بات نتیجے کی نہیں ہے بلکہ طریقہ استنباط کی ہے، جو اہل الرائے ک معاملے میں اکثر حدیث سے زیادہ قیاس، تاویلات، اور شبہات پر مبنی ہے۔ اہل کوفہ سب کے سب عمومی طور پر کوفی فقہ کے پیروکار تھے اس لئے ان کے مسائل بھی ایک جیسے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ سفیان الثوری، اور ابراہیم نخعی وغیرہ احادیث وآثار کے زریعے ان مسائل تک پہنچتے تھے اور اہل الرائے انہیں مسائل اور نتیجوں تک پہنچنے کے لئے مذکورہ چیزوں کا استعمال کرتے تھے۔
اس لئے محض فقہ کا مسئلہ ہی نہیں ہے یہ۔ اگر ہوتا تو دیگر ائمہ کو اہل الرائے سے دقت ہی کیا ہوتی، جبکہ برعکس اس کے ابراہیم نخعی جیسے امام جو ابو حنیفہ سے پہلے کہ ہیں نے بھی فرمایا ہے: "أصحاب الرأي: أعداء أصحاب السنن" (حلیۃ)۔
اور دیگر ائمہ نے بھی رائے اور اصحاب الرائے کی شدید سے شدید مذمت کی ہے، دیکھیں
لنک
بھائی جیسا کہ میں نے کہا مدرج الفاظ کو متن سے الگ کرنا اور چیز ہے اور شیعہ یا بدعتی راوی کی بدعت کا اس کی روایت میں اثر انداز ہونا اور چیز ہے۔ ادراج راوی کی طرف سے نہیں بلکہ سننے والوں کی غلطی کی وجہ سے ہوتا ہے جسے دیگر سننے والوں کی صحیح روایات سے ملا کر الگ کیا جا سکتا ہے۔ جبکہ اس میں ایسا ہرگز نہیں ہے کیونکہ بدعتی اپنی روایت میں خود اپنی بدعت سے متاثر ہوتا ہے اس لئے غلطی اس کی طرف سے آتی ہے، اب اس میں ایسا معاملہ تو نہیں ہے نہ کہ بدعتی اپنی روایت کو صحیح بیان کرے اور سننے والوں کو الہام ہو جائے اور وہ اسے بدعت کی ملاوٹ کے ساتھ سنیں اس لئے اسے دوسرے لوگوں کے سماع سے صحیح کر لیا جائے!؟ اس میں تو امام احمد کی مہارت بھی کام نہیں آ سکتی الا یہ کہ وہی روایت کوئی غیر بدعتی راوی صحیح طریقے سے بیان کرے۔ اس کے علاوہ تو اس بدعتی روایت میں بدعت کا اثر نکالنے کا اور کوئی طریقہ نہیں ہے۔
یہ دو الگ چیزیں ہیں جن کو آپ نے مکس کردیا ہے۔
یقینا مسند احمد میں باطل اور موضوع روایات ہیں لیکن میرا کہنے کا مطلب تھا کہ
امام احمد کے نزدیک اس میں صرف انہی لوگوں کی روایات ہیں جن کے بارے میں ابن تیمیہ نے فرمایا: "
من قد يغلط في الحديث ولا يتعمد الكذب : هؤلاء توجد الرواية عنهم في السنن ومسند الإمام أحمد ونحوه"۔ ورنہ اگر ایسا ہوتا تو مسند میں ایسے لوگوں کی روایات بکثرت پائی جاتیں، جبکہ ایسا نہیں ہے۔ اور اگر ایک دو جگہ پر ایسا ہے بھی تو اس کے متعلق امام احمد نے وہیں پر وضاحت بھی کر دی ہے، لیکن پوائینٹ یہ ہے کہ عمومی لحاظ سے مسند احمد میں امام احمد نے جھوٹے اور وضاعین کی روایت سے اجتناب کیا ہے۔ لہٰذا اس ایک مثال کی بنیاد پر اسے ایک اصولی بات کے طور پر پیش کرنا تو خیر مناسب نہیں ہے۔
آپ نے امام احمد کو متعصب ثابت کرنے کے لئے جو تفصیلات پیش کی ہیں وہ کیا تاویل نہیں ہے، ابتسامہ!
فرق صرف اتنا ہے کہ میں نے حسن ظن کی بنیاد پر ایک امام المسلمین کے رتبے اور مقام کے لائق تاویل پیش کی اور آپ نے بد ظنی کی بنیاد پر ایسا کر دیا۔ حالانکہ اپنی اس تاویل کی میں نے آپ کو معقول وجہ اور محدثین کا عام طرز عمل بھی بتایا ہے جس پر امام احمد کا عمل پورا مطابقت بھی کرتا ہے۔ لیکن پھر بھی اگر آپ کو یہ ان کے تعصب کا نتیجہ لگتا ہے تو مجھے اس سے کوئی پرابلم نہیں ہے۔ لیکن تعصب ہوتا کیا ہے یہ مجھے بتائیں، تا کہ اس مسئلے کو زیادہ اچھی طرح سمجھ سکیں۔
بات توثیق کے خوف کی نہیں ہے بلکہ بات ہے ابو حنیفہ کے بدنام ہونے کی۔ آپ خوب جانتے ہیں کہ اس زمانے میں ائمہ کرام کے نزدیک امام ابو حنیفہ کا کیا مقام تھا۔ ان کے ہم عصر علماء سے لے کر ہر کوئی انہیں ان کے کئی مسئلوں کی وجہ سے انہیں بدنامِ زمانہ جانتے تھے، بلکہ کفر کا فتوی بھی لگ چکا تھا۔ ایسے میں ایک محدث انہیں بدعتی، اور گمراہ سمجھتے ہوئے روایت میں ان کا نام نہ لے تو کیا آپ اسے تعصب کہیں گے یا بدعتی اور کفریہ عقائد کے پرچار کے رد میں ایک شرعی جائز عمل کہیں گے؟
یاد رہے کہ یہاں امام احمد کے نقطہ نظر کی بات ہورہی ہے نہ کہ ہمارے!
خیر آپ کو اپنی رائے رکھنے کا بھی حق ہے۔ دراصل میں تھوڑا بزی ہوتا ہوں اس لئے اتنی لمبی بحثیں زیادہ دیر تک قائم نہیں رکھ سکتا۔ اس لئے آئیندہ غیر جوابی یا دیری کے لئے معذرت چاہتا ہوں۔
والسلام۔