اختصار کے ساتھ اعادہ
مین نے ایک تھریڈ شروع کیا تھا جس کا عنوان تھا تقلید شخصی ۔ نکتہ اتفاق ۔
جس کا لب لباب یہ تھا کہ عملا یہ ثابت نہیں کیا جاسکتا کہ کسی ایک حنفی نے ہر شرعی معاملات میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے ہر قول پر عمل کیا ہو تو جو تقلید شخصی احناف کے ہاں عملا موجود ہے وہ ایک مسلک کی پیروی ہے نا کہ ایک امام کی پیروی
دوسری بات جو میں نے کہی تھی کہ احناف کے ہاں اگر کسی متبحر عالم کو دلائل کی روشنی میں اگر اس کو امام کا قول قرآن و سنت کے مخالف نظر آئے تو وہ امام کا قول چھوڑ دے
اب ہوا یہ کہ میرے تھریڈ کے تین حصے بنا دیے گئے اور موضوع ایک ہونے کی بنا پر بعض دفعہ میں ایک تھریڈ میں جواب دیا تو دوسرے تھریڈ میں بھی وہی جواب ہونا چاہئیے تھا لیکن میں جواب نہ دے سکا
اب اس تھریڈ پر رہتے ہوئے میں تین نکات کا اعادہ کرتا ہوں تاکہ دیکھا جائے کہ بات کہاں تک پہنچی ہے
نمبر ایک
سرفراز فیصي صاحب نے کہا تھا کہ
عامی آپ کے یہاں بھی امام ابو حنیفہ کا مقلد نہیں ہوتا ۔ عامی ہمیشہ مفتی کے فتوی کی اتباع کرتا ہے ۔
اور آپ اس بات سے بھی اتفاق کرچکے ہیں کہ
کیا تن آسانی کے لئیے دوسرے مسلک کے اکابریں کے فتوی پر عمل کیا جاسکتا ہے ؟
نہیں
http://www.kitabosunnat.com/forum/فقہ-اہل-الحدیث-301/تلمیذ-بھائی-کے-سوالوں-کو-جواب-10620/index2.html#post71733
اب عامی ایک مفتی کے فتوں کے تابع ہوتا ہے
اگر ایک عامی اگر ایک مسلک کی مفتی سے فتوی لینے کے بعد دوسرے مسلک کے مفتی کی طرف رجوع کرتا ہے تو اس کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں
ایک ۔ تن آسانی
جو ہم دونوں اتفاق کرچکے ہیں کہ ناجائز ہے
دوسری احتیاط
یعنی وہ دیکھے کہ کس فتوے میں احتیاط کا پہلو ہے وہ اس فتوے پر عمل کرے ۔ میری رائے میں یہ جائز عمل ہے اور آپ بھی غالبا اس اتفاق کریں گے
اس کے علاوہ عامی کا ایک مسلک چھوڑ کر دوسرے مسلک پر عمل کرنے کی کوئی اور صورت نہیں
اگر آپ اس سے اتفاق کرلیں تو ہم یہ کہ سکتے ہیں ایک عامی کے لئیے دوسرے مسلک کے مفتی کے فتوے پر عمل کے لئیے سوائے احتیاط کے اور کوئی راستہ نہیں اور اس کو صرف اپنے مسلک کے مفتیان سے فتوی لینا چاہہئیے
نمبر دو
اگر ایک متبحر عالم دلائل کے روشنی میں دیکھے کہ اس کے امام کا قول اگر قران و حدیث سے ٹکراتا ہے تو وہ امام کا قول کو چھوڑ دے اور اگر حق دوسرے مسلک میں ہو تو اس بات کا بھی اصول کی حد تک اتفاق ہے کہ متبحر عالم کو دلائل کی روشنی میں فتوی دینا چاہئیے چاہے دوسرے مسلک کے اکابر کے فہم پر ہو
اصول کی حد تک ہمارا یہاں بھی اتفاق ہے
نمبر تین
میں نے اہل حدیث مسلک میں اس اصول کی عملی صورت جاننی چاہی تھی کہ کیھی اہل حدیث کے علماء نے اہل حدیث کے اکابریں کے فہم سے ہٹ کر دوسرے اس امت کے اکابریں کے فہم کے مطابق فتوی دیا ہے ۔
میری ذاتی معلومات کے مطابق ایسا عملا نہیں ہوا (اگر عملا ایسا ہوا ہے تو بہت اچھی بات ہے اور میں اپنی معلومات کو درست کرلوں گا)
اسی حوالہ سے پہلے فیضی صاحب نے قروء والا مسئلہ پیش کیا جس کا میں جواب دے دیا اور اب ایک دوسرا مسئلہ پیش کیا
ّ
عورت کو شہوت سے چھولینے پر وضو ٹوٹ جانے کے مسئلہ میں اہل حدیث علماء کا فتویٰ ائمہ ثلاثہ کے بجائے احناف کے مسلک پر ہے ۔
اگر چہ یہاں بھی صحابہ کرام کے اقوال موجود ہیں اور ابن عباس بھی عورت کر چھونے پر وضو کے قائل نہیں تھے اور غالبا بعض حنابلہ نے بھی ایسا ہی فتوی دیا ہے لیکن فی الحال میں فیضی صاحب سے ان کے مسلک کے حوالہ سے کچھ پوچھنا چاہوں گا
میں نے جب اس حوالہ سے مختلف اہل حدیث فتاوی کی طرف مراجعت کی تو ایک فتوی یہ ملا
وضو کے بعد عورت کو چھونا
وضو کے بعد عورت کو چھونا
شروع از عبد الوحید ساجد بتاریخ : 02 July 2012 02:34 PM
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
عورت کو چُھونے سے وضو ٹوٹتا ہے یا نہیں؟
--------------------------------------------------------------------------------
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
شافعیہ کہتے ہیں کہ عورت کو چُھونے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ حنفیہ کہتے ہیں کہ نہیں ٹوٹتا۔ ہم کسی طرف زور نہیں دیتے ہاں اگر کوئی احتیاط کرے تو وضو کرلے۔
وباللہ التوفیق
فتاویٰ اہلحدیث وضو کا بیان، ج1ص282 محدث فتویٰ
یہاں محدث فتوی کہ رہا ہے کہ
۔ ہم کسی طرف زور نہیں دیتے
احناف تو ایسا فتوی نہیں دیتے وہ تو کہتے ہیں کہ وضو نہیں ٹوٹا
دوسری بات لمس المراء بالشہوہ بالثیاب اور بغیر ثیاب کے حوالہ سے مجھے آپ کے مفتیان کرام کے حوالہ سے فتوے دکھا دیں تاکہ میں یہ دیکھ سکوں کہ واقعی میں آپ کا فتوی یہاں احناف کے اکابریں کے فہم کے مطابق ہے یا نہیں ؟