صاحب مضمون نے یہ موقف اختیار کیا اللہ کا قانون ہے کہ کوئی شخص بھی مرنے کے بعد واپس نہیں آسکتا جب کہ میں کہ رہا ہوں مرنے کے بعد زندہ ہونے کے واقعات جب قرآن میں ہیں تو اشرف علی تھانوی پر اعتراض کیوں
اس کو بریلویوں کے طرز استدلال قرار دینا سمجھ سے بالا تر ہے
یہاں کسی نے بھی اشرف علی تھانوی کی کرامت سے کوئی عقیدہ یا مسئلہ استباط نہیں کیا
محترم بھائی میں نے اوپر پوسٹ اللہ کے قانون میں تخصیص کا انکار نہیں کیا بلکہ الٹا سلیمان علیہ السلام کی مثال بھی دی ہے ہاں اسکو شرک کے لئے راہیں کھولنے والا اور بغیر سند کے کہا ہے
شرک کے لئے راہیں کھولنے کی وضاحت میں ہی مین نے لکھا تھا کہ اس طرح تو بریلوی بھی استدلال کرتے ہیں
اب آپ کہتے ہیں کہ بریلویوں کی طرح کہنا سمجھ سے بالا تر ہے
اسکے لئے آپنے ایک دلیل بھی دی ہے کہ آپ اس کرامت سے عقیدہ استنباط نہیں کرتے تو اسکا جواب بعد میں دوں گا پہلے اس بالاتر کو سمجھا دوں
میں نے دوسری پوسٹ اشرف علی دل کا حال جانتا ہے میں کچھ تفصیل لکھی تھی شاہد نہیں دیکھی وہ یہاں مختصر کاپی کر دوں
محترم بھائیو شیطان ہر کام مزین کر کے پیش کرتا ہے جیسے اسنے آدم علیہ السلام اور انکی بیوی کو کہا کہ انی لکما لمن الناصحین کہ مجھے تو تمھاری بھلائی مطلوب ہے اور نوح علیہ السالم کی قوم کا بخاری میں جو ذکر ہے کہ کس طرح نیک لوگوں کی تصویروں کے عمل کو مزین کیا پھر آگے عوام نے خود اسکو کہاں تک پہنچا دیا جیسے کہا جاتا ہے کہ لڑانے والے نے ایک مٹھائی رکھی جو اچھا عمل لگ رہا تھا مگر اس پر مھکی آئی اس پر کچھ اور آیا اس پر بلی پھر کتا آیا لڑائی ہوئی حتی کہ انکے مالکوں کی لڑائی ہو گئی
اسی طرح اسنے حکایتوں کا سہارا لے کر بھی بہت سے دین دار لوگوں کو گمراہ کیا
اب بظاہر نتیجہ کے اعتبار سے دیکھنے سے یہ لگتاہے کہ یہ بھلائی کی ہی حکاہت ہے تاکہ توجہ نماز کی طرف ہو تو اس اچھی چیز کے ساتھ اسنے شرک کی طرف لے جانے والی بات ایسے نتھی کی کہ بظاہر لوگ اسکی طرف توجہ نہیں دیں گے اور ہوا بھی ایسے کہ ان لوگوں نے بھی جو بریلویوں سے شرک پر لڑتے رہے ہیں اس کو آگے پھیلایا اور پھر بعدمیں توجہ دلانے پر جب حقیقت واضح ہوئی تو پھر شیطان نے بزرگوں کی بے جا حمایت کے حربے کو استعمال کیا اور اس کے لئے تاویلیں ڈونڈنا شروع ہو گئے
اہل حدیث ہونے کے بعد مجھے جب ان چیزوں کا پتا چلا تو میں جامعہ اشرفیہ بھی لےگیا اور اپنے تبلیغی ساتھیوں کے پاس بھی گیا انہیں میرے دوستوں میں مفتی طارق صاحب جو بی ایس سی تھے اور فاضلیہ میں مفتی بھی تھے انکو بھی بتایا تو انھوں نےکہا کہ بات تو واقعی غلط ہے مگر میں اشرف علی تھانوی کے بارے ایسا نہیں سوچ سکتا پتا نہیں انھوں نے کس تناظر میں کہیں ہوں کیونکہ ایسی کچھ باتیں ہو سکتی ہیں جن کے بارے شبہ ہو سکتا ہے جیسے امام ابن تیمیہ نے رفع الملام عن ائمۃ الاعلام میں وضاحت کی ہے یا ابن حجر عسقلانی کا اسماء الصفات میں تفویض کا معاملہ وغیرہ تو میں نے کہا کہ ایک تو وہ عقیدہ کی بات نہیں اور اگر کچھ عقیدے میں ایسا اختلاف آیا بھی ہے تو وہ بھی خفی امور میں اور دوسرا نہ ہونے کے برابر ہے مگر آپ کے لوگوں کی طرح نہیں جنہوں نے اپنی کتابو ں میں اسکے انبار لگا دیے اور پھر دوسرے اسکا کم ازکم رد بھی نہیں کرتے
ہمارے اہل حدیث جب ایسی باتیں لکھتے ہیں تو ہم انکا بھی رد کرتے ہیں جیسے کراماتِ ایل حدیث کا ہم ردکرتے ہیں مگر تلمیذ بھائی آپ اشرف علی تھانوی کا نہ سہی کھلے عام اس عقیدے کا تو رد کریں
آپ اگر یہ پوچھیں کہ کون سےعقیدے کا رد کریں تو وہ یہ ہیں
1۔علم غیب اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا
اگر آپ کہیں کہ یہ اوپر والی حکایت میں علم غیب کی بات نہیں تو بتائیں کہ آپ بریلویوں سے کون سےعلم غیب پر بحث کرتے ہیں
آپ سے مطالبہ ہے کہ بریلوی کو جس علم غیب پر آپ مشرک کہتے ہیں اسکی ایک مثال لکھ دیں تاکہ ان کی مثال اور آپکی اوپر والی مثال میں فرق کیا جا سکے
2۔آپکے فوت شدگان کا پیچھے لوگوں کی مدد کرنے کا عقیدہ جو جا بجا آپکی کتابوں میں موجود ہے
اگر آپ کہیں بزرگ تو کرامت کے ذریعے آ کر مدد کر سکتے ہیں یہ تو قرآن سے ثابت ہے تو پھر
میرامطالبہ ہے کہ بریلویوں کا کیا قصور ہے وہ بھی کرامت کے ذریعے ہی مدد کرواتے ہیں فرق کیا ہے پس آپ قرآن و حدیث سے کرامتوں کی دلیل دینے کی بجائے بریلویوں سے اپنا فرق واضح کریں
ویسے میں نے ایک دیوبند عالم (جس نے بریلوی ارشدقادری کی کتاب زلزلہ پر تبصرہ کیا تھا) کا اس بارے موقف پڑھا تھا کہ واقعی ہم اس میں غلط ہیں اور مماتی دیوبند تو میرے علم کےمطابق اسکو غلط تسلیم کرتے ہیں مگر جامعہ اشرفیہ کے ایک عالم سے جب کہا کہ کیا اسی طرح بریلوی بھی اپنے بزرگوں سے مدد کرواتے ہیں اور کیا بریلوی مشرک ہے تو اسنے واللہ کہ دیا کہ بریلوی مشرک نہیں
ولایجرمنکم شنان قوم علی ان لا تعدلوا اعدلوا ھو اقرب للتقوی
یعنی کسی فرقے سے دشمنی تمھیں بے انصافی پر نہ ابھارے