- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 1,118
- ری ایکشن اسکور
- 4,480
- پوائنٹ
- 376
نماز اسلام کے بنیادی ارکان میں سے دوسرا اہم رکن ہے، جس کی ادائیگی کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے رسول اﷲe نے ارشاد فرمایا:
’’نماز اس طرح پڑھو، جیسے مجھے پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو۔‘‘ (بخاری: ۱۳۶)
اس لیے نمازی کے ہر قول و فعل کا رسول اﷲe کی تعلیمات کے مطابق ہونا انتہائی ضروری ہے، اس کے مسائل میں سے ایک مسئلہ تشہد میں تورک اور افتراش کا ہے کہ نمازی کس تشہد میں افتراش کرے گا اور کس میں تورک؟
ہم اس کی تفصیل قارئینِ کرام کی خدمت میں پیش کرنا چاہتے ہیں۔
تورک کی ایک صورت تو یوں ہے کہ نمازی کا دائیں کولہے کو دائیں پیر پر اس طرح رکھنا کہ وہ کھڑا ہو اور انگلیوں کا رخ قبلہ کی طرف ہو، نیز بائیں کولہے کو زمین پر ٹیکنا اور بائیں پیر کو پھیلا کر دائیں طرف کو نکالنا۔
(القاموس الوحید، ص: ۱۴۸۱)
افتراش کے معنی ہیں کہ نمازی بایاں پاؤں اس طرح بچھائے کہ اس کی چھت زمین پر لگے اور وہ اس پاؤں پر بیٹھ جائے، اپنے دائیں کولہے کے ساتھ دائیں پاؤں کو زمین پر اس طرح گاڑ لے کہ اس کی انگلیوں کا رخ قبلہ کی طرف ہو۔ (روضۃ الطالبین للنووی: ۱/ ۱۶۲)
تشہد میں افتراش اور تورک کے سنت ہونے میں فقہائے کرام کا اختلاف ہے۔
ائمۂ اربعہ کا موقف:
امام ابو حنیفہa (کتاب الحجۃ علی أھل المدینۃ للشیباني: ۱/ ۹۶۲) اور احناف کے ہاں پہلے اور دوسرے یعنی دونوں تشہدوں اور دو سجدوں کے درمیان جلوس میں افتراش ہوگا۔
(المبسوط للشیبانی: ۱/ ۷ و شرح معاني الآثار للطحاوي: ۱/ ۱۶۲)
امام مالکa اور مالکیہ کے ہاں احناف کے برعکس ہر تشہد میں تورک ہوگا۔
(الاستذکار لابن عبد البر: ۴/ ۴۶۲ و المدونۃ الکبری: ۱/ ۲۷)
امام شافعیa (کتاب الأم: ۱/ ۱۰۱ باب الجلوس إذا رفع...) اور شوافع کے موقف کے مطابق دو تشہدوں والی نماز کے پہلے تشہد میں افتراش ہوگا اور دوسرے میں تورک اور ہر سلام والے تشہد میں بھی تورک ہوگا، جیسے نمازِ فجر، نمازِ جمعہ اور نمازِ عیدین وغیرہ ہیں۔
(المجموع شرح المہذب: ۳/ ۰۵۴ و روضۃ الطالبین کلاھما للنووي: ۱/ ۱۶۲)
امام احمدa کے ہاں ہر اس نماز کے دوسرے تشہد میں تورک ہوگا، جس میں دو تشہد ہوں گے، یعنی تین یا چار رکعتوں والی نمازوں (ظہر، عصر، مغرب اور عشاء وغیرہ) میں ہوگا۔ ایک تشہد والی نماز فجر، جمعہ، عیدین، وتر وغیرہ میں افتراش ہوگا۔
(مسائل الإمام أحمد بروایۃ ابنہ عبد اﷲ: ۱/ ۵۶۲، رقم: ۹۷۳ تا ۱۸۳ و مسائل أحمد بروایۃ ابن ھاني: ۱/ ۹۷، مسئلہ: ۹۸۳ و مسائل أحمد بروایۃ أبي داود صاحب السنن، ص: ۴۳ و الأوسط لابن المنذر: ۳/ ۴۰۲)
ائمۂ حنابلہ الخرقی، ابن قدامۃ، مرداویS وغیرہ کا بھی یہی موقف ہے۔
(المغني مع الشرح الکبیر: ۱/ ۸۷۵ والإنصاف: ۲/ ۷۸)
امام شافعی کا استدلال:
احناف کا مطلقاً افتراش اور مالکیہ کا مطلقاً تورک کا موقف تو بہر نوع صحیح احادیث کی رُو سے محلِ نظر ہے، اس لیے اس پر بحث کی ضرورت نہیں۔
امام شافعیa اور امام احمدa کا اس حد تک اتفاق ہے کہ نمازی نماز میں افتراش بھی کرے اور تورک بھی، مگر امام شافعیa کے ہاں تین یا چار رکعتوں والی نماز کے دوسرے تشہد میں تورک کرے، جیسا کہ امام احمدa کا موقف ہے، مگر امام شافعیa اس میں منفرد ہیں کہ ہر سلام والے تشہد میں بھی تورک کرے گا، جیسے نمازِ وتر، فجر اور جمعہ وغیرہ ہیں۔
ان دونوں ائمہ کا استدلال حضرت ابو حمید الساعدیt کی حدیث سے ہے، امام شافعیa کا استدلال حضرت ابو حمیدt کی حدیث کے ان الفاظ سے ہے:
۱۔ ((وإذا جلس في الرکعۃ الآخرۃ)) (بخاری: ۸۲۸)
کہ آپ آخری رکعت میں تورک کرتے۔
۲۔ ابو داود (۰۳۷، ۳۶۹) کے الفاظ یوں ہیں:
((حتی إذا کانت السجدۃ التي فیھا التسلیم... وقعد متورکا...))
کہ آپ نے سلام والے تشہد میں تورک کیا۔
لہٰذا امام شافعیa کے ہاں ہر سلام والے تشہد میں تورک کیا جائے گا۔
مناقشہ:
امام شافعیa کا ان الفاظ سے یہ استدلال محلِ نظر ہے، کیونکہ صحیح بخاری میں حضرت ابو حمیدt کی حدیث کے الفاظ یوں ہے:
((فإذا جلس في الرکعتین، جلس علی رجلہ الیسری، ونصب الیمنی، وإذا جلس في الرکعۃ الآخرۃ، قدم رجلہ الیسری، ونصب الأخری، وقعد علی مقعدتہ)) (بخاري: ۸۲۸)
خلاصۂ حدیث یہ ہے کہ رسول اﷲe نے پہلے تشہد میں افتراش کیا اور دوسرے میں تورک کیا اور یہاں دوسرے تشہد سے مراد چوتھی رکعت والا یعنی دوسرا تشہد ہے اور دوسرے تشہد میں تورک کے مشروع ہونے میں ان دونوں ائمہ کا کوئی اختلاف نہیں۔
رہا امام شافعیa کا ابو داود کی سلام والی روایت سے استدلال کرتے ہوئے یہ فرمانا کہ ہر سلام والے تشہد میں تورک کیا جائے گا، محلِ نظر ہے، کیونکہ اس میں سلام والے تشہد سے مراد بھی دوسرا تشہد یعنی چوتھی رکعت ہے، جیسا کہ دوسری جگہ اس کی صراحت موجود ہے، بلکہ سنن ابی داود (۱۳۷) میں حضرت ابو حمید الساعدیt کی حدیث کے یہ الفاظ ہیں:
((فإذا کان في الرابعۃ أفضی بورکہ الیسری إلی الأرض...))
کہ آپ چوتھی رکعت میں تورک کرتے۔
اسی طرح کتاب الأم (۱/ ۱۰۱) اور مسند الشافعی (ص: ۵۹، رقم: ۲۷۷) میں ’’فإذا جلس في الأربع‘‘ کی بھی صراحت موجود ہے اور الأحادیث یفسر بعضھا بعضا کے قاعدہ کی رو سے یہاں ’’التسلیم‘‘ سے مراد چوتھی رکعت ہے اور یہی دلیل امام احمد بن حنبلa اور دیگر حنابلہ کی ہے کہ اُس نماز کے دوسرے تشہد میں تورک کیا جائے گا، جس میں دو تشہد ہوں گے۔
امام شافعیa کے اس موقف کے کمزور ہونے کی وجہ یہ ہے کہ حضرت ابو حمید الساعدیt سے رواۃِ حدیث نے حدیث کو مختصر طور پر بیان کرتے ہوئے پہلے تشہد کا تذکرہ چھوڑ دیا اور دوسرے تشہد کو سلام والے تشہد سے تعبیر کر دیا، جس سے امام شافعیa وغیرہ سمجھے کہ ہر سلام والے تشہد میں تورک ہوگا، حالانکہ ایسا نہیں۔
امام شافعیa وغیرہ کے موقف کی تردید:
چنانچہ امام ابن القیمa امام شافعیa کے اس استدلال پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’فھذا السیاق ظاھر في اختصاص ھذا الجلوس بالتشھد الثاني.‘‘ (زاد المعاد لابن القیم: ۱/ ۴۵۲)
حدیث کا سیاق اس پر دلالت کرتا ہے کہ تورک ثلاثی اور رباعی رکعتوں والی نمازوں کے دوسرے تشہد میں کیا جائے گا۔‘‘
ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ بعض ہندی شارحینِ حدیث وغیرہ نے امام شافعیa کے موقف کو ترجیح دی ہے۔ مگر امام ابن القیمa کی اس تصریح کے بعد ان کا یہ موقف بھی محلِ نظر ہے بلکہ مشہور ہندی محدث شارح المشکوۃ مولانا عبیداﷲ رحمانیa ان کی رائے کے برعکس اپنا فیصلہ یوں دیتے ہیں:
’’شوافع کا ابو داود، ترمذی کی روایت ’’إذا کانت السجدۃ التي فیھا التسلیم‘‘ اور صحیح بخاری کی روایت ’’وإذا جلس في الرکعۃ الآخرۃ‘‘ کے عموم سے یہ استدلال کرنا کہ ثنائی رکعتوں یعنی صبح، جمعہ وغیرہ کے تشہد میں بھی تورک کیا جائے گا، میرے نزدیک انتہائی زیادہ محلِ نظر ہے۔‘‘ (مرعاۃ المفاتیح: ۳/ ۸۶)
عالمِ اسلام کے مشہور محدث علامہ البانی صفۃ صلاۃ النبیe (۳/ ۷۸۹) اور شیخ محمد عمر باز مول (جزء حدیث أبي حمید الساعدي في صفۃ صلاۃ النبيﷺ، ص: ۲۵) بھی حضرت ابو حمید الساعدیt کی حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ان کی حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ تورک تین یا چار رکعتوں والی نمازوں کے دوسرے تشہد میں ہوگا۔
اس لیے امام ابن القیمa اور دیگر محدثین کی اس تصریح کے بعد یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ امام شافعی کا یہ موقف قابلِ غور ہے اور حدیث کے صحیح معنی بھی وہی ہیں جو امام ابن القیم، مولانا رحمانی اور شیخ البانیS وغیرہ نے سمجھے ہیں۔
تنبیہ: مسند الفاروق لابن کثیر (۱/ ۶۶۱) میں حضرت عمرt کی مرفوع روایت سے مطلقاً سلام والے تشہد میں تورک کا اثبات بھی محلِ نظر ہے، کیونکہ عبداﷲ بن القاسم مولی ابی بکر الصدیق مجہول راوی ہے۔ جسے حافظ ابن حبان نے کتاب الثقات (۵/ ۶۴) میں ذکر کیا ہے، یہ قاعدہ معروف ہے کہ حافظ صاحب ایسے مجاہیل کو کتاب الثقات میں ذکر کر دیتے ہیں۔ لہٰذا یہ حدیث مولیٰ ابی بکر کی جہالت کی وجہ سے ضعیف ہے۔
خلاصہ:
راجح موقف یہ ہے کہ تورک ہر اس نماز کے دوسرے تشہد میں ہوگا جس میں دو تشہد ہوں گے، لہٰذا ایک تشہد والی نماز افتراش ہوگا۔
یہی موقف امام احمد بن حنبل اور حنابلہ کے علاوہ امام ابن القیم، علامہ البانی، مولانا عبیداﷲ رحمانی، شیخ ابن باز (فتاوی: ۷/ ۷۱)، شیخ محمد بن صالح عثیمین (فتاوی ارکانِ اسلام، ص: ۵۸۲ طبع دارالسلام)، مولانا امین اﷲ پشاوری (فتاوی الدین الخالص: ۴/ ۰۴۳)، ابو مالک کمال بن السید سالم (صحیح فقہ السنۃ: ۱/ ۷۴۳) وغیرہ کا ہے۔ بلکہ شیخ ابو عبیدہ مشہور بن حسن نے فجر، جمعہ اور نفلی نماز میں تورک کو غلط قرار دیا ہے۔ (القول المبین في أخطأ المصلین، ص: ۰۶۱)
دو رکعتوں میں افتراش:
چونکہ رسول اﷲe سے ثلاثی اور رباعی سے کم رکعتوں والی نماز کے علاوہ کسی میں تورک کرنا ثابت نہیں، جبکہ محدث البانیa کے ہاں رسول اﷲe کا دو رکعتوں والی نماز، جس میں سلام پھیرا جائے، میں افتراش کرنا ثابت ہے، ان کے الفاظ ہیں:
’’فھذا نص في أن الافتراش إنما کان في الرکعتین والظاھر أن الصلاۃ کانت ثنائیۃ ولعلھا صلاۃ الصبح.‘‘
’’حضرت وائل بن حجرt کی حدیث اس موقف میں نص ہے کہ ثنائی رکعتوں والی نماز کے تشہد میں افتراش ہوگا، کیونکہ حضرت وائلt کی حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ دو رکعتوں والی نماز اور شاید نمازِ فجر تھی۔‘‘ (صفۃ صلاۃ النبي: ۳/ ۴۸۹ و تمام المنۃ، ص: ۳۲۲)
مزید حضرت عائشہr کی حدیث (مسلم: ۸۹۴) کے بارے میں بھی فرمایا:
’’گویا یہ حدیث اس میں نص ہے کہ دو رکعتوں والی نماز کے تشہد میں افتراش ہوگا۔‘‘ (صفۃ صلاۃ النبيﷺ: ۳/ ۳۸۹)
نیز فرمایا:
’’حضرت ابن عمرw کی حدیث بھی حضرت وائلt اور حضرت عائشہr کی حدیث کی تائید کرتی ہے۔‘‘ (تمام المنۃ، ص: ۳۲۲)
مولانا امین اﷲ پشاوری نے بھی حضرت وائلt کی حدیث سے یہی استدلال کیا ہے اور علامہ البانی کی موافقت کی ہے۔ (فتاوی الدین الخالص: ۴/ ۰۴۳)
بحوالہ
مقالات اثریہ حصہ اول
’’نماز اس طرح پڑھو، جیسے مجھے پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو۔‘‘ (بخاری: ۱۳۶)
اس لیے نمازی کے ہر قول و فعل کا رسول اﷲe کی تعلیمات کے مطابق ہونا انتہائی ضروری ہے، اس کے مسائل میں سے ایک مسئلہ تشہد میں تورک اور افتراش کا ہے کہ نمازی کس تشہد میں افتراش کرے گا اور کس میں تورک؟
ہم اس کی تفصیل قارئینِ کرام کی خدمت میں پیش کرنا چاہتے ہیں۔
تورک کی ایک صورت تو یوں ہے کہ نمازی کا دائیں کولہے کو دائیں پیر پر اس طرح رکھنا کہ وہ کھڑا ہو اور انگلیوں کا رخ قبلہ کی طرف ہو، نیز بائیں کولہے کو زمین پر ٹیکنا اور بائیں پیر کو پھیلا کر دائیں طرف کو نکالنا۔
(القاموس الوحید، ص: ۱۴۸۱)
افتراش کے معنی ہیں کہ نمازی بایاں پاؤں اس طرح بچھائے کہ اس کی چھت زمین پر لگے اور وہ اس پاؤں پر بیٹھ جائے، اپنے دائیں کولہے کے ساتھ دائیں پاؤں کو زمین پر اس طرح گاڑ لے کہ اس کی انگلیوں کا رخ قبلہ کی طرف ہو۔ (روضۃ الطالبین للنووی: ۱/ ۱۶۲)
تشہد میں افتراش اور تورک کے سنت ہونے میں فقہائے کرام کا اختلاف ہے۔
ائمۂ اربعہ کا موقف:
امام ابو حنیفہa (کتاب الحجۃ علی أھل المدینۃ للشیباني: ۱/ ۹۶۲) اور احناف کے ہاں پہلے اور دوسرے یعنی دونوں تشہدوں اور دو سجدوں کے درمیان جلوس میں افتراش ہوگا۔
(المبسوط للشیبانی: ۱/ ۷ و شرح معاني الآثار للطحاوي: ۱/ ۱۶۲)
امام مالکa اور مالکیہ کے ہاں احناف کے برعکس ہر تشہد میں تورک ہوگا۔
(الاستذکار لابن عبد البر: ۴/ ۴۶۲ و المدونۃ الکبری: ۱/ ۲۷)
امام شافعیa (کتاب الأم: ۱/ ۱۰۱ باب الجلوس إذا رفع...) اور شوافع کے موقف کے مطابق دو تشہدوں والی نماز کے پہلے تشہد میں افتراش ہوگا اور دوسرے میں تورک اور ہر سلام والے تشہد میں بھی تورک ہوگا، جیسے نمازِ فجر، نمازِ جمعہ اور نمازِ عیدین وغیرہ ہیں۔
(المجموع شرح المہذب: ۳/ ۰۵۴ و روضۃ الطالبین کلاھما للنووي: ۱/ ۱۶۲)
امام احمدa کے ہاں ہر اس نماز کے دوسرے تشہد میں تورک ہوگا، جس میں دو تشہد ہوں گے، یعنی تین یا چار رکعتوں والی نمازوں (ظہر، عصر، مغرب اور عشاء وغیرہ) میں ہوگا۔ ایک تشہد والی نماز فجر، جمعہ، عیدین، وتر وغیرہ میں افتراش ہوگا۔
(مسائل الإمام أحمد بروایۃ ابنہ عبد اﷲ: ۱/ ۵۶۲، رقم: ۹۷۳ تا ۱۸۳ و مسائل أحمد بروایۃ ابن ھاني: ۱/ ۹۷، مسئلہ: ۹۸۳ و مسائل أحمد بروایۃ أبي داود صاحب السنن، ص: ۴۳ و الأوسط لابن المنذر: ۳/ ۴۰۲)
ائمۂ حنابلہ الخرقی، ابن قدامۃ، مرداویS وغیرہ کا بھی یہی موقف ہے۔
(المغني مع الشرح الکبیر: ۱/ ۸۷۵ والإنصاف: ۲/ ۷۸)
امام شافعی کا استدلال:
احناف کا مطلقاً افتراش اور مالکیہ کا مطلقاً تورک کا موقف تو بہر نوع صحیح احادیث کی رُو سے محلِ نظر ہے، اس لیے اس پر بحث کی ضرورت نہیں۔
امام شافعیa اور امام احمدa کا اس حد تک اتفاق ہے کہ نمازی نماز میں افتراش بھی کرے اور تورک بھی، مگر امام شافعیa کے ہاں تین یا چار رکعتوں والی نماز کے دوسرے تشہد میں تورک کرے، جیسا کہ امام احمدa کا موقف ہے، مگر امام شافعیa اس میں منفرد ہیں کہ ہر سلام والے تشہد میں بھی تورک کرے گا، جیسے نمازِ وتر، فجر اور جمعہ وغیرہ ہیں۔
ان دونوں ائمہ کا استدلال حضرت ابو حمید الساعدیt کی حدیث سے ہے، امام شافعیa کا استدلال حضرت ابو حمیدt کی حدیث کے ان الفاظ سے ہے:
۱۔ ((وإذا جلس في الرکعۃ الآخرۃ)) (بخاری: ۸۲۸)
کہ آپ آخری رکعت میں تورک کرتے۔
۲۔ ابو داود (۰۳۷، ۳۶۹) کے الفاظ یوں ہیں:
((حتی إذا کانت السجدۃ التي فیھا التسلیم... وقعد متورکا...))
کہ آپ نے سلام والے تشہد میں تورک کیا۔
لہٰذا امام شافعیa کے ہاں ہر سلام والے تشہد میں تورک کیا جائے گا۔
مناقشہ:
امام شافعیa کا ان الفاظ سے یہ استدلال محلِ نظر ہے، کیونکہ صحیح بخاری میں حضرت ابو حمیدt کی حدیث کے الفاظ یوں ہے:
((فإذا جلس في الرکعتین، جلس علی رجلہ الیسری، ونصب الیمنی، وإذا جلس في الرکعۃ الآخرۃ، قدم رجلہ الیسری، ونصب الأخری، وقعد علی مقعدتہ)) (بخاري: ۸۲۸)
خلاصۂ حدیث یہ ہے کہ رسول اﷲe نے پہلے تشہد میں افتراش کیا اور دوسرے میں تورک کیا اور یہاں دوسرے تشہد سے مراد چوتھی رکعت والا یعنی دوسرا تشہد ہے اور دوسرے تشہد میں تورک کے مشروع ہونے میں ان دونوں ائمہ کا کوئی اختلاف نہیں۔
رہا امام شافعیa کا ابو داود کی سلام والی روایت سے استدلال کرتے ہوئے یہ فرمانا کہ ہر سلام والے تشہد میں تورک کیا جائے گا، محلِ نظر ہے، کیونکہ اس میں سلام والے تشہد سے مراد بھی دوسرا تشہد یعنی چوتھی رکعت ہے، جیسا کہ دوسری جگہ اس کی صراحت موجود ہے، بلکہ سنن ابی داود (۱۳۷) میں حضرت ابو حمید الساعدیt کی حدیث کے یہ الفاظ ہیں:
((فإذا کان في الرابعۃ أفضی بورکہ الیسری إلی الأرض...))
کہ آپ چوتھی رکعت میں تورک کرتے۔
اسی طرح کتاب الأم (۱/ ۱۰۱) اور مسند الشافعی (ص: ۵۹، رقم: ۲۷۷) میں ’’فإذا جلس في الأربع‘‘ کی بھی صراحت موجود ہے اور الأحادیث یفسر بعضھا بعضا کے قاعدہ کی رو سے یہاں ’’التسلیم‘‘ سے مراد چوتھی رکعت ہے اور یہی دلیل امام احمد بن حنبلa اور دیگر حنابلہ کی ہے کہ اُس نماز کے دوسرے تشہد میں تورک کیا جائے گا، جس میں دو تشہد ہوں گے۔
امام شافعیa کے اس موقف کے کمزور ہونے کی وجہ یہ ہے کہ حضرت ابو حمید الساعدیt سے رواۃِ حدیث نے حدیث کو مختصر طور پر بیان کرتے ہوئے پہلے تشہد کا تذکرہ چھوڑ دیا اور دوسرے تشہد کو سلام والے تشہد سے تعبیر کر دیا، جس سے امام شافعیa وغیرہ سمجھے کہ ہر سلام والے تشہد میں تورک ہوگا، حالانکہ ایسا نہیں۔
امام شافعیa وغیرہ کے موقف کی تردید:
چنانچہ امام ابن القیمa امام شافعیa کے اس استدلال پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’فھذا السیاق ظاھر في اختصاص ھذا الجلوس بالتشھد الثاني.‘‘ (زاد المعاد لابن القیم: ۱/ ۴۵۲)
حدیث کا سیاق اس پر دلالت کرتا ہے کہ تورک ثلاثی اور رباعی رکعتوں والی نمازوں کے دوسرے تشہد میں کیا جائے گا۔‘‘
ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ بعض ہندی شارحینِ حدیث وغیرہ نے امام شافعیa کے موقف کو ترجیح دی ہے۔ مگر امام ابن القیمa کی اس تصریح کے بعد ان کا یہ موقف بھی محلِ نظر ہے بلکہ مشہور ہندی محدث شارح المشکوۃ مولانا عبیداﷲ رحمانیa ان کی رائے کے برعکس اپنا فیصلہ یوں دیتے ہیں:
’’شوافع کا ابو داود، ترمذی کی روایت ’’إذا کانت السجدۃ التي فیھا التسلیم‘‘ اور صحیح بخاری کی روایت ’’وإذا جلس في الرکعۃ الآخرۃ‘‘ کے عموم سے یہ استدلال کرنا کہ ثنائی رکعتوں یعنی صبح، جمعہ وغیرہ کے تشہد میں بھی تورک کیا جائے گا، میرے نزدیک انتہائی زیادہ محلِ نظر ہے۔‘‘ (مرعاۃ المفاتیح: ۳/ ۸۶)
عالمِ اسلام کے مشہور محدث علامہ البانی صفۃ صلاۃ النبیe (۳/ ۷۸۹) اور شیخ محمد عمر باز مول (جزء حدیث أبي حمید الساعدي في صفۃ صلاۃ النبيﷺ، ص: ۲۵) بھی حضرت ابو حمید الساعدیt کی حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ان کی حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ تورک تین یا چار رکعتوں والی نمازوں کے دوسرے تشہد میں ہوگا۔
اس لیے امام ابن القیمa اور دیگر محدثین کی اس تصریح کے بعد یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ امام شافعی کا یہ موقف قابلِ غور ہے اور حدیث کے صحیح معنی بھی وہی ہیں جو امام ابن القیم، مولانا رحمانی اور شیخ البانیS وغیرہ نے سمجھے ہیں۔
تنبیہ: مسند الفاروق لابن کثیر (۱/ ۶۶۱) میں حضرت عمرt کی مرفوع روایت سے مطلقاً سلام والے تشہد میں تورک کا اثبات بھی محلِ نظر ہے، کیونکہ عبداﷲ بن القاسم مولی ابی بکر الصدیق مجہول راوی ہے۔ جسے حافظ ابن حبان نے کتاب الثقات (۵/ ۶۴) میں ذکر کیا ہے، یہ قاعدہ معروف ہے کہ حافظ صاحب ایسے مجاہیل کو کتاب الثقات میں ذکر کر دیتے ہیں۔ لہٰذا یہ حدیث مولیٰ ابی بکر کی جہالت کی وجہ سے ضعیف ہے۔
خلاصہ:
راجح موقف یہ ہے کہ تورک ہر اس نماز کے دوسرے تشہد میں ہوگا جس میں دو تشہد ہوں گے، لہٰذا ایک تشہد والی نماز افتراش ہوگا۔
یہی موقف امام احمد بن حنبل اور حنابلہ کے علاوہ امام ابن القیم، علامہ البانی، مولانا عبیداﷲ رحمانی، شیخ ابن باز (فتاوی: ۷/ ۷۱)، شیخ محمد بن صالح عثیمین (فتاوی ارکانِ اسلام، ص: ۵۸۲ طبع دارالسلام)، مولانا امین اﷲ پشاوری (فتاوی الدین الخالص: ۴/ ۰۴۳)، ابو مالک کمال بن السید سالم (صحیح فقہ السنۃ: ۱/ ۷۴۳) وغیرہ کا ہے۔ بلکہ شیخ ابو عبیدہ مشہور بن حسن نے فجر، جمعہ اور نفلی نماز میں تورک کو غلط قرار دیا ہے۔ (القول المبین في أخطأ المصلین، ص: ۰۶۱)
دو رکعتوں میں افتراش:
چونکہ رسول اﷲe سے ثلاثی اور رباعی سے کم رکعتوں والی نماز کے علاوہ کسی میں تورک کرنا ثابت نہیں، جبکہ محدث البانیa کے ہاں رسول اﷲe کا دو رکعتوں والی نماز، جس میں سلام پھیرا جائے، میں افتراش کرنا ثابت ہے، ان کے الفاظ ہیں:
’’فھذا نص في أن الافتراش إنما کان في الرکعتین والظاھر أن الصلاۃ کانت ثنائیۃ ولعلھا صلاۃ الصبح.‘‘
’’حضرت وائل بن حجرt کی حدیث اس موقف میں نص ہے کہ ثنائی رکعتوں والی نماز کے تشہد میں افتراش ہوگا، کیونکہ حضرت وائلt کی حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ دو رکعتوں والی نماز اور شاید نمازِ فجر تھی۔‘‘ (صفۃ صلاۃ النبي: ۳/ ۴۸۹ و تمام المنۃ، ص: ۳۲۲)
مزید حضرت عائشہr کی حدیث (مسلم: ۸۹۴) کے بارے میں بھی فرمایا:
’’گویا یہ حدیث اس میں نص ہے کہ دو رکعتوں والی نماز کے تشہد میں افتراش ہوگا۔‘‘ (صفۃ صلاۃ النبيﷺ: ۳/ ۳۸۹)
نیز فرمایا:
’’حضرت ابن عمرw کی حدیث بھی حضرت وائلt اور حضرت عائشہr کی حدیث کی تائید کرتی ہے۔‘‘ (تمام المنۃ، ص: ۳۲۲)
مولانا امین اﷲ پشاوری نے بھی حضرت وائلt کی حدیث سے یہی استدلال کیا ہے اور علامہ البانی کی موافقت کی ہے۔ (فتاوی الدین الخالص: ۴/ ۰۴۳)
بحوالہ
مقالات اثریہ حصہ اول