہئے کہ وہ حنفی شافعی علماء سے بھی مسائل پوچھیں۔ اگروہ ایسانہیں کرتے ہیں تو پھر وہ خود اسی عمل میں مبتلاہیں جس کی مذمت کی جارہی ہے۔
اگرعامی حنفی ایک تمام مسائل حنفی مفتیوں سے پوچھ کر عمل کرتاہے تووہ قابل مذمت ٹھہرا ۔
لیکن اگرعامی غیرمقلد تمام مسائل اپنے علماء سے دریافت کرتاہے تووہ بہت بہتر۔
ایساکیوں؟
اگروہ کہیں کہ ہمارے علماء کسی مسلک کے دائرہ میں قید نہیں ہے بلکہ تمام ائمہ مجتہدین کے دلائل پر غوروفکر کرتے ہیں اوراس کے بعد دلیل کے اعتبار سے جوقوی ہو وہ سائل کوبتاتے ہیں۔
پہلاسوال تویہ ہے کہ کتنے فیصدی اہل حدیث عالم دلائل کی پرکھ کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ہروہ شخص جومدنی اورازہری ہوضروری نہیں کہ علمی کمالات سے بھی مسلح اورمتصف ہو۔
بڑی بڑی ڈگریاں الگ شے ہے اورلیاقت واستعداد اورصلاحیت شے دیگر ہے۔ مشہور فارسی کا مصرعہ ہے
نہ ہرکہ سربتراشد قلندری داند
دوسری بات کیاحنفی مسلک میں اس کا التزام ہے کہ تمام مسائل میں فتوی امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کی رائے پر ہی دیاجائے۔اگرآپ نے کتب فقہ کا مطالعہ کیاہوگاتواچھی طرح معلوم ہوگاکہ ایسی صورت حال نہیں ہے۔امام ابوحنیفہ کے ساتھ صاحبین اورتمام حنفی فقہاء کی محنتوں کا نام فقہ حنفی ہے۔ اوران تمام کی کاوشوں سے ایک مفتی مستفید ہوتاہے۔
کتنے مسائل ایسے ہیں جس میں دلائل کی قوت اورزور کی بناء پر امام ابوحنیفہ کا مسلک ترک کردیاگیاہے جیسے رضاعت کا مسئلہ ہے فتوی صاحبین کے قول پر ہے۔ زراعت کا مسئلہ ہے فتوی صاحبین کے قول پر ہے۔ عرف اورعادت کے بدل جانے سے بھی بہت سے مسائل میں فتوی صاحبین کے قول پر ہے۔
یہ صرف فقہ حنفی ہی نہیں بلکہ دیگر مسالک میں بھی مجتہدین کی ایک قسم اصحاب ترجیح کی ہواکرتی ہے جودلائل کاموازنہ کرکے مختلف آراء میں سے کسی ایک کو ترجیح دیاکرتے ہیں۔اورانہیں اقوال پر فتوی دیاجاتاہے جو دلائل کے لحاظ سے قوی ہوں۔
توجوکام اہل حدیث کے مسلک کا عالم آج کرے گادلائل کا موازنہ اس سے حنفی حضرات بہت پہلے کسی حد تک فارغ ہوچکے ہیں ۔
پھر آخر میں ایک بات رہ جاتی ہے کہ ہرشخص چاہے قرآن وحدیث کے کتنے ہی اتباع کا دعوی ٰ کرے لیکن بات اس کے عقل وفہم تک محدود ہوتی ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ اگرایک شخص متابعت کتاب وسنت کا نام لے کر کھڑاہوجائے تو ووہ واقعتا متابعت کتاب وسنت بھی ہو۔
ظاہریوں کا نعرہ کیاتھا ۔ لیکن جمہورامت نے ان سے اتفاق نہیں کیا۔
اب یہ ستم ظریفی ہے کہ لوگوں نے نعرہ کوہی اصل کام سمجھ لیاہے۔
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
یہ صرف علامہ سرخسی کے نذدیک حیض کا عرصہ نہیں بلکہ بعض صحابہ رضی اللہ عنہ کا بھی یہی موقف تھا۔
مثال واضح ہو
آپ کس طرح کہ رہے ہیں کہ آپ حضرت کا جو قروء کا موقف ہے وہ صرف احناف کے فہم کے مطابق ہے ۔ کیا اوپر ذکر کردہ صحابہ اور ائمہ آپ کے اکابر نہ تھے اگر تھے تو آپ کس طرح کہ سکتے ہیں آپ نے صحابہ اور ائمہ کے فہم چھوڑ کر قروء کے معاملہ میں احناف کے فہم سے اتفاق کیا۔
تو کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ میں آپ کو کوئی ایسا مسئلہ بتاوں جس میں احناف کا موقف سارے ہی صحابہ کے خلاف ہو اور اہل حدیث علماء نے سارے صحابہ کو چھوڑ کر احناف کا موقف اختیار کرلیا ہو؟
 
Top