• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

توہین آمیز خاکے ؛ اسلام اور عصری قانون اُمتِ مسلمہ کیلئے لمحہ فکریہ

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
بسم اللہ الرحمن الرحیم

فکرونظر
توہین آمیز خاکے ؛ اسلام اور عصری قانون اُمتِ مسلمہ کیلئے لمحہ فکریہ

(حافظ حسن مدنی)​
مسلمان دنیا بھر میں ان دنوں توہین آمیز کارٹونوں کی اشاعت کے خلاف پرزور احتجاج کررہے ہیں اور اس سلسلے میں میڈیا پر ہرطرح کی خبریں، مظاہرے ومباحثے، مضامین اور مقالات شائع ہو رہے ہیں اورعملاً یہ احتجاج روز بروز بڑھتا جارہا ہے۔اس کے بالمقابل اس ظلم کا ارتکاب کرنے والے اپنی زیادتی پر بھی اصرار جاری رکھے ہوئے ہیں۔
توہین آمیز خاکوں میں کئی چیزیں ایسی ہیں جن سے مسلمانوں کا اشتعال میں آنا لابدی امر ہے۔ دنیا بھر کے مسلمانوں میں اس بارے میں جواتفاقِ رائے سامنے آیا ہے، اس کی مثال ماضی قریب میں نہیں ملتی۔ پھر ان خاکوں کی مذمت کرنے والوں میں صرف مسلمان ہی پیش پیش نہیں،بلکہ ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے بھی ان کے ہم آواز ہیں، حتیٰ کہ دین ومذہب سے بالا ہو کر آزاد خیال لیکن سنجیدہ فکر لوگ بھی ان خاکوں کی مذمت کررہے ہیں۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
توہین آمیز خاکے اوراسلام
جہاں تک اس احتجاج کا تعلق ہے تو یہ اس ظلم وزیادتی کا رد عمل ہے، لیکن ان خاکوں یا کارٹونوں میں کونسی چیزیں ایسی پائی جاتی ہیں، جن پر اعتراض کیا جارہا ہے؟ اکثر مضامین میں اس پر کوئی روشنی نہیں ڈالی گئی، ذیل میں ہم ان وجوہات کا تذکرہ کرتے ہیں جن کی بنا پر یہ کارٹون دنیا بھر کے سلیم الفکر لوگوں کی دلآزاری کا سبب بنے ہیں ، مثلاً
دیگر مذاہب کے ماننے والے تو اپنی مقدس شخصیات کی تصاویر بنانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے جیساکہ عیسائی حضرت مریم ؑ اور حضرت عیسیٰ ؑکی تصاویر اکثر وبیشتر اپنے چرچوں یا گھروں میں آویزاں کرتے ہیں، حتیٰ کہ ان کے مجسمات بنانے میں کوئی حرج بھی محسوس نہیں کیا جاتا،بلکہ بعض مذاہب میں تو انہی مجسّموں کی ہی عبادت کی جاتی ہے مثلاً ہندو اور بدھ مت وغیرہ۔ البتہ اسلام جو الہامی مذاہب کی آخری اور مکمل ترین شکل ہے، اس کی رو سے مقدس شخصیات کی تصویر کشی کرنا یا ان کے مجسّمے بنانا بذاتِ خود خلافِ شرع ہے جب کہ اس تصویر یا مجسّمے میں اہانت یا رسوائی کا کوئی پہلو بھی نہ پایا جاتا ہو!!
اسلام کی رو سے تصویر بنانا ناجائز او رمجسمہ سازی حرام ہے۔ اور تصویر سازوں کے لئے زبانِ رسالتؐ سے مختلف وعیدیں بیان ہوئی ہیں۔ ایسے ہی مجسمہ سازی بھی حرام ہے اور آج تک مسلم معاشروں کی تاریخ اس تصور سے یکسر خالی رہی ہے۔ تصویر بنانے کی اس حرمت کی مختلف وجوہات ہوسکتی ہیں، جن میں بطورِ خاص شرک کا تذکرہ کیا جاسکتا ہے۔
چونکہ نبی کریمﷺ اور مقدس شخصیات کی تصاویر میں ’شرک کے نکتہ آغاز بننے کا یہ امکان‘ قوی تر ہوجاتا ہے، اس لئے عام آدمی کی تصاویر پر تو کوئی بحث مباحثہ ہو سکتا ہے لیکن متبرک شخصیات کی تصاویر کی اسلام میں کلیتاًکوئی گنجائش نہیں نکل سکتی۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
2۔ تصویر سازی کے عنصر کے علاوہ مقدس شخصیات کی تصاویر میں ایک پہلو ان پر تہمت طرازی کا بھی ہے۔ کیونکہ جب ان کی تصویر کے بارے میں کوئی یقین سے یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ فلاں نبی ؑ کی تصویر ہے بلکہ وہ تصویر یا مجسمہ محض مصور کے ذ ہنی تخیل پر مبنی اور اس شخصیت کے بارے میں اس کے ذاتی احساسات وتصورات کا عکاس ہے جو ظاہر ہے کہ محض اس کے ذاتی تصور سے زیادہ کوئی واقعاتی یا مستند حیثیت نہیں رکھتا۔اگر یہی مصور اس تصویر کو کسی اور شخصیت سے منسوب کردے تو ناظرین کے پاس اس کو تسلیم کرنے کے سوا بھی کوئی چارہ نہیں ہوگا۔
علاوہ ازیں اسلام کا معمولی علم رکھنے والے بھی جانتے ہیں کہ نبی آخرالزمان ﷺکی محبت مسلمانوں کے ایمان کا جز ہے، اور آپ کا ہرقول وفعل ایک شرعی حیثیت رکھتا ہے، ایسے ہی اس نبیﷺ کی سیرت بھی آپ پر ایمان رکھنے والوں کی توجہ کا مرکز ومحور اور ان کے لئے اُسوئہ حسنہ ہے۔ اس سیرت کی اتباع کرنا، ان کے تصورِایمان میں داخل ہے۔ ایک تصویر یا مجسمہ ایک شخصیت کا عکاس ہوتا ہے، جس میں اس شخصیت کی سیرت کے کئی پہلو جھلکتے ہیں۔ آپ کی ایسی صورت وسیرت سے محبت جو مبنی برحقیقت نہیں بلکہ محض کسی انسان کے تخیل کی پرواز کا نتیجہ ہے، اسلامی احکام اور اُسوئہ حسنہ کے تصور میں خلل کا باعث بنے گی۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
انبیا کرام ؑ کی مبارک صورتوں کو اللہ تعالیٰ نے خاص وقار عطا کیا ہے۔ اور شیطان کو بھی اس امر پر قدرت نہیں دی کہ وہ انبیاکی صورت اختیار کرسکے۔ جیسا کہ صحیح بخاری ومسلم میں نبی کریمﷺ کا فرما ن موجود ہے:
’’جو شخص خواب میں میری زیارت سے مشرف ہوا، اس نے مجھے ہی دیکھا کیونکہ شیطان میری صورت اختیار کرنے پر قادر نہیں۔‘‘ (مسلم: ۲۲۶۶)
اہانت ِانبیا پر مسلم اداروں کا مشہور موقف: ہمارا یہ موقف نیا نہیں کہ غیر مسلموں کو لاعلمی کی رعایت مل سکے۔ بلکہ نہ صرف انبیاء کرام بلکہ صحابہ کرامؓ کی تصاویر اور فلموں میں اداکاری کے حوالے سے بھی عالم اسلام کے مسلمہ دینی اداروں کا موقف بھی اہل علم میں مشہور ومعروف ہے۔ اس سلسلے کی ایک تفصیلی بحث ۳۱ برس قبل سعودی عرب کی وزارت مذہبی اُمور کے ایک تفصیلی فتویٰ میں شائع کی جا چکی ہے۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
یوں تو اس فتویٰ میں براہِ راست اس موضوع کو زیر بحث بنایا گیا ہے کہ کیا صحابہ کرامؓ کے کردار کو فلمایا جاسکتا ہے، لیکن اسی ضمن میں انبیا کرامؑ کی تصاویر اور ان کے مجسمات پر بھی سیر حاصل بحث موجود ہے۔ اس بحث میں رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ، المنظمات الإسلامیۃ العالمیۃ، ازہر کی فتویٰ کونسل اور سعودی عرب کی کبار علما کونسل کے فتاویٰ کو بنیاد بناتے ہوئے سعودی عرب کی فتویٰ کمیٹی نے شیخ محمد بن ابراہیم ؒ آلِ شیخ کی سربراہی میں ان تمام چیزوں کی حرمت کا فتویٰ دیا ہے اور اسے ان مقدس شخصیات کی اہانت سے تعبیر کیا ہے۔ اس مضمون میں حرمت کی بنیاد بننے والے نقصانات اور مفاسد کا تفصیل سے تذکرہ کرتے ہوئے قرآنِ کریم کی آیات اور احادیث ِنبویہؐ سے بھی استدلال کیا گیا ہے، تفصیل کے شائقین کے لئے ۲۵ فل سکیپ صفحات پر پھیلے ہوئے اس فتویٰ کا مطالعہ مفید ہوگا۔
( دیکھیں: مجلۃ البحوث الإسلامیۃ: عدد اوّل، رمضان ۱۳۹۵ھ، ص ۲۱۱ تا ۲۳۶)
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
3۔ مذکورہ بالا دو نکات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ نبی کریم1 کی تصاویر بنانا بذاتِ خود اسلامی احکامات سے متصادم ہے گو کہ ان میں اہانت کا کوئی پہلو بھی نہ پایا جائے۔ایسی تصاویر شرک کا پیش خیمہ، صریح فرامین ِرسالتؐ کی مخالفت اور نبی کریمﷺ کی صورت وسیرت پر اتہام کی قبیل سے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہماری روایات میں مقدس شخصیات کی تصاویر کا کوئی وجود نہیں پایا جاتا۔ البتہ حالیہ واقعات میں جب ان تصاویر میں اہانت او راسلامی تعلیمات کے مذاق کا پہلو بھی بطورِ خاص شامل کرلیا جائے تو یہ مکروہ فعل شرعی گناہ سے بڑھ کر ایک عظیم جسارت کا روپ اختیار کرلیتا ہے۔ جس کا مرتکب اگر مسلمان ہو تو وہ دائرئہ اسلام سے خارج ہوکر مرتد ہو جاتا ہے اوراگر غیر مسلم ہو تو تب بھی اس کو کسی طو رپر گوارا نہیں کیا جاسکتا۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ نبی آخر الزمانﷺ رہتی دنیا تک تمام انسانیت کے نبیؐ ہیں، جملہ مذاہب کے ماننے والوں کے ہاں تو آپ کاتذکرہ کسی نہ کسی صورت میں پایا جاتا ہی ہے جبکہ باقی انسانیت کی فطرتِ سلیم میں قرآن کی رو سے ربّ کی توحید کا اقرار اور اسلام کی حقانیت کا اثبات موجود ہے۔ آج اگر بعض کم نصیبوں کو آپؐ کی رسالت قبول کرنے کا شرف حاصل نہیں ہوا اور وہ آپ کی اُمت ِاجابت میں شامل ہونے سے محروم ہیں تو پھر بھی وہ آپؐ کی اُمت ِدعوت میں ضرور شامل ہیں۔ اور یہ بات کئی فرامین نبویﷺ سے صراحت کے ساتھ ثابت ہے۔
آپ نے دیگر انبیا کرام ؑ سے اپنے امتیازات کا تذکرہ کرتے ہوئے اس امتیاز کا بھی تذکرہ فرمایا کہ
’’پہلے انبیا ایک مخصوص قوم کی طرف بھیجے جاتے تھے اور میں تمام انسانیت کے لئے بھیجا گیا ہوں۔‘‘(بخاری: ۴۳۸)
آپﷺ کی رحمت انسانوں سے بڑھ کر جانوروں کو بھی شامل ہے اور آپ کا لقب رحمتہ للعالمین ہے۔آپ شرفِ انسانیت اور اللہ عزوجل کے محبوب ِگرامی ہیں، اس لئے آپ کی توہین انسانیت کی توہین کے مترادف ہے، جس کی کسی غیر مسلم کو بھی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ دور نبویؐ کے متعدد واقعات اس پر شاہد ہیں کہ توہین کے مرتکب یہودیوں کو بھی آپﷺ نے خود اپنے جانثاروں کو بھیج کر قتل کروایا۔ یہ شانِ رسالتؐ کا تقاضا ہے کہ کل انسانیت کے نبیﷺ کی ناموس کا تحفظ کی جائے۔ حضرت ابو بکرؓ کا فرمان ہے :
لا واﷲ ما کانت لبشر بعد محمد ﷺ (سنن ابوداؤد: ۴۳۶۳) مختصراً
’’اپنی توہین کرنیوالے کو قتل کروا دینا محمد 1 کے علاوہ کسی کے لئے روا نہیں ہے۔‘‘
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
1۔ اسلام نے یہ اعزاز صرف نبی آخر الزمانﷺ کے لئے مخصوص نہیں کیا بلکہ ناموسِ رسالت کے اس تحفظ میں تمام انبیاے کرام کو بھی شامل کیا۔ ایک طرف مسلمانوں کو ہر قوم کی مقدس شخصیات اور شعائر کے احترام کا درس دیا اور دوسری طرف تمام انبیاکا یہ حق بنا دیا کہ ان کی شان میں توہین کرنے والوں کو زندگی کے حق سے محروم کردیا جائے۔اس سلسلے میں امام ابن تیمیہؒ نے حضرت موسیٰ کے ایک قصے پر اپنی کتاب الصارم المسلول میں تفصیلی بحث کرتے ہوئے بڑا بلیغ استدلال کیا ہے :
حارث بن نوفل سے مروی ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کے خلاف ان کے عم زاد بھائی قارون نے سازش تیار کی اور ایک فاحشہ عورت کو مال وزر کے لالچ سے اس بات پر آمادہ کرلیا کہ جب میں اپنے حواریوں میں بیٹھا ہوں تو میرے پاس آکر فریاد کرنا کہ موسیٰ نے میری عزت پرہاتھ ڈالا ہے۔ اس عورت نے ایسے ہی کیا اور حضرت موسیٰ کو برسرمجمع رسوا کیا۔ رسوائی کی یہ خبر جب حضرت موسیٰ کو پہنچی تو اُنہوں سے ربّ تعالیٰ سے سجدے میں گر کر فریا د کی اور اپنی عزت کے دفاع کے لئے اس کی مدد طلب کی۔ اس دعا کے بعد آپ ؑ قارون کی مجلس میں گئے اور اس کے حواریوں کی موجودگی میں کہا کہ تو نے میرے بارے میں فلاں فلاں سازش کی، اے زمین! اس کو پکڑ لے۔ حضرت موسیٰ کی اس بددعا کا یہ اثر تھا کہ زمین نے ان سب کو اپنے اندر دھنسانا شروع کردیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اُنہیں گھٹنوں، کمر اور سینے تک اندر کھینچ لیا۔ ان کی چیخ وپکار کے باوجود حضرت موسیٰ نے اپنی دعا جاری رکھی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ قارون اور اس کے سب ساتھی زمین میں دھنس گئے۔‘‘ مختصراً (ص: ۴۱۲،۴۱۳)
قارون اور اس کی جماعت کے دھنسنے کا یہ واقعہ قرآن میں بھی ذکر ہوا اور نبی کریمﷺ کا فرمان ہے کہ وہ قیامت تک دھنستے رہیں گے اور قارون کا خزانہ ان کے سر پربوجھ بن کر ان کے ساتھ ہوگا۔ یہ اوراس جیسے کئی واقعات اسلامی شریعت کے اس تصور کی تائید کرتے ہیں کہ ناموسِ رسالتؐ کی حفاظت کا یہ حق دیگر انبیا کو بھی حاصل ہے۔ جو شخص ان کی شان میں گستاخی کا ارتکاب کرے گا، اس کو بھی شدید سزا کا سامنا کرنا ہوگا۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
2۔ حضرت علیؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
من سبَّ نبیا قُـتِل ومن سبَّ أصحابہ جُلِ (الصارم المسلول: ص۹۲)
’’جس نے نبیﷺ کو گالی دی، اسے قتل کیا جائے اور جس نے آپ1 کے صحابہؓ کو گالی دی تو اسے کوڑے مارے جائیں۔‘‘
3۔ حضرت عمرؓکے پاس ایک آدمی لایا گیا کہ وہ نبی ﷺ کو برا بھلا کہتا تھا تو فرمایا:
من سبّ اﷲ أو سبّ أحدا من الأنبیاء فاقتلوہ (الصارم المسلول: ص۴۱۹)
’’جس نے اللہ کویا انبیا کرام میں سے کسی کو گالی دی تو اسے قتل کردیا جائے۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں نافذ العمل توہین رسالت کی سزا تمام انبیا کی توہین کرنے والوں کے لئے عام ہے۔ (ناموسِ رسول اور قانون توہین رسالت : ص ۳۳۶، طبع سوم)
دیگر مذاہب کے ماننے والے اپنی مقدس شخصیات سے جو بھی سلوک کریں لیکن مسلمانوں نے ماضی میں بھی کبھی اہل کتاب کو بھی اس امر کی اجازت نہیں دی کہ وہ اپنے انبیا کی تصویر کشی یا ان کو کسی ڈرامہ کی منظر کشی میں پیش کرسکیں۔ خلافت ِعثمانیہ کے آخری سالوں میں شام کے بعض ممالک میں بعض عیسائیوں نے حضرت یوسف ؑ کے کردار کو کسی ڈرامہ میں پیش کرنا چاہا تو اس وقت اس مسئلہ پر اہل علم کے ہاں بہت لے دے ہوئی اور بالآخر سلطان عبد الحمید نے عیسائیوں کو بلادِ اسلامیہ میں انبیا کی اس اہانت سے حکما ًروک دیا۔ (مجلۃ البحوث الإسلامیۃ سعودی عرب، عدد اوّل، مجریہ ۱۳۹۵ھ، ص ۲۲۲)
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
ایسے ہی بیسیویں صدی کے آغاز میں ہی لندن میں ایک ڈرامے میں نبی کریم ﷺ سمیت بعض دیگر انبیا کے کردار کو بھی پیش کئے جانے کی خبر ملی، اس موقع پر بھی اسی خلیفہ نے پہلے سفارتکاری اور بعد ازاں یہ دھمکی دے کر اس مذموم فعل کو رو بہ عمل آنے سے روک دیا کہ وہ بحیثیت ِخلیفہ
’’پوری اُمت ِمسلمہ کو برطانیہ کے خلاف جنگ کا حکم جاری کریں گے۔‘‘
ان توہین آمیز خاکوں کے ذریعے جہاں ناموسِ رسالت پر حرف آیا ہے، وہاں اللہ کے آخری دین اور اکمل شریعت کی بے حرمتی کا بھی ارتکاب کیا گیا ہے۔ ان کارٹونوں کے بارے میں جو تفصیلات بعض ذرائع ابلاغ میں چھپی ہیں، ان سے پتہ چلتاہے کہ باقاعدہ منظم منصوبہ بندی کے ذریعے قرآنِ کریم، فرامین ِنبویہؐ اور شریعت ِمطہرہ کا تمسخر اُڑانے کے لئے یہ ساری سازش عمل میں لائی گئی۔ اوراس تمسخر کو کارٹون یا خاکوں کی ذو معنی شکل میں پوری دنیا میں پھیلایا گیا ہے۔ فرامین نبویؐ اور آیاتِ قرآنی کی اس تضحیک کے علاوہ اسلام سے دیگر مذاہب کو بدترین تعصب میں مبتلا کرنے کے لئے یہودیوں کے بارے میں بعض واقعات کی مضحکہ خیز منظر کشی بھی کی گئی، تاکہ دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو اسلام سے بدظن کیاجائے۔
یہ تمام خاکے اس امر کا بھی واضح ثبوت ہیں کہ اسلام کو قبو ل کرنے کی جو روایت امریکہ اوریورپ میں جڑ پکڑ رہی ہے، اس سے اسلام دشمن بری طرح خائف ہیں اور وہ ہر حیلے بہانے سے اسلام کی بڑھتی مقبولیت کے آگے بند باندھنا چاہتے ہیں اور اسی لئے وہ اسلام کو دہشت گردی، تنگ نظری اورتعصب وجبر کا دین ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ قرآن کہتا ہے :
{یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِؤُوْا نُوْرَ اﷲِ بِأَفْوَاہِہِمْ وَاﷲُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ}
’’یہ اپنی پھونکوں سے اللہ کے نور کی شمع گل کرنا چاہتے ہیں، حالانکہ اللہ نے اپنے نور کو تمام کرکے ہی رہنا ہے، چاہے کافر اسے لاکھ ناپسند کریں ۔‘‘ (الصف:۸)
اللہ کے کامل واکمل دین کے ساتھ کفار کا یہ رویہ شدید ہٹ دھرمی اور بدترین تعصب کی نشاندہی کرتا ہے اور قرآنِ کریم کی زبانی اللہ تعالیٰ نے اپنی شریعت ِمطہرہ کا مذاق اُڑانے والوں پر لعنت کی اور اُنہیں عذابِ الیم کا وعدہ دیا ہے :
{ذٰلِکَ جَزَاؤُہُمْ جَہَنَّمُ بِمَا کَفَرُوْا وَاتَّخَذُوْا آیٰتِيْ وَرُسُلِيْ ہُزُوًا}
’’ان کی سزا جہنم اس لئے ہے کیونکہ اُنہوں نے اسلام سے کفر کیا اور اللہ کی آیات اور اس کے رسولوں کا مذاق اُڑایا۔‘‘ (الکہف: ۱۰۶)
{وَلَقَدِ اسْتُہْزِیَ بِرُسُلٍ مِّنْ قَبْلِکَ فَأَمْلَیْتُ لِلَّذِیْنَ کَفَرُوْا ثُمَّ أَخَذْتُہُمْ فَکَیْفَ کَانَ عِقَابِ } (الرعد: ۳۲)
’’رسولوں کا اس سے پہلے بھی مذاق اُڑایا جاتا رہا۔ تو میں کافروں کو ڈھیل دیتا رہا، پھر میں نے ان کو اپنی گرفت میں لے لیا … پھر کیسا رہا میرا عذاب!!‘‘
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جابجا کفار کی اس قبیح عادت کا تذکرہ کیا ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کا مذاق اُڑاتے ہیں(المائدۃ: ۵۷) پھر ان سے یہ سوال کیا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ہی تمہیں اس تمسخر کے لئے ملتے ہیں، تم فکر نہ کرو، تمہارا انجام عنقریب اس ربّ کے ہاتھ میں جانے والا ہے۔ ( التوبہ: ۶۵) نبی کریمؐ کا یہ مؤثر اندازِ دعوت ملاحظہ فرمائیں :
{یٰحَسْرَۃً عَلی الْعِبَادِ مَا یَأْتِیْہِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ إِلاَّ کَانُوْا بِہَا یَسْتَہْزِئُ وْنَ}
’’ان بندوں (کی نامرادی ) پر افسوس و حسرت! ان کے پاس جو رسول بھی آتا ہے ، تو یہ اس کا تمسخر اُڑانے سے نہیں چوکتے۔‘‘ (یٰسین:۳۰)
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
الغرض اللہ کے دین کا تمسخر اُڑانا اور اس کی آیات سے ہنسی مذاق کرنا ایک مسلمان کو لمحہ بھر میں دائرئہ اسلام سے خارج کرکے مرتد بنادیتا ہے اور کفار کے لئییہ قبیح حرکت اللہ کو چیلنج کرنے اور اس کے عذاب کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔
یہ ہیں بالاختصار وہ چار وجوہات جن کی وجہ سے مسلمان ان توہین آمیز خاکوں پر دنیا بھر میں اپنا ردّ عمل ظاہر کررہے ہیں۔ اور یہ ردّ عمل اس ظلم وزیادتی کے بالمقابل بڑا ہی ادنیٰ گویا مجبور و مظلوم کی فریاد کے مصداق ہے۔ اسلام اورنبی رحمتﷺ کی یہ توہین مسلمانوں کے حکمرانوں کی اس کیفیت کا برملا اظہار ہیں کہ جس نبی کی اطاعت کا دم بھر کر اسلام کے تمغے وہ سینوں پر سجائے بیٹھے ہیں، اس نبی1 کی ناموس کے تحفظ کے لئے مخلصانہ جذبات سے ان کے دل ودماغ عاری ہیں اور اپنے اقتدار کے تحفظ کے لئے وہ شانِ نبوتؐ اور اسلام سے ہر طرح کی مضحکہ خیزی گوارا کرنے کے لئے آمادہ ہیں، وگرنہ ایسے نازک لمحات پر ان کی اسلامیت جوش میں آتی اور دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات کی پاسداری کرتے ہوئے وہ ہرممکن ایسا اُسلوب اختیار کرتے کہ نبی کریمؐ فداہ اَبی واُمی کی ناموس کی طرف بڑھنے والے ہاتھ توڑ دیے جاتے۔
یہ تصاویر اور توہین آمیز خاکے مسلم حکمرانوں کی اسلام سے عدم وابستگی کا نوحہ ہیں، جس کا ادراک کرنے کے بعدہی غیرمسلموں کو اس مکروہ حرکت کی جسارت ہوئی !!
 
Top