کنعان
فعال رکن
- شمولیت
- جون 29، 2011
- پیغامات
- 3,564
- ری ایکشن اسکور
- 4,425
- پوائنٹ
- 521
السلام علیکم
محترم بھائی! موضوع اور اس پر ہونے والی اختلافی گفتگو سے ہٹ کے فرینڈلی آپ کے سوال کا جواب معلومات کے لئے دینے کی کوشش کرتے ہیں، اگر آپ کے پاس بھی اس پر مزید مفید معلومات ہو تو ضرور شیئر کریں۔
قَالُوا۟ رَبَّنَآ أَمَتَّنَا ٱثْنَتَيْنِ وَأَحْيَيْتَنَا ٱثْنَتَيْنِ فَٱعْتَرَفْنَا بِذُنُوبِنَا فَهَلْ إِلَىٰ خُرُوجٍۢ مِّن سَبِيلٍۢ
وہ کہیں گے: اے ہمارے رب! تو نے ہمیں دو بار موت دی اور تو نے ہمیں دو بار (ہی) زندگی بخشی، سو (اب) ہم اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہیں، پس کیا (عذاب سے بچ) نکلنے کی طرف کوئی راستہ ہے،
40:11
(11)ف١ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔
"پہلے مٹی تھے یا نطفہ، تو مردے ہی تھے۔
پھر جان پڑی تو زندہ ہوئے،
پھر مرے۔
پھر زندہ کر کے اٹھائے گئے۔
یہ ہیں دو موتیں اور دو حیاتیں۔
قال تعالیٰ۔
"کیف تکفرون باللہ وکنتم امواتاً فاحیاکم ثم یمیتکم ثم یحییکم ثم الیہ ترجعون" (بقرہ، رکوع٣) وقیل غیر ذلک والاظہر ہوہذا۔
ف ٢ یعنی انکار کیا کرتے تھے کہ مرنے کے بعد پھر جینا نہیں۔ نہ حساب کتاب ہے نہ کوئی اور قصہ۔ اسی لیے گناہوں اور شرارتوں پر جری ہوتے تھے۔ اب دیکھ لیا کہ جس طرح پہلی موت کے بعد آپ نے ہم کو زندہ کیا اور عدم سے نکال کر وجود عطا فرمایا، دوسری موت کے بعد بھی پیغمبروں کے ارشادات کے موافق دوبارہ زندگی بخشی۔ آج بعث بعد الموت کے وہ سب مناظر جن کا ہم انکار کیا کرتے تھے سامنے ہیں اور بجز اس کے چارہ نہیں کہ ہم اپنی غلطیوں اور خطاؤں کا اعتراف کریں۔
ف٣ یعنی افسوس اب تو بظاہر یہاں سے چھوٹ کر نکل بھاگنے کی کوئی راہ نظر نہیں آتی۔ ہاں آپ قادر ہیں کہ جہاں دو مرتبہ موت و حیات دے چکے ہیں، تیسری مرتبہ ہم کو پھر دنیا کی طرف واپس بھیج دیں۔ تاکہ اس مرتبہ وہاں سے ہم خوب نیکیاں سمیٹ کر لائیں۔(11)
١١۔١ جمہور مفسرین کی تفسیر کے مطابق دو موتوں میں سے پہلی موت تو وہ نطفہ ہے کو باپ کی پشت میں ہوتا ہے
یعنی انسان کے وجود سے پہلے اس کے عدم وجود کو موت سے تعبیر کیا گیا ہے
اور دوسری موت وہ ہے جس سے انسان اپنی زندگی گزار کر ہمکنار ہوتا
اور اس کے بعد قبر میں دفن ہوتا ہے
اور دو زندگیوں میں سے پہلی زندگی یہ دنیاوی زندگی ہے جس کا آغاز ولادت سے اور اختتام وفات پر ہوتا ہے
اور دوسری زندگی وہ ہے جو قیامت والے دن قبروں سے اٹھنے کے بعد حاصل ہوگی
انہی دو موتوں اور دو زندگیوں کا تذکرہ وکنتم امواتا فاحیاکم ثم یمیتکم ثم یحییکم البقرۃ میں بھی کیا گیا ہے۔
١١۔۲ یعنی جہنم میں اعتراف کریں گے، جہاں اعتراف کا کوئی فائدہ نہیں اور وہاں پشیمان ہونگے جہاں پیشمانی کی کوئی حیثیت نہیں۔
١١۔۳ یہ وہی خواہش ہے جس کا تذکرہ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر کیا گیا ہے کہ ہمیں دوبارہ زمین پر بھیج دیا جائے تاکہ ہم نیکیاں کما کر لائیں۔ (11)
ح
واللہ اعلم
والسلام
محترم بھائی! موضوع اور اس پر ہونے والی اختلافی گفتگو سے ہٹ کے فرینڈلی آپ کے سوال کا جواب معلومات کے لئے دینے کی کوشش کرتے ہیں، اگر آپ کے پاس بھی اس پر مزید مفید معلومات ہو تو ضرور شیئر کریں۔
کیا مرنے کے بعد ہر شخص دنیا میں واپس آ سکتا ہے؟
قَالُوا۟ رَبَّنَآ أَمَتَّنَا ٱثْنَتَيْنِ وَأَحْيَيْتَنَا ٱثْنَتَيْنِ فَٱعْتَرَفْنَا بِذُنُوبِنَا فَهَلْ إِلَىٰ خُرُوجٍۢ مِّن سَبِيلٍۢ
وہ کہیں گے: اے ہمارے رب! تو نے ہمیں دو بار موت دی اور تو نے ہمیں دو بار (ہی) زندگی بخشی، سو (اب) ہم اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہیں، پس کیا (عذاب سے بچ) نکلنے کی طرف کوئی راستہ ہے،
40:11
(11)ف١ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔
"پہلے مٹی تھے یا نطفہ، تو مردے ہی تھے۔
پھر جان پڑی تو زندہ ہوئے،
پھر مرے۔
پھر زندہ کر کے اٹھائے گئے۔
یہ ہیں دو موتیں اور دو حیاتیں۔
قال تعالیٰ۔
"کیف تکفرون باللہ وکنتم امواتاً فاحیاکم ثم یمیتکم ثم یحییکم ثم الیہ ترجعون" (بقرہ، رکوع٣) وقیل غیر ذلک والاظہر ہوہذا۔
ف ٢ یعنی انکار کیا کرتے تھے کہ مرنے کے بعد پھر جینا نہیں۔ نہ حساب کتاب ہے نہ کوئی اور قصہ۔ اسی لیے گناہوں اور شرارتوں پر جری ہوتے تھے۔ اب دیکھ لیا کہ جس طرح پہلی موت کے بعد آپ نے ہم کو زندہ کیا اور عدم سے نکال کر وجود عطا فرمایا، دوسری موت کے بعد بھی پیغمبروں کے ارشادات کے موافق دوبارہ زندگی بخشی۔ آج بعث بعد الموت کے وہ سب مناظر جن کا ہم انکار کیا کرتے تھے سامنے ہیں اور بجز اس کے چارہ نہیں کہ ہم اپنی غلطیوں اور خطاؤں کا اعتراف کریں۔
ف٣ یعنی افسوس اب تو بظاہر یہاں سے چھوٹ کر نکل بھاگنے کی کوئی راہ نظر نہیں آتی۔ ہاں آپ قادر ہیں کہ جہاں دو مرتبہ موت و حیات دے چکے ہیں، تیسری مرتبہ ہم کو پھر دنیا کی طرف واپس بھیج دیں۔ تاکہ اس مرتبہ وہاں سے ہم خوب نیکیاں سمیٹ کر لائیں۔(11)
١١۔١ جمہور مفسرین کی تفسیر کے مطابق دو موتوں میں سے پہلی موت تو وہ نطفہ ہے کو باپ کی پشت میں ہوتا ہے
یعنی انسان کے وجود سے پہلے اس کے عدم وجود کو موت سے تعبیر کیا گیا ہے
اور دوسری موت وہ ہے جس سے انسان اپنی زندگی گزار کر ہمکنار ہوتا
اور اس کے بعد قبر میں دفن ہوتا ہے
اور دو زندگیوں میں سے پہلی زندگی یہ دنیاوی زندگی ہے جس کا آغاز ولادت سے اور اختتام وفات پر ہوتا ہے
اور دوسری زندگی وہ ہے جو قیامت والے دن قبروں سے اٹھنے کے بعد حاصل ہوگی
انہی دو موتوں اور دو زندگیوں کا تذکرہ وکنتم امواتا فاحیاکم ثم یمیتکم ثم یحییکم البقرۃ میں بھی کیا گیا ہے۔
١١۔۲ یعنی جہنم میں اعتراف کریں گے، جہاں اعتراف کا کوئی فائدہ نہیں اور وہاں پشیمان ہونگے جہاں پیشمانی کی کوئی حیثیت نہیں۔
١١۔۳ یہ وہی خواہش ہے جس کا تذکرہ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر کیا گیا ہے کہ ہمیں دوبارہ زمین پر بھیج دیا جائے تاکہ ہم نیکیاں کما کر لائیں۔ (11)
ح
واللہ اعلم
والسلام