• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

توریہ [ذو معنی بات ]کرنے کا حکم !!!

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,123
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
کسی کو ” منکرِ حدیث “ کہہ ڈالنا بہت آسان ہے کسی کو ” مسلمان “ کہنے سے۔ اور میں سمجھتا ہوں ” طبقہ اہلِ حدیث “ کی اسی ” روایت پرستی “ سے ” منکرینِ حدیث “ کو حوصلہ ملتا ہے۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
کسی کو ” منکرِ حدیث “ کہہ ڈالنا بہت آسان ہے کسی کو ” مسلمان “ کہنے سے۔ اور میں سمجھتا ہوں ” طبقہ اہلِ حدیث “ کی اسی ” روایت پرستی “ سے ” منکرینِ حدیث “ کو حوصلہ ملتا ہے۔

میں بھائی آپکی نظر میں حدیث کا کیا مقام ہے ؟
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
حضرت ابراہیمؑ سے منسوب تین جھوٹ کے متعلق میں صحیح بخاری کی روایت سے متفق نہیں۔
آپ کے متفق ہونے یا نہ ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے؟!
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,123
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
آپ کے متفق ہونے یا نہ ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے؟!
جس طرح آپ حضرات حدیث کے ردو قبول میں ایک خاص معیار کی پیروی کرتے ہیں ضروری نہیں ہم بھی اسی کی پیروی کریں۔ اس لیےآپ کے متفق ہونے یا نہ ہونے سے بھی کیا فرق پڑتا ہے؟
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
جس طرح آپ حضرات حدیث کے ردو قبول میں ایک خاص معیار کی پیروی کرتے ہیں ضروری نہیں ہم بھی اسی کی پیروی کریں۔ اس لیےآپ کے متفق ہونے یا نہ ہونے سے بھی کیا فرق پڑتا ہے؟
ہمارا موقف یہ ہے کہ جس طرح اللہ رب العٰلمین نے وحی جلی (قرآن پاک) کو محفوظ رکھا ہے، اسی طرح وحی خفی (حدیث مبارکہ) کی حفاظت کی ذمہ داری بھی لی ہے۔ جس طرح قرآن کریم تا قیامت محفوظ رہے گا اسی طرح اس کا بیان (حدیث مبارکہ) بھی قیامت تک محفوظ رہے گا۔

لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ ﴿١٦﴾ إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ ﴿١٧﴾ فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ ﴿١٨﴾ ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ ﴿١٩﴾ ۔۔۔ القيامة

قرآن وسنت کی حفاظت اللہ رب العٰلمین نے بذات خود دنیا میں آکر نہیں فرمائی، بلکہ اس کیلئے رجالِ کار پیدا فرمائے۔ جنہوں نے قرآن وسنت کی روشنی میں ایسے الوہی اصول مرتب کیے جن پر چلتے ہوئے قرآن وحدیث کی تدوین وحفاظت کی گئی۔ یہ اصول قرآن وسنت سے مستنبط ہیں، انسانوں کے بنائے ہوئے نہیں ہیں۔ جو شخص ان کا منکر ہے وہ در اصل قرآن وحدیث دونوں کا منکر ہے۔ جو شخص ان میں سے کسی ایک (مثلاً حفاظت حدیث کیلئے مرتب کردہ) اصولوں کا منکر ہے (کہ وہ انسان کے بنائے ہوئے ہیں) تو وہ قرآن کریم کو کیسے تسلیم کر سکتا ہے؟؟؟ (کہ اس کی حفاظت کیلئے مرتب کردہ اصول بھی انسانوں نے ترتیب دئیے ہیں)

انہی اصولوں کے مطابق صحیح بخاری ومسلم کی احادیث مبارکہ کی صحت پر امت کا اتّفاق ہے۔ جو حدیث مبارکہ سندا صحیح ثابت ہوگئی اس پر عقلی اعتراضات کر کے یا انہیں مخالف قرآن باور کرا کے ان کا انکار کر دینا در اصل اپنی عقل کی بنا پر وحی الٰہی کا انکار کرنا ہے جو انسان کو کفر کے دہانے کھڑا کر دیتا ہے۔ در اصل احادیث مبارکہ اس قسم کے اعتراضات وہ لوگ کرتے ہیں جو انہیں وحی الٰہی نہیں مانتے۔ ان کا احادیث مبارکہ پر اعتراض بالکل اس طرح ہے جس طرح غیر مسلم چونکہ قرآن کریم کو وحی الٰہی نہیں مانتے لہٰذا وہ بھی اس پر عقلی اعتراضات کرتے ہیں۔

چونکہ منکر حدیث حضرات قرآن کریم کو وحی الٰہی مانتے ہیں لہٰذا وہ اس پر ہونے والے اعتراضات کا جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر یہ حضرات حدیث پر کیوں اس قسم کے اعتراضات کرتے ہیں؟ اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ وہ احادیث مبارکہ کو وحی الٰہی تسلیم نہیں کرتے ورنہ وہ بجائے اعتراضات کرنے کے، اس پر ہونے والے اعتراضات کا جواب دینے، دفاع کرنے کی کوشش کرتے۔
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,123
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
ہمارا موقف یہ ہے کہ جس طرح اللہ رب العٰلمین نے وحی جلی (قرآن پاک) کو محفوظ رکھا ہے، اسی طرح وحی خفی (حدیث مبارکہ) کی حفاظت کی ذمہ داری بھی لی ہے۔ جس طرح قرآن کریم تا قیامت محفوظ رہے گا اسی طرح اس کا بیان (حدیث مبارکہ) بھی قیامت تک محفوظ رہے گا۔

لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ ﴿١٦﴾ إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ ﴿١٧﴾ فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ ﴿١٨﴾ ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ ﴿١٩﴾ ۔۔۔ القيامة

قرآن وسنت کی حفاظت اللہ رب العٰلمین نے بذات خود دنیا میں آکر نہیں فرمائی، بلکہ اس کیلئے رجالِ کار پیدا فرمائے۔ جنہوں نے قرآن وسنت کی روشنی میں ایسے الوہی اصول مرتب کیے جن پر چلتے ہوئے قرآن وحدیث کی تدوین وحفاظت کی گئی۔ یہ اصول قرآن وسنت سے مستنبط ہیں، انسانوں کے بنائے ہوئے نہیں ہیں۔ جو شخص ان کا منکر ہے وہ در اصل قرآن وحدیث دونوں کا منکر ہے۔ جو شخص ان میں سے کسی ایک (مثلاً حفاظت حدیث کیلئے مرتب کردہ) اصولوں کا منکر ہے (کہ وہ انسان کے بنائے ہوئے ہیں) تو وہ قرآن کریم کو کیسے تسلیم کر سکتا ہے؟؟؟ (کہ اس کی حفاظت کیلئے مرتب کردہ اصول بھی انسانوں نے ترتیب دئیے ہیں)

انہی اصولوں کے مطابق صحیح بخاری ومسلم کی احادیث مبارکہ کی صحت پر امت کا اتّفاق ہے۔ جو حدیث مبارکہ سندا صحیح ثابت ہوگئی اس پر عقلی اعتراضات کر کے یا انہیں مخالف قرآن باور کرا کے ان کا انکار کر دینا در اصل اپنی عقل کی بنا پر وحی الٰہی کا انکار کرنا ہے جو انسان کو کفر کے دہانے کھڑا کر دیتا ہے۔ در اصل احادیث مبارکہ اس قسم کے اعتراضات وہ لوگ کرتے ہیں جو انہیں وحی الٰہی نہیں مانتے۔ ان کا احادیث مبارکہ پر اعتراض بالکل اس طرح ہے جس طرح غیر مسلم چونکہ قرآن کریم کو وحی الٰہی نہیں مانتے لہٰذا وہ بھی اس پر عقلی اعتراضات کرتے ہیں۔

چونکہ منکر حدیث حضرات قرآن کریم کو وحی الٰہی مانتے ہیں لہٰذا وہ اس پر ہونے والے اعتراضات کا جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر یہ حضرات حدیث پر کیوں اس قسم کے اعتراضات کرتے ہیں؟ اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ وہ احادیث مبارکہ کو وحی الٰہی تسلیم نہیں کرتے ورنہ وہ بجائے اعتراضات کرنے کے، اس پر ہونے والے اعتراضات کا جواب دینے، دفاع کرنے کی کوشش کرتے۔
آپ نے جو نقطہء نظر بیان کیا ہے وہ ہمارے موقف کی صحیح ترجمانی نہیں کرتا۔ ہمارے نزدیک ایک حدیث کے صحیح ہونے کے لیے محض ” سند “ کا قوی ہونا ہی کافی نہیں ہے بلکہ حدیث کی ” سند “ کیساتھ ساتھ اس کے ” متن “ کو بھی ملحوظ رکھا جاتا ہے اور یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ وہ حدیث قرآن کی کسی آیت یا دوسری حدیث سے تو متصادم نہیں۔ لیکن شائد ” طبقہ اہلِ حدیث “ کے نزدیک ایک حدیث کے ” صحیح “ یا ” ضعیف “ ہونے کے لیے صرف ” سند “ ہی معیار ہے۔ حدیث کا ” متن “ چاہے کتنا ہی غیر معقول کیوں نہ ہو مگر ” سند “ کی بنا پر اس کو ماننا اور دوسروں سے منوانا اور پھر اس کے بعد ” منکرِ حدیث “ کا لیبل لگانا کوئی صحیح علمی رویہ نہیں ہے۔
ایک گروہ احادیث کا کلیتہ انکار کرتا ہے جبکہ دوسرا طبقہ احادیث کو ” علمی دلائل “ کی روشنی میں قبول کرنے سے تامل کرتا ہے۔ کیا عقل یہ ماننے کو تیار ہے کہ ” طبقہ اہلِ حدیث “ دونوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکے ؟
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
آپ نے جو نقطہء نظر بیان کیا ہے وہ ہمارے موقف کی صحیح ترجمانی نہیں کرتا۔ ہمارے نزدیک ایک حدیث کے صحیح ہونے کے لیے محض ” سند “ کا قوی ہونا ہی کافی نہیں ہے بلکہ حدیث کی ” سند “ کیساتھ ساتھ اس کے ” متن “ کو بھی ملحوظ رکھا جاتا ہے اور یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ وہ حدیث قرآن کی کسی آیت یا دوسری حدیث سے تو متصادم نہیں۔ لیکن شائد ” طبقہ اہلِ حدیث “ کے نزدیک ایک حدیث کے ” صحیح “ یا ” ضعیف “ ہونے کے لیے صرف ” سند “ ہی معیار ہے۔ حدیث کا ” متن “ چاہے کتنا ہی غیر معقول کیوں نہ ہو مگر ” سند “ کی بنا پر اس کو ماننا اور دوسروں سے منوانا اور پھر اس کے بعد ” منکرِ حدیث “ کا لیبل لگانا کوئی صحیح علمی رویہ نہیں ہے۔
ایک گروہ احادیث کا کلیتہ انکار کرتا ہے جبکہ دوسرا طبقہ احادیث کو ”علمی دلائل “ کی روشنی میں قبول کرنے سے تامل کرتا ہے۔ کیا عقل یہ ماننے کو تیار ہے کہ ” طبقہ اہلِ حدیث “ دونوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکے ؟
علمی دلائل! انا للہ وانا الیہ راجعون!

کیا صحیح احادیث کریمہ کے متن کو نا معقول کہنے کی جسارت اللہ ورسول پر ایمان لانے والا شخص کر سکتا ہے؟؟؟

میرے بھائی! اللہ رب العٰلمین نے وحی خفی (احادیث شریفہ) کی حفاظت کیلئے مبارک گروہ کا انتخاب فرمایا۔ میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ ان حضرات نے کتاب وسنت کی روشنی میں اس کیلئے الوہی اصول مرتب کیے۔ ان اصولوں میں سند کا دھیان رکھا گیا اور متن کا بھی۔ یہ آپ کی شدید غلط فہمی ہے کہ انہوں نے متن کو نہیں دیکھا۔ اگر انہوں نے متن کو مد نظر نہیں رکھا تو صحیح حدیث کی شرائط میں یہ شاذ اور معلول نہ ہونے کی شرط کیوں شامل ہے؟!! محسوس ہوتا ہے کہ آپ کو صحیح حدیث کی شرائط کا ہی علم نہیں یا پھر آپ نے اس موضوع کو غیروں نے جو شبہات پیدا کر دئیے ہیں انہی کی عینک سے پڑھا ہے۔

جب احادیث مبارکہ کو ہر لحاظ سے پرکھ لیا گیا۔ سند کے اعتبار سے بھی، متن کے اعتبار سے بھی۔ تمام امت نے ان الوہی اصولوں پر اعتماد واتفاق کا اظہار کیا۔ اب آج ایک شخص اٹھتا ہے اور اعتراض کر دیتا ہے کہ فلاں حدیث تو عقل کے خلاف ہے۔ قرآن کے خلاف ہے، اسے کیا کہا جائے؟؟؟ انکارِ حدیث نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے؟

اگر آپ کی طرح کوئی بھی شخص آج اٹھ کر یہ اعتراض کر سکتا ہے تو ایک کافر آج اٹھ کر قرآن کی کسی آیت کریمہ پر خلاف سائنس ہونے کا یا کسی دوسری آیت سے متصادم ہونے کا اعتراض کیوں نہ کر سکتا؟؟؟

کیا آپ آج اٹھ کر قرآن کریم کی کسی آیت کریمہ پر خلاف قرآن یا خلافِ عقل ہونے کا اعتراض کر سکتے ہیں؟؟؟!

اللہ سے ہی ہدایت کا سوال ہے!
 
Top