• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تمام مقلدین کو کھلا چیلنج ہے (کہ کسی صحابی سے تقلید کا حکم اور اس کا واجب ہونا ثابت کر دیں)

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437

مقلد کوجاہل کہنے والے حضرات ذرااپنامبلغ علم وسیع اوربلند کریں
اورحضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے جملہ کو
ابن تیمیہ کی جانب منسوب نہ کریں۔

اتنی سیدھی اورسامنے کی بات کو نظرانداز کرکے اس جملہ سے تقلید کا وہم پیداکرلینااوراس پر رد تقلید کیلئے ایک مراسلہ لکھ دیناوقت کا غیرمناسب ضیاع ہے۔والسلام
میری پہلی دو لائنوں کو اگر آپ پڑھ لیتے تو شاید آپ کا ردعمل یقینا اس طرح کا نہیں ہوتا۔۔۔
وہ دو لائنیں ملاحظہ کیجئے!۔
عربی متن کا اردو ترجمہ کردیجئے۔۔۔
جمشید بھائی آپ سے بس یہ ہی شکوہ ہے۔۔۔
دوسری بات مقلد کو جاہل میں نے نہیں کہا یہ الزام ہے مجھ پر۔۔۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
حرب بن شداد صاحب جب اردو مجلس فورم پرتھے تو وہاں انہوں نے شاید سید اعجاز علی شاہ کو کسی مراسلہ میں "جید جاہل"کا تمغہ عطاکیاتھا۔یہی کام آپ بھی کررہے ہیں۔

مراسلے لکھ رہے ہیں لیکن جوکچھ میں نے پوچھاہے اس پر خاموشی اختیار کررکھی ہے۔آپ نے اتباع اورتقلید کا جوہری فرق ایک سطر میں بتانے کے بجائے ایک پورامضمون کاپی پیسٹ کردیاہے۔یہ طریقے کس نے سکھائے ہیں؟

دوسروں کی تقلید کرنے کے بجائے خود سے بتائیے

کہ آپ کے نزدیک تقلید کس کو کہتے ہیں اوراتباع اورتقلید میں جوہری فرق کیاہے۔

جمشیدبھائی نے پوچھا ہے
اتباع اورتقلید میں جوہری فرق کیاہے؟

بھائی اس آپکو احسان الفاظ میں سمجھ لے

1- ایک طرف ٖقرآن و صحیح حدیث کی بات ہو اور دوسری طرف کسی امتی کا قول ہو جو قرآن و حدیث سے ٹکراتا ہو اگر آپ قرآن و حدیث کی بات کو قبول کر لے تو وہ اتباع ہے -

2- ایک طرف ٖقرآن و صحیح حدیث کی بات ہو اور دوسری طرف کسی امتی کا قول ہو جو قرآن و حدیث سے ٹکراتا ہو اگر آپ امتی کے قول کو قبول کرے تو وہ تقلید ہے -


مثال کے طور پر :


1- ایمان زیادہ اور کم ہوتا ہے:
امام بخاری نے ایمان کے بارے میں فرمایا:
''وھو قول و فعل و یزید و ینقص'' اور وہ قول و عمل ہے، زیادہ اور کم ہوتا ہے۔
(صحیح بخاری، کتاب الایمان باب ۱ قبل ح ۸)
اور یہی تمام محدثین و سلف صالحین کا عقیدہ ہے، جبکہ دیوبندیہ و بریلویہ کے عقیدے کی کتاب، عقائد نسفیہ میں اس کے سراسر برعکس درج ذیل عبارت لکھی ہوئی ہے:
''الایمان لایزید ولا ینقص'' اور ایمان نہ زیادہ ہوتا ہے اور نہ کم ہوتا ہے۔
(ص ۳۹)!

2- اللہ تعالیٰ اپنے عرش پر مستوی ہے:
استوی علی العرش والی آیت کی تشریح میں امام بخاری نے مشہور ثقہ تابعی اور مفسر قرآن امام مجاہد بن جبیر رحمہ اللہ سے نقل کیا کہ ''علا'' یعنی عرش پر بلند ہوا۔ (صحیح بخاری کتاب التوحید باب ۲۲ قبل ح ۷۴۱۸ ۔، تغلیق التعلیق ج ۵ ص ۳۴۵)
ثابت ہوا کہ امام بخاری رحمہ اللہ کا یہ عقیدہ تھا کہ اللہ تعالیٰ اپنے عرش پر مستوی ہے، جبکہ اس سلفی عقیدے کے مخالف لوگ یہ کہتے پھرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ بذاتہ ہر جگہ میں ہے!!
3- رائے کی مذمت:
امام بخاری نے صحیح بخاری کی ایک ذیلی کتاب ( جس میں کتاب و سنت کو مضبوطی سے پکڑنے کا ذکر ہے) کے تحت لکھا:
''باب ما یذکر من ذم الرأی و تکلف القیاس ''
باب: رائے کی مذمت اور قیاس کے تکلف کا ذکر ۔
( کتاب الاعتصام بالکتاب و السنۃ باب ۷ قبل ح ۷۳۰۷)
اس باب میں امام بخاری وہ حدیث لائے ہیں، جس میں نبی ﷺ نے فرمایا کہ جاہل لوگ باقی رہ جائیں گے، ان سے مسئلے پوچھے جائیں گے تو وہ اپنی رائے سے فتوے دیں گے، وہ گمراہ کریں گے اور گمراہ ہوں گے۔ ( ح ۷۳۰۷)
اس عبارت سے صاف ظاہر ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک کتاب و سنت کے خلاف رائے پیش کرنا گمراہوں کا کام ہے، لہٰذا وہ ناپسندیدہ لوگ ہیں۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ امام بخاری نے اہل الرائے کے ایک امام کا اپنی کتاب میں نام لینا بھی گوارا نہیں کیا بلکہ 'بعض الناس' کہہ کر رد کیا اور اپنی دوسری کتابوں (التاریخ الکبیر اور الضعفاء الصغیر) میں اسماء الرجال والی جرح لکھ دی تاکہ سند رہے۔
اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ مقلّد نہیں تھے، جیسا کہ دیوبندیہ کے مشہور عالم سلیم اللہ خان (مہتمم جامعہ فاروقیہ کراچی) نے لکھا ہے:
''بخاری مجتہد مطلق ہیں۔''
(فضل الباری ج۱ ص ۳۶)
4 - نماز میں رفع یدین:
امام بخاری نے صحیح بخاری میں باب باندھا ہے:
''باب رفع الیدین اذا کبّر واذا رکع واذا رفع''
رفع یدین کا باب جب تکبیر کہے، جب رکوع کرے، اور جب (رکوع سے) بلند ہو۔
(قبل ح ۷۳۶)
یہ حدیث ہر نماز پر منطبق ہے، چاہے ایک رکعت وتر ہو یا صبح کے دو فرض ہوں اور اگر نماز دو رکعتوں سے زیادہ ہو تو امام بخاری کا درج ذیل باب مشعل راہ ہے:
''باب رفع الیدین اذا قام من الرکعتین''
رفع یدین کا باب جب دو رکعتوں سے اٹھ جائے۔
(قبل ح ۷۳۹)
رفع یدین کے مسئلے پر امام بخاری صحیح بخاری میں پانچ حدیثیں لائے ہیں اور انہوں نے ایک خاص کتاب: جزء رفع الیدین لکھی ہے ، جو کہ ان سے ثابت اور بے حد مشہور و معروف ہے، یہ کتاب راقم الحروف کی تحقیق و ترجمے کے ساتھ مطبوع ہے۔
یاد رہے کہ دیوبندیہ و بریلویہ کو امام بخاری کے اس مسئلے سے اختلاف ہے۔

یہ کچھ مسائل ہے جو حدیث سے میں نے پیش کیے کیا صحیح حدیث کو چھوڑنا کیا یہ تقلید نہیں




 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
رفع یدین کے مسئلے پر امام بخاری صحیح بخاری میں پانچ حدیثیں لائے ہیں اور انہوں نے ایک خاص کتاب: جزء رفع الیدین لکھی ہے ، جو کہ ان سے ثابت اور بے حد مشہور و معروف ہے، یہ کتاب راقم الحروف کی تحقیق و ترجمے کے ساتھ مطبوع ہے۔
اگریہ کتاب آپ نے اپنی تحقیق کے ساتھ شائع کی ہے تواپنے بارے میں مزید کچھ انکشافات فرمائیں
اوراگر
جوش کاپی وپیسٹ میں اقتباس کی حدود کاخیال نہیں رکھاتواس سے بھی مطلع کریں۔ والسلام
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
اگریہ کتاب آپ نے اپنی تحقیق کے ساتھ شائع کی ہے تواپنے بارے میں مزید کچھ انکشافات فرمائیں
اوراگر
جوش کاپی وپیسٹ میں اقتباس کی حدود کاخیال نہیں رکھاتواس سے بھی مطلع کریں۔ والسلام


کیا کسی مذھب کو حدیث پر مقدم کیا جا سکتا ہے

میرا سوال احادیث اور سنت نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مذاھب کے متعلق ہے ، میرے ملک کے لوگ شافعی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں ، تو بعض اوقات مذھب کو حدیث اور سنت پر مقدم کر لیا جاتا ہے تو اس حالت میں کیا میں سنت پر چلوں یا کہ شافعی مذھب اختیار کروں ؟
مثلا شافعی مذھب میں اگر مرد عورت کو عمدا یا غلطی سے چھو لے تو اس کا وضوء ٹوٹ جاتا ہے چاہے وہ عورت محرم ہی کیوں نہ ہو ، اور میں نے حدیث میں یہ پایا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز فجرکے دوران عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کی ٹانگ ھلایا کرتے تھے ۔
ہمارے ہاں مسلمانوں کو یہ بتایا جاتا ہےکہ اثناۓ حج وضوء کی نیت مذھب شافعی سے حنبلی مذھب کی طرف تحویل ہوجاتی ہے ، تو وہاں وہ اس طرح وضوء کرتے ہیں جس طرح کہ حنبلی ، اور اس کا سبب وہی ہے جواوپر والی مثال میں بیان ہوا ہے ، توکیا یہ صحیح ہے کہ اثناۓ حج کسی ایک مذھب سے دوسرے مذھب کی طرف ہوا جاۓ ؟
اور یہ کہ شافعی مذھب میں نماز فجرمیں دعاء قنوت سنت مؤکدہ ہے تو کیانبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہے ، اور جو قنوت نہیں کرتا اس کا حکم کیا ہے ؟

الحمد للہ
1 - انسان پر واجب یہ ہے کہ وہ اس کی اتباع کرے جس پر قرآن وسنت سے کو‎‏ئ دلیل دلالت کرتی ہو چاہے وہ مذھب اور کسی مسلک کے مخالف ہی کیوں نہ ہو ، لیکن کتاب وسنت کی فہم وہی ہو جوکہ اسلاف کی ہے نہ کہ ہماری اور سلف سے مراد صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اور تابعین عظام رحمہ اللہ تعالی ہیں ۔
اور جو مثال آپ نے ذکر کی ہے اس میں صحیح قول یہ ہے کہ : عورت کو چھونے سے مطلق طورپر وضوء نہیں ٹوٹتا چاہے وہ شہوت کے ساتھ یا شہوت کے بغیر ہو ۔
اس کی دلیل وہ حدیث ہے جس میں یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کسی زوجہ کو چھوا اور بغیر وضوء کۓ نماز کےلۓ چلے گۓ ۔
لیکن اگر شہوت کے سبب سے کوئ چیز نکل آئ تو وہ اس کی بنا پر وضوء کرے گا لیکن چھونے کی وجہ سے نہيں ۔
اوراللہ تعالی کا یہ فرمان : { یاتم عورتوں کو چھو‎ؤ تو } صحیح قول کے مطابق اس سے مراد جماع ہے ۔
2 – اس بات کی کوئ ضرورت نہیں کہ حج کا فریضہ ادا کرنے میں ایک مذھب سے دوسرے مذھب کی طرف جایا جاۓ ، بلکہ آپ اس طرح حج کریں جس طرح کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ادا کیا کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا ( اپنے مناسک کا طریقہ مجھ سے لے لو ) ۔
3 - صرف مصائب کے وقت نماز فجر میں قنوت کرنا صحیح ہے ، یعنی جب مسلمانوں پر کوئ مصیبت نازل ہو تو یہ سنت اور مستحب ہے کہ نماز میں قنوت کی جاۓ تاکہ مسلمانوں سے یہ مصیبت ختم ہو ، لیکن دلائل سے ثابت اورصحیح یہ ہے کہ عام حالا ت میں یہ ثابت نہيں ۔
تو جو نماز فجرمیں قنوت نہیں کرتا اس کی نماز صحیح ہے حتی کہ شافعیہ رحمہم اللہ تعالی کے ہاں بھی اس کی نماز صحیح ہے ۔
واللہ تعالی اعلم .
الشیخ محمد صالح المنجد

http://islamqa.info/ur/5459
 

میرب فاطمہ

مشہور رکن
شمولیت
جون 06، 2012
پیغامات
195
ری ایکشن اسکور
218
پوائنٹ
107
صاحب مضمون نے جو خیانت کی ہے وہ کئی غیرمقلدین کا خاصہ ہے ، بس ادھوری بات پیش کرنا اور اپنے مسلک کو حق پر سمجھنا اور مخالف پر الزمات لگانا
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے حوالہ سے جو بات پیش کی گئی ہے وہ ادھوری ہے مکمل قول اس طرح ہے


-وأخرجه البيهقي في"السنن الكبرى"(10/116): أخبرنا أبو عبد الله الحافظ ،ثنا أبو الحسين محمد بن أحمد القنطري ،ثنا أبو الأحوص القاضي، ثنا محمد بن كثير المصيصي ،ثنا الأوزاعي ،حدثني عبدة بن أبي لبابة، أن بن مسعود -رضي الله عنه- قال :
(( ألا لا يقلدن رجل رجلاً دينه ،فإن آمن آمن وإن كفر كفر ،فإن كان مقلداً لا محالة ،فليقلد الميت ويترك الحي، فإنّ الحي لا تؤمن عليه الفتنة )).


جس تقلید سے انہوں نے منع کیا وہ تقلید کون سی تھی انہی کے زبانی پڑھیئے
(( ألا لا يقلدن رجل رجلاً دينه ،فإن آمن آمن وإن كفر كفر
کوئی شخص دین میں کسی ایسی تقلید نہ کرے کہ اگر وہ ایمان لائے تو مقلد بھی ایمان لائے اور اگر وہ شخص کفریہ کلمہ کہے تو مقلد بھی کفریہ کلمہ کہے
اس تقلید کو اندھی تقلید کہتے ہیں اور حنفی مسلک میں حرام ہے حوالہ کے لئیے دیکھئيے تقلید کی شرعی حیثیت از تقی عثمانی صاحب رحمہ اللہ
مذید عبد اللہ بن مسعود فرماتے ہیں
فإن كان مقلداً لا محالة ،فليقلد الميت ويترك الحي
اگر تقلید کرنی ہی ہو تو مردہ افراد کی جائے زندہ کی نہ کی جائے
ہم احناف تو ان فقہاء کی تقلید کرتےہیں جو اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں
جناب قیامت کی صبح سے پہلے ہی عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے تقلید کے حوالہ سے قول کا انہی کے قول سے جواب دے دیا ۔ اور آپ حضرات کی خیانت کو بھی آشکار کردیا
أنَّ ابنَ مسعودٍ قالَ ألا لا يُقلِّدنَ رجلٌ رجلًا دينَه , إن آمَنَ آمَنَ وإن كفرَ كفرَ , فإن كانَ مقلِّدًا لا محالةَ فليقلِّدِ الميِّتَ ويترُكِ الحيَّ فإنَّ الحيَّ لا يؤمنُ عليهِ الفتنةُ
الراوي: عبدة بن أبي لبابة المحدث: ابن حزم - المصدر: أصول الأحكام - الصفحة أو الرقم: 2/264
خلاصة حكم المحدث: باطل
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
اولا
آپ نے خیانت (یا جہالت) یہ کی عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا ادھورا قول ذکر کیا (اس خیانت پر آپ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو قیامت کے دن کیا جواب دیں گے وہ آپ حضرات کا معاملہ ہے )
آپ نے ذکر کیا


لا تقلدوا دینکم الرجال

اور دعوی کیا حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے حوالہ سے تقلید کی ممانعت ثابت کردی ۔ لیکن یہ نہ بتایا کہ وہ کون سی تقلید ہے جس سے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے منع فرمایا
انہوں نے اس تقلید سے منع فرمایا کہ جس میں مقلد جس کی تقلید کر رہا ہوتا ہے اس کے ایمانی اعمال اور کفریہ اعمال کی بھی تقلید کرتا ہے
(( ألا لا يقلدن رجل رجلاً دينه ،فإن آمن آمن وإن كفر كفر
کوئی شخص دین میں کسی ایسی تقلید نہ کرے کہ اگر وہ ایمان لائے تو مقلد بھی ایمان لائے اور اگر وہ شخص کفریہ کلمہ کہے تو مقلد بھی کفریہ کلمہ کہے
اس تقلید کو اندھی تقلید کہتے ہیں اور حنفی مسلک میں حرام ہے حوالہ کے لئیے دیکھئيے تقلید کی شرعی حیثیت از تقی عثمانی صاحب رحمہ اللہ
اس لئیے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بات سے یہ سمجھنا کہ انہوں نے بغیر کوئي قید لگائے تقلید سے منع کیا یہ صرف جہالت کے سوا کچھ نہیں
ثانیا
آپ نے کہا

عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہ رہے ہیں کہ
فليقلد الميت
اگر آپ عربی گرائمر سے نابلد ہیں تو اپنے کسی عالم سے پوچھ لیں (ان سے دلیل ضرور مانگئیے گا کیوں کہ بغیر دلیل قول تو تقلید ہوجائے گا )
حدیث میں کئی حکم مندجہ ذیل صیغہ پر دئيے گے ہیں
ف + لام تاکیدی + حکمیہ صیغہ ،
اور یہاں بھی یہ صیغہ مستعمل ہے ۔
تو عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے قول سے وجوب بھی ثابت ہوگيا وللہ الحمد
ماشاءاللہ ،کیابات ہے اثبات وجوب کی ؟
اثبات وجوب کےلئے (فلیقلد )کا تجزیہ توکردیا ،،،،،،لیکن (فإن كان مقلداً لا محالة )
کو ھضم ہی کرگئے !
کیونکہ (فإن كان مقلداً لا محالة )
تو وجوب کی واضح نفی کررہا ہے ،
اس کا ترجمہ خود آپ نے کیا((اگر تقلید کرنی ہی ہو تو ۔۔۔۔۔)) کیا واجب کےلئے ایسا کہا جاسکتاہے ؟؟؟
مثلاً عید کی نماز (جوکہ واجب ہے) کےبارے کوئی یہ جملہ کہہ سکتا ہے ،،(عید کی نماز نہ پڑھو ،اور اگر ضرور پڑھنی ہی ہو توعلامہ مقلد فلاں کی اقتدا میں پڑھو ۔۔)
جواب لکھتے وقت گرائمر ضرور دیکھ لینا ،اور گرائمر دیکھتے دیکھتے (فان کان )مت بھولنا !
------------------------------
اب آتے ہیں مذکورہ روایت کی سند کی طرف :

قال البيهقي :أخبرنا أبو عبد الله الحافظ , ثنا أبو الحسين محمد بن أحمد القنطري، ثنا أبو الأحوص القاضي , ثنا محمد بن كثير المصيصي , ثنا الأوزاعي , حدثني عبدة بن أبي لبابة، أن ابن مسعود رضي الله عنه قال: " ألا لا يقلدن رجل رجلا دينه الخ
------------------------------
وفي ( تهذيب الكمال في أسماء الرجال )
مُحَمَّد بن كثير بن أَبي عطاء الثقفي ، مولاهم، أَبُو يوسف الصنعاني، نزيل المصيصة
قال البخاري : ضعفه أَحْمَد، وَقَال: بعث إلى اليمن فأتى بكتاب فرواه
وَقَال عَبد اللَّهِ بن أَحْمَدَ بْنِ حنبل: ذكر أبي مُحَمَّد بن كثير فضعفه جدا، وضعف حديثه عن معمر جدا، وَقَال: هو منكر الحديث، وَقَال يروي أشياء منكرة.
وَقَال صالح بْن أَحْمَد بْن حنبل: قال أبي: مُحَمَّد بن كثير لم يكن عندي ثقة، بلغني أنه قيل له: كيف سمعت من معمر؟ قال: سمعت منه باليمن، بعث بها إلي إنسان من اليمن!
وَقَال حاتم بن الليث الجوهري عن أَحْمَد بن حنبل: ليس بشيءٍ يحدث بأحاديث مناكير ليس لها أصل.

ایسے ،،ضعیف جدا ،،اور منکر روایات کے حامل کی روایت سے کسی چیز کا (وجوب ) کیسے ثابت ہوسکتا ہے ؟؟

 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
جس تقلید سے انہوں نے منع کیا وہ تقلید کون سی تھی انہی کے زبانی پڑھیئے
(( ألا لا يقلدن رجل رجلاً دينه ،فإن آمن آمن وإن كفر كفر
کوئی شخص دین میں کسی ایسی تقلید نہ کرے کہ اگر وہ ایمان لائے تو مقلد بھی ایمان لائے اور اگر وہ شخص کفریہ کلمہ کہے تو مقلد بھی کفریہ کلمہ کہے
اس تقلید کو اندھی تقلید کہتے ہیں اور حنفی مسلک میں حرام ہے حوالہ کے لئیے دیکھئيے تقلید کی شرعی حیثیت از تقی عثمانی صاحب رحمہ اللہ
مذید عبد اللہ بن مسعود فرماتے ہیں
فإن كان مقلداً لا محالة ،فليقلد الميت ويترك الحي
اگر تقلید کرنی ہی ہو تو مردہ افراد کی جائے زندہ کی نہ کی جائے
ہم احناف تو ان فقہاء کی تقلید کرتےہیں جو اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں
جناب قیامت کی صبح سے پہلے ہی عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے تقلید کے حوالہ سے قول کا انہی کے قول سے جواب دے دیا ۔ اور آپ حضرات کی خیانت کو بھی آشکار کردیا
آپ کا کہنا ہے کہ (اس تقلید کو اندھی تقلید کہتے ہیں اور حنفی مسلک میں حرام ہے )
ہماری گزارش ہے کہ بھائی تقلید ہوتی ہی اندھی ہے ،اس کو کبھی بصارت نہ مل سکی ،،

خود حنفی اصولی اس بات کو مانتے ہیں ،کہ بصارت وبصیرت سے محروم بندے کو مقلد کہا جاتا ہے ،،
فواتح الرحموت بشرح مسلم الثبوت میں لکھا ہے : (وأما المقلد فمستنده قول مجتهده) فما يفتى به المجتهد يعمل به (لا ظنه) أى ظن المقلد مستندا (ولا ظنه) أى ظن المجتهد)
یعنی مقلد کےلئے مستند صرف اس کے مجتھد کا قول ہی ہے ،وہ کسی دلیل کا پیرو نہیں ہو سکتا"
اور آپ جانتے ہیں ،جسے دلیل کاعلم ہی نہیں وہ یقیناً اندھا ہے ،
ویسے خود مقلدین ،تقلید کے حق میں جو دلیل سب سے پہلے پیش کرتے ہیں ،وہ ہے :
(فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ )اور اس آیت کا ترجمہ وہ یوں کرتے ہیں :اگر تم علم نہیں رکھتے تو مجتھدین کی تقلید کرو ،،
اور یہ معلوم ہی ہے کہ جسے علم نہیں وہ جاھل اور اندھا ہے،،
اس لئے برادر تقلید ہمیشہ اندھی ہوتی ہے ،،
تيسير التحرير" میں علامہ -أمير بادشاه الحنفي رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
(التقليد العمل بقول من ليس قوله إحدى الحجج بلا حجة منها) وإنما عرفه ابن الحاجب بالعمل بقول الغير من غير حجة )
یعنی دلیل کے بغیر کسی کی پیروی کو تقلید کہا جاتا ہے
 
Top