محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,800
- پوائنٹ
- 1,069
کسی کو ” منکرِ حدیث “ کہہ ڈالنا بہت آسان ہے کسی کو ” مسلمان “ کہنے سے۔ اور میں سمجھتا ہوں ” طبقہ اہلِ حدیث “ کی اسی ” روایت پرستی “ سے ” منکرینِ حدیث “ کو حوصلہ ملتا ہے۔
مختصر اتنا سمجھ لیں کہ میرا رجحان ” منکرینِ حدیث “ کی طرف قطعا نہیں۔میں بھائی آپکی نظر میں حدیث کا کیا مقام ہے ؟
آپ کے متفق ہونے یا نہ ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے؟!حضرت ابراہیمؑ سے منسوب تین جھوٹ کے متعلق میں صحیح بخاری کی روایت سے متفق نہیں۔
جس طرح آپ حضرات حدیث کے ردو قبول میں ایک خاص معیار کی پیروی کرتے ہیں ضروری نہیں ہم بھی اسی کی پیروی کریں۔ اس لیےآپ کے متفق ہونے یا نہ ہونے سے بھی کیا فرق پڑتا ہے؟آپ کے متفق ہونے یا نہ ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے؟!
ہمارا موقف یہ ہے کہ جس طرح اللہ رب العٰلمین نے وحی جلی (قرآن پاک) کو محفوظ رکھا ہے، اسی طرح وحی خفی (حدیث مبارکہ) کی حفاظت کی ذمہ داری بھی لی ہے۔ جس طرح قرآن کریم تا قیامت محفوظ رہے گا اسی طرح اس کا بیان (حدیث مبارکہ) بھی قیامت تک محفوظ رہے گا۔جس طرح آپ حضرات حدیث کے ردو قبول میں ایک خاص معیار کی پیروی کرتے ہیں ضروری نہیں ہم بھی اسی کی پیروی کریں۔ اس لیےآپ کے متفق ہونے یا نہ ہونے سے بھی کیا فرق پڑتا ہے؟
آپ نے جو نقطہء نظر بیان کیا ہے وہ ہمارے موقف کی صحیح ترجمانی نہیں کرتا۔ ہمارے نزدیک ایک حدیث کے صحیح ہونے کے لیے محض ” سند “ کا قوی ہونا ہی کافی نہیں ہے بلکہ حدیث کی ” سند “ کیساتھ ساتھ اس کے ” متن “ کو بھی ملحوظ رکھا جاتا ہے اور یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ وہ حدیث قرآن کی کسی آیت یا دوسری حدیث سے تو متصادم نہیں۔ لیکن شائد ” طبقہ اہلِ حدیث “ کے نزدیک ایک حدیث کے ” صحیح “ یا ” ضعیف “ ہونے کے لیے صرف ” سند “ ہی معیار ہے۔ حدیث کا ” متن “ چاہے کتنا ہی غیر معقول کیوں نہ ہو مگر ” سند “ کی بنا پر اس کو ماننا اور دوسروں سے منوانا اور پھر اس کے بعد ” منکرِ حدیث “ کا لیبل لگانا کوئی صحیح علمی رویہ نہیں ہے۔ہمارا موقف یہ ہے کہ جس طرح اللہ رب العٰلمین نے وحی جلی (قرآن پاک) کو محفوظ رکھا ہے، اسی طرح وحی خفی (حدیث مبارکہ) کی حفاظت کی ذمہ داری بھی لی ہے۔ جس طرح قرآن کریم تا قیامت محفوظ رہے گا اسی طرح اس کا بیان (حدیث مبارکہ) بھی قیامت تک محفوظ رہے گا۔
لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ ﴿١٦﴾ إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ ﴿١٧﴾ فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ ﴿١٨﴾ ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ ﴿١٩﴾ ۔۔۔ القيامة
قرآن وسنت کی حفاظت اللہ رب العٰلمین نے بذات خود دنیا میں آکر نہیں فرمائی، بلکہ اس کیلئے رجالِ کار پیدا فرمائے۔ جنہوں نے قرآن وسنت کی روشنی میں ایسے الوہی اصول مرتب کیے جن پر چلتے ہوئے قرآن وحدیث کی تدوین وحفاظت کی گئی۔ یہ اصول قرآن وسنت سے مستنبط ہیں، انسانوں کے بنائے ہوئے نہیں ہیں۔ جو شخص ان کا منکر ہے وہ در اصل قرآن وحدیث دونوں کا منکر ہے۔ جو شخص ان میں سے کسی ایک (مثلاً حفاظت حدیث کیلئے مرتب کردہ) اصولوں کا منکر ہے (کہ وہ انسان کے بنائے ہوئے ہیں) تو وہ قرآن کریم کو کیسے تسلیم کر سکتا ہے؟؟؟ (کہ اس کی حفاظت کیلئے مرتب کردہ اصول بھی انسانوں نے ترتیب دئیے ہیں)
انہی اصولوں کے مطابق صحیح بخاری ومسلم کی احادیث مبارکہ کی صحت پر امت کا اتّفاق ہے۔ جو حدیث مبارکہ سندا صحیح ثابت ہوگئی اس پر عقلی اعتراضات کر کے یا انہیں مخالف قرآن باور کرا کے ان کا انکار کر دینا در اصل اپنی عقل کی بنا پر وحی الٰہی کا انکار کرنا ہے جو انسان کو کفر کے دہانے کھڑا کر دیتا ہے۔ در اصل احادیث مبارکہ اس قسم کے اعتراضات وہ لوگ کرتے ہیں جو انہیں وحی الٰہی نہیں مانتے۔ ان کا احادیث مبارکہ پر اعتراض بالکل اس طرح ہے جس طرح غیر مسلم چونکہ قرآن کریم کو وحی الٰہی نہیں مانتے لہٰذا وہ بھی اس پر عقلی اعتراضات کرتے ہیں۔
چونکہ منکر حدیث حضرات قرآن کریم کو وحی الٰہی مانتے ہیں لہٰذا وہ اس پر ہونے والے اعتراضات کا جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر یہ حضرات حدیث پر کیوں اس قسم کے اعتراضات کرتے ہیں؟ اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ وہ احادیث مبارکہ کو وحی الٰہی تسلیم نہیں کرتے ورنہ وہ بجائے اعتراضات کرنے کے، اس پر ہونے والے اعتراضات کا جواب دینے، دفاع کرنے کی کوشش کرتے۔
علمی دلائل! انا للہ وانا الیہ راجعون!آپ نے جو نقطہء نظر بیان کیا ہے وہ ہمارے موقف کی صحیح ترجمانی نہیں کرتا۔ ہمارے نزدیک ایک حدیث کے صحیح ہونے کے لیے محض ” سند “ کا قوی ہونا ہی کافی نہیں ہے بلکہ حدیث کی ” سند “ کیساتھ ساتھ اس کے ” متن “ کو بھی ملحوظ رکھا جاتا ہے اور یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ وہ حدیث قرآن کی کسی آیت یا دوسری حدیث سے تو متصادم نہیں۔ لیکن شائد ” طبقہ اہلِ حدیث “ کے نزدیک ایک حدیث کے ” صحیح “ یا ” ضعیف “ ہونے کے لیے صرف ” سند “ ہی معیار ہے۔ حدیث کا ” متن “ چاہے کتنا ہی غیر معقول کیوں نہ ہو مگر ” سند “ کی بنا پر اس کو ماننا اور دوسروں سے منوانا اور پھر اس کے بعد ” منکرِ حدیث “ کا لیبل لگانا کوئی صحیح علمی رویہ نہیں ہے۔
ایک گروہ احادیث کا کلیتہ انکار کرتا ہے جبکہ دوسرا طبقہ احادیث کو ”علمی دلائل “ کی روشنی میں قبول کرنے سے تامل کرتا ہے۔ کیا عقل یہ ماننے کو تیار ہے کہ ” طبقہ اہلِ حدیث “ دونوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکے ؟