• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تکبیر سے مراد اللہ اکبر

GuJrAnWaLiAn

رکن
شمولیت
مارچ 13، 2011
پیغامات
139
ری ایکشن اسکور
298
پوائنٹ
82
اسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبراکاتہ

سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :كُنْتُ أَعْرِفُ انْقِضَاءَ صَلاَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالتَّكْبِيرِ
صحیح بخاری کتاب الأذان باب الذکر بعد الصلاۃ ح ۸۴۲
یعنی میں نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم کی نماز کا اختتام تکبیر کے سے پہچانتا تھا ۔
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ چونکہ چھوٹے بچے تھے لہذا آخری صف میں کھڑے ہوتے تھے جہاں نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم کے سلام کہنے کی آواز نہ آتی تھی تو جب سلام پھیرنے کے بعد لوگ تکبیر کہتے تو انہیں معلوم ہوتا کہ نماز مکمل ہو چکی ہے ۔
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ نماز کا اختتام کے بعد تکبیر یعنی اللہ اکبر کہنا مسنون ہے

لیکن

برطانیہ میں کچھ سلفی نماز کے بعد اللہ اکبر کہنے کے بجاے استغفراللہ استغفراللہ استغفراللہ کہتے ہین

پوچھنے پر وہ کیتے ہین ایک حدیث مین نماز کے بعد استغفار کا ذکر ہے اس لیے اللہ اکبر نہیں بلکہ استغفراللہ کہنا چا ہیے ؟

جب نماز سے فارغ ہوتے تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم درج ذيل كلمات كہا كرتے تھے: " استغفراللہ، استغفراللہ، استغفر اللہ " پھر باقى دعائيں كرتے

اس حدیث سے وہ کہتے ہیں کے اس میں تکبیر سے کیا مراد ہیے واضح ہے کے وہ استغفار ہے؟

اصل میں‌ یہ تعویل عرب علماء کرتے ہیں اب جب ان سے بات ہو تو وہ علماء کے حوالے پیش کر کہ کہتے ہیں کہ ان علماء نے اس کو ایسے سمجھا ہے۔ اب پاکستانی علماء کو وہ جانتے نہیں ۔
میرا سوال یہ ہے کہ مجھے کوئی سلف یا محدثین سے کوئی ایسا حوالہ بتا دے یا کسی عرب عالم کا فتوی جس میں‌ صراحت ہو کہ اس تکبیر سے مراد اللہ اکبر ہی ہے اور نماز کے اختتام کے بعد اللہ اکبر کہنا جاہئے پہلے نہ کے استغفراللہ، استغفراللہ، استغفر اللہ
تا کہ ان کو سمجھایا جا سکے۔

جزاک اللہ خیر

کفایت اللہ
 

GuJrAnWaLiAn

رکن
شمولیت
مارچ 13، 2011
پیغامات
139
ری ایکشن اسکور
298
پوائنٹ
82

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
السلام علیکم

برطانیہ سے کسی ایک مسجد کا نام بھی ساتھ لکھ دیتے۔

والسلام
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
اسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبراکاتہ

سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :كُنْتُ أَعْرِفُ انْقِضَاءَ صَلاَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالتَّكْبِيرِ
صحیح بخاری کتاب الأذان باب الذکر بعد الصلاۃ ح ۸۴۲
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ نماز کا اختتام کے بعد تکبیر یعنی اللہ اکبر کہنا مسنون ہے[/quote

]
یہاں پاکستان میں کچھ لوگوں کا یہی موقف ہے کہ تکبیر سے مراد ذکر وغیرہ ہے خاص تکبیر مراد نہیں ہے چنان چہ شیخ امین اللہ پشاوری ﷾ مشکاۃ المصابیح کی اپنی پشتو زبان کی شرح میں لکھتے ہیں:
''ابن عباس ؓ کی بخاری کی دوسری روایت میں إن رفع الصوت بالذکر... کے الفاظ آئے ہیں لہٰذا التکبیر سے مراد مطلق ذکر ہے، کیونکہ دونوں روایتوں کی سند ایک ہے۔ لہٰذا اس سے عام ذکر اللهمّ أنت السلام اور استغفار وغیرہ مراد ہیں۔
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
حدثین کی تبویب سے بھی یہ واضح ہے کہ وہ فرض نماز کے سلام کے بعد تکبیر کہنے کے قائل ہیں، چنانچہ امام ابوداؤدنے ان احادیث پر باب قائم کیا ہے: التکبیر بعد الصلاة اور پھر امام ابوداؤد نے اس باب کے تحت ان دونوں احادیث کو ذکر کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام ابوداؤد کے نزدیک ان دونوں احادیث کا تعلق تکبیر ہی کے ساتھ ہے۔ اسی طرح امام نسائی  نے باب قائم کیا ہے: التكبير بعد تسليم الإمام
امام ابن خزیمہ نے ان دونوں احادیث پر یہ باب قائم کیا ہے: باب رفع الصوت بالتکبیر والذکر عند قضاء الإمام الصلاة،امام ابن خزیمہ کی تبویب بھی امام ابوداؤد  ہی کی طرح ہے۔ البتہ حدیث میں الذکر کا لفظ بھی وارد ہوا ہے، لہٰذا اُنہوں نے تکبیر کے بعد لفظ ذکر کو بھی بیان کر دیا ہے اور الذکر سے مراد ظاہر ہے کہ التکبیر ہی ہے
 

GuJrAnWaLiAn

رکن
شمولیت
مارچ 13، 2011
پیغامات
139
ری ایکشن اسکور
298
پوائنٹ
82
حدثین کی تبویب سے بھی یہ واضح ہے کہ وہ فرض نماز کے سلام کے بعد تکبیر کہنے کے قائل ہیں، چنانچہ امام ابوداؤدنے ان احادیث پر باب قائم کیا ہے: التکبیر بعد الصلاة اور پھر امام ابوداؤد نے اس باب کے تحت ان دونوں احادیث کو ذکر کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام ابوداؤد کے نزدیک ان دونوں احادیث کا تعلق تکبیر ہی کے ساتھ ہے۔ اسی طرح امام نسائی  نے باب قائم کیا ہے: التكبير بعد تسليم الإمام
امام ابن خزیمہ نے ان دونوں احادیث پر یہ باب قائم کیا ہے: باب رفع الصوت بالتکبیر والذکر عند قضاء الإمام الصلاة،امام ابن خزیمہ کی تبویب بھی امام ابوداؤد  ہی کی طرح ہے۔ البتہ حدیث میں الذکر کا لفظ بھی وارد ہوا ہے، لہٰذا اُنہوں نے تکبیر کے بعد لفظ ذکر کو بھی بیان کر دیا ہے اور الذکر سے مراد ظاہر ہے کہ التکبیر ہی ہے
جزاک اللہ خیر
جو میں‌نے لنکس دیے ہیں ان میں موجود دلائل پر بھی روشنی ڈالیں۔
اور کیا کسی سے صراحت مل جائے تو بہت ہی اچھا ہو گا۔ کے تکبیر سے مراد اللہ اکبر ہی ہے۔ آپ کی بات مجھے تو سمجھ آگئی ہے لیکن ان کو تب ہی سمجھ آئے گی جب صراحت ہو گی ۔

یہ جان کر حیرت ہوئی کے شیخ امین اللہ کا بھی یہ موقف ہے۔
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
اما ابن حزم ؒ نے لکھا ہے : " ورفع الصوت بالتكبير إثر كل صلاة حسن " انتهى من "المحلى" (3 /180) .
ہر نماز کے بعد بلند آواز سے اللہ اکبر کہنا مستحسن ہے
اسی طرح حافظ ابن حجر ٌ فتح الباری میں رقم طراز ہیں :
المراد أن رفع الصوت بالذِّكْر ، أي بالتكبير ، وكأنهم كانوا يبدءون بالتكبير بعد الصلاة قبل التسبيح والتحميد (فتح الباری: 2
یہاں بلند آواز سے ذکر سے مراد اللہ اکبر کہنا ہے گویا کہ وہ صحابہ کرام نماز کے بعد تسبیح و تحمید سے پہلے اللہ اکبر کہتے تھے
شمس الحق عظیم آبادی صاحب عون المعبود ج 3 ص 212 میں لکھتے ہیں :
التكبير بعد الصلاة ( عن ابن عباس قال كان يعلم انقضاء صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم بالتكبير ) أي بعد الصلاة.
في الرواية الآتية بالذكر وهو أعم من التكبير والتكبير أخص. وهذا مفسر للأعم.

یہاں ذکر عام ہے تکبیر خاص ہے اور یہ عام کی تفسیر کرنے والا ہے
صاحب مرعات رقم طراز ہیں:
فيكون الحديث دليلاً على استحباب رفع الصوت بقول "الله اكبر" مرة أو مكرراً
یہ حدیث بلندآواز سے تکبیر کے مستحب ہونے پر واضح دلیل ہے
اور ابن دقیق العید نے بھی اس سے ملتی سی بات کہی ہے: يؤخذ منه أنه لم يكن هناك مبلغ جهير الصوت يسمع من بعد قوله بالتكبير هو أخص من رواية بن جريده التي قبلها لأن الذكر أعم من التكبير ويحتمل أن تكون هذه مفسرة لذلك.

ان تما م دلائل اور علما کے اقوال سے یہ بات واضح ہے کہ نماز کے اللہ اکبر ہی کہنا درست ہے کیوں احادیث میں صرف تکبیر کے الفاظ یہ وارد ہوے ہیں واللہ اعلم بالصواب
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
وقال حنيلٌ: سمعت أبا عبد الله يقول: ثنا عليٌ بن ثابتٍ: ثنا واصلٌ، قال: رأيتُ علي عبد الله بن عباسٍ إذا صلى كبر ثلاث تكبيراتٍ . قلت لأحمد : بعد الصلاة ؟ قال : هكذا. قلت له: حديث عمرو، عن أبي معبد، عن ابن عباسٍ:" كنا نعرف انقضاء صلاة رسول الله ( بالتكبير ) "، هؤلاء أخذوه عن هذا ؟ . قال نعم.( الشافي )
حضرت واصل کا بیان ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے عبد اللہ بن عباس کو جب وہ نماز پڈھتے تو تین مرتبہ اللہ اکبر کہتے تھے راوی کہتا ہے کہ میں نے جناب احمد بن حمنبل سے سوال کیا کہ نماز کے بعد تو اس نے کہا ہاں اسی طرح کرتے تھے
عبد اللہ بن عباس کا یہ عمل اس بات کی واضح دلیل ہے کہ یہاں تکبیر سے مراد استغفار نہین ہے بلکہ اللہ اکبر ہے
 

GuJrAnWaLiAn

رکن
شمولیت
مارچ 13، 2011
پیغامات
139
ری ایکشن اسکور
298
پوائنٹ
82
جزاک اللہ خیر حافظ عمران الٰہی بھائی۔ اللہ آپ کو خوش رکھے بہت اچھے حوالے دیے ہیں خاص طور پر صاحب مرعات (أبو الحسن عبيد الله بن محمد عبد السلام بن خان محمد بن أمان الله بن حسام الدين الرحماني المباركفوري (المتوفى: 1414هـ)) والہ حوالہ کیونکہ عبیداللہ الرحمانی المبارکپوری رحمہ اللہ نے إجازته الحديثية دی ہے للشيخ ربيع کو اور جن لوگوں سے میں نے بات کرنی ہے وہ الشيخ ربيع المدخلي حافظہ اللہ کو ہی ماننے والے ہیں۔

اگر اس کا بھی ترجمہ کر دیں تو بہت مہربانی ہو گی یا کوئی اور بھائی کر دے ۔

بالتكبير، فقيل: المراد به قوله "الله أكبر" مرة أو ثلاثاً بعد السلام فكان - صلى الله عليه وسلم - يقول "الله أكبر" مرة أو مكرراً إذا فرغ من الصلاة، والمعنى: كنت أعرف بسماع "الله أكبر" انصرافه وفراغه من الصلاة. وقيل: المراد التكبير الذي ورد مع التسبيح والتحميد عشراً أو أكثر فيحتمل أنه كان بدءه بالتكبير قبل التسبيح والتحميد لما ورد: لا يضرك بأيهن بدأت. وقيل: المراد التكبيرات التي في الصلاة عند كل خفض ورفع، والمعنى كنت أعرف انقضاء كل هيئة من الصلاة إلى أخرى بتكبيره أسمعها من رسول الله - صلى الله عليه وسلم -. وقيل: المراد كنت أعرف انقضاء الصلاة بانقضاء التكبيرات، وهذان التأويلان يخالفان الباب، ويخالفان أيضاً رواية الشيخين لحديث ابن عباس هذا ومن وجه آخر بلفظ: إن رفع الصوت بالذكر حين ينصرف الناس من المكتوبة كان على عهد رسول الله - صلى الله عليه وسلم -. قال ابن عباس: كنت أعلم إذا انصرفوا بذلك إذا سمعته. قال العيني: أي كنت أعلم انصرافهم بسماع الذكر-انتهى. وهذه الرواية تؤيد بل تعين القول الأول فهو المعتمد، لكن قوله "التكبير" أخص من هذه الرواية؛ لأنه الذكر أعم من التكبير، فيحتمل أنهم كانوا يرفعون الصوت بالتكبير والذكر كليهما، فيكون الحديث دليلاً على استحباب رفع الصوت بقول "الله اكبر" مرة أو مكرراً، وبأذكار أخرى عقب المكتوبة، ويحتمل أن يكون قوله "التكبير" مفسراً لهذه الرواية، فكأن المراد أن رفع الصوت بالذكر أي بالتكبير، وكأنهم كانوا يبدؤن بالتكبير مرة أو مكرراً قبل الأذكار الأخرى. ويحتمل أن يكون المراد بالتكبير مطلق الذكر بعد الصلاة. وظاهر الحديث أن ابن عباس لم يكن يحضر الجماعة؛ لأنه كان صغيراً ممن لا يواظب على ذلك، ولا يلزم به، فكان يعرف انقضاء الصلاة بما ذكر، ويحتمل أن يكون حاضراً في أواخر الصفوف، فكان لا يعرف انقضاءها بالتسليم، وإنما كان يعرفه بالتكبير، قال ابن دقيق العيد: ويؤخذ منه أنه لم يكن هناك مبلغ جهير الصوت يسمع من بعد-انتهى. قال النووي: هذا الحديث دليل لما قاله بعض السلف: أنه يستحب رفع الصوت بالتكبير والذكر عقب المكتوبة، وممن يستحبه من المتأخرين ابن حزم الظاهري، ونقل ابن بطال وآخرون أن أصحاب المذاهب المتبوعة وغيرهم متفقون على عدم استحباب رفع الصوت بالتكبير والذكر، وحمله الشافعي على أنه جهر وقتاً يسيراً حتى يعلمهم صفة الذكر، لا أنهم جهروا به دائماً. قال: فاختار للإمام والمأموم أن يذكر الله بعد الفراغ من الصلاة، ويخفيان ذلك إلا أن يكون إماماً يريد أن يتعلم منه، فيجهر حتى يعلم أنه قد تعلم منه ثم يسر، وحمل الحديث على هذا-انتهى. قلت: ما ذهب إليه بعض السلف، وابن حزم من المتأخرين من استحباب رفع الصوت بالتكبير والذكر أثر كل صلاة مكتوبة هو القول الراجح عندي، وإن لم يقل به الأئمة الأربعة ومقلدوهم؛ لأن حديث ابن عباس باللفظين نص في ذلك، ويدل على ذلك أيضاً حديث عبد الله بن الزبير الآتي، والحق يدور مع الدليل لا مع الادعاء أو الرجال، نعم لا يبالغ في رفع الصوت، ولا يجهر جهرا مفرطا لقوله - صلى الله عليه وسلم -: اربعوا على أنفسكم،
 
Top