ایسے ہی بیسیویں صدی کے آغاز میں ہی لندن میں ایک ڈرامے میں نبی کریم ﷺ سمیت بعض دیگر انبیا کے کردار کو بھی پیش کئے جانے کی خبر ملی، اس موقع پر بھی اسی خلیفہ نے پہلے سفارتکاری اور بعد ازاں یہ دھمکی دے کر اس مذموم فعل کو رو بہ عمل آنے سے روک دیا کہ وہ بحیثیت ِخلیفہ
’’پوری اُمت ِمسلمہ کو برطانیہ کے خلاف جنگ کا حکم جاری کریں گے۔‘‘
ان توہین آمیز خاکوں کے ذریعے جہاں ناموسِ رسالت پر حرف آیا ہے، وہاں اللہ کے آخری دین اور اکمل شریعت کی بے حرمتی کا بھی ارتکاب کیا گیا ہے۔ ان کارٹونوں کے بارے میں جو تفصیلات بعض ذرائع ابلاغ میں چھپی ہیں، ان سے پتہ چلتاہے کہ باقاعدہ منظم منصوبہ بندی کے ذریعے قرآنِ کریم، فرامین ِنبویہؐ اور شریعت ِمطہرہ کا تمسخر اُڑانے کے لئے یہ ساری سازش عمل میں لائی گئی۔ اوراس تمسخر کو کارٹون یا خاکوں کی ذو معنی شکل میں پوری دنیا میں پھیلایا گیا ہے۔ فرامین نبویؐ اور آیاتِ قرآنی کی اس تضحیک کے علاوہ اسلام سے دیگر مذاہب کو بدترین تعصب میں مبتلا کرنے کے لئے یہودیوں کے بارے میں بعض واقعات کی مضحکہ خیز منظر کشی بھی کی گئی، تاکہ دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو اسلام سے بدظن کیاجائے۔
یہ تمام خاکے اس امر کا بھی واضح ثبوت ہیں کہ اسلام کو قبو ل کرنے کی جو روایت امریکہ اوریورپ میں جڑ پکڑ رہی ہے، اس سے اسلام دشمن بری طرح خائف ہیں اور وہ ہر حیلے بہانے سے اسلام کی بڑھتی مقبولیت کے آگے بند باندھنا چاہتے ہیں اور اسی لئے وہ اسلام کو دہشت گردی، تنگ نظری اورتعصب وجبر کا دین ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ قرآن کہتا ہے :
{یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِؤُوْا نُوْرَ اﷲِ بِأَفْوَاہِہِمْ وَاﷲُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ}
’’یہ اپنی پھونکوں سے اللہ کے نور کی شمع گل کرنا چاہتے ہیں، حالانکہ اللہ نے اپنے نور کو تمام کرکے ہی رہنا ہے، چاہے کافر اسے لاکھ ناپسند کریں ۔‘‘ (الصف:۸)
اللہ کے کامل واکمل دین کے ساتھ کفار کا یہ رویہ شدید ہٹ دھرمی اور بدترین تعصب کی نشاندہی کرتا ہے اور قرآنِ کریم کی زبانی اللہ تعالیٰ نے اپنی شریعت ِمطہرہ کا مذاق اُڑانے والوں پر لعنت کی اور اُنہیں عذابِ الیم کا وعدہ دیا ہے :
{ذٰلِکَ جَزَاؤُہُمْ جَہَنَّمُ بِمَا کَفَرُوْا وَاتَّخَذُوْا آیٰتِيْ وَرُسُلِيْ ہُزُوًا}
’’ان کی سزا جہنم اس لئے ہے کیونکہ اُنہوں نے اسلام سے کفر کیا اور اللہ کی آیات اور اس کے رسولوں کا مذاق اُڑایا۔‘‘ (الکہف: ۱۰۶)
{وَلَقَدِ اسْتُہْزِیَ بِرُسُلٍ مِّنْ قَبْلِکَ فَأَمْلَیْتُ لِلَّذِیْنَ کَفَرُوْا ثُمَّ أَخَذْتُہُمْ فَکَیْفَ کَانَ عِقَابِ } (الرعد: ۳۲)
’’رسولوں کا اس سے پہلے بھی مذاق اُڑایا جاتا رہا۔ تو میں کافروں کو ڈھیل دیتا رہا، پھر میں نے ان کو اپنی گرفت میں لے لیا … پھر کیسا رہا میرا عذاب!!‘‘
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جابجا کفار کی اس قبیح عادت کا تذکرہ کیا ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کا مذاق اُڑاتے ہیں(المائدۃ: ۵۷) پھر ان سے یہ سوال کیا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ہی تمہیں اس تمسخر کے لئے ملتے ہیں، تم فکر نہ کرو، تمہارا انجام عنقریب اس ربّ کے ہاتھ میں جانے والا ہے۔ ( التوبہ: ۶۵) نبی کریمؐ کا یہ مؤثر اندازِ دعوت ملاحظہ فرمائیں :
{یٰحَسْرَۃً عَلی الْعِبَادِ مَا یَأْتِیْہِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ إِلاَّ کَانُوْا بِہَا یَسْتَہْزِئُ وْنَ}
’’ان بندوں (کی نامرادی ) پر افسوس و حسرت! ان کے پاس جو رسول بھی آتا ہے ، تو یہ اس کا تمسخر اُڑانے سے نہیں چوکتے۔‘‘ (یٰسین:۳۰)