پاکستان میں تکفیر کی تحریک
بعض سلفی علماء کا کہنا یہ ہے کہ اگرچہ مولانا مودودی رحمہ اللہ حکمرانوں کی تکفیر کرنے والے نہیں تھے لیکن تکفیر کی عالمی تحریک کی بنیاد مولانا مودودی رحمہ اللہ کے توحید حاکمیت کے بارے کچھ تصورات بنے ہیں۔مولانا مودودی رحمہ اللہ نے رب' دین' عبادت اور الہ جیسی بنیادی اصطلاحات کی حکومت ' سلطنت اور قانون سازی جیسے الفاظ کے ساتھ تشریح فرمائی اور ان بنیادی دینی اصطلاحات کو توحید حاکمیت کے گرداگرد ہی گھماتے پھیراتے رہے۔ مولانا مودودی رحمہ اللہ سے اس فکر کو سید قطب رحمہ اللہ نے لیا جنہوں نے اس میں مزید غلو پیدا کیا۔ اور سید قطب رحمہ اللہ سے یہ فکر
'جماعة التکفیر' اور 'القاعدة' نے لی۔ پھر ان دو جماعتوں سے یہ فکر پورے عالم اسلام میں پھیل گیا۔
(الغلو فی التکفیر : ص٥١۔٦١)
بہر حال صورت حال جو بھی ہو پاکستان میں تکفیر کی باقاعدہ تحریک کا آغاز سوات، وزیرستان اور دیگر قبائلی علاقوں کے باشندوں پر حکومت پاکستان کے ظلم و ستم کے ردعمل میں شروع ہوا۔ پاکستان میں انگریزی قوانین کا نفاذ شروع دن سے ہی ہے لیکن پاکستان کے قیام کی نصف صدی تک حکمرانوں کی تکفیر کا کوئی سلسلہ نظر نہیں آتا بلکہ جو حکمرانوں کی تکفیر کرنے والے جہادی گروہ ہیں۔ وہ نصف صدی کے اس طویل دورانیے میں حکومت پاکستان کی سرپرستی میں جہاد فرماتے نظر آتے ہیں۔ پس پاکستانی حکمرانوں کی تکفیر کی حالیہ تحریک کا اصل سبب فطری انسانی ردعمل ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ پاکستانی حکمران فاسق و فاجر اور ظالم ہیں لیکن ان کے کافر ہونے کے بارے معروف مکاتب فکر میں سے کسی بھی مکتب فکر کے علماء کا تاحال کوئی فتوی جاری نہیں ہوا ہے۔
پہلا سلفی گروہ
پاکستانی افواج اور سیکورٹی فورسز کے ظلم وستم کے خلاف کھڑے ہونے والے مجاہدین کا اس بارے موقف واضح ہے کہ وہ موجودہ حکمرانوں اور ا ن کے ہر قسم کے معاونین کو کافر قرار دیتے ہیں۔ اس بارے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں بہت سا لٹریچر عام ہے اور عام کیا جارہا ہے۔ پاکستان میں اس فکر کا نمائندہ ادارہ 'مؤحدین' نامی ویب سائیٹ ہے جس پر اس فکر سے متعلق بیسیوں کتابیں موجود ہیں۔ ویب سائیٹ کے مندرجات سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کو چلانے والے جہادی سلفی حضرات ہیں۔ اس ویب سائیٹ پر موجود سارا لٹریچر درحقیقت اس عربی لٹریچر کا ترجمہ ہے جسے القاعدہ اور عالمی جہادی تحریکوں میں شامل علماء اور ان کے قائدین نے مرتب کیا ہے ۔ شیخ عبد الرحمن بن عبد الحمید امین لکھتے ہیں:
''اور ان مددگاروں وحامیوں میں وہ لوگ بھی برابر کے شریک ہیں جو عملی طور پر ان کی مدد وحمایت کرتے ہیں مثلاً فوجی،سپاہی،فورسز،اسپیشل فورسز،جمہوریت پسند،امن قام کرنے والے اور سراغ رساں افراد ،پولیس ،وزراء،لیڈرز،اور وہ ارکان سلطنت جن سے مرتد حکام خفیہ ریاستی امور میں مشاورت کرتے ہیں یہ تمام طاغوت کے حامی اور مددگار ہیں جو نہ صرف اس کی بلکہ اس کی سلطنت ،اس کے بنائے گئے کفریہ قوانین ودستور کی بھی حفاظت کرتے ہیں اور یہی لوگ ہیں جوعوام الناس اور اللہ کے قانون کے مطابق حکومت کے درمیان سب سے بڑی رکاوٹیں ہیں بلکہ یہ لوگ توطاغوت اورطاغوتی نظام کے دفاع اور حفاظت میں سردھڑ کی بازیاں لگادیتے ہیں اور اس کی مخالفت کرنے والوں اور اس کے خلاف بغاوت کرنے والوں پر غداری کا الزام لگاکر انہیں سزائے موت دیتے ہیں ۔اگر یہ سب نہ ہوتے تو وہ مرتد حکام بھی نہ ہوتے یہ ان کی بقاء اور ان کی حکومت کی بقاء کی ضمانت ہیں یہی اصل سبب ہیں سو جب ان حکام کو مرتد اور کافر قرار دیا جاتا ہے کیونکہ وہ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق حکومت نہیں کرتے توہر وہ شخص جو ان کی کسی بھی طرح مادی یا معنوی مدد یاحمایت کرے یا کسی بھی طرح ان کا دفاع کرے وہ بھی انہی کی طرح کافر ومرتد ہوا کیونکہ یہی طاغوت اور طاغوتی نظام کا (بلاواسطہ)اولین حامی ومددگار ہے اورمسلمانوں پر ان کے ملکوں میں ان مرتد حکام کے وضع کردہ کفریہ قوانین کونافذ کرکے ان ملکوں میں کفر بواح (ایسا کفر جو انسان کو اسلام کی حدود سے نکال دیتا ہے)کو ظاہر کرنے کا اولین سبب ہے۔اور فقہاء جانتے ہیں کہ کسی بھی شئے سے بلاواسطہ تعلق رکھنے والے اور اس شئے کاسبب بننے والے کابھی شرعاً وہی حکم ہوتا ہے جو خود اس شئے کا ہوتا ہے۔لہٰذا اس اصول کی رو سے طاغوت کے حامی،مددگار ،معاونین بھی طاغوت اور اس کی طرح کافر ومرتد ہوئے علاوہ ازیں کتاب وسنت میں موجود دلائل سے بھی یہی ثابت او رمتحقق ہوتا ہے۔''(نثراللؤلؤ والیاقوت لبیان حکم الشرع فی أعوان وأنصار الطاغوت' شیخ عبدالرحمٰن بن عبدالحمید الامین'مترجم: أبوعلی السلفی المہاجر' ص ١٦۔١٧ )
شیخ عبد اللہ عمر أثری لکھتے ہیں:
''وکیل اور جج ہا ئیکورٹ وسیشن کورٹ کے جج اور وکیل جو اس نظام کو لانے والے ہیں اور اس پر عمل کرنے والے ہیں بلکہ بنیاد ہی یہ لوگ رکھتے ہیں یہ لوگ بھی اس نظام کے مضبوط مددگار ہیں بلکہ وہ یونیورسٹی جہاں سے یہ وکیل اور جج وضعی قانون پڑھ کر فارغ ہوتے ہیں یہ سب مرتد واجب القتل ہیں...خلاصہ کلام یہ کہ اس طرح کے بے دین حکمرانوں کی ہتھیار قول یا فعل سے مددکرنا اس طاغوتی مرتد اورکفریہ نظام کے دوام کا سبب بنتا ہے۔ان لوگوں پر کفر کا وارتداد کا حکم لگایا جائے گا(یہ مددگار کافر ومرتد ہیں)ان کے صدر ہوں ،امیر ہوں یا سربراہ جو ان پراپنا حکم چلاتے ہیں وہ اصل ہیں اور یہ ان کی فرع ہیں لہٰذا ان کا حکم ان پر بھی جاری ہوگا۔ان سربراہوں کاحکم آگے آئے گا فی الحال ہم ان کے مددگاروں جیسے علماء سوء ، درباری مولوی فوج،پولیس وکلاء اور پوری حکومتی کابینہ کے متعین کفر اور ان کے واجب القتل ہونے کے شریعت سے دلائل دیں گے ۔''( آسمانی قوانین سے اعراض' شیخ ابوعبدالرحمن عبداﷲعمر الاثری' مترجم شیخ ابوجنیدص ٤١' ٤٢'٤٣)
ان کے علاوہ بیسیوں کتابیں اس موقف کے اثبات میں
muwahideen.tk ویب سائیٹ پر موجود ہیں۔اس موقف کو معروف کبار سلفی علماء کی حمایت حاصل نہیں ہے جیسا کہ اس ویب سائیٹ پر موجود بعض کتابوں سے بھی یہ واضح ہوتا ہے کہ کبارسلفی علماء ان کے موقف کے قائل نہیں ہیں اور یہ حضرات ان سلفی علماء کو ہدف تنقید بناتے ہیں مثلاًاس ویب سائیٹ پر
'الدولة السعودیة وموقف ابن باز منھا' نامی کتاب کے ترجمے کا مطالعہ فرمائیں ۔
توحید حاکمیت کی بنیاد پر تکفیر میں غلو اور ردعمل اس بات سے بھی ثابت ہوتا ہے کی ایسے اہل تکفیر گروہوں کے ہاں توحید الوہیت یا توحید اسماء وصفات کی اہمیت نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ قرآن و سنت جو کہ توحید الوہیت اور أسماء و صفات سے بھرے پڑے ہیں ' ان کے بیان یا ان کی بنیاد پر تکفیر کی بجائے توحید حاکمیت کی ایک مطلق آیت کو مسلمانوں کی تکفیر کی بنیاد بنانا ردعمل نہیں تو کیا ہے؟ اگر تکفیر کی موجودہ تحریک ظلم کے ردعمل کی تحریک نہ ہوتی اور شعوری سطح پر واقعتاً صحیح معنوں میں اسلامی عقیدے کی وضاحت کی تحریک ہوتی تو اس تحریک میں توحید کی اقسام کی بنیاد پر تکفیر کے مسئلے میں وہ توازن قائم ہوتا جو اللہ اور اس کے رسول نے توحید کی ان قسموں کے بیان میں قرآن وسنت میں قائم کیا ہے۔
وہ اہل تکفیر سلفی حضرات جو آج تک توحید اسماء وصفات کی بناء پر معتزلہ، جہمیہ، اشاعرہ، صوفیہ اور ماتریدیہ کا رد کرتے رہے ہیں اور انہیں گمراہ فرقوں میں شمار کرتے رہے ہیں آج انہی افکار کے حامل اشخاص کو صرف اس وجہ سے امامت کے مرتبے پر فائز کرتے ہیں کہ وہ توحید حاکمیت کی بناء پر حکمرانوں اور مسلمان معاشروں کی تکفیر میں ان کے امام ہیں۔ یہ أمر واقعہ ہے کہ توحید حاکمیت کی بناء پر تکفیر کی تحریک نے توحید الوہیت کہ جس سے قرآن بھرا پڑا ہے، کو کھڈے لائن لگا دیا ہے اور ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ توحید حاکمیت کی بناء پر مسلمان حکمرانوں کی تکفیر ہی موحد ہونے یا نہ ہونے کا واحد معیار حقیقی ہے۔ اگر اصل مسئلہ اسلامی عقیدے ہی کو واضح کرنا ہے تو توحید کے بیان میں یہ عدم توازن کیوں؟ توحید کی ایک نئی قسم کی بنیاد پر تو آدھی امت کی تکفیر کر دی جائے لیکن سلف صالحین کی قرآن وسنت سے ماخوذ شدہ تقسیم توحید ربوبیت، توحید الوہیت اور توحید اسماء و صفات کا نام تک آپ کی تحریروں میں نہ ملے اور ان اقسام کی بنیاد پر آپ کسی تکفیر کے قائل نظر نہ آتے ہوں۔
فیا للعجب !
دوسرا سلفی گروہ
دوسرا موقف جو پہلے موقف کے بالکل برعکس ہے، طارق علی بروہی یا سلفی کے نام سے ایک صاحب پیش فرما رہے ہیں۔ اس موقف کا نمائندہ ادارہ
صفحۂ اول - اصلی اہل سنت نامی ویب سائیٹ ہے جس پر اس موقف سے متعلق بیسیوں کتابیں، رسائل، فتاوی اور لیکچرز موجود ہیں۔اس موقف کے مطابق موجودہ حکمران فاسق و فاجر اور ظالم تو ہیں لیکن کافر نہیں ہیں۔ایک طرح سے یہ ویب سائیٹ بھی دراصل تراجم پر مشتمل ہے اور حکمرانوں کی تکفیر کے بارے سعودی علماء کے موقف کی ترجمانی ہے۔اس ویب سائیٹ پر موجود درج ذیل کتب، رسائل اور فتاوی کے عناوین سے قارئین کو یہ اندازہ ہو سکتا ہے کہ یہ ویب سائیٹ مسلمان حکمرانوں کی تکفیر کے حوالے سے کیا موقف پیش کرہی ہے:
١۔ حکومت کے خلاف نشریات جاری کرنا جائز نہیں۔ شیخ عبد العزیز بن عبداللہ آل الشیخ
٢۔ توحید حاکمیت محض بطور ایک سیاسی ہتھکنڈا ۔شیخ ناصر الدین ألبانی
٣۔ کیا توحید عبادت قدیم ہو چکی اور موجودہ دور توحید حاکمیت بیان کرنے کا ہے۔ ھیئة کبارالعلماء(١٤)
٤۔ مسلمان حکمرانوں کی تکفیر ہی دہشت گردی کا سبب ہے۔ ھیئة کبار العلماء
٥۔ خود کش حملے ہر حال میں حرام ہیں۔ شیخ بن باز' شیخ صالح العثیمین' شیخ عبد العزیز بن عبد اللہ آل الشیخ' شیخ صالح الفوزان' شیخ عبد العزیز الراجحی' شیخ عبد المحسن العبیکان
٦۔ تحکیم قوانین سے متعلق معتبر علماء سلف صالحین کے اقوال(١٥)
٧۔ کیا شیخ محمدبن ابراہیم رحمہ اللہ علیہ کے تشریع عام پر تکفیر کے فتوی کو دلیل بنایا جا سکتا ہے؟ ' شیخ بن باز
٨۔ کیا آپ آیت تحکیم کی سلفی تفسیر کے قائل نہیں؟ ' شیخ صالح الفوزان
٩۔ آیت تحکیم کی صحیح تفسیر اور حکمرانوں کی غلط تکفیر ' شیخ بدیع الدین راشدی
١٠۔ حکمرانوں کی برائیاں اور عیب نشر کرنا حرام ہے ' شیخ صالح العثیمین
۱١۔ تکفیر میں بھی عدل و انصاف اور علم کی ضرورت ہے ' شیخ صالح الفوزان(١٦)
طارق علی بروہی صاحب کا اس پہلو سے کام قابل تحسین ہے کہ وہ سلفی علماء کی رائے کے تراجم پیش کر رہے ہیں لیکن دوسری طرف ان کے متشددانہ مزاج نے ان کے اخلاق، رویوں اوردوسروں کے بارے ذاتی نظریات میں جس عدم توازن اورعدم اعتدا ل کو جنم دیا ہے ، وہ اسے بھی سلف صالحین سے ثابت کرنے کی حتی الامکان ناکام کوشش کرتے رہتے ہیں۔دیکھنے میں آیا ہے کہ ایسے اخلاق اور رویوں سے عموما آپ کے حامی کم پیدا ہوتے ہیں اور مخالفین میں اضافہ ہوتا ہے اور ایساانسان اپنے فکر کی نشر واشاعت میں سب سے بڑی رکاوٹ خود بن جاتا ہے۔
پس طارق علی بروہی صاحب کی ویب سائیٹ کا ایک پہلو تو تعریفی ہے کہ تکفیر اور توحید حاکمیت کے مسئلہ میں وہ سلفی علماء ہی کا موقف پیش کر رہے ہیں لیکن اس ویب سائیٹ کے ذمہ داران، علماء کے ان فتاوی کو بعض اوقات کسی دینی شخصیت ہی کو مسخ کر دینے کی صورت میں پیش کرتے ہیں حالانکہ کبار سلفی علماء کا مقصود اس دینی شخصیت کو مسخ کرنا نہیں ہوتا بلکہ اس کے افکار و نظریات پر نقد کرنا مقصود ہوتا ہے(١٨)۔ اختلاف یا نقدتو کسی پر بھی ہو سکتا ہے' نبی کے علاوہ کوئی بھی معصوم نہیں ہے لیکن نقد میں انصاف کا دامن تھامے رکھنے والے حضرات بہت ہی کم ہوتے ہیں۔ جس طرح ایمان کی شاخیں ہیں ' اسی طرح کفر اور معصیت کی بھی شاخیں ہیں اور ایک شخص میں من وجہ کفر اور من وجہ ایمان یا من وجہ خیر او ر من وجہ شرکا جمع ہونا ممکن ہے۔ اس صورت میں انصاف کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ انسان کسی دینی شخصیت میں خیر کے پہلو کی تعریف کرے اور شر کے پہلو پر نقد کرے۔
تیسرا سلفی گروہ
تکفیر کے مسئلے میں تیسرا موقف ادارہ 'ایقاظ' کا ہے جس کے سرپرست پروفیسر حافظ سعید صاحب کے بھائی حامد کمال الدین صاحب ہیں۔ ادارہ ا'یقاظ' کا کہنا ہے :
١۔ کہ تکفیر کرتے وقت حکمرانوں اور عوام الناس میں فر ق ہو گا ۔ حکمرانوں کی تو تکفیر ہو گی لیکن عوام الناس کی تکفیر نہ ہو گی اور عوا م الناس کی تکفیر نہ کرنے کی وجہ وہ یہ بیان کرتے ہیں کہ ایسا کرنے سے وہ 'جماعة التکفیر' بن جائیں گے اور مصلحت اسی میں ہے کہ عوام الناس کی تکفیر نہ کی جائے۔
٢۔ حکمرانوں کی تکفیر کے بارے ان کا کہنا یہ ہے کہ ان کی مطلقاً تکفیر ہوگی اور یہ مطلق تکفیر ہر کوئی کر سکتا ہے۔ وہ حکمرانوں کی معین تکفیر کے بھی قائل ہیں لیکن اس کے لیے مستند علماء کی جماعت کے فتاوی کی طرف رجوع کے قائل ہیں ۔ (اداریہ 'سہ ماہی ایقاظ' جنوری ٢٠١٠ء)
٣۔ حکمرانوں کی مطلق تکفیر میں ادارہ ایقاظ کے بقول وہ شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ کی اس رائے کے قائل ہیں کہ جس کے مطابق مجرد غیر شرعی وضعی قوانین کے مطابق فیصلے کرنا یا ان کا نفاذ ہی ملت اسلامیہ سے اخراج کا باعث بن جاتا ہے ' چاہے ایسا کرنے والا اس کو حلال یا جائز سمجھتاہو یا نہ۔
٤۔ ادار ہ 'ایقاظ' کا یہ بھی دعوی ہے کہ وہ کبار سعودی علماء کے مقلد ہیں اور ان کی تقلید کے داعی بھی ہیں۔اس مکتب فکر کی نمایاں ترجمان
ايقاظ نامی ویب سائیٹ ہے جس پر اس فکر سے متعلق بہت مواد موجود ہے۔
عقل و منطق کی روشنی میں اصل موقف دو ہی بنتے ہیں یا تو وہ جسے ادارہ 'موحدین' پیش کر رہا ہے کہ اگر کافر ہیں تو حکمرانوں کے ساتھ ساتھ ان کے ہر قسم کے معاونین بھی کافر قرار پاتے ہیں کیونکہ جس طرح غیر شرعی قوانین وضع کرنے والے اور ان کے مطابق فیصلے کرنے والے طاغوت ہیں تو ان عدالتوں سے فیصلے لینے والے عوام بھی
'تحاکم الی الطاغوت' میں شامل ہونے کی وجہ سے کفر کے مرتکب ہیں؟ یا پھردوسرا موقف سعودی علماء کا ہے جو حکمرانوں اورعوام الناس دونوں کو فاسق و فاجر شمار کرتے ہیں اور سعودی سلفی علماء کا یہ موقف ادارہ 'أصلی اہل سنت' پیش کرر ہا ہے ۔
جہاں تک اس تیسرے موقف کا تعلق ہے کہ حکمرانوں اورعوام الناس میں فرق کیا جائے اور عوام الناس کو تکفیر سے بچایا جائے تو یہ عقل و منطق سے بالاتر بات ہے۔ جب اللہ کی شریعت کے بالمقابل وضعی قوانین بنانے والے حکمران کافر ہیں تو ان وضعی قوانین کو پاس کرنے والی اسمبلیاں ' اور ان اسمبلیوں کو منتخب کرنے والے عوام الناس اور ان وضعی قوانین کے مطابق فیصلہ کرنے والی عدالتیں اور ان وضعی قوانین کے مطابق فیصلہ لینے والے عوام الناس اور ان وضعی قوانین کا نفاذ کرنے والے سیکورٹی فورسز کے ادارے اوران وضعی قوانین کی حفاظت کی خاطر جان قربان کرنے والی افواج پاکستان کیسے مسلمان ہو سکتی ہیں؟
ادارہ ایقاظ کی تکفیر کی بحث میں دوسرے نکتے کے بارے ہم یہ کہیں گے کہ ان کی طرف سے تکفیر مطلق اور تکفیر معین میں فرق کا یہ پہلو ایک قابل تعریف أمرہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اس پہلو کے اجاگر کرنے سے اصول تکفیر کا غلط استعمال بہت حد تک کنٹرول میں آ جاتا ہے۔
تیسرے نکتے کے بارے ہم مفصل بحث سابقہ صفحات میں کر چکے ہیں۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ اپنی اس رائے اور فتوی سے رجوع کر چکے ہیں کہ بغیرعقیدے کے مجرد غیر شرعی وضعی قوانین کے مطابق فیصلہ کرنے سے ہی کوئی شخص دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی شیخ کے فتوی کے بارے سلفی علماء کے چاررجحانات ہم نقل کر چکے ہیں۔
چوتھے نکتے کے بارے ہمارا کہنا یہ ہے کہ ادارہ' ایقاظ' کا اگرچہ دعوی تو یہی ہے کہ وہ کبار سعودی علماء کے مقلد ہیں لیکن یہ تقلید کچھ ایسی ہے کہ ادارہ 'ایقاظ' سابقہ علماء (مثلاً شیخ عبد الوہاب )کی عمومی نصوص کو پکڑ لیتا ہے اور پھر ان نصوص کی تشریح اور ان کا اطلاق اپنے فہم کی روشنی میں کرتا ہے اور اسے سلفی موقف قرار دے کر اس کی تقلید کی ہر کسی کو دعوت دے رہا ہے۔ اگر برا نہ منایا جائے تو یہ درحقیقت ادارہ 'ایقاظ' کی تقلید ہے نہ کہ سلفی علماء کی ۔ معاصر سعودی علماء ہی شیخ عبد الوہاب رحمہ اللہ کے حقیقی جانشین ہیں اور ان کبار علماء مثلا ً شیخ بن باز' شیخ صالح العثیمین' شیخ صالح الفوزان' علامہ ألبانی' شیخ عبد العزیزبن عبد اللہ آل الشیخ' شیخ عبد العزیز الراجحی' شیخ عبد المحسن العبیکان ا ور ہئیة کبار العلماء میں سے میں سے کوئی بھی معاصرمسلمان حکمرانوں کی تکفیر نہیں کرتا ۔ ہاں! القاعدہ اور جہادی سلفی علماء یہ تکفیر ضرور کرتے ہیں۔
دوسری اور اہم تر بات یہ ہے کہ سعودی علماء تو تارک صلاة کو بھی حقیقی کافر شمار کرتے ہیں علاوہ ازیں توحید الوہیت کی بنیاد پر عمومی تکفیر کا جس قدر زور ان علماء کے فتاوی میں نظر آتا ہے وہ توحید حاکمیت کی نسبت سے بہت ہی کم ہے۔ لیکن ادارہ 'ایقاظ 'سعودی علماء کے توحید الوہیت یا تارک صلاة کے بارے تکفیر کے صریح اور دوٹوک موقف کی بنیاد پر پاکستان میں تکفیر کاقائل نہیں ہے۔ اگر تو تقلید کا یہ معنی ہے کہ مقلد نے اپنی مرضی کے علماءمثلاً شیخ بن باز' شیخ صالح العثیمین اور علامہ ألبانی کی بجائے شیخ محمدبن ابراہیم رحمہم اللہ کی اور اپنی مرضی کے فتاوی مثلاً تارک صلاة کی بجائے حکمرانوں کی تکفیر کے مسئلہ میں ان علماء کی تقلید کرنی ہے تو یہ اجتہاد کی ایک قسم ہے نہ کہ تقلید۔ اور ایسے علماء کو فقہاء کی اصطلاح میں أصحاب ترجیح کہتے ہیں اور عموماً علماء أصحاب ترجیح کو مجتہدین میں ہی شمار کرتے ہیں۔اگر تو ادارہ 'ایقاظ' پاکستان کی جماعت اہل الحدیث کی طرح عدم تقلید اور اجتہاد کا دعویدار ہوتا تو ہمیں یہ اعتراض کرنے کا کوئی حق نہ تھا لیکن ایک طرف جب وہ پاکستانی اہل حدیث کبار علماء کی بجائےسعودی کبار علماء کی تقلید کے دعویدار ہیں اور پاکستانی اہل الحدیث کو بھی حنبلی فقہ کی اتباع کی دعوت دیتے ہیں اور معاملہ یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ پاکستان میں کسی کو ایسا عالم دین ماننے کو بھی تیار نہیں ہیں کہ جو قابل اتباع ہو تو پھر ان پر یہ اعتراض لازم طور پر وارد آتا ہے کہ وہ خود فقہ حنبلی کے جمہور علماء کے متبع نہیں ہیں تو دوسروں کو اس کی دعوت کیسے دے رہے ہیں؟ (١٧)
مسئلے کا سادہ سا حل یہ ہے کہ اگرادارہ ایقاظ واقعتاً حنبلی علماء کی تقلید کا قائل ہے تو کبار حنبلی علماء مثلا
ھیئة کبار العلما وغیرہ کی خدمت میں تکفیر سے متعلق اپنا فکر تفصیلی طور پر پیش کر کے اس کے بارے تائیدی فتوی حاصل کرے اور پھر وہ یہ دعوی کرے کہ وہ حنبلی علماء کا مقلد ہے تو یہ دعوی فی الواقع درست ہو گا۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ادارہ ایقاظ سلفی العقیدہ فاضل' قابل 'مخلص ' دیندار اور تحریکی جذبے کے حامل افراد پر مشتمل ہے اور اگر یہ ادارہ اپنی صلاحیتیں مسلمان حکمرانوں کی تکفیر کے مسئلے ہی کے لیے وقف کرنے کی بجائے کسی قدر مسلمان معاشروں کی اصلاح اور تعمیری کام پر لگائے تو اس معاشرے میں ایک بڑا انقلاب برپا کر سکتا ہے اور میں ذاتی طور پر حامد کمال الدین صاحب کے جذبے اور عمل سے متاثر ہوں لیکن عمل وتحریک سے پہلے فکر کی درستگی ایک لازمی امر ہے۔ دعا ہے کہ اللہ ہم سب کو اس کام کے لیے وقف کرے کہ جس کے لیے اس نے انبیاء کو مبعوث کیا ہے۔ آمین!