• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

توہین آمیز خاکے ؛ اسلام اور عصری قانون اُمتِ مسلمہ کیلئے لمحہ فکریہ

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
توہین آمیز خاکے اور عصر حاضرکے قوانین
توہین کے ان واقعات پر غیر مسلم حکومتوں کا رویہ بھی ہٹ دھرمی، تکبر وتمسخر اور انانیت کا مظہرہے۔ اس نوعیت کے واقعات پر ان کی پیش کردہ بعض معذرت آرائیاں بھی منافقت کے پردے میں لپٹی ہوئی ہیں۔ان اخبارات کے سابقہ رویے، ان ممالک کے اپنے قوانین اور اقوامِ متحدہ ودیگر عالمی قوانین ان کے اس دوہرے معیار کی کسی طو رحمایت نہیں کرتے، لیکن اس کے باوجود میڈیا کے بل بوتے پر ان کی تکرار جاری وساری ہے۔
جہاں تک توہین آمیز خاکے شائع کرنے والے اخبار کاتعلق ہے … جس کی پیشانی پر یہودیوں کا عالمی نشان ’سٹار آف ڈیوڈ‘ اس کے متعصب یہودی ہونے کابرملا اظہار ہے … تو اسی اخبار نے ۲ برس قبل حضرت عیسیٰ کے بارے میں بعض متنازعہ خاکے شائع کرنے سے انکار کیا تھا، کیونکہ ان کی نظر میں اس سے ان کے بعض قارئین کے جذبات متاثر ہونے کا خدشہ تھا۔ وہ خاکے کرسٹوفرزیلر نامی کارٹونسٹ نے بنائے تھے۔ مذکورہ خاکوں کی اشاعت کے عمل کا بھی اگر جائزہ لیا جائے تو حادثہ کی بجائے ایک منظم سازش کا پتہ چلتا ہے۔
(تفصیلات: روزنامہ ’جنگ‘ ۱۶؍ فروری ’زیر وپوائنٹ‘ جاوید چودھری )
لمحہ بہ لمحہ اس سازش کو جس طرح پروان چڑھایا گیا، اور جن جن مراحل سے اسے گزارا گیا، اس کا تفصیلی تذکرہ ہفت روزہ ’ندائے خلافت‘ کے یکم مارچ ۲۰۰۶ء کے شمارے میں ایک مستقل مضمون میں کیا گیا ہے۔ یوں بھی یہ ڈنمارک سکنڈے نیوین ممالک میں سب سے زیادہ یہودیت نواز ملک ہے، کیونکہ تاریخی طور پر یورپ سے نکالے جانے کے بعد سب سے زیادہ یہودی ڈنمارک میں ہی رہائش پذیر ہوئے تھے۔ اس لئے اسی ملک میں اس سازش کا بیج ڈالا گیا ہے۔ اس سازش کا مختصر تذکرہ اپنے الفاظ میں حسب ِذیل ہے:
’’ان خاکوں کی اشاعت کے دو بنیادی کردار ہیں: پہلا ڈینیل پائبس نامی امریکی عیسائی جو صدر بش کے ساتھ گہرے سیاسی وتجارتی مراسم رکھنے کے علاوہ بعض کمیٹیوں کا بھی رکن ہے اور امریکی اخبار اسے ’اسلام فوبیا کا مریض‘ اورمغربی دانشور ’اسلام دشمن‘ قرار دیتے ہیں۔ اسلام کے نام پر دنیا بھر میں جہاں کوئی سرگرمی ہو تووہ اس کے لئے ہرقسم کی مدد دینے کے لئے آمادہ رہتا ہے۔ دوسرا اہم کردار جیلانڈ پوسٹن نامی اخبار کا یہودی کلچر ایڈیٹر فلیمنگ روز۔ مسلمانوں کے خلاف یہ دہشت گردی عیسائیوں اور یہودیوں کی ملی بھگت کا نتیجہ ہے۔ یہ ایڈیٹر کافی عرصہ سے توہین رسالتؐ کے موقع کی تلاش میں تھا کہ کرے بلوٹکن نامی ایک ڈینش مصنف نے نبی 1 پر ایک مختصر کتاب میں شائع کرنے کے لئے اس سے آپؐ کا کوئی خاکہ طلب کیا۔ اس تقاضے پر فلیمنگ نے ڈینیل کی حمایت اور تعاون کے بل بوتے پر آپ 1 کے خاکے بنانے کیلئے اپنے اخبار میں اشتہار شائع کرا دیا۔ ۴۰ میں سے ۱۲ بدبخت کارٹونسٹ اس مذموم حرکت کے لئے آمادہ ہوئے اور ان میں سے ویسٹر گارڈ نامی ملعون کارٹونسٹ نے توہین آمیز خاکے تیار کئے۔ اپنے قتل کا فتویٰ ملنے کے بعد سے یہ شخص روپوش یا ڈینش پولیس کی حفاظت میں ہے جبکہ فلیمنگ میامی(امریکہ) میں اپنے دوست ڈینیل کی میزبانی اور تحفظ سے محظوظ ہورہا ہے۔‘‘ ( ہفت روزہ فیملی میگزین: ۵ مارچ۲۰۰۶ئ’سازش کے اصل مجرم‘)
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
ڈینش اخبار کا یہ واقعہ کوئی حادثہ نہیں بلکہ ایک سوچی سمجھی ذہنیت ہے جیساکہ واشنگٹن پوسٹ نے بھی یہی قرارد یا ہے۔ اور خود فلیمنگ روز سے جب اپنے طرزِ عمل پر افسوس کے بارے میں پوچھا گیا تو اس نے جواب دیاکہ ایسی کوئی بات نہیں، ان خاکوں کی اشاعت کے پس پردہ ایک جذبہ کار فرما ہے او روہ ہے ’دہشت گردی ‘ جسے اسلام سے روحانی اسلحہ فراہم ہوتا ہے۔
(روزنامہ ڈان: ۱۹ فروری ۲۰۰۶ء)
جہاں تک ڈنمارک کے قوانین کا تعلق ہے تو اس حرکت میں اس کے اپنے طے شدہ کئی قوانین کی مخالفت پائی جاتی ہے۔ مثلاً ڈنمارک کے کریمنل کوڈ کے سیکشن ۱۴۰ کے مطابق
’’ہر وہ شخص جوملک میں قانونی طورپر مقیم کسی فرد یا کمیونٹی کے مذہب یا عبادات اور دیگر مقدس علامات کی تضحیک کرے گا، اسے زیادہ سے زیادہ چار ماہ کی قید یا جرمانہ کی سزا دی جا سکے گی۔‘‘
غور طلب امر یہ ہے کہ جیلانڈ پوسٹن نامی اخبار اوراس کے ایڈیٹر کو اس قانون سے کیوں بالاتر رکھا جارہا ہے؟ جبکہ ڈنمارک کی سرکاری ویب سائٹ پر خود اس اخبار پر اس قانون کے تحت کاروائی کرنے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے، لیکن ابھی تک کسی قانونی اقدام سے گریز کا رویہ زیر عمل ہے۔
ایسے ہی ڈنمارک ہی کے پینل کوڈ کے سیکشن ۲۶۶ بی کے مطابق
’’ ایسا کوئی بھی بیان یا سرگرمیاں جرم ہیں، جو کسی بھی کمیونٹی کے افراد کے لئے رنگ ، نسل، قومیت، مذہب یا جنس کے حوالے سے دل آزار ہوں۔‘‘
ڈنمارک کے یہ اخبارات وجرائد اس دفعہ کی خلاف ورزی کے بھی مرتکب ہوئے ہیں لیکن یہاں بھی قانون کو حرکت میں نہیں لایا جارہا۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
مزید برآں ڈنمارک کے آئین میں آزادیٔ اظہار کے حوالے سے سیکشن ۷۷ کی رو سے
’’ہر شخص کواپنے خیالات کے اظہار اور اُنہیں چھاپنے کی مکمل آزادی ہے لیکن وہ اپنے خیالات کے حوالے سے ’کورٹ آف جسٹس‘ کو ضرور جواب دہ ہے۔‘‘
اگر ان اخبارات کی اس حرکت کو آزادیٔ اظہار کے زمرے میں لانے کو بھی بفرضِ محال تسلیم کرلیاجائے تب بھی اس ’کورٹ آف جسٹس‘ نے دنیا بھر کے مظاہروں کے بعد ان اخبارات سے کسی جواب طلبی سے تاوقت کیوں گریز کیا ہے ؟
ڈینش اخبارات وجرائد کے بعد جب یہ کارٹون مغربی میڈیا میں شائع ہوئے ہیں تو اس امر کا جائزہ لینے کی بھی ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ کیا عالمی قوانین اور مغر ب کے مسلمہ تصورات مغربی میڈیا کو بھی انہیں شائع کرنے کی اجازت دیتے ہیں یا نہیں؟
اس سلسلے میں میڈیا ہر جگہ آزادیٔ اظہار کے حق کا تذکرہ کر رہا ہے ، یوں بھی مغرب میں اس فلسفے کو بعض وجوہ سے ایک مسلمہ کی حیثیت حاصل ہوچکی ہے۔ باوجود اس امر کہ اسلام آزادیٔ اظہار کے مغربی تصور کا قائل نہیں لیکن حالیہ خاکے مغرب کے اپنے پیش کردہ تصور پر بھی پورا نہیں اُترتے کیونکہ ہر انسان کو اس حد تک ہی آزادیٔ اظہار حاصل ہوتا ہے جب تک یہ اظہار دوسرے کی حدود میں داخل نہ ہوجائے۔ آزادیٔ اظہار کا یہ مطلب قطعاً نہیں ہے کہ دوسروں کی حدود میں دخل اندازی کی جائے۔ ایک انسان جب آزادیٔ اظہار کے ذریعے دوسروں کے مقدس تصورات و نظریات اور رہنما شخصیات پر تنقید کرے گا تو یہ آزادی کے بجائے کھلم کھلا جارحیت کا ارتکاب کہلائے گا۔ دوسرے کے جذبات سے کھیلنا آزادیٔ اظہار کے بجائے ’دہشت گردی کا ارتکاب‘ ہے۔ جرمن مفکر ایمانویل کانٹ کا مشہور مقولہ ہے کہ
’’میں اپنے ہاتھ کو حرکت دینے میں آزاد ہوں، لیکن جہاں سے تمہاری ناک شروع ہوتی ہے ، میرے ہاتھ کی آزادی ختم ہوجاتی ہے۔‘‘
’’ایسے ہی ہر انسان کی آزادی وہاں جا کر ختم ہوجاتی ہے ، جہاں دوسرے کی شروع ہوتی ہے۔‘‘
اس لحاظ سے بھی ان اخبارات کا یہ رویہ آزادیٔ اظہار کے مغربی تصور کے استحصال اور کھلی مخالفت پر مبنی ہے۔آزادیٔ اظہار کی یہ حد بندی صرف ایک مسلمہ حقیقت نہیں بلکہ یورپی کنونشن کا چارٹر (مجریہ ۱۹۵۰، روم) اس کو قانونی حیثیت بھی عطا کرتاہے۔ جس کی رو سے
’’ آزادیٔ خیالات کے ان حقوق پر معاشرے میں موجود قوانین کے دائرہ کار کے اندر ہی عمل کرنا ہوگا، تاکہ یہ آزادیاں کسی دوسرے فرد یاکمیونٹی کے تحفظ ، امن وامان او ردیگر افراد یا کمیونٹی کے حقوق اور آزادیوں کو سلب کرنے کا ذریعہ نہ بنیں۔ ‘‘
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
مزید برآں اسی چارٹر کے سیکشن ۱، آرٹیکل ۱۰ کی شق اول ودوم میں یہ بھی درج ہے کہ
’’ آزادیٔ اظہار کے حوالے سے ملکی قوانین پامال نہیں کئے جائیں گے، تاکہ جمہوری روایات علاقائی سلامتی، قومی مفادات، دوسروں کے حقوق کی پاسداری اور باہمی اعتماد کو نقصان نہ پہنچے۔‘‘
’’آزادی اظہار کا یہ تصور فرض شناسی اور ذمہ دارانہ رویے سے مشروط ہے۔‘‘
’’آزادیٔ اظہار کا حق نہایت حزم واحتیاط او رذمہ داری کے ساتھ استعمال کیا جانا چاہئے، اس کے ذریعے کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ ملک میں معاشرے کی اخلاقی اقدار، دوسروں کی عزتِ نفس، اور ان کے بنیادی حقوق کو گزندپہنچائے۔ ‘‘
آزادیٔ اظہار کا یہ حق ’انٹرنیشنل کنونشن آن سول اینڈ پولیٹکل رائٹس‘ ICCPRکے ذریعے بھی محدود کردیا گیا ہے۔ مزید تفصیلات کے لئے حسب ِذیل مضمون دیکھیں :
روزنامہ پاکستان، لاہور’نسلی ومذہبی منافرت اور عالمی قوانین‘ از آغا شاہی
توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کی مخالفت ان متعدد فیصلہ جات سے بھی ہوتی ہے جو ماضی میں مغرب کی مختلف عدالتیں سنا چکی ہیں۔ اس کے باوجود ڈینشحکمرانوں کا یہ عذر ’عذرِ گناہ بدتر از گناہ‘ کا مصداق اور دیگر حکمرانوں کی ان سے ہم نوائی دراصل اسلام سے دشمنی کا برملا اظہار ہے۔ میڈیا کے بل بوتے پر اسلام کے بارے میں پیدا کیا جانے والا تعصب مختلف مراحل پر اپنا رنگ دکھا رہا ہے اور اس کو اپنے لبرل قوانین کا تحفظ پہنانے کی ناکام کوشش کی جارہی ہے۔
یورپی یونین کی ہیومن رائٹس کی اعلیٰ ترین عدلیہ نے سال ۱۹۹۶ء میں برطانیہ کے ہائوس آف لارڈز کے توہین مسیح کے مقدمہ میں فیصلہ پر اوپر درج شدہ آرٹیکل ۱۰ کے تحت اپیل کی سماعت کے بعد ایک اہم اور دلچسپ مقدمہ ’ونگرو بنام مملکت ِبرطانیہ ‘میں بڑا معرکہ آرا فیصلہ صادر کیاہے جو یورپی یونین کے تمام ممبر ممالک پر لاگو ہے۔
یہ کیس ایک ایسی فلم کے بارے میں تھا جس سے حضرت عیسیٰ کی توہین کا تاثر اُبھرتا ہے اور اس کو برطانوی سنسر بورڈ نے اس بنا پر نمائش سے روک دیا کہ اس سے عیسائی شہریوں کے جذبات مشتعل ہونے کا اندیشہ تھا۔ سنسربورڈ کے اس فیصلہ کے خلاف فلمساز نے برطانیہ کی سب سے بڑی عدالت ’ہائوس آف لارڈز‘ میں اپیل کی، جہاں اس عدالت ِعظمی کے ایک لبرل جج اسکارمین نے یہ قرار دیا کہ
’’توہین ِمسیح کا قانون برطانیہ کے لئے ناگزیر ہے۔‘‘
اس ہائوس نے بھی فلم کو نمائش سے روکنے کا فیصلہ برقرار رکھا۔ فلمساز نے پھر اس فیصلہ کے خلاف حکومت برطانیہ کو فریق بناتے ہوئے حقوقِ انسانی کی اعلیٰ ترین عدالت میں اس فیصلہ کو اوپر درج شدہ آرٹیکل ۱۰ کی رو سے چیلنج کردیا۔ یورپی یونین کی اس اعلیٰ ترین عدالت نے اس آرٹیکل کی تشریح کرتے ہوئے یہ قرارد یا کہ
’’توہین ِمسیح کے قانون کی بدولت حقوقِ انسانی کا تحفظ برقرار رہتا ہے۔‘‘
اور سابقہ فیصلوں کو برقرار ررکھا۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
ہیومن رائٹس کمیشن کے ایک مشہور کیس Faurisson VS Franceکا عدالتی فیصلہ ملاحظہ ہو:
’’ایسے بیانات پرجو یہودیت دشمن جذبات کو ابھاریںیا انہیں تقویت دیں، پابندیوں کی اجازت ہوگی، تاکہ یہودی آبادیوں کے مذہبی منافرت سے تحفظ کے حق کو بالادست بنایا جاسکے۔‘‘
روزنامہ نوائے وقت لاہور میں شائع ہونے والے مضمون ’یورپ اور توہین انبیا‘ میں مجاہد ناموسِ رسالتؐ جناب محمد اسمٰعیل قریشی لکھتے ہیں :
’’یورپ کی عیسائی اور نام نہاد سیکولر حکومتوں کا شروع سے یہ عجیب وغریب دوہرا معیار رہاہے کہ اپنے ملکوں میں تو توہین مسیح کے جرم کی سنگین سزا، سزاے موت نافذ رہی ہے جو اب بھی عمر قید کی صورت میں موجود ہے لیکن وہ چاہتے ہیںکہ پاکستان یا دوسرے مسلمان ملکوں میں پیغمبر اسلامﷺ کی اہانت کی سزا کا سرے سے وجود ہی نہ رہے کیونکہ اس سے عیسائی اور دیگر اقلیتوں کے انسانی حقوق مجروح ہوتے ہیں۔‘‘
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
مغرب کی منافقانہ روش:
ان خاکوں کی اشاعت کے لئے بہت سے اخبارات نے یہ موقف بھی اختیار کیا کہ سیکولر معاشرے کے نمائندہ ہونے کی وجہ سے وہ مذہبی نظریات کے تحفظ کے پابند نہیں۔ دوسری طرف ان ممالک کے آئین اس امر کی ضمانت بھی دیتے ہیں کہ وہ اپنے ہاں بسنے والوںمیں کسی مذہبی امتیاز کو جگہ نہیں دیں گے، لیکن ان ممالک کا عملی رویہ اس دعویٰ کے برعکس ہے۔ ان ممالک میں عیسائیت اور یہودیت کو جوتحفظ حاصل ہے اور قوانین میں ان کی جو ترجیحی حیثیت موجودہے، اسلام کو یہ تحفظ کسی مرحلہ میں بھی میسر نہیں۔
ڈنمارک اور دیگر یورپی ممالک میں یہودیوں کے جرمنی میں قتل عام کی خود ساختہ تاریخ اور ان کی مظلومیت کو پورا تحفظ دیا گیاہے۔ اس مزعومہ قتل ِعام(ہولوکاسٹ) میں مقتولین کی تعداد کو ۵۰ لاکھ سے کم بیان کرنا کسی کے مجرم بننے کے لئے کافی ہے۔حتیٰ کہ اس کہانی کے کسی جز کا بھی انکار کرنا ۲۰ سال تک قید کی سزا کا مستوجب ہے۔ ان ممالک کا یہ قانون مذہبی امتیاز پر واضح دلیل اور آزادیٔ اظہار پر صاف قدغن ہے۔ لیکن چونکہ اس سے یہودیوں کی دل شکنی ہوتی ہے، اس لئے اس کو تو قانونی تحفظ عطا کیا گیا ہے، لیکن مسلمانوں کی دنیا بھر میں او رخود ڈنمارک میں دل شکنی کوئی جرم نہیں۔ یہ تضاد مغربی لبرل ازم کا پورا پول کھولتا ہے…!
برطانیہ میں حضرت عیسیٰ کی توہین پر موت کی سزا موجود ہے اور اس سزا کو عالمی عدالت ِانصاف بھی مختلف موقعوں پر تسلیم کرچکی ہے گویا وہ برطانیہ کے اس تصورِ قانون کی مؤید ہے جیساکہ اس کی تفصیل اوپر گزر چکی ہے۔غور طلب امر یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ کی توہین کو آزادیٔ اظہار کے دائرے میں لانا کیوں برطانوی حکومت کو گوارا نہیں۔ علاوہ ازیں برطانیہ کے اس قانون کا دائرہ صرف چرچ کے تحفظ تک ہی کیوں محدود ہے؟ یہ قوانین شہریوں میں عدم مساوات اور مذہبی امتیاز پر واضح دلیل ہیں۔
حضرت عیسیٰ کی توہین کا ایک کیس آسٹریا میں بھی ۱۹۹۰ء میں زیر سماعت لایا گیا ہے، جس سے پتہ چلتاہے کہ یہ قانون دیگر مغربی ممالک میں بھی موجود ہے۔اس کیس ’اوٹو پریمنگر انسٹیٹیوٹ بنام آسٹریا‘ کے فیصلہ میں عدالت نے تحریر کیا کہ
’’دفعہ ۹ کے تحت مذہبی جذبات کے احترام کی جو ضمانت فراہم کی گئی ہے ، اس کے مطابق کسی بھی مذہب کی توہین پر مبنی اشتعال انگیز بیانات کو بدنیتی اور مجرمانہ خلاف ورزی قرار دیا جاسکتا ہے۔ جمہوری معاشرے کے اوصاف میں یہ وصف بھی شامل ہے کہ اس نوعیت کے بیانات ، اقوال یا افعال کو تحمل ، بردباری اور برداشت کی روح کے منافی خیال کیا جائے اور دوسروں کے مذہبی عقائد کے احترام کو صد فی صد یقینی بنایا جائے۔‘‘
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
۱۹۸۹ء میں ایک فلم Visions of Ecstasy کو برطانوی سنسر بورڈ نے اس بنیاد پر نمائش سے روک دیا کیونکہ اس میں چرچ کی توہین پائی جاتی تھی۔ حالانکہ بعدازاں وہ یہ ثابت نہیں کرسکے کہ اس میں توہین آمیز اور قابل اعتراض چیزیں کہاں پائی جاتی ہیں ؟
اس واقعہ میں ’ہمہ قسم کے نسلی امتیاز (یا تعصبات) کے خاتمے پر عالمی کنونشن‘ ICERD کی بھی صریحاً خلاف ورزی کی گئی ہے۔ جس کی رو سے نسلی برتری، نفرت انگیز تقاریر اور نسلی تعصب کو ابھارنے کے عمل کوغیر قانونی قراردیا گیا ہے۔ اور اقوام متحدہ پر لازم ہے کہ اس قسم کے قابل تعزیر اقدامات کے ذمہ داروں کو قرارِ واقعی سزا دے۔
ایسے معاشرے جہاں مذاہب کی بنیاد پر تفریق ممنوع ہے، وہاں اسلام کو نظر انداز کرکے دیگر مذاہب کو یہ تقدس عطا کرنا بذاتِ خود قابل مؤاخذہ اور مذہبی امتیاز کا مظہرہے۔ یہ مغرب کی اس منافقت کا پول کھولتا ہے جو آئے روز مذہبی مساوات کا دعویٰ کرتی اور مسلم ممالک کو ا س کا درس دیتی رہتی ہے۔بالخصوص اس وقت جب جمہوری اُصولوں کی دعویدار حکومتیں اس حقیقت کے علیٰ الرغم اس زیادتی کا ارتکاب کریں کہ یہ دنیا میں پائے جانے والے ڈیڑھ ارب یعنی دنیا بھر کی چوتھائی آبادی کے مذہبی جذبات کا تمسخر اُڑانا ہے۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
اسلام کی توہین؛ ایک جرمِ مسلسل
توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کوئی وقتی مسئلہ نہیں کہ اس پر مسلمان اپنے غم وغصہ کا اظہار کرکے اپنا احتجاج ریکارڈ کرالیں اور اسے ہی کافی سمجھیں۔ بلکہ اگر صرف گذشتہ چند برس کی تاریخ کو پیش نظر رکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ توہین ِاسلام غیرمسلموں کا ایک مسلسل رویہ ہے ، جس کا ارتکاب غیر مسلم ایک تسلسل سے کررہے ہیں اور اس کو کافر حکومتیں لگاتار تحفظ عطا کرتی ہیں۔ ا س جرم کے مرتکبین ان کی آنکھ کا تارا اور ان کی عنایتوں کا مرکز ومحور ٹھہرتے ہیں۔
ان واقعات کے بارے میں حسب ِذیل اشارے اس مسلسل رجحان کی عکاسی کرنے کے لئے کافی ہیں جس کے تدارک کے لئے اُمت ِمسلمہ کو سنجیدگی سے غور کرنا، اس کی وجوہات تلاش کرنا اور اس کے خاتمے کے لئے ٹھوس اقدامات بروئے کار لانا ہوں گے :
۸۰ اور ۹۰ کی دہائیوں میں سلمان رشدی کی شیطانی آیات اور تسلیمہ نسرین کے ناولوں کی اشاعت او رمغرب میں ان کی ریکارڈ تعداد میں فروخت، بعد ازاں ان دونوں ملعون شخصیات کو مغربی حکومتوں کا سرکاری پروٹوکول پیش کرنا اور ان کے گرد حفاظتی حصار قائم کرکے مقبولِ عام شخصیتوں کا درجہ دینا۔
از حکومت کے دوسرے دور میں دو مسیحیوں کا توہین رسالت کا ارتکاب اور راتوں رات اُنہیں جرمنی کی حکومت کے تحفظ میں دینے کے لئے پاکستانی ائیرپورٹوں سے باعزت روانگی
جنوری ۲۰۰۰ء میں انٹرنیٹ پر ایک حیاباختہ لڑکی کے سامنے مسلمان نمازیوں کو اس حالت میں سجدہ میں گرا ہوا دکھایا گیا کہ وہ اس کی عبادت کررہے ہیں۔ اس پر ہفت روزہ ’وجود‘ کراچی میں توجہ دلائی گئی۔
ستمبر ۲۰۰۰ء میں انٹرنیٹ پر قرآن کی دو جعلی سورتیں ’دی چیلنج‘کے عنوان سے شائع ہوئیں اور یہ دعویٰ کیا گیا کہ یہ وہ مظلوم سورتیں ہیں جنہیں مسلمانوں نے اپنے مقاصد کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہوئے قرآن سے نکال باہر کیا ہے۔ معاذ اللہ
اکتوبر ۲۰۰۱ء میں ’دی رئیل فیس آف اسلام‘ نامی ویب سائٹ پر نبی کریم 1سے منسوب چھ تصاویر کے ساتھ ہتک آمیز مضامین شائع کئے گئے، جس میں اسلامی تعلیمات کو مسخ کرکے یہ تاثر اُبھارا گیا کہ مسلمان اپنے سوا تمام دیگر انسانوں بالخصوص یہود ونصاری کوواجب القتل سمجھتے ہیں۔ نبی کریم ﷺسے تصاویر منسوب کرکے یہ دعویٰ کیا گیا کہ آپ دنیا میں قتل وغارت اور دہشت گردی کا سبب ہیں۔نعوذ اللہ
نومبر ۲۰۰۴ء میں ہالینڈ کے شہر ہیگ میں Submission نامی فلم میں اسلامی احکامات کا مذاق اُڑایا گیا اور برہنہ فاحشہ عورتوں کی پشت پر قرآنی آیات تحریرکی گئیں۔ قرآنی احکام کو ظالمانہ قرار دینے کی منظر کشی کرتے ہوئے مغرب میں بسنے والے انسانوں کو یہ پیغام دیا گیا کہ اس دین سے کسی خیر کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ اس کے نتیجے میں وہاں مسلم کش فسادات شروع ہوگئے۔ آخر کار ایک مراکشی نوجوان محمد بوہیری نے اس گستاخِ قرآن ’وان گوغ‘ کو اس کے انجام تک پہنچایا۔
یادر ہے کہ اس فلم کا سکرپٹ نائیجریا کی سیاہ فام مرتد عورت عایان ہرشی علی نے لکھا تھا، جب یہ عورت ہالینڈ میں سکونت پذیر ہوئی تو مسلمانوں نے اس کی سرگرمیوں پر احتجاج کیا، آخر کار ڈچ حکومت نے ا س عورت کے تحفظ کے لئے اسے سرکاری پروٹوکول فراہم کردیا۔
جنوری ۲۰۰۵ء میں فُرقان الحق نامی کتاب شائع کرکے اس کو مسلمانوں کا نیا قرآن باور کرانے کی مذموم مساعی شروع کی گئیں ۔ ۳۶۴ صفحات پر مشتمل ا س کتاب میں ۸۸آیات میں خود ساختہ نظریات داخل کئے گئے جس کی قیمت ۲۰ ڈالر رکھی گئی۔
مارچ ۲۰۰۵ء میں امینہ ودود نامی عورت نے اسریٰ نعمانی کی معیت میں امامت ِزن کے فتنے کا آغاز کیا اور مغربی پریس نے اس کو خوب اُچھالا۔
مئی ۲۰۰۵ء میں نیوز ویک نے امریکی فوجیوں کی گوانتا ناموبے میں توہین ِقرآن کے ۵۰ سے زائد واقعات کی رپورٹ شائع کی جس کے بعد دنیا بھر کے مسلمانوں میں اشتعال پھیل گیا۔
ستمبر ۲۰۰۵ء میں جیلانڈ پوسٹن نامی ڈینش اخبار میں توہین رسولﷺ کا ارتکاب کیا گیا۔ جس کے بعد وہاں کے کئی جرائد نے اُنہیں دوبارہ شائع کیا ۔ بعد ازاں فروری ۲۰۰۶ء میں کئی مغربی اخبارات نے ان توہین آمیز کارٹونوں کو اپنے صفحہ اوّل پر شائع کیا۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
نبی رحمت محمد عربی 1کی شان میں گستاخیوں کا یہ سلسلہ ان چند سالوں پر محیط نہیں بلکہ دشمنانِ اسلام نے آپ کی شانِ رسالتؐ کو ہمیشہ اپنی کم ظرفی اور کمینگی کے اظہار کے لئے نشانہ بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ قرونِ وسطیٰ میں جان آف دمشقی (۷۰۰ تا ۷۵۴ئ) وہ پہلا نامراد شخص ہے جس نے آپ1 پرالزامات واتہامات کا طومار باندھا اور بعد ازاں اکثر وبیشتر مستشرقین نے انہی الزامات کو دہرایا۔ منٹگمری واٹ نے ’محمد ایٹ مکہ‘ میں لکھا ہے کہ
’’مغربی مصنّفین محمدﷺ کے بارے میں بدترین چیز پر بھی یقین کرنے کو ہردم آمادہ رہتے ہیں۔ دوسری طرف جہاں کہیں اپنے کسی مذموم فعل کی کوئی ممکنہ توجیہ اُنہیں میسر آئے، اسے حقیقت تسلیم کرنے میں لمحہ بھر تامل نہیں کرتے۔‘‘
انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا (۱۹۸۴) کا مقالہ نگار لکھتا ہے:
’’بہت کم لوگ اتنے بدنام کئے گئے جتنا محمدﷺکو بدنام کیا گیا، قرونِ وسطی کے عیسائیوں نے ان کے ساتھ ہر الزام کو روا رکھا ہے۔‘‘
A History of Medievalکا مصنف جے جے سانڈرز لکھتا ہے:
’’اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ پیغمبر عربی کو عیسائیوں نے کبھی ہمدردی اور توجہ کی نظر سے نہیں دیکھا، جن کے لئے حضرت عیسیٰ کی ہستی ہی شفیق و آئیڈیل رہی ہے۔ صلیبی جنگوں سے آج تک محمدﷺکو متنازعہ حیثیت سے ہی پیش کیا جاتا رہا او ران کے متعلق بے سروپا حکایتیں او ربے ہودہ کہانیاں پھیلائی جاتی رہیں۔‘‘ ( ص ۳۴،۳۵، لندن ۱۹۶۵)
عیسائیوں اور غیرمسلموں نے اسلام کی راہ روکنے کے لئے تاجدارِ رسالتؐ کی شان میں توہین کے علاوہ تنقید کا رویہ بھی اپنایا لیکن اس تنقید کا جواب ہمیشہ سے مسلم علما نے مبرہن انداز میں دیتے ہوئے ان کے اعتراضات کا خاتمہ کیا۔ مذکورہ بالا واقعات کی نشاندہی اور اقتباسات کی پیشکش کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مسلمان اسلام یا نبی اکرمﷺ کی سیرت پر علمی تبادلہ خیال بھی گوارا نہیں کرتے لیکن تنقید اور توہین میں بڑے بنیادی فرق ہیں۔ مسلمانوں نے مستشرقین کے اعتراضات کا جواب دلائل وبراہین کے ساتھ دیا ہے لیکن توہین رسالتؐ کے مرتکبین کے خلاف ہمیشہ ہی صداے احتجاج بلندکی او راُنہیں کیفر کردار تک پہنچانے کی جہدوسعی بروے کار لائے۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
مذکورہ بالا واقعات کا تسلسل جہاں مغرب کی تنگ نظری اور تعصب کا آئینہ دار ہے وہاں اس میں مسلمانوں کے لئے غور وفکر کا کافی سامان بھی موجود ہے۔کسی قوم کے مذہبی تصورات، شعائر اور مقدس شخصیات کی بے حرمتی کے لگاتار واقعات اس امر کا بین ثبوت ہیں کہ اس کا جسد ِملی کھوکھلا ہوچکا ہے۔ اسلام جو کئی صدیاں دنیا کی قیادت کے منصب پر فائز رہا ہے، آج ایک مظلوم مذہب میں تبدیل ہوچکا ہے۔ مسلمانوں کی روز بروز بڑھتی عددی اکثریت اور ہر قسم کے وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود اسلام کی عالمی پیمانے پر قدر ووقعت روز بروز کم کیوںہوتی جارہی ہے؟ اس کی وجہ غیروں کی بجائے خود ہمارے اپنے اندر پوشیدہ ہے۔
توہین کی ایک شکل تو وہ ہے جس کا ارتکاب آئے روز غیر مسلم کر رہے ہیں اور ایک توہین وہ ہے جس کا ہم اللہ کے احکامات اورنبی کریم ﷺکے مقدس فرامین کو رو بہ عمل نہ لا کر ، ان کی نافرمانی کرتے ہوئے ہر مرحلہ زندگی میں مرتکب ہو رہے ہیں۔ توہین کے اس مسلسل ارتکاب کی بنا پر غیروں کو یہ ہمت پیدا ہوئی کہ وہ اسلام اور اس کے مقدس نبی ﷺکو اپنا تختہ مشق وستم بنا سکیں۔ آج دنیا میں ۶۰ کے لگ بھگ اسلامی حکومتیں پائی جاتی ہے لیکن مقامِ عار یہ ہے کہ کسی ایک جگہ بھی اسلامی معاشرہ اپنی کامل شکل میں موجود نہیں۔ ایک آدھ جزوی استثنا کے ساتھ تمام ممالک میں غیراسلامی نظام ہائے معاشرت کی بھر مار ہے اور عملاً اسلام تاریخ کے صفحات پر نظر آتا ہے یا کتابوں کے اوراق میں مدفون ہے !!
اسلام ایک عظیم نظریۂ حیات اور طرزِ زندگی ہے، جبکہ کفر ایک کم تر معاشرت اور تہذیب وتمدن کا حامل ہے ، لیکن اس کی برتری یہ ہے کہ وہ جس امر کو درست سمجھتے ہیں، اس کو رو بہ عمل لانے سے ہچکچاتے نہیں اور ہم جس کو حق جانتے ہیں، اس کی تعریف و توصیف کرتے تو ہماری زبان تھکتی نہیں لیکن اس کو روبہ عمل لانے او راپنے اجتماع وافراد پر نافذ کرنے کی ہم میں ہمت نہیں۔ ہم عملی منافقت کی بدترین صورت کا شکار ہیں جس میں قول وفعل میں بعد المشرقین پایا جاتا ہے۔ اگر اسلام پر ہمارا دل وجان سے یقین ہے تو ہماری خیر وفلاح اسی پر عمل کرنے میں مضمر ہے لیکن اسلام سے محض ایک جذباتی تعلق استوار کرنے کے بعد ہم ہر تصور ونظریہ کے لئے مغرب سے بھیک مانگتے ہیں۔ قرآن کریم کے ہر ہر لفظ پر ہمیں ایمان رکھنے کا دعویٰ ہے ، لیکن اس قرآن کا یہ حکم ہماری نظروں سے کیوں اوجھل ہوچکا ہے …
{وَأَعِدُّوْا لَہُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ وَّمِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرْہِبُوْنَ بِہٖ عُدُوَّ اﷲ وَعَدُوَّکُمْ وَآخَرِیْنَ مِنْ دُوْنِہِمْ لاَ تَعْلَمُوْنَہُمْ اﷲ یَعْلَمُہُمْ } (الانفال: ۶۰)
’’اور تم غیرمسلموں کے لئے بقدرِ استطاعت قوت تیار رکھو ، ایسے ہی گھوڑوں کی تیاری بھی (جس کا فائدہ یہ ہوگا کہ ) تم اس سے اللہ کے اوراپنے دشمنوں پر اور ان پر رعب طاری کر سکو گے جن کو تم تو نہیں جانتے ، لیکن اللہ جانتا ہے۔‘‘
اس آیت میں یہ حقیقت واضح الفاظ میں بیان کی گئی ہے کہ اسلام کو دنیا کا کوئی لادین تصور ونظریہ کبھی گوارا نہیں کرسکتا اور سب لوگ ان کی مخالفت میں یکجان ہیں۔ کفار سے مبنی برانصاف رویے کی واحد بنیاد یہ ہے کہ مسلمان اپنی حربی قوت سے ان پر رعب وہیبت برقرار رکھیں وگرنہ سب غیر مسلم قومیں مل کر اسلام پر حملہ آور ہوجائیں گی۔
ہماری نظر میں توہین کے ان مسلسل واقعات کا واحد حل یہ ہے کہ مسلمان خلوصِ دل سے اسلام کو اپنی زندگیوں اور اپنے معاشروں پر نافذ کریں، اپنی حد تک اسلام کی پابندی کو اپنے اوپر لازمی قراردیں اور اسلام کی اس پابندی میں ہرقسم کے شرعی فرض کی تکمیل داخل ہے، جن میں علوم میں اپنی کھوئی ہوئی میراث کو حاصل کرنا اور مسلم قوم کی ہر میدان میں تعمیر کرکے ان کو ایک مضبوط قوم بنانا بھی شامل ہے۔ اگر ہم اسلام کو حرزِ جان بنائیں اور نبی ﷺکے فرامین ہماری آنکھوں کا سرمہ ہوں تو اس کے بعد غیر مسلموں کو یہ جرات ہرگز نہیں ہوسکے گی کہ وہ مسلمانوں کے مقدس شعائر اور نامور شخصیات کی بے حرمتی کا خیال بھی دل میں لائیں۔
 
Top