کاظمی: متاخرین کے نزدیک آزر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد نہیں بلکہ چچا ہیں محاورات عرب میں چچا پر باپ کا اطلاق اکثر ہوتا ہے الخ۔
محمدی: حضرت ابراہیم کے باپ آزر کو باپ حقیقی نہ سمجھنا اور اس سے مراد چچا ہونا، بے ثبوت اور حقائق کے خلاف ہے کیونکہ عربی میں اب کا لفظ باپ اصل کیلئے استعمال ہوتا ہے اور یہ حقیقت ہے اور کبھی مجازا دوسروں کیلئے بھی بولا جاتا ہے جب قرینہ موجود ہو، اور یہاں کوئی قرینہ موجود نہیں ہے اور امام ابن جریر نے کہا صحیح یہ ہے کہ آزر حضرت ابراہیم کے باپ کا نام ہے اور نسابین (نسب بیان کرنے والے) نے جو تارخ نام کہا ہے ہو سکتا ہے کہ اس کے دو نام ہوں (تارخ۔ آزر) جیسا کہ لوگوں کے دو دو نام ہوتے ہیں یا ایک نام ہو اور دوسرا لقب ہو (تفسیر ابن کثیر ج:۲، ص:۱۶۸ انعام: ۷۴) اور جلالین ص:۱۱۸ میں ہے ہو لقبہ واسمہ تارخ کہ ابراہیم علیہ السلام کے باپ کا لقب آزر ہے اور نام تارخ اور حاشیہ میں ہےقولہ اسمہ تارخ …
وقال البخاری فی تاریخہ الکبیر ابراہیم بن آزر وہو فی التورات تارخ فعلی ہذا یکون لابی ابراہیم اسمان آزر وتارخ مثل یعقوب واسرائیل اسمان لرجل واحد فیحتمل ان یکون اسمہ آزر وتارخ لقبہ وبالعکس فاللہ سماہ آزر وان کان عند النسابین و المورخین اسمہ تارخ لیعرف بذلک من الخطیب وعبارۃ الکبیر واما قولہم اجمع النسابون ان اسمہ کان تارخ فنقول ہذا ضعیف لان ذلک الاجماع انما حصل لان بعضہم یقلد بعضا وبالآخر یرجع ذلک الاجماع الی قول الواحد والاثنین مثل قول وھب وکعب ونحوہما وربما تعلقوا بما یجدونہ من اخبار الیہود والنصاری ولا عبرۃ بذلک فی مقابلة ۔ صریح القرآن انتہی
(تعلیقات جدیدہ من التفاسیر المعتبرۃ لحل جلالین ص:۱۱۸) اس کا نام تارخ ہے… اور امام بخاری نے اپنی تاریخ کبیر میں کہا ہے کہ ابراہیم بن آزر اور یہ تورات میں تارخ ہے پس اس بنا پر ابراہیم علیہ السلام کے باپ کے دو نام آزر ، تارخ ہوئے جیسے یعقوب اور اسرائیل دو نام ہیں ایک آمی کے پس احتمال ہے کہ اس کا نام آزر ہو اور تارخ اس کا لقب اور بالعکس (کہ نام تارخ ہو اور لقب آزر ہو) پس اللہ تعالیٰ نے اس کا نام (قرآنِ مجید میں) آزر بیان فرمایا ہے اگرچہ نسب بیان کرنے والوں اور مورخین کے نزدیک اس کا نام تارخ ہے۔ باقی رہا ان کا قول کہ نسابوں نے اجماع کیا ہے کہ اس کا نام تارخ تھا تو ہم کہیں گے کہ یہ قول ضعیف ہے اس لئے کہ یہ اجماع صادر ہوا ہے اس بنا پر کہ بعض نے بعض کی تقلید کی ہے اور بالآخر یہ اجماع ایک قول یا دو قولوں کی طرف لوٹے گا مثل قول وھب وکعب اور ان کی طرح کے اور بسا اوقات اس کا تعلق اخبار یہود و نصاریٰ سے بناتے ہیں جو موجود پاتے ہیں اور قرآن کی تصریح کے مقابلہ ان کی بات کا کوئی اعتبار نہیں ہے انتھی اور مفردات القرآن لراغب ص:۳۰، اردو میں ہے اور آیت کریمہ واذ قال ابراہیم لابیہ آزر۔(۷۳۶) اور وہ وقت بھی یاد کرنے کے لائق ہے جب ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ آزر سے کہا کی تفسیر میں بعض نے کہا کہ حضرت ابراہیم کے باپ کا نام تارخ تھا اور آزر اسی کا معرب ہے اور بعض نے کہا کہ یہ لقب ہے اور ان کی زبان میں آزر کے معنی گمراہ کے ہیں انتھی اور بخاری شریف کی روایت سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کے باپ کانام آزر ہے ۔
عن ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال یلقی ابراہیم اباہ آزر یوم القیمۃ وعلی وجہ آزر قترۃ وغبرۃ فیقول لہ ابراہیم الم اقل لک لا تعصنی فیقول لہ ابوہ فلیوم لا اعصیک فیقول ابراہیم یارب انک وعدتنی ان لا تخزینی یوم یبعثون ، فای خزی اخزی من ابی الابعد الخ ۔(بخاری ص:۴۷۳، ج:۱، مشکوۃ ص:۴۷۵)
کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابراہیم علیہ السلام قیامت کے دن اپنے باپ آزر کو ملیں گے اس حال میں کہ آزر کا چہرہ رنج و غم سے سیاہ ہو گا، تو ابراہیم علیہ السلام اس سے کہیں گے کہ میں تم سے نہیں کہا کرتا تھا کہ تو میری نافرمانی نہ کر۔ ابراہیم علیہ السلام کو ان کا باپ کہے گا کہ آج میں تمہاری نافرمانی نہیں کروں گا، ابراہیم علیہ السلام فرمائیں گے اے پروردگار تو نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ تو مجھ کو اس روز ذلیل و خوار نہ کرے گا جس دن کہ لوگوں کو اٹھایا جائے گا پس اس سے زیادہ اور کون سی رسوائی ہے کہ میرا باپ اللہ کی رحمت سے دور ہے الخ۔ الغرض قرآن و حدیث میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے باپ کا نام آزر بتایا گیا ہے اور قرآن و حدیث میں کسی جگہ آزر کا لفظ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے چچا کیلئے نہیں بولا گیا۔
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین کے دوبارہ زندہ ہونے کی کہانی بے ثبوت اور غلط ہے اور کہانی میں جو کچھ مذکور ہے اس سے الٹا ظاہر یہ ہوتا ہے کہ وہ کفر پر فوت ہوئے تھے ، اگر بقول کاظمی صرف ایمان کی فضیلت ان کو حاصل نہیں ہوئی تھی تو وہ اتنا غمگین نہ ہوتے اور اتنا نہ روتے کیونکہ علامہ نبھانی نے جو نقل کیا ہے وہ یہ ہے :
ورواہ ابو حفص بن شاہین بلفظ قالت عائشۃ رضی اللہ عنھا حج بنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع فمربی علی عقبۃ الحجون وہو باک حزین مغتم فبکیت لبکائہ ثم انہ نزل فقال یا حمیرا استمسکی فاستندت الی جنب البعیر فمکثت ملیاثم عاد الی وہو فرح متبسم فقال ذھبت لقبرامی فسالت ربی ان یحییھا فاحیاھا فآمنت بی الخ (حجۃ اللہ علی اللعالمین فی معجزات سید المرسلین ص:۴۱۲)
ابو حفص بن شاہین نے روایت کیا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے ساتھ حجۃ الوداع ادا فرمایا اور آپ میرے ساتھ عقبہ حجون کی جگہ پر گزرے تو آپ نہایت غمناک ہو کر رونے لگے تو میں بھی آپ کے رونے کی وجہ سے رونے لگ گئی پھر آپ سواری سے اترے اور فرمایا اے حمیرا اس (سواری) کو قابو کر، تو میں اونٹ کے ساتھ ٹیک لگ کر بیٹھ گئی، تھوڑی دیر ہوئی تو آپ میرے پاس تشریف لائے تو تبسم فرما رہے تھے، اور فرمایا کہ میں اپنی والدہ کی قبر پر گیا اور اپنے رب سے سوال کیا کہ یا اللہ اس کو زندہ فرما دے تو اللہ نے زندہ فرما دیا پس وہ مجھ پر ایمان لائی الخ۔
جس سے واضح ہے کہ اتنی غمگینی سوائے ان کے کفر پر ہونے کے فقط فضیلت ایمان حاصل کرنے میں کوئی عقل مند انسان نہیں کہہ سکتا۔