• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تنازع - 3

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
تنازع - 3

طاغوت طغیان سے مشتق ہے جو کہ حد سے تجاوز کرنا ہے۔ پس ہر وہ شخص جس نے رسول اللہ ﷺ کی لائی ہوئی شریعت سے ہٹ کر فیصلہ کیا یا کروانا چاہا تو اس نے طاغوت سے فیصلہ کیا اور طاغوت سے فیصلہ کرانا چاہا اور یہ کہ ہر انسان کا یہ فرض ہے کہ وہ محمد رسول ﷺ کی لائی ہوئی شریعت کے مطابق ہی فیصلہ کرے۔ اسکے برعکس نہیں۔

یعنی کسی کے لئے یہ جائز نہیں، یا کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ نبی کریم ﷺ کی لائی ہوئی شریعت سے ہٹ کر فیصلہ کرے یا کروائے۔

تو جب کہ ہر انسان کا فرض بنتا ہے کہ وہ شریعت محمدی ﷺ کے مطابق ہی فیصلہ کرائے تو جس شخص نے اس کے برخلاف فیصلہ کیا یا فیصلہ کرایا تو اس نے طغیان اور سرکشی کی اور فیصلہ کرنے یا کرانے کے لحاظ سے حد سے تجاوز کیا تو وہ حد سے تجاوز کرنے کی بناء پر طاغوت بن گیا۔

پس وہ طاغوت بن گیا اس لئے کہ اس نے حد سے تجاوز کیا اور اللہ پر جھوٹ باندھا اور کہا کہ میں لوگوں کے لئے شریعت اور قانون بناتا ہوں جس میں ان کی مصلحت ہے، جیسا کہ بعض لوگ اللہ پر جرأت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’زانی کو کیسے رجم کیا جا سکتا ہے؟ رجم کی سزا تو وحشیانہ ہے‘‘۔ (ہم ان کے اس کفر اور گمراہی سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں)۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس کو جلاوطن یا قید سے بدل دیا جائے۔ یہی وہ چیز ہے جو اسے طاغوت بنا تی ہے۔ جس نے شریعت بنانے کی کوشش کی، جس نے سود کو حلال قرار دیا، جس نے شراب کو حلال قرار دیا، یا جس نے اس طرح کا کوئی بھی کام کیا تو وہ طاغوت ہے جو اس جنس کی کسی چیز کا بھی ارتکاب کرے وہ طاغوت ہے کیونکہ وہ حد سے تجاوز کر گیا ہے۔
بعض اوقات کسی چیز کی حد تو تجاوز کر جاتی ہے لیکن وہ خود حد سے تجاوز نہیں کرتا، جیسے کوئی امام مجتہد اجتہاد سے کام لیتے ہوئے اس میں حکم لگائے۔ پھر لوگ مثال کے طور پر اسکے طریقے کی پیروی کرنے والے آئیں اور اس کے قول کو اللہ اور رسول ﷺ کے فرمان سے مقدم کر دیں، اور ہر مختلف فیہ چیز کو اسی کے کلام کی طرف لوٹانا شروع کر دیں تو اس سے انہوں نے اسے طاغوت بنا دیا کیونکہ انہوں نے اس کی حد سے تجاوز کیا۔ اس کی حد تو یہ تھی کہ اللہ کا نیک بندہ یا اگروہ ہے تو امام مجتہد رہے۔ حتی کہ اللہ تعالیٰ کے مقرب فرشتے جبرئیل علیہ السلام کی حد یہ ہے کہ وہ اللہ کے فرشتے رہیں اور رسول اللہ ﷺ کی حد یہ ہے کہ آپ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور اس کی مخلوقات میں سب سے بہتر ہیں اور جو بھی اوصاف اللہ تعالیٰ نے آپ کے گنوائے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود اگر اللہ کے علاوہ پوجا کی جائے یا جبرئیل علیہ السلام یا محمد رسول اللہ ﷺ یا ان کے علاوہ کسی اور کو پکارا جائے یا ان دونوں سے استغاثہ (مدد طلب) کیا جائے یا ربوبیت کی کوئی صفت ان میں بیان کی جائے، جس نے بھی ان میں سے کوئی کام کیا، اس نے حد سے تجاوز کیا اور اس کو طاغوت بنا دیا اگر چہ وہ ایسا نہیں ہے۔
پس عیسیٰ علیہ السلام ہرگز طاغوت نہیں ہیں بلکہ وہ تو اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ انہوں نے اپنی قوم (عیسائیوں) کو اسی چیز کا حکم دیا جس کا اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم دیا تھا جیسے کہ فرمان ذی شان ہے:
مَا قُلْتُ لَہُمْ اِلَّا مَآ اَمَرْتَنِيْ بِہٖٓ اَنِ اعْبُدُوا اللہَ رَبِّيْ وَرَبَّكُمْ
میں نے تو ان سے اور کچھ نہیں کہا مگر صرف وہی جو تو نے مجھ سے کہنے کو فرمایا تھا کہ تم اللہ ہی کی عبادت کرو جو میرا بھی رب ہے اور تمہارا بھی رب ہے۔(المائدۃ:117)۔
وَاِنَّ اللہَ رَبِّيْ وَرَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْہُ۝۰ۭ ھٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيْمٌ۝۳۶ (مریم:36)
میرا اور تم سب کا رب صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے، تم سب اسی کی عبادت کرو، یہی سیدھی راہ ہے۔
لیکن عیسائیوں نے ان کے بارے میں غلو کیا اور حد سے تجاوز کر گئے۔
لہٰذا کسی چیز کے حقیقی معنوں میں طاغوت ہونے اور اس کے طاغوت نہ ہونے کے باوجود اس کے طاغوت بنا دیئے جانے میں فرق ہے کیونکہ اس کے بارے میں دوسرے لوگ شرعی حدود سے تجاوز کر گئے۔

اللہ تعالیٰ کے اس فرمان پر غور کرو:
وَقَدْ اُمِرُوْٓا اَنْ يَّكْفُرُوْا بِہٖ(النسآء:60)۔
اور تحقیق انہیں حکم دیا گیا ہے کہ (شیطان کے) ان سب کاموں کا انکار کریں۔
پس اللہ تعالیٰ نے ’’يُرِيْدُوْنَ اَنْ يَّتَحَاكَمُوْٓا اِلَى الطَّاغُوْتِ‘‘ (لیکن وہ اپنے فیصلے غیر اللہ کی طرف لے جانا چاہتے ہیں ) کہنے کے بعد فرمانِ ذی وقار ’’وَقَدْ اُمِرُوْٓا اَنْ يَّكْفُرُوْا بِہٖ‘‘ (اور تحقیق انہیں حکم دیا گیا ہے کہ (شیطان کے) ان سب کاموں کا انکار کریں)۔ اس آیت سے اس کی تاکید بیان فرما دی۔ اوریہ اس بات کے واضح ترین دلائل میں سے ہے کہ شرع سے ہٹ کر فیصلے کروانا کفر ہے۔ اور (وضعی) قانون سے فیصلے کروانا کفر ہے۔
’’وَقَدْ اُمِرُوْٓا اَنْ يَّكْفُرُوْا بِہٖ‘‘ میں غور کرنے سے آپ کو قانون دانوں (قانون سازوں اور قانون کے پرستاروں) کا بغض و عناد اور اس بارہ میں اللہ تعالیٰ کے ارادے کے خلاف انکار ارادہ آپ کو معلوم ہو جائے گا۔ کیونکہ شرعی طور پر ان سے مطلوب جس پر وہ اللہ کے بندے کہلانے کے مستحق ہیں وہ طاغوت کے ساتھ کفر ہے نہ کہ طاغوت سے تحکیم اور اسے اپنا حاکم اور فیصل ماننا۔
فَبَدَّلَ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِىْ قِيْلَ لَھُمْ(البقرۃ:59)
پس ان ظالم لوگوں نے اس بات کو ہی بدل دیا جو کہ اُن سے کہی گئی تھی۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’وَقَدْ اُمِرُوْٓا اَنْ يَّكْفُرُوْا بِہٖ‘‘ (النسآء:60)
اور تحقیق انہیں حکم دیا گیا ہے کہ (شیطان کے تمام قوانین اور) ان سب کاموں کا انکار کریں۔
اور:
فَمَنْ يَّكْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَيُؤْمِنْۢ بِاللہِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰى۝۰ۤ لَاانْفِصَامَ لَہَا۝۰ۭ وَاللہُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ(بقرۃ:256)
اس لئے جو شخص اللہ تعالیٰ کے سوا دوسرے معبودوں کا انکار کر کے اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اس نے مضبوط کڑے کو تھام لیا، جو کبھی نہ ٹوٹے گا اور اللہ تعالیٰ سننے والا جاننے والا ہے۔
اور ’’الْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰى‘‘ سے مراد صرف اللہ تعالیٰ کے معبود ہونے کی گواہی دینا ہے۔ اور ’’لا الٰہ الا اللہ‘‘ نفی اور اثبات کا نام ہے۔ یعنی طاغوت کے ساتھ کفر اور اللہ کے ساتھ ایمان۔ پس جو شخص طاغوت کے ساتھ کفر نہ کرے یا (وضعی) قوانین وغیرہ جن سے فیصلہ کرایا جاتا ہے کفر نہ کرے تو اس نے گویا اللہ تعالیٰ کے اکیلے معبود ہونے کی گواہی نہیں دی۔ پس جب اللہ تعالیٰ نے طاغوت سے کفر کرنے کا حکم دیا ہے ’’وَقَدْ اُمِرُوْٓا اَنْ يَّكْفُرُوْا بِہٖ‘‘ (النسآء:60) ‘‘(اور تحقیق انہیں حکم دیا گیا ہے کہ (شیطان کے تمام قوانین اور) ان سب کاموں کا انکار کریں) اور وہ اس کے باوجود اس سے فیصلہ کروانا چاہتے ہیں۔ جب انسان اس پر غور کرے، جیسا کہ شیخ رحمہ اللہ نے کہا، اس سے قانون کے پرستاروں کی اللہ تعالیٰ کی مراد کی مخالفت اور عناد کا ارادہ معلوم کر سکتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے تو طاغوت کے ساتھ کفر کرنے اور اللہ کی نازل کردہ شریعت سے فیصلے کرانے کا حکم دیا ہے۔ اور یہ (قانون ساز و قانون دان، جج و وکیل، پولیس انتظامیہ اور قانون کے پرستار) لوگوں پر قانون سازی سے فیصلے کروانے واجب قرار دیتے ہیں اور لوگوں کو اللہ کی شریعت اور دین سے فیصلے کروانے سے روکتے اور ہٹاتے ہیں۔

پھر اللہ تعالیٰ کے اس فرمان :
وَيُرِيْدُ الشَّيْطٰنُ اَنْ يُّضِلَّھُمْ ضَلٰلًۢا بَعِيْدًا(النسآء:6)
اور شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ انہیں بہکا کر دور ڈال دے۔
پر غور کرو کہ کس طرح اس بات پر دلالت کر رہا ہے کہ یہ گمراہی ہے جبکہ قانون کے پرستار اسے ہدایت سمجھ رہے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کا حال بیان فرمایا ہے جو طاغوت سے فیصلے کرواتے ہیں یا کروانے کا ارادہ رکھتے ہیں کہ شیطان ان کو دور کی گمراہی میں ڈال دینا چاہتا ہے۔ تو گویا یہ امر گمراہی ہے۔ ایسے ہی اللہ تعالیٰ نے اس کو گمراہی کا نام دیا ہے۔ لیکن قانون (کے پجاری) جن کے بارے میں شیخ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ وہ اسے ہدایت تصور کرتے ہیں۔ یعنی وہ کہتے ہیں یہ بہت اچھی چیز ہے، یہ تہذیب و تمدن ہے، یہ تو نئی تبدیلی ہے بلکہ کبھی تو وہ اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ انہوں نے فلاں سال فلاں نظام اور فلاں قانون وضع کیا اور فلاں سال اقتصادیات کے حوالے سے اور بینکاری کے بارے میں قوانین وضع کئے اور فلاں سال قانون مدنی یعنی شہری قانون وضع کیا۔ اس پر فخر کرتے ہیں۔
اور اسی کو ہدایت خیال کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ امت اس سے قبل پسماندگی (Back ward) اور گمراہی میں تھی اور یہ مکمل طور پر اللہ تعالیٰ کے فرمان کے برعکس ہے جیسا کہ پچھلی آیت اس پر دلالت کرتی ہے۔

جیسا کہ آیت دلالت کرتی ہے کہ یہ شیطان کی چاہت ہے۔

تو طواغیت اور (وضعی) قوانین سے فیصلے کرنا اور کروانا شیطان کی چاہت ہے۔ پس وہ تو ان کو گمراہ کرنا چاہتاہے کہ وہ اس سے فیصلے کروائیں۔

(درحقیقت) یہ اس کے برعکس ہے کہ جس کا قانو ون کے پرستار شیطان کے ساتھ تعلق ہونے کی وجہ سے تصور رکھتے ہیں اور وہ یہ کہ اس میں انسان کی مصلحت ہے۔ ان کے زَعم و گمان کے مطابق شیطان کی چاہت میں انسان کی مصلحت ہے۔ اور اللہ کی چاہت اور جس کے ساتھ سید ولد عدنان (محمدﷺ، عدنان آپ کے اجداد میں سے ہیں) بھیجے گئے ہیں، وہ اس وصف اور شان (انسان کی مصلحت) سے خالی ہے۔ (نعوذ باﷲ)۔

تو گویا انہوں نے اِقلاب (بدل دینا) کرتے ہوئے شیطان کی چاہتوں کو حکمت، رحمت اور مصلحت بنا دیا اور جو کچھ اللہ رحمن نے نازل کیا ہے اور جو کچھ رسول اکرم ﷺ کی چاہت ہے اس میں ان کے زعم کے مطابق پیچھے رہ جانا (ترقی کی دوڑ میں ساتھ نہ دے سکنا) انحطاط اور صلاحیت کی کمی ہے۔

جبکہ اللہ تعالیٰ نے اس قسم کے لوگوں کا جو کہ احکامِ جاہلیت تلاش کرنے والے ہیں رد کرتے ہوئے اور یہ بیان کرتے ہوئے کہ اسی کا حکم بہتر ہے، اس جیسا حکم کسی کا نہیں ہو سکتا، فرمایا:
اَفَحُكْمَ الْجَاہِلِيَّۃِ يَبْغُوْنَ۝۰ۭ وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللہِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُّوْقِنُوْنَ
کیا یہ لوگ پھر سے جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں، یقین رکھنے والے لوگوں کیلئے اللہ تعالیٰ سے بہتر فیصلے اور حکم کرنیوالا کون ہو سکتا ہے(المائدۃ:50)
اس آیت مبارکہ پر غور کرو کہ کس طرح واضح دلالت کر رہی ہے کہ حکم کی دو قسمیں ہیں۔ (یعنی جاہلیت کا حکم اور اللہ کا حکم)۔

دنیا میں حکم ان دونوں سے خارج نہیں ہے یعنی حکم کی یہی دو اقسام ہیں تیسری کوئی قسم نہیں ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے بعد صرف جاہلیت کا حکم باقی رہ جاتا ہے اور یہ واضح ہے کہ قانون کے پرستار اقرار کریں یا انکار کریں، ان کا شمار بھی اہل الجاہلیۃ کے زمرے میں ہوتا ہے بلکہ یہ تو ان سے بھی بری حالت میں ہیں اور ان کی سب باتیں جھوٹ کا پلندہ ہیں، کیونکہ اس ضمن میں اہل جاہلیت کے ہاں تو کوئی تضاد یا تناقض نہیں تھا۔

جاہلیت تو جاہلیت ہی ہے چاہے وہ مطلق جاہلیت الاولیٰ ہو جو نبی اکرم ﷺ کی بعثت کے ساتھ ختم ہو گئی یا جدید جاہلیت ہو جو کہ مقید ہے۔ ایک شہر سے شہر تک، ایک حکم جو کہ جاہلیت سے متعلق ہو ایک فرد سے فرد تک جو کہ جاہلیت پر چلنا چاہتا ہو اور اسی طرح۔ پس اب ہمارے ہاں مغربی جہالت اپنے احکام کے ساتھ موجود ہے اور ہمارے ہاں اس اُمت میں ایسے لوگ بھی ہیں جو طاغوت سے فیصلے کروانے کا زَعم یا ارادہ رکھتے ہیں۔
پہلی جاہلیت والے اپنی بات میں متناقض نہیں تھے کہ وہ تو ایمان ہی نہیں رکھتے تھے اور نہ رسول اکرم ﷺ پر یقین رکھتے تھے اور نہ انہیں قرآن پر ایمان رکھنے کا زَعم تھا، اس لئے وہ تو قرآن و سنت کے خلاف فیصلے کرواتے تھے۔ لیکن جو شخص ایمان کا زَعم اور دعویٰ بھی کرتا ہے، پھر ان جاہلین کے احکام سے فیصلے کروانا چاہتا ہے ، یہ متناقض ہے کیونکہ اس نے جاہلیت کے حکم کی پیروی کی۔

لیکن پرستارانِ قانون اس حیثیت سے متناقض ہیں کہ وہ رسول اکرم ﷺ کی لائی ہوئی شریعت پر ایمان رکھنے کا زَعم رکھتے ہیں اور وہ (شریعت ِ اسلامیہ اور وضعی قوانین میں) درمیانی راہ نکالنا چاہتے ہیں۔

(اللہ کی شان ہے) سبحان اللہ! ایسا لگتا ہے کہ یہ آیات ہمارے اوپر، ہمارے ہی دور اور معاشرے کے متعلق نازل ہوئی ہیں کہ وہ اس بات کا ارادہ رکھتے ہیں کہ کوئی درمیانی راہ نکال لیں۔

اس قسم کے لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ:
اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْكٰفِرُوْنَ حَقًّا۝۰ۚ وَاَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِيْنَ عَذَابًا مُّہِيْنًا
یقین مانو کہ یہ سب لوگ اصلی کافر ہیں اور کافروں کے لئے ہم نے اہانت آمیز عذاب تیار کر رکھا ہے۔(النسا:151)۔

یعنی ان لوگوں کے بارے میںجو اللہ اور رسول کے درمیان تفریق کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم بعض پر ایمان لاتے ہیں اور بعض کے ساتھ کفر کرتے ہیں اور اس طرح درمیانی راہ نکالنا چاہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:
كَـمَآ اَنْزَلْنَا عَلَي الْمُقْتَسِمِيْنَ۝۹۰ۙ الَّذِيْنَ جَعَلُوا الْقُرْاٰنَ عِضِيْنَ۝۹۱
جیسے کہ ہم نے ان تقسیم کرنے والوں پر اتارا۔ جنہوں نے اس کتاب الٰہی (یعنی قرآن) کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے۔(الحجر:90 ۔ 91)۔
یعنی مختلف اجزاء اور حصے بنا دیا کہ کچھ کو لے لیتے ہیں اور کچھ کو چھوڑ دیتے ہیں۔ تو ہم ان لوگوں کو دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھنے سے متعلقہ چیزیں مثلاً: اللہ تعالیٰ حق ہے، وہ موجود اور ’’الحی القیوم‘‘ ہے اور یہ کہ رسول اکرم ﷺ خاتم النبیین اور تمام جہانوں کے لئے رسول ہیں اور یہ کہ اس نے ہمیں حج، نماز، صدقہ و خیرات (زکوٰۃ) اور رمضان کے روزے رکھنے کا حکم دیا ہے وغیرہ وغیرہ، یہ سب چیزیں تو قابل قبول ہیں اور یہ اس قسم سے ہیں جس پر ایمان رکھتے ہیں۔
لیکن جب ہم مسئلہ سود کی طرف آتے ہیں، یا عورت کے مقام یا اس طرح کے جدید (معاصر) مسائل کی طرف آتے ہیں تو یہاں اختلاف ظاہر ہو جاتا ہے اور کلام متردد اور مختلف ہو جاتا ہے۔ ایک کہنے والا کہتا ہے کہ ہم اشتراکی نظام چاہتے ہیں کیونکہ یہ سود اور استحصال سے روکتا ہے۔ اور عوام اور حکومت کو ہر چیز کا برابری کی سطح پر مالک بناتا ہے۔ پس معاشی لحاظ سے وہ اشتراکی نظام کو چاہتا ہے اس کے باوجود وہ نماز بھی پڑھتا ہے، روزے بھی رکھتا ہے اور ممکن ہے کہ اس کا تعلق علماء و شیوخ سے بھی ہو ہم اللہ تعالی سے اس کی عافیت کے طلبگار ہیں۔
ایک دوسرا کہتا ہے کہ نہیں ہم اشتراکیت نہیں چاہتے کیونکہ ہر صورت میں اقتصادی آزادی ہونی چاہیئے، اللہ کے احکام سے آزادی جس میں، کسی قسم کی قیود نہ ہوں کہ یہ حرام ہے، یہ حلال ہے، یہ وہ طریقہ ہے کہ کمپنیاں بازار کی ضرورت کے مطابق جیسے چاہیں نفع کمائیں اور سامان کی رسد و طلب کے مطابق فائدے کا سودا کریں، یعنی سود تو اس طرح معاملات آزاد سرمایہ داری نظام کے مطابق ہوتے ہیں۔
اور تیسرا کہتا ہے کہ تمام ادیان ہی اچھے ہیں پس ہم صلاۃ (نماز) زکوۃ اور ہر چیز کو مانتے ہیں لیکن عورت کاماملہ دشوار یا مشتبہ ہے۔ اب تو حال یہ ہے کہ بہت سے ممالک میں صدر مملکت یا وزیر اعظم عورت ہے۔ بعض ممالک میں عورت وزیر ہے (حتی کہ پاکستان کی بہت سی عورتیں وزیر ہیں)۔
ایک اور مثال کفار کے ساتھ دوستی کا مسئلہ ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے کفار سے متعلق مسائل ہمارے لئے قرآن پاک میں بیان فرما دیئے ہیں اور ہمارے لئے بیان کر دیا ہے کہ ہم یہود و نصاریٰ کے بارے میں اور دوسری تمام کافر اقوام کے بارے میں کیا عقیدہ رکھیں۔ لیکن ایسے لوگوں میں سے کہنے والا کہتا ہے کہ یہ قدیم زمانے کی باتیں ہیں۔ یہ جدید بین الاقوامی نظام سے پہلے کی باتیں ہیں۔ اور گرم و سرد جنگ کے زمانے کی باتیں ہیں جبکہ اب سرد جنگ ختم ہو گئی ہے۔ اور ہم سب بھی بعض کی طرح بارد (ٹھنڈے) ہو گئے ہیں۔ اب ہم ایک بین الاقوامی خاندان اور ایک بین الاقوامی معاشرے کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ اب عداوتیں نہیں لوٹیں گی۔ یہ صحیح ہے کہ قرآن مجید میں یوں ہے۔ اور پھر تأویل کرنا شروع ہو جاتا ہے۔ کیونکہ وہ ان آیات کا انکار تو نہیں کر سکتا یا انہیں قرآن پاک سے نکال تو نہیں سکتا، لیکن ان کو معنی و مفہوم سے خالی کر دینا چاہتا ہے اور کہتا ہے کہ نہیں اب تو ہم سب ایک ہی صورتحال میں ہیں اور ہم سب کا ہدف ایک ہے، نظام ایک ہے، آپ ان کو کافر کہو گے؟ یہ تو مشکل ہے۔
اسی لئے آج پورے عالم اسلام کے ریڈیو چینل، عالم اسلام کی صحافت اور عالم اسلام کے ٹیلی ویژن چینلوں پر ہم یہ نہیں دیکھتے کہ ان کافر ممالک کے بارے میں کہیں کہ یہ کافر ممالک ہیں بلکہ وہ صرف یہ کہتے ہیں کہ یہ غیر اسلامی ممالک ہیں۔
پس وہ کتاب کے کچھ حصے پر تو ایمان رکھتے ہیں اور اس میں اس سے فیصلے بھی کرواتے ہیں اور بعض کا انکار کر دیتے ہیں بالکل ویسے ہی جیسے یہودیوں کا حال تھا۔ اور جیسا کہ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے اس کا انکار اور اس پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’میٹھا میٹھا تو ہمارے لئے ہے اور کڑوا کڑوا ان کے لئے‘‘۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَاِنْ يَّاْتُوْكُمْ اُسٰرٰى تُفٰدُوْھُمْ وَھُوَمُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ اِخْرَاجُہُمْ۝۰ۭ اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْكِتٰبِ وَتَكْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ۝۰ۚ (البقرة:85)
اور جب وہ قیدی ہو کر تمہارے پاس آئے تو تم نے ان کے فدیے دیئے لیکن ان کا نکالنا جو تم پر حرام تھا (اس کا کچھ خیال نہ کیا) کیا تم بعض احکام پر ایمان رکھتے ہو اور بعض کے ساتھ کفر کرتے ہو؟
اس کی اصل یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے یہودیوں پر تورات میں خون بہانا حرام قرار دیا تھا اور قیدیوں کا فدیہ ادا کرنا فرض قرار دیا تھا۔ یہود کے دو گروہ تھے، بنو قینقاع اور بنو نضیر، خزرج کے حلیف تھے اور بنوقریظہ، بنو اَوس کے حلیف تھے۔ پھر جب اوس و خزرج میں لڑائی ہوتی تھی تو یہودیوں کا ہر گروہ اپنے حلیفوں کے ساتھ نکلتا تھا اور اپنے ہی بھائیوں کے خلاف ان کی مدد کرتا تھا، حتی کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کا خون بھی بہاتے تھے جبکہ تورات ان کے پاس تھی اور اس میں جو ان کے حقوق و فرائض تھے، ان سے واقف تھے اور جانتے تھے کہ نص کتاب کی رو سے ان کے دین میں یہ (خون بہانا) حرام ہے۔ اور جب لڑائی ختم ہو جاتی تو تورات کے حکم کی تصدیق کرتے ہوئے اپنے اپنے قیدیوں کو فدیہ دے کر چھڑاتے تھے۔ تو ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ’’اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْكِتٰبِ وَتَكْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ‘‘ (یعنی: کیا تم بعض احکام پر ایمان رکھتے ہو اور بعض کے ساتھ کفر کرتے ہو؟) کہ تورات کے حکم کے مطابق تم ان کا فدیہ دے کر چھڑاتے ہو تو اس جانب سے تم اس پر ایمان رکھتے ہو اور (دوسری جانب) تورات کے اس حکم کے باوجود کہ وہ قتل نہ کریں، ان کو گھروں سے نکالیں اور ان کے خلاف مدد نہ کریں، تم ان کو قتل کرتے ہو، تو اس جانب سے تم کفرکرتے ہو حالانکہ یہ بھی تورات میں لکھا ہوا ہے۔

اور قانون کے پرستار اور قانون دان متناقض، تناقض کا شکار ہیں۔

کیونکہ وہ اللہ کے احکام میں تفریق کرتے ہیں اور رسول اکرم ﷺ کے احکام میں تفریق کرتے ہیں۔ جو اُن کے خیال کے موافق ہو اسے قبول کر لیتے ہیں اور جو اُن کی خواہشات کے خلاف ہو اس کو رد کر دیتے ہیں اور یہ بہت زیادہ (عام) ہے۔ اور ہم بعض لوگوں کو حتی کہ مسنون کاموں میں بھی اسی طرح پاتے ہیں۔ اور مسنون کہنے سے مراد صرف مندوب کام نہیں ہیں بلکہ نبی اکرم ﷺ کی رہنمائی مراد ہے۔ تو وہ یہ تو کہتے ہیں کہ شام کا کھانا عشاء کی نماز سے پہلے کھاؤ کیونکہ یہ سنت ہے، لیکن مثال کے طور پر اگر داڑھی کے متعلق بات کریں یا ٹخنے ننگے رکھنے کے بارے میں بات کی جائے تو کہتے ہیں کہ نہیں۔ پس سنت تو وہی ہے جس کو وہ چاہے اور جہاں کوئی راستہ یا وسعت ہو اس کو اختیار کر لے تاکہ اس کی رغبات بھی پوری ہو جائیں۔
اسی طرح وہ فقہی اختلافات میں کرتے ہیں کہ جب وہ عورت کے چہرے کو کھلا رکھنا چاہتے ہیں تو کہتے ہیں کہ بعض علماء نے کہا ہے کہ چہرے میں کچھ (وسعت) ہے۔ لیکن جب بات اس کی بیوی کے متعلق ہو اور وہ نہیں چاہتا کہ اسے کوئی دیکھے تو کہتا ہے کہ چہرے کو کھولنا (ننگا رکھنا) جائز نہیں ہے۔
یہی وہ چیز ہے جس کا نام اللہ تعالیٰ نے نفاق رکھا ہے۔ اس لئے کہ انہوں نے قرآن کو اور سنت نبوی ﷺ کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے اور اس میں صرف وہی لیتے ہیں جو اِن کی خواہش کے مطابق ہو اور جو اِن کی خواہشات کے خلاف ہو اس کو چھوڑ دیتے ہیں۔ ہم اس (نفاق) سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں۔

پھر اس آیت مبارکہ:
وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللہِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُّوْقِنُوْنَ(المآئدۃ:50)
یقین رکھنے والے لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ سے بہتر فیصلے اور حکم کرنے والا کون ہو سکتا ہے؟۔
میں غور کرو کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت مبارکہ میں پرستارانِ قانون کے پراگندہ ذہنوں کے تراشیدہ افکار کے زَعم و گمان کا کس طرح رد فرمایا ہے۔

ان کا سارا زورِ کلام پراگندہ ذہنوں اور تراشیدہ افکار کا نتیجہ ہے جو کہ بیکار ہے، اللہ تعالیٰ کے اس کلام ’’اَفَحُكْمَ الْجَاہِلِيَّۃِ يَبْغُوْنَ۝۰ۭ وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللہِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُّوْقِنُوْنَ (المآئدۃ:50)‘‘ (یعنی کیا یہ لوگ پھر سے جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں یقین رکھنے والے لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ سے بہتر فیصلے اور حکم کرنے والا کون ہو سکتا ہے؟) کے بعد اس کی کوئی حیثیت نہیں رہتی۔ اور نہ ہی کسی کا فیصلہ اللہ کے فیصلے سے بہتر ہو سکتا ہے۔

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اس آیت کی تفسیر میں کہا ہے کہ’’اللہ تعالیٰ اس شخص کا انکار کر رہا ہے جو اس کے محکم، ہر قسم کی خیر پر مشتمل اور ہر قسم کے شر سے دور رکھنے والے حکم سے نکل جائے اور اس سے ہٹ کر آراء و خواہشات اور لوگوں کی وضع کردہ (گھڑی ہوئی، بناوٹی) اصطلاحات کی طرف پھر جائے، جن کی اللہ تعالیٰ کی شریعت میں کوئی دلیل و سند نہیں ہے۔ جیسے کہ اہل جاہلیت اپنی آراء اور خواہشات سے وضع کردہ جہالت اور گمراہی کے فیصلے کرتے تھے‘‘۔
یہ پہلی مثال ہے کہ اہل جاہلیت عربوں کے مشہور بازاروں مجنۃ، عکاظ اور ذی المجاز میں فیصلے کرواتے تھے اور وہ اپنے فیصلے طواغیت (طاغوت کی جمع) اور کاہنوں سے کراتے تھے۔ وہ فیصلہ کرانے کے لئے کاہن یا شیخ القبیلہ (قبیلہ کے سردار) کے پاس جاتے تھے اور قسمت کے تیر نکالا کرتے تھے۔

امام ابن کثیر رحمہ اللہ کا کلام جاری ہے ’’ جیسے کہ تاتاری ملکی سیاست میں اپنی ایک وضع کردہ کتاب سے فیصلے کیا کرتے تھے اور وہ مختلف شریعتوں سے لئے گئے احکام کا مجموعہ تھی جس میں کچھ احکام یہودیت سے، کچھ نصرانیت سے کچھ ملت اسلامیہ سے اور بہت سے احکام صرف اپنے خیال اور خواہش کے مطابق لئے گئے تھے۔
یہ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ کی فقاہت اور معاملہ فہمی ہے۔ اور وہ کتاب جس کا (حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ) نے ذکر کیا ہے وہ چنگیز خان کی مرتب کردہ کتاب قانون ’’الیاسق‘‘ تھی اور یہ قانون کی کتاب تھی۔
چنگیز خان کی وضع کردہ کتاب ’’الیاسق‘‘ تھی جو کہ قانون کی کتاب کا درجہ رکھتی تھی اور جو بھی قانون اس میں لکھا گیا اس کی اصل بھی بیان کی گئی تھی۔ اور اس کے آخر میں مصادر بھی ذکر کئے گئے تھے۔ جب اس قانون میں کوئی چیز نہیں ملتی تھی تو قانونِ طبیعی کی طرف رجوع کیا جاتا تھا یا پھر عدالت کی مبادیات (یعنی ابتدائی پہلوؤں) کی طرف رجوع کیا جاتا تھا۔ اور کبھی کبھی شریعت اسلامیہ کی طرف رجوع کیا جاتا تھا یعنی شریعت اسلامیہ کو احتیاطی مصدر کا نام دیا گیا تھا۔ اور احتیاطی مصادر میں بھی وہ پہلو نہیں تھا بلکہ تیسرے یا چوتھے درجے میں تھا۔
پس احکام اس نظام سے لئے جاتے تھے۔ اگر اس میںکسی چیز کے بارے میں (رہنمائی) نہ ہوتی تو عُرف کی طرف رجوع کیا جاتا تھا۔ اگر عُرف بھی نہ ہوتا تو طبع (Natural) قانون کی طرف رجوع کیا جاتا تھا۔ اگر یہاں بھی کوئی رہنمائی نہ ہوتی تو عدالت کے اصولوں کی طرف دیکھا جاتا اور کبھی قانون طبعی اور عدالتی اصولوں کو یکجا کر لیا جاتا۔ اگر پھر بھی کوئی چیز نہ ملتی تو پھر شریعت اسلامیہ کے اصولوں کی طرف رجوع کیا جاتا تھا۔ پھر بھی شریعت اسلامیہ کے احکام کو نہیں لیتے تھے بلکہ صرف اصولوں کی طرف رجوع کرتے تھے۔
اور چنگیز خان نے اپنی کتاب ’’الیاسق‘‘ کے احکام مختلف شرائع جیسے یہودیت، نصرانیت اور ملت اسلامیہ سے لئے تھے اور اس سے بھی زیادہ اپنی خواہش نفس کے تحت اس نے قوانین وضع کئے تھے۔ تو ’’الیاسق‘‘ میں بہت سے احکام شریعت اسلامیہ سے ماخوذ ہیں۔ جس کا معنی یہ ہے کہ چنگیز خان نے شریعت اسلامیہ کو مصدرِ اصلی کی حیثیت سے لیا تھا نہ کہ مصدرِ احتیاطی کی حیثیت سے۔ (اور کبھی کبھی اس نے اسے اصل میں داخل کر دیا ہے)۔ کہتے ہیں کہ اس کتاب میں بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن میں شریعت کی روشنی میں فیصلہ کیا گیا ہے اور بہت سی چیزیں ایسی ہیں کہ جن میں شریعت کے تحت فیصلہ نہیں گیا لیکن اس کے لئے عذر تلاش کئے گئے ہیں۔ تو ان لوگوں کی کیا کیفیت ہو گی جو شریعت کو صرف مصدرِ احتیاطی کی حیثیت دیتے ہیں (کہ جب کہیں اور سے رہنمائی یا چھوٹ نہ ملے تو شریعت کو دیکھ لیا جائے) جیسا کہ عالم اسلام میں پھیلے ہوئے وضعی قوانین کی حالت ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ ہمیں اس سے محفوظ فرمائے اور اپنی عافیت میں رکھے۔ آمین۔

(ابن کثیر رحمہ اللہ کا کلام جاری ہے) تو چنگیز خان کی اولاد میں یہ کتاب قابل اتباع شریعت کا درجہ رکھتی تھی کہ وہ اللہ کے احکام اور سنت رسول اللہ ﷺ سے بھی اسے مقدم کرتے تھے۔ پس جو بھی ایسا کرے وہ کافر ہے اور جب تک کہ وہ اللہ اور رسول کے احکام کی طرف نہ پلٹ آئے، ان کے ساتھ لڑائی فرض ہے۔ کسی قلیل و کثیر چیز میں اس کے سوا کوئی فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
’’اَفَحُكْمَ الْجَاہِلِيَّۃِ يَبْغُوْنَ‘‘
یعنی وہ جاہلیت کا حکم تلاش کرتے اور چاہتے ہیں اور اللہ کے حکم سے اعراض کرتے ہیں۔
لیکن: ’’وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللہِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُّوْقِنُوْنَ ‘‘
اور یقین رکھنے والوں کے لئے اللہ سے بہتر فیصلے اور حکم کرنے والا کون ہو سکتا ہے؟
یقین رکھنے والوں کیلئے اللہ سے بہتر حکمران اور کارفرمان کون ہو گا؟ اللہ تعالیٰ سے زیادہ عدل و انصاف والے احکام کس کے ہوں گے؟ ایماندار اور یقین کامل والے بخوبی جانتے اور مانتے ہیں کہ اسی احکم الحاکمین اور ارحم الراحمین سے زیادہ اچھے، صاف، سہل اور عمدہ احکام و مسائل اور قواعد و ضوابط کسی کے بھی نہیں ہو سکتے۔ وہ اپنی مخلوق پر اس سے بھی زیادہ مہربان ہے جتنی کہ ماں اپنی اولاد پر ہوتی ہے۔ وہ پورے اور پختہ علم والا، کامل اور عظیم الشان قدرت والا اور عدل و انصاف والا ہے۔

بیشک اللہ تبارک و تعالیٰ کا علم ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے اور قانون بنانے کا مستحق وہی ہو سکتا ہے جس کا علم ہر چیز کو محیط ہو اور اللہ وحدہ لاشریک ہی ہر چیز پر قادر اور ہر چیز میں عدل کرنے والا ہے اور عاجز اور کمزور آدمی قانون بنانے کے لئے صحیح اور درست نہیں ہو سکتا۔
پھر یہ کہ اللہ تعالیٰ والدہ کے اپنے بیٹے سے بھی بڑھ کر اپنی مخلوق سے رحم کرنے والا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے محمد رسول اللہ ﷺ کے بارے میں بھی یہ فرما دیا:
وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِيْنَ (الانبیآء:107)
اور ہم نے آپ (ﷺ) کو تمام جہان والوں کے لئے رحمت ہی بنا کر بھیجا ہے۔
بہت سے لوگوں کا یہ گمان ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی شکل میں اللہ تعالیٰ کی رحمت صرف مسلمانوں کے ساتھ خاص ہے جبکہ حقیقت میں اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کے ذریعے تمام جہانوں پر رحم کیا ہے حتی کہ آپ ﷺ کی بعثت سے کفار کو بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت کا بہت سا حصہ حاصل ہوا ہے۔ جیسا کہ ذمی لوگوں کے جان و مال محفوظ ہو گئے اور محاربین بھی کہ جن سے مسلمانوں کی لڑائی جاری ہے، ان کے لئے بھی اسلام اور اہل اسلام کی لڑائی ایسی ہے کہ جس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس میں کسی کا مثلہ کرنے کی اجازت نہیں، کسی بچے، بوڑھے، عورت اور اپنے عبادت خانے میں بیٹھ رہنے والے راہب کو قتل کرنے سے روک دیا گیا اور یہ آپ ﷺ کی ان تعلیمات سے ہے جو آپ ﷺ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دیا کر تے تھے۔
حتی کہ مسلمانوں کی لڑائی غیروں کے لئے واضح طور پر رحمت کا باعث ہے کہ اس کے ذریعے پوری انسانیت میں عدل اور خیر عام ہو گئے، کیونکہ جب اس کے اصول امت اسلامیہ میں راسخ ہو گئے تو دنیا میں مشرق و مغرب میں پھیل گئے اور دنیا کی اقوام میں پھیل گئے۔
اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ اہل یورپ کو انسان کے انسان ہونے اور اس کے لئے حقوق اور عدل و انصاف کے واجب/ضروری ہونے کی پہچان ہی اس دین (اسلام) کے معروف ہو جانے اور اس دین اور نورِ مبین کے ظاہر اور عام ہوجانے کے بعد ہوئی ہے۔ لہٰذا آپ ﷺ کی رسالت تمام جہانوں کے لئے رحمت کا باعث بنی حتی کہ بہت سی وجوہات کی بناء پر جن میں سے بعض کا ہم نے ذکر کیا ہے، ان لوگوں کے لئے بھی رحمت ہے جو ایمان نہیں لائے۔ (بہت سی وجوہات میں سے کچھ کا ذکر تو ہم نے کر دیا ہے اور) باقی وجوہات کے ذکر کا یہ مقام متحمل نہیں۔

اس آیت سے قبل اللہ عز و جل نے اپنے نبی محمد ﷺ سے مخاطب ہو کر یہ فرما دیا ہے کہ:
فَاحْكُمْ بَيْنَہُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ وَلَا تَتَّبِعْ اَہْوَاۗءَہُمْ عَمَّا جَاۗءَكَ مِنَ الْحَقِّ(المائدۃ:48)
اس لئے آپ ان کے آپس کے معاملات میں اسی اللہ کی اتاری ہوئی کتاب کے ساتھ حکم کیجئے ، اس حق سے ہٹ کر ان کی خواہشوں کے پیچھے نہ جائیے۔
اس سے شیخ کی مراد ’’سورئہ المآئدۃ‘‘ کی وہ آیات ہیں جن کی ابتداء اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے ہے {يٰٓاَيُّھَا الرَّسُوْلُ لَا يَحْزُنْكَ الَّذِيْنَ يُسَارِعُوْنَ فِي الْكُفْرِ } … {وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللہِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُّوْقِنُوْنَ} (المآئدۃ:41 تا 50) تک ہے۔ یہ تمام آیات تحکیم ہی سے متعلق ہیں اور عنقریب ان کی تشریح ان شاء اللہ آرہی ہے۔

بشکریہ محمد آصف مغل بھائی
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
جزاکم اللہ خیراساجد و آصف برادران
برائے مہربانی پوسٹ کی فارمیٹنگ کیا کریں، اگر وقت نہ ہو یا فارمیٹنگ میں دشواری ہو تو تحریر مجھے ای میل کر دیا کریں، میں خود پوسٹ کر دیا کروں گا۔ ان شاءاللہ
 
Top