کاظمی: فاکھانی مالکی کا عمل مولد مقدس کو معاذ اللہ بدعت مذمومہ لکھنا خود مذموم ہے۔
محمدی: فقط فاکھانی نے عمل المولد کو بدعت نہیں لکھا دیگر علماء نے بھی اسے بدعت اور بدعت شنیعہ قرار دیا ہے علامہ ابن الحاج علامہ عبد الرحمن مغربی نے اپنے فتاویٰ میں اس کو بدعت لکھا ہے: ان عمل المولد بدعۃ لم یقل بہ ولم یفعل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم والخلفاء والائمۃ کہ میلاد کا کرنا بدعت ہے جس کو نہ کہا اور نہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور نہ خلفاء وائمہ نے۔ مولانا نصیر الدین اودی شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں بجواب سائل :
لا یفعل لانہ لم ینقل عن السلف الصالح وانما حدث بعد القرون الثلثۃ فی الزمان الطالح ونحن لا نتبع الخلف فی ما اھملہ السلف لانہ یکفی بہم الاتباع ، فای حاجۃ الی الابتداع انتھی۔
سائل کے جواب میں فرمایا کہ نہ کرے اس لئے کہ یہ سلف صالح سے منقول نہیں ہے بلکہ قرون ثلاثہ کے بعد بدبخت زمانے میں لوگوں نے اس کی ایجاد کی ہے اور سلف نے جس کو چھوڑ دیا ہے اس میں ہم پیروی خلف نہیں کر سکتے اس لئے کہ سلف کی پیروی ہی کافی ہے تو نئی چیز نکالنے کی کیا ضرورت ہے۔ شیخ الحنابلہ شرف الدین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ان ما یعمل بعض الامراء فی کل سنۃ احتفا لا لمولدہ صلی اللہ علیہ وسلم فمع اشتمالہ علی التکلفات الشنیعۃ بنفسہ بدعۃ احدثہ من یتبع ھواہ ولا یعلم ما امرہ صلی اللہ علیہ وسلم صاحب الشریعہ ونھاہ انتھی کذافی قول المعتمد۔
یہ جو بعض امراء ہر سال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی میلاد پر جشن مناتے ہیں تو اس میں علاوہ اس کے کہ تکلفات شنیعہ ہیں، بنفسہ بدعت ہے اس کو اس نے ایجاد کیا جو اپنی خواہش کی پیروی کرتا ہے اور نہیں جانتا کہ صاحب شریعت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا حکم کیا ہے اور کس بات سےمنع فرمایا ہے۔ قول معتمد میں اسی طرح ہے اور قاضی شہاب الدین دولت آبادی رحمۃ اللہ علیہ اپنے فتاوی تحفۃ القضاۃ میں فرماتے ہیں (سئل القاضی عن مجلس المولد الشریف)
قال لا ینعقد لانہ محدث وکل محدث ضلالۃ وکل ضلالۃ فی النار وما یفعلون من الجھال علی رأس کل حول فی شھر ربیع الاول لیس بشیئی ویقومون عند ذکر مولدہ صلی اللہ علہ وسلم ویزعمون ان روحہ صلی اللہ علیہ وسلم یجئی وحاضر فزعمہم باطل بل ہذا الاعتقاد شرک وقد منع الائمۃ عن مثل ہذا انتھی۔
قاضی سے مجلس مولود شریف کے متعلق دریافت کیا گیا تو فرمایا نہ منعقد کی جائے اس لئے کہ یہ بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور گمراہی جہنم میں جانے والی ہے اور یہ جو جاہل قسم کے لوگ ربیع الاول کے مہینہ میں ہر سال کی ابتداء پر کرتے ہیں یہ کوئی چیز نہیں اور وہ ذکر ولادت کے وقت کھڑے ہو جاتے ہیں اور خیال کرتے کہ آپ کی روح صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لاتی ہے اور حاضر ہوتی ہے تو یہ ان کا خیال باطل ہے بلکہ یہ اعتقاد شرک ہے اور ائمہ نے اس جیسی باتوں سے منع فرمایا ہے اور صاحب سیرت شامی فرماتے ہیں۔
جرت عادت کثیر من المحبین اذا سمعوا بذکر وضعہ صلی اللہ علیہ وسلم ان یقوموا تعظیما لہ صلی اللہ علیہ وسلم وہذا القیام بدعۃ لا اصل لہ ۔
اور بہت سے محبین کی یہ عادت ہو گئی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کا ذکر کیا جاتا ہے تو وہ آپ کی تعظیم کیلئے کھڑے ہو جاتے ہیں حالانکہ یہ قیام بدعت ہے جس کی کوئی اصل نہیں ہے اور مولانا فضل اللہ جونپوری رحمۃ اللہ بھجۃ العشاق میں فرماتے ہیں:
ما یفعلہ العوام فی القیام عند ذکر وضع خیر الامام علیہ التحیۃ والسلام لیس بشیئی بل ہو مکروہ۔
اور قاضی نصیر الدین گجراتی رحمۃ اللہ علیہ طریقہ السلف میں فرماتے ہیں:
وقد احدث بعض جھال المشائخ امور اکثیرۃ لا نجدلھا اثرا ولا رسما فی کتاب ولافی سنۃ منھا القیام عند ذکر ولادۃ سید الانام علیہ التحیۃ والسلام۔
اور بعض جاہل مشائخ نے بہت سی باتوں کو ایجاد کر لیا ہے جس کا کوئی اثر نہ رسم ہم نہ کتاب میں پائے ہیں نہ سنت میں ، انہیں میں سے ایک سید الانام علیہ التحیة کے ولادت کے ذکر کے وقت کھڑے ہونا ہے اور سید احمد سرہندی مکتوبات میں فرماتے ہیں
بنظر انصاف بیند اگر حضرت ایشاں فرضاً دریں زمان موجود بودند ودردنیا زندہ می بووند، وایں مجالس واجتماع کہ منعقد می شد نہ آیا بایں راضی می شدند وایں اجتماع ا پسندید ند یانہ یقین فقیر آنست کہ ہرگز ایں معنی را تجویز نمی فرمودند بلکہ انکار مے نمودند مقصود فقیر اعلان بود قبول کنند یا نکنند ہیچ مضائقہ نیست وگنجائش شاجرہ نہ اگر مخدوم زاد ہا ویاراں آ نجا برہماں وضع مستقیم باشند ما فقیراں را از صحبت ایشاں غیر از حرمان چارہ نیست انتھی زیادہ چہ تصدیعہ دہد والسلام۔
بنظر انصاف دیکھو کہ اگر بالفرض حضور اس زمانہ میں موجود ہوتے اور دنیا میں زندہ ہوتے اور یہ مجالس و اجتماع منعقد ہوتے تو کیا اس سے راضی ہوتے اور اس اجتماع کو پسند فرماتے یا نہ۔ فقیر کا یقین یہ ہے کہ آپ ہرگز اس بات کو منظور نہ فرماتے بلکہ انکار ہی فرماتے۔ فقیر کا مقصد تو صرف اطلاع دہی ہے قبول کریں یا نہ کریں کوئی حرج نہیں اور جنگ کی کوئی ضرورت نہیں اگر وہاں کے مخدوم زادے اور احباب اسی وضع پر ثابت قدم رہنا چاہیں تو ہم فقیروں کو ان کی صحبت سے بجز محرومی کے کوئی چارہ نہیں۔ فقط زیادہ کیا تکلیف دی جائے۔(فتاویٰ رشیدیہ ص:۲۳۵،۲۳۶، ۲۳۷)