ایک عامی اگر کسی ایک معاملہ میں دلائل سے مکمل مزین ہوجاتا ہے تو وہ ہے تو عامی لیکن اس مسئلہ میں جزوی مجتھد بن جاتا ہے اور اس جزوی مجتھد کے لئیے اگر وہ سمجھتا ہے کہ اس مسئلہ میں مخالف فریق کا مسلک حق پر ہے راجح قول کے مطابق اس کو صرف اس مسئلہ میں اپنے مسلک کی مخالفت کرنا جائز ہے ۔ اور میں بھی اس قول کو صحیح سمجھتا ہوںالسلام علیکم۔ مداخلت کے لیے معذرت خواہ ہوں۔ تلمیذ بھائی ، آپ نے ایک سوال یہ پوچھا ہے کہ :
میرے خیال میں کچھ معاملات ایسے ہیں جہاں عامی خود بھی "سہولت" نہیں دیکھتا بلکہ "راجح عمل" کی دلیل چاہتا ہے تاکہ ثابت شدہ سنت پر عمل کرنے کا اجر حاصل کر سکے۔
بطور مثال میں اپنے ایک قریبی عزیز کی دینا چاہوں گا جو کہ حنفی المسلک ہیں لیکن جب اپنے ملک میں شوافع کو اور یہاں سعودی عرب میں حنابلہ اور مالکیہ کو "رفع الیدین" کرتے دیکھا تو مجھ سے کافی طویل گفتگو کی پھر میں نے ان کے سامنے چاروں مسالک کے تجزیے (کتب و مقالات) رکھ دئے کہ فیصلہ وہ خود کرلیں اور مجھے خوار نہ فرمائیں۔ مگر چونکہ وہ "عامی" ہیں اتنا علم نہیں کہ ان کتب و مقالات میں پھیلے دلائل و تجزیوں کی علمی جانچ پرکھ کر سکیں۔ بس وہ کہتے ہیں کہ انہیں حدیث سمجھ میں آ گئی اور وہ رفع الیدین کے قائل ہو گئے اور اس پر عمل شروع کر دیا۔ مگر پھر مسئلہ یہ ہوا کہ اپنے قریبی رفقاکار میں صرف اسی ایک عمل کیا بنا پر وہ "غیرمقلد" مشہور ہو گئے اور اپنے ملک میں انہیں اپنے علاقے اور اپنی مسجد کے علماء سے مسلسل سابقہ پڑنے لگا کہ وہ اپنے اس عمل کو چھوڑیں اور "حنفی مسلک کے عمل" کی طرف لوٹ آئیں۔
گوکہ ذاتی طور پر میں اس بات کا قائل ہوں کہ فی زمانہ عامی کو اپنے "نفس کی خاطر" دیگر مسالک میں آسانی تلاش نہیں کرنی چاہیے ۔۔۔ مگر جیسا کہ میں نے کہا کہ بعض معاملات صرف "سہولت یا آسانی" کے نہیں ہوتے بلکہ عصر حاضر کا تکنیکی علم یافتہ عامی "راجح عمل" کی انفارمیشن چاہتا اور ان پر عمل کا خواہشمند ہوتا ہے۔ تو میرا سوال یہ ہے کہ ۔۔۔ ایسے معاملات میں بھی کیا عامی پر "سختی" برتی جا سکتی ہے کہ وہ بس اپنے "مسلکی عمل" سے ہی چمٹا رہے چاہے اس کو دلائل سمجھ میں آئیں یا نہ آئیں؟
تفصیل کے لئیے دیکھیئے "تقلید کی شرعی حیثیت از تقی عثمانی "