• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تمام مقلدین کو کھلا چیلنج ہے (کہ کسی صحابی سے تقلید کا حکم اور اس کا واجب ہونا ثابت کر دیں)

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
السلام علیکم

محترم آپ کی کافی پرانی پوسٹ سے یہ اقتباس لیا ہے ۔ آپ نے جو حدیث روایت کی ہے اگر اس کو قرینہ بنائیں تو تروایح جو مروجہ طریقہ سے پڑھی جاتی ہے وہ عین بدعت ہے ۔ کیونکہ بخاری میں اس نماز جو کہ تروایح کے نام سے مشہور ہے کے بارے میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں اس طرح رائج نہیں تھی جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رائج کی ۔

دوسری بات میرے تعلق حنفی فقہ سے ہے ، لیکن فقہ حنفی کی یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ تروایح سنت موکدہ کیسے ہے اور اس کا چھوڑنے والا گناہ گار کیوں ہے جب کہ یہ نفل نماز ہے ۔
مجھے تو کبھی کبھی نیا انٹر نیٹ انجئنیر مولوی ہی درست لگتا ہے کہ سب اپنے اکابرین کی اقتدا کر رہے ہیں اللہ اور اس کے رسول کے احکامات پس پشت ڈال دئیے گئے ۔
کیا پہلے کے مسلمانوں کے پاس یہ سہولت تھی کہ وہ ایک موضوع کی تما م احادیث تک فوراً رسائی کر سکیں اور ان جرح و تعدیل جان سکیں ۔ ہم تو ان سے کافی بہتر حالت میں ہیں ہر حدیث کے بارے میں تحقیق ہماری انگلیوں کی پوروں میں ہے ۔ بس نیت خالص ہو اپنے فرقہ یا اکابرین کی بات درست کر نے کی ضد نہ ہو۔

اللہ ہم سب کو صراط مستقیم پر قائم رہنے کی توفیق دے۔

الحمد للہ :

مسلمانوں کا اجماع ہے کہ نماز تراویح ادا کرنا سنت ہے ، جیسا کہ امام نووی رحمہ اللہ تعالی نے بھی اپنی کتاب " المجموع " میں بھی اس کا ذکر کیا ہے ۔

اوراسی طرح نماز تراویح کی ادائيگي میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رغبت دلاتے ہوئے فرمایا :

( جس نے بھی رمضان المبارک میں ایمان اوراجرو ثواب کی نیت سے قیام کیا اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کردیے جاتے ہیں ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 37 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 760 ) ۔

تو پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس فعل پر عمل کے ساتھ ترغیب اورمسلمانوں کا نماز تراویح کے استحباب پر اجماع ہونے کے باوجود نماز تراویح بدعت کیسے ہوسکتی ہے ؟

اوریہ ہوسکتا کہ جس نے اسے بدعت کہا ہو وہ مساجد میں باجماعت ادائيگي کو بدعت قراردیتا ہو ۔

لیکن یہ قول بھی صحیح نہیں کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود صحابہ کرام کوکچھ راتیں اس کی جماعت کروائي تھی ، پھر اسے باجماعت اس لیے ترک کیا کہ کہيں تروایح کی جماعت مسلمانوں پر فرض ہی نہ ہوجائے ، لھذا جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوگئے اورفرض ہونے کا خطرہ جاتا رہا کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کسی چيز کا فرض ہونا ممکن نہيں رہا ۔

اسی لیے عمر رضي اللہ تعالی عنہ نے مسلمانوں کو ایک قاری پر جمع کردیا اورانہيں باجماعت نماز تراویح پڑھنے کا کہا ۔

https://islamqa.info/ur/38021
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
الحمد للہ :

مسلمانوں کا اجماع ہے کہ نماز تراویح ادا کرنا سنت ہے ، جیسا کہ امام نووی رحمہ اللہ تعالی نے بھی اپنی کتاب " المجموع " میں بھی اس کا ذکر کیا ہے ۔

اوراسی طرح نماز تراویح کی ادائيگي میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رغبت دلاتے ہوئے فرمایا :

( جس نے بھی رمضان المبارک میں ایمان اوراجرو ثواب کی نیت سے قیام کیا اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کردیے جاتے ہیں ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 37 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 760 ) ۔

تو پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس فعل پر عمل کے ساتھ ترغیب اورمسلمانوں کا نماز تراویح کے استحباب پر اجماع ہونے کے باوجود نماز تراویح بدعت کیسے ہوسکتی ہے ؟

اوریہ ہوسکتا کہ جس نے اسے بدعت کہا ہو وہ مساجد میں باجماعت ادائيگي کو بدعت قراردیتا ہو ۔

لیکن یہ قول بھی صحیح نہیں کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود صحابہ کرام کوکچھ راتیں اس کی جماعت کروائي تھی ، پھر اسے باجماعت اس لیے ترک کیا کہ کہيں تروایح کی جماعت مسلمانوں پر فرض ہی نہ ہوجائے ، لھذا جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوگئے اورفرض ہونے کا خطرہ جاتا رہا کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کسی چيز کا فرض ہونا ممکن نہيں رہا ۔

اسی لیے عمر رضي اللہ تعالی عنہ نے مسلمانوں کو ایک قاری پر جمع کردیا اورانہيں باجماعت نماز تراویح پڑھنے کا کہا ۔

https://islamqa.info/ur/38021
محترم
میں شاید صحیح طور پر اپنا مؤقف سمجھا نہیں پایا۔
جب ایک چیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پھر حضرت ابو بکر صدیق کے زمانے میں سنت مؤکدہ کے درجے میں نہیں پہنچی۔تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں کیسے سنت مؤکدہ ہوگئی۔
اہل حدیث کے مطابق نماز تروایح ، قیام الیل ،تہجد ایک ہی نمازیں ہیں جو نفل ہیں ۔ اور حنفیوں کے تحت نفلی نماز کی تو جماعت ہی مکروہ ہے۔ پھر اس کے نہ پڑھنے والے گناہ گا ر کیسے ہو گئے ہاں ثواب سے محروم ضرور قرار دئیے جاسکتے ہیں۔
مروجہ طریقہ سنت عمر تو کہلاسکتا ہے سنت نبوی نہیں اگر ہم اس طریقہ کو سنت نبوی کہیں تو پھر حضرت ابوبکر کے دور میں جو طریقہ تھا کیا وہ سنت نہیں تھا۔
یا خلفاء راشدین جو بھی تبدیلی کریں وہ سنت ہی کہلائی گی اگر یہی قرینہ ہے تو اس پر یا اس طرح کی کسی اور تبدیلی پر تبادلہ خیال محض عبث ہے۔
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,426
ری ایکشن اسکور
409
پوائنٹ
190
مروجہ طریقہ سنت عمر تو کہلاسکتا ہے سنت نبوی نہیں اگر ہم اس طریقہ کو سنت نبوی کہیں تو پھر حضرت ابوبکر کے دور میں جو طریقہ تھا کیا وہ سنت نہیں تھا۔
یا خلفاء راشدین جو بھی تبدیلی کریں وہ سنت ہی کہلائی گی اگر یہی قرینہ ہے تو اس پر یا اس طرح کی کسی اور تبدیلی پر تبادلہ خیال محض عبث ہے۔
سنن ابن ماجه :حدیث نمبر: 43 •
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ بِشْرِ بْنِ مَنْصُورٍ‏‏‏‏‏‏ٍ‏‏‏‏، ‏‏‏‏‏‏ وَإِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ السَّوَّاقُ‏‏‏‏‏‏ٍ‏‏‏‏، ‏‏‏‏‏‏قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ‏‏‏‏‏‏ٍ‏‏‏‏، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ‏‏‏‏‏‏ٍ‏‏‏‏، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ضَمْرَةَ بْنِ حَبِيبٍ‏‏‏‏‏‏ٍ‏‏‏‏، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَمْرٍو السُّلَمِيِّ‏‏‏‏‏‏ٍ‏‏‏‏، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ سَمِعَ الْعِرْبَاضَ بْنَ سَارِيَةَ‏‏‏‏‏‏ٍ‏‏‏‏، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ وَعَظَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏مَوْعِظَةً ذَرَفَتْ مِنْهَا الْعُيُونُ، ‏‏‏‏‏‏وَوَجِلَتْ مِنْهَا الْقُلُوبُ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْنَا:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّ هَذِهِ لَمَوْعِظَةُ مُوَدِّعٍ، ‏‏‏‏‏‏فَمَاذَا تَعْهَدُ إِلَيْنَا؟ قَالَ:‏‏‏‏ " قَدْ تَرَكْتُكُمْ عَلَى الْبَيْضَاءِ، ‏‏‏‏‏‏لَيْلُهَا كَنَهَارِهَا، ‏‏‏‏‏‏لَا يَزِيغُ عَنْهَا بَعْدِي إِلَّا هَالِكٌ، ‏‏‏‏‏‏مَنْ يَعِشْ مِنْكُمْ فَسَيَرَى اخْتِلَافًا كَثِيرًا، ‏‏‏‏‏‏فَعَلَيْكُمْ بِمَا عَرَفْتُمْ مِنْ سُنَّتِي، ‏‏‏‏‏‏وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ، ‏‏‏‏‏‏عَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ، ‏‏‏‏‏‏وَعَلَيْكُمْ بِالطَّاعَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ عَبْدًا حَبَشِيًّا، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّمَا الْمُؤْمِنُ كَالْجَمَلِ الْأَنِفِ، ‏‏‏‏‏‏حَيْثُمَا قِيدَ انْقَادَ" . عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ کہتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایسی نصیحت فرمائی جس سے ہماری آنکھیں ڈبدبا گئیں، اور دل لرز گئے، ہم نے کہا: اللہ کے رسول! یہ تو رخصت ہونے والے کی نصیحت معلوم ہوتی ہے، تو آپ ہمیں کیا نصیحت کرتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے تم کو ایک ایسے صاف اور روشن راستہ پر چھوڑا ہے جس کی رات بھی دن کی طرح روشن ہے، اس راستہ سے میرے بعد صرف ہلاک ہونے والا ہی انحراف کرے گا، تم میں سے جو شخص میرے بعد زندہ رہے گا وہ بہت سارے اختلافات دیکھے گا، لہٰذا میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفاء راشدین ۱؎کی سنت سے جو کچھ تمہیں معلوم ہے اس کی پابندی کرنا ، اس کو اپنے دانتوں سے مضبوطی سے تھامے رکھنا، اور امیر کی اطاعت کرنا، چاہے وہ کوئی حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو، اس لیے کہ مومن نکیل لگے ہوئے اونٹ کی طرح ہے، جدھر اسے لے جایا جائے ادھر ہی چل پڑتا ہے“۔
.
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/السنة ۶ ( ۴۶۰۷ ) ، سنن الترمذی/العلم ۱۶ ( ۲۶۷۶ ) ، ( تحفة الأشراف : ۹۸۹۰ ) ، وقد أخرجہ : مسند احمد( ۴/۱۲۶ ، ۱۲۷ ) ، سنن الدارمی/المقدمة ۱۶ ( ۹۶ ) ( صحیح )
.
وضاحت: ۱؎: ہدایت یافتہ خلفاء سے مراد خلفاء راشدین ہیں، یعنی ابوبکر، عمر، عثمان اور علی رضی اللہ عنہم، حدیث میں وارد ہے: «الخلافة ثلاثون عامًا» یعنی خلافت راشدہ تیس سال تک رہے گی۔
.
قال الشيخ الألباني: صحيح
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,426
ری ایکشن اسکور
409
پوائنٹ
190
@نسیم
سنت کی اطباع ہوتی ہے تقلید نہیں ۔
سنن ابن ماجه :حدیث نمبر : 42
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ بَشِيرِ بْنِ ذَكْوَانَ الدِّمَشْقِيُّ‏‏‏‏‏‏ٍ‏‏‏‏ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ‏‏‏‏‏‏ٍ‏‏‏‏ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْعَلَاءِ يَعْنِى ابْنَ زَبْرٍ‏‏‏‏‏‏ٍ‏‏‏‏ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَبِي الْمُطَاعِ‏‏‏‏‏‏ٍ‏‏‏‏ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ : ‏‏‏‏ سَمِعْتُ الْعِرْبَاضَ بْنَ سَارِيَةَ‏‏‏‏‏‏ٍ‏‏‏‏ ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ : ‏‏‏‏ قَامَ فِينَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ ، ‏‏‏‏‏‏فَوَعَظَنَا مَوْعِظَةً بَلِيغَةً وَجِلَتْ مِنْهَا الْقُلُوبُ ، ‏‏‏‏‏‏وَذَرَفَتْ مِنْهَا الْعُيُونُ ، ‏‏‏‏‏‏فَقِيلَ : ‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏وَعَظْتَنَا مَوْعِظَةَ مُوَدِّعٍ ، ‏‏‏‏‏‏فَاعْهَدْ إِلَيْنَا بِعَهْدٍ ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ : ‏‏‏‏ ” عَلَيْكُمْ بِتَقْوَى اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏وَالسَّمْعِ ، ‏‏‏‏‏‏وَالطَّاعَةِ ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ عَبْدًا حَبَشِيًّا ، ‏‏‏‏‏‏وَسَتَرَوْنَ مِنْ بَعْدِي اخْتِلَافًا شَدِيدًا ، ‏‏‏‏‏‏فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي ، ‏‏‏‏‏‏وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ ، ‏‏‏‏‏‏عَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ ، ‏‏‏‏‏‏وَإِيَّاكُمْ وَالْأُمُورَ الْمُحْدَثَاتِ ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ كُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ “ .
.
سیدنا عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان کھڑے ہوئے ، آپ نے ہمیں ایک مؤثر نصیحت فرمائی ، جس سے دل لرز گئے اور آنکھیں ڈبڈبا گئیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا : اللہ کے رسول ! آپ نے تو رخصت ہونے والے شخص جیسی نصیحت کی ہے ، لہٰذا آپ ہمیں کچھ وصیت فرما دیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”
تم اللہ سے ڈرو ، اور امیر(سربراہ) کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو ، گرچہ تمہارا امیر ایک حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو ، عنقریب تم لوگ میرے بعد سخت اختلاف دیکھو گے ، تو تم میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت کو لازم پکڑنا ، اس کو اپنے دانتوں سے مضبوطی سے تھامے رہنا ، اور دین میں نئی باتوں (بدعتوں) سے اپنے آپ کو بچانا ، اس لیے کہ ہر بدعت گمراہی ہے
۱؎ ۔
.
تخريج دارالدعوه : تفرد به ابن ماجه ، ( تحفة الأشراف : ۹۸۹۱ ) ( صحيح )
.
وضاحت : ۱؎ : اس میں تقویٰ اختیار کرنے اور امیر کی اطاعت کرنے کے علاوہ سنت نبوی اور سنت خلفاء راشدین کی اتباع کی تاکید اور بدعات سے بچنے کی تلقین ہے ، ساتھ ہی اس بات کی پیش گوئی بھی ہے کہ یہ امت اختلاف و انتشار کا شکار ہو گی ، ایسے موقع پر صحیح راہ یہ ہو گی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور خلفاء راشدین کے طریقے اور ان کے تعامل سے تجاوز نہ کیا جائے ، کیونکہ اختلافات کی صورت میں حق کو پہنچاننے کی کسوٹی اور معیار یہی دونوں چیزیں ہیں ۔
.
قال الشيخ الألباني : صحيح
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
جس چیز کا حکم اللہ تعالی اور اس کے رسول اکرمﷺ دیں ، اس کی پیروی عین اطاعت ہے ،
صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین خصوصاً خلفاء راشدین کے طریقہ کی پیروی کاحکم پیارے نبی ﷺ نے دیا ہے یعنی اللہ نے دیا ہے
تو اب انکے طریقہ پر چلنا اصل میں اللہ کی اطاعت ہے ؛
( فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا وَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا هُمْ فِي شِقَاقٍ ۔۔۔ ) البقرۃ
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
جس چیز کا حکم اللہ تعالی اور اس کے رسول اکرمﷺ دیں ، اس کی پیروی عین اطاعت ہے ،
صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین خصوصاً خلفاء راشدین کے طریقہ کی پیروی کاحکم پیارے نبی ﷺ نے دیا ہے یعنی اللہ نے دیا ہے
تو اب انکے طریقہ پر چلنا اصل میں اللہ کی اطاعت ہے ؛
( فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا وَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا هُمْ فِي شِقَاقٍ ۔۔۔ ) البقرۃ
محترم اسحاق صاحب
میرا سوال یہاں پھر وہی ہوگا کہ کیا خلفاء راشدین معصوم ہیں اور ان کا ہر فیصلہ درست ہوگا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ تعالیٰ کو تیمم کو درست نہ سمجھتے تھے۔ عبد اللہ بن مسعو د رضی اللہ عنہ بھی اسے درست نہ سمجھتے تھے۔ جب ان سے اجتہادی خطا ہوسکتی ہے تو ان کی سنت کا دانتوں سے پکڑ نا امت کیلئے کس طرح کار آمد ہوسکتا ہے ۔ اب اگر میں یہ کہوں کہ میں تو مروجہ تروایح نہیں پڑھوں گا بلکہ وہی کروں گا جیسا رسول اللہ اور حضرت ابوصدیق کے زمانے میں ہوتا رہا تو کیا میرایہ استدلال درست ہوگا۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
حضرت عمر رضی اللہ عنہ تعالیٰ کو تیمم کو درست نہ سمجھتے تھے۔ عبد اللہ بن مسعو د رضی اللہ عنہ بھی اسے درست نہ سمجھتے تھے۔
اسکا حوالہ دے دیں جناب عالی!
بڑی مہربانی ہوگی
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
اب اگر میں یہ کہوں کہ میں تو مروجہ تروایح نہیں پڑھوں گا بلکہ وہی کروں گا جیسا رسول اللہ اور حضرت ابوصدیق کے زمانے میں ہوتا رہا تو کیا میرایہ استدلال درست ہوگا۔
پیارے بھائی!
کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں باجماعت تراویح نہیں ہوئی تھی؟
 
Top