• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تمام مقلدین کو کھلا چیلنج ہے (کہ کسی صحابی سے تقلید کا حکم اور اس کا واجب ہونا ثابت کر دیں)

ابو خبیب

مبتدی
شمولیت
مارچ 16، 2016
پیغامات
55
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
18
صاحب مضمون نے جو خیانت کی ہے وہ کئی غیرمقلدین کا خاصہ ہے ، بس ادھوری بات پیش کرنا اور اپنے مسلک کو حق پر سمجھنا اور مخالف پر الزمات لگانا
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے حوالہ سے جو بات پیش کی گئی ہے وہ ادھوری ہے مکمل قول اس طرح ہے


-وأخرجه البيهقي في"السنن الكبرى"(10/116): أخبرنا أبو عبد الله الحافظ ،ثنا أبو الحسين محمد بن أحمد القنطري ،ثنا أبو الأحوص القاضي، ثنا محمد بن كثير المصيصي ،ثنا الأوزاعي ،حدثني عبدة بن أبي لبابة، أن بن مسعود -رضي الله عنه- قال :
(( ألا لا يقلدن رجل رجلاً دينه ،فإن آمن آمن وإن كفر كفر ،فإن كان مقلداً لا محالة ،فليقلد الميت ويترك الحي، فإنّ الحي لا تؤمن عليه الفتنة

@تلمیذ أبو الحسين محمد بن أحمد القنطري کی توثیق چاھیے مجھے،
اور محمد بن کثیر مصیصي جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف متروک مختلط راوی ھے،
 
Last edited:

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
@تلمیذ أبو الحسين محمد بن أحمد القنطري کی توثیق چاھیے مجھے،
اور محمد بن کثیر مصیصي جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف متروک مختلط راوی ھے،
محمد عامر یونس صاحب نے آدھی روایت پیش کرکے تقلید پر ایک اعتراض کیا ، میں نے تو صرف وہ روایت مکمل کی ۔ اگر یہ روایت ضعیف ہے تو آپ حضرات کا اعتراض بھی باطل ھوا ۔
کیوں کہ اس روایت کو ادھورا پیش کرکے تقلید پر اعتراض کیا گیا تھا جب روایت ضعیف ہے تو اعتراض کیوں کیا گیا ؟؟؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے صحیح رواۃ سے منقول اس قول کا متن درج ذیل ہے ؛
عن عبد الله، قال: «لا يقلدن أحدكم دينه رجلا، فإن آمن آمن وإن كفر كفر، وإن كنتم لا بد مقتدين فاقتدوا بالميت، فإن الحي لا يؤمن عليه الفتنة»
(المعجم الکبیر للطبرانی ، باب کلام ابن مسعود ) اور مجمع الزوائد میں علامہ ہیثمی ؒ فرماتے ہیں :رواه الطبراني في الكبير ورجاله رجال الصحيح
جناب عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
« تم میں سے کوئی دین میں کسی کی تقلید نہ کرے ،کہ اگر وہ ایمان لائے تو تقلید کرنے والا بھی ایمان لائے ،اور اگر وہ کفر کرے تو اس کا مقلد بھی کفر کرے،
اور اگر تمہیں کسی کی اقتدا و اتباع کرنا ہی ہو تو سلف کی اقتدا کرو ، کیونکہ زندہ لوگ پر فتنہ کا خدشہ ہے ؛
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بات واضح ہے کہ کسی کی تقلید تو نہ کرو ،البتہ با دلیل اقتداء و اتباع کی جا سکتی ہے ؛
اور
جناب عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے قول میں
سلف سے مراد صحابہ کرام ہیں : جیسا کہ درج ذیل روایت یہ معنی متعین کرتی ہے
في ذم التأويل للعلامة ابن قدامة عزاه لا بن مسعود فقال ص32 :
وقال ابن مسعود
من كان منكم متأسيا فليتأسى بأصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم فإنهم كانوا أبر هذه الأمة قلوبا وأعمقها علما ....وكذا في تحريم النظر في كتب أهل الكلام ص 44

یعنی عبد اللہ بن مسعود فرماتے ہیں :
تم میں سے جو کسی کو رہبر و مقتدا بنا اس کی اقتدا کرنا چاہتا ہے ،تو وہ اصحاب محمد ﷺ کی اقتدا کرے
کیونکہ صحابہ کرام اس امت میں سب بڑھ کر نیک اور گہرے علم والے تھے ؛
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Last edited:

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
اور اگر تمہیں کسی کی اقتدا و اتباع کرنا ہی ہو تو سلف کی اقتدا کرو ، کیونکہ زندہ لوگ پر فتنہ کا خدشہ ہے
اللہ پاک آپ پر اپنا کرم فرمائیں!
اردو میں "میت" کا جو معروف معنی ہے وہی فرما دیجیے۔ "سلف" تو کسی اور معنی میں معروف ہے۔
جزاک اللہ خیرا
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
اردو میں "میت" کا جو معروف معنی ہے وہی فرما دیجیے۔ "سلف" تو کسی اور معنی میں معروف ہے۔
میت عربی میں ہو یا اردو میں اس کا معنی سب کو معلوم ہے ،
یہاں ’’ مراد ‘‘ بتانا مقصود ہے،
جناب عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے قول میں میت سے مراد جنہیں ہم نے سلف لکھا ہے ،
اور سلف سے مراد صحابہ کرامؓ ہیں : جیسا کہ درج ذیل روایت یہ معنی متعین کرتی ہے
في ذم التأويل للعلامة ابن قدامة عزاه لا بن مسعود فقال ص32 :
وقال ابن مسعود
من كان منكم متأسيا فليتأسى بأصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم فإنهم كانوا أبر هذه الأمة قلوبا وأعمقها علما ....وكذا في تحريم النظر في كتب أهل الكلام ص 44

یعنی سیدنا عبد اللہ بن مسعود فرماتے ہیں :
تم میں سے جو کسی کو رہبر و مقتدا بنا اس کی اقتدا کرنا چاہتا ہے ،تو وہ اصحاب محمد ﷺ کی اقتدا کرے
کیونکہ صحابہ کرام اس امت میں سب بڑھ کر نیک اور گہرے علم والے تھے ؛
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
عن عبد الله، قال: «لا يقلدن أحدكم دينه رجلا، فإن آمن آمن وإن كفر كفر، وإن كنتم لا بد مقتدين فاقتدوا بالميت، فإن الحي لا يؤمن عليه الفتنة»
(المعجم الکبیر للطبرانی ، باب کلام ابن مسعود ) اور مجمع الزوائد میں علامہ ہیثمی ؒ فرماتے ہیں :رواه الطبراني في الكبير ورجاله رجال الصحيح
اس روایت کی سند ذکر کردیں
جزاک اللہ خیرا
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
ترجمہ: عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے قریب ہے کہ تم لوگوں پر آسمان سے پتھر برسیں میں تم سے کہتا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اور تم مجھے کہتے ہو ابو بکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایاہے۔
السلام علیکم

محترم آپ کی کافی پرانی پوسٹ سے یہ اقتباس لیا ہے ۔ آپ نے جو حدیث روایت کی ہے اگر اس کو قرینہ بنائیں تو تروایح جو مروجہ طریقہ سے پڑھی جاتی ہے وہ عین بدعت ہے ۔ کیونکہ بخاری میں اس نماز جو کہ تروایح کے نام سے مشہور ہے کے بارے میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں اس طرح رائج نہیں تھی جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رائج کی ۔

دوسری بات میرے تعلق حنفی فقہ سے ہے ، لیکن فقہ حنفی کی یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ تروایح سنت موکدہ کیسے ہے اور اس کا چھوڑنے والا گناہ گار کیوں ہے جب کہ یہ نفل نماز ہے ۔
مجھے تو کبھی کبھی نیا انٹر نیٹ انجئنیر مولوی ہی درست لگتا ہے کہ سب اپنے اکابرین کی اقتدا کر رہے ہیں اللہ اور اس کے رسول کے احکامات پس پشت ڈال دئیے گئے ۔
کیا پہلے کے مسلمانوں کے پاس یہ سہولت تھی کہ وہ ایک موضوع کی تما م احادیث تک فوراً رسائی کر سکیں اور ان جرح و تعدیل جان سکیں ۔ ہم تو ان سے کافی بہتر حالت میں ہیں ہر حدیث کے بارے میں تحقیق ہماری انگلیوں کی پوروں میں ہے ۔ بس نیت خالص ہو اپنے فرقہ یا اکابرین کی بات درست کر نے کی ضد نہ ہو۔

اللہ ہم سب کو صراط مستقیم پر قائم رہنے کی توفیق دے۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
یہاں ’’ مراد ‘‘ بتانا مقصود ہے،
اس کی وضاحت اسی جگہ ہو جاتی تو اچھا تھا۔ اب مجھ جیسے کم علم کو کیا معلوم کہ ترجمہ کے انداز میں لکھی گئی یہ بات ترجمہ نہیں بلکہ مراد و مفہوم ہے۔
بہرحال اس وضاحت پر شکرگزار ہوں۔


اور سلف سے مراد صحابہ کرامؓ ہیں
حضرت ابن مسعود رض نے لفظ "میت" ذکر کیا ہے یعنی صحابہ کرام میں بھی وہ جو فوت ہو چکے ہیں۔ ان کی اپنی وفات 32 یا 33 ہجری میں ہے۔ اس وقت حضرت عثمان رض کی خلافت تھی۔
یعنی جو صحابہ کرام بشمول دو خلفاء راشدین کے اس زمانے میں حیات تھے، حضرت عبد اللہ بن مسعود رض کو ان پر فتنہ کا اطمینان نہیں تھا؟ یعنی آپ یہ سمجھتے تھے کہ وہ لوگ فتنہ میں پڑ کر لوگوں کو غلط سلط فقہی مسائل بتائیں گے؟
کیا اگر ہم حضرت عبد اللہ بن مسعود رض کے اس قول کو مانیں تو ہمیں اس زمانے میں فوت ہو جانے والے صحابہ کرام سے ہٹ کر کسی صحابی پر اعتبار نہیں کرنا چاہیے؟ نہ فتوی میں اور نہ روایت میں؟

ازراہ کرم اس کی بھی وضاحت فرما دیجیے۔
 
Top