ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,379
- پوائنٹ
- 635
٭ ڈاکٹر عبدالھادی الفضلی فرماتے ہیں:
’’علم القراء ات وہ علم ہے جس سے قرآنی اَلفاظ کی وہ اَدائیگی معلوم ہوتی ہے جوکہ آپﷺ نے کی ہے۔‘‘(کتاب قراء ات القرآن: ۵۶)
٭ اِمام سیوطی ، زید بن ثابت کے حوالے سے نقل کرتے ہیں:
’’قراء ات سنت متبعہ (سنت متواترہ) ہے جسے بعد میں آنے والے متقدمین سے حاصل کرتے ہیں۔‘‘(الاتقان في علوم القرآن: ۱؍۷۵)
٭ قاضی عیاض فرماتے ہیں:
’’مسلمانوں کااس اَمر پر اِجماع ہے کہ جس شخص نے قرآن مجید سے قصداً ایک حرف ناقص کیا یاایک حرف دوسرے حرف سے بدلا یا اِجماع امت سے ثابت ہونے والے مصحف پر ایک حرف کی زیادتی کی تو وہ کافر ہے۔‘‘(الشفاء في التعریف بحقوق المصطفیٰ: ۲؍۶۴۷۔۲۶۴)
٭ ابن خلدون فرماتے ہیں:
’’ قرآن اللہ کا کلام ہے جو نبی کریمﷺ پر نازل ہوا۔ دفتین کے درمیان لکھاہوا ہے اور اُمت میں متواتر ہے۔صحابہ کرام نے اسے بعض (جو سب اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہیں) اَلفاظ اور مختلف لہجات کے ساتھ رِوایت کیااور نقل کیا ہے اور بالآخر اَداء و مخارج کے اِعتبار سے سات قراء تیں مقرر ہوگئیں، جن کی نقل متواتر ہوتی آئی اور ہر قراء ات پر ایک جم غفیر کی روایت نے شہرت پائی اور اصولاً سات قراء تیں معروف ہوئیں اور سات کے علاوہ بھی کچھ قراء ات لاحق ہوئیں جو اتنی قابل اعتماد نہیں۔ البتہ سات قراء ات کتب میں معروف ہیں۔‘‘ (مقدمۃ ابن خلدون)
’’علم القراء ات وہ علم ہے جس سے قرآنی اَلفاظ کی وہ اَدائیگی معلوم ہوتی ہے جوکہ آپﷺ نے کی ہے۔‘‘(کتاب قراء ات القرآن: ۵۶)
٭ اِمام سیوطی ، زید بن ثابت کے حوالے سے نقل کرتے ہیں:
’’قراء ات سنت متبعہ (سنت متواترہ) ہے جسے بعد میں آنے والے متقدمین سے حاصل کرتے ہیں۔‘‘(الاتقان في علوم القرآن: ۱؍۷۵)
٭ قاضی عیاض فرماتے ہیں:
’’مسلمانوں کااس اَمر پر اِجماع ہے کہ جس شخص نے قرآن مجید سے قصداً ایک حرف ناقص کیا یاایک حرف دوسرے حرف سے بدلا یا اِجماع امت سے ثابت ہونے والے مصحف پر ایک حرف کی زیادتی کی تو وہ کافر ہے۔‘‘(الشفاء في التعریف بحقوق المصطفیٰ: ۲؍۶۴۷۔۲۶۴)
٭ ابن خلدون فرماتے ہیں:
’’ قرآن اللہ کا کلام ہے جو نبی کریمﷺ پر نازل ہوا۔ دفتین کے درمیان لکھاہوا ہے اور اُمت میں متواتر ہے۔صحابہ کرام نے اسے بعض (جو سب اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہیں) اَلفاظ اور مختلف لہجات کے ساتھ رِوایت کیااور نقل کیا ہے اور بالآخر اَداء و مخارج کے اِعتبار سے سات قراء تیں مقرر ہوگئیں، جن کی نقل متواتر ہوتی آئی اور ہر قراء ات پر ایک جم غفیر کی روایت نے شہرت پائی اور اصولاً سات قراء تیں معروف ہوئیں اور سات کے علاوہ بھی کچھ قراء ات لاحق ہوئیں جو اتنی قابل اعتماد نہیں۔ البتہ سات قراء ات کتب میں معروف ہیں۔‘‘ (مقدمۃ ابن خلدون)