• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جائزہ محمدی فی تردید دلائل کاظمی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207

کاظمی: اصحاب الفیل کے بادشاہ ابرہہ نے جناب عبد المطلب کی طرف دیکھتے ہی عظمت و ہیبت نور مقدس کی وجہ سے ابرہہ ازراہ تعظیم نور، تخت سے نیچے اتر آیا پھر جناب عبد المطلب کو اپنے برابر بٹھالیا۔
محمدی: یہ تخت کہاں سے …آ گیا تھا، جھوٹ بنانے کی بھی کوئی حد ہوتی ہے اور عبد المطلب کے چہرے کو دیکھ کر لشکر کشی کی خبر دینے والا آدمی عبد المطلب کو دیکھ کر سجدہ میں گر گیا اور بے ہوش ہو گیا یہ بھی ایک قصہ گوئی ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور ابرہہ کے ہاتھی والا قصہ کہ عبد المطلب کو دیکھ کر ہاتھی سجدہ میں گر گیا اور کہا السلام علی النور الذی فی ظہرک یا عبد المطلب الخ یہ بھی ایک بناوٹی کہانی ہے جو بے ثبوت ہے۔
کاظمی کا تضاد: کاظمی صاحب پہلے لکھ آئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت نبی اور خاتم النبین بنا دیا تھا جب حضرت آدم علیہ السلام ابھی پیدا نہیں ہوئے تھے جس کا مطلب یہ بتایا کہ آپ فی الواقع نبی بن گئے تھے یعنی آپ کو بتا دیا گیا تھا کہ آپ نبی آخر الزمان ہیں مگر یہاں ص:۸۱ پر لکھتے ہیں کہ اس جملہ میں آپ کو بشارت سنائی کہ آپ نبی ہونے والے ہیں (میلاد النبی ص:۸۱ مقالات کاظمی ج:اول) اب کاظمی صاحب تو زندہ نہیں ہیں اس کے فرزندان و شاگردان بتائیں کہ کون سی بات صحیح ہے کیونکہ آخری نقل سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو پتہ اپنی نبوت کا نہیں تھا، اس لئے آپ کو بشارت دی گئی کہ آپ نبی ہونے والے ہیں جبکہ سوال کرنے والے صحابی نے سوال میں یہ لفظ استعمال کئے کیف علمت انک نبی حتی استیقنت ۔(مشکوٰۃ ص:۵۱۵) کہ آپ نے کیسے جانا کہ آپ نبی ہیں حتیٰ کہ آپ کو اپنے نبی ہونے کا یقین ہو گیا تو فرمایا کہ میرے پاس دو فرشتے آئے الخ۔
کاظمی کا تضاد دوم: رسالہ میلاد النبی ص:۸۲ پر لکھتے ہیں کہ قلب مبارک کو باہر نکال کر اس سے منجمد خون نکالا اور زم زم کے پانی سے دھو کر سینہ اقدس میں رکھ کر سینہ مبارک بند کر دیا۔ آگے کاظمی اس کے خلاف لکھتے ہیں: قلب اطہر کا زم زم سے دھویا جانا کسی آلائش کی وجہ سے نہ تھا(میلاد النبی ص:۸۳)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
کیا سینہ اقدس سے سینہ چاک کرتے وقت خون کا نہ نکلنا نورانیت کی دلیل ہے؟
کاظمی باوجود سینہ اقدس چاک ہونے کے خون نہ نکلنا نورانیت کی دلیل ہے… اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خلقت نور سے ہے اور بشریت ایک لباس ہے۔ اللہ تعالیٰ قادر ہے… بشریت نہ ہوتی شق کیسے ہوتا (اگر یہی بات ہے کہ بشریت سے شق ہوتی ہے نورانیت سے شق نہیں ہوتی تو عزرائیل علیہ السلام کی آنکھ کیوں پھوٹی جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پا س ان کا روح قبض کرنے کیلئے آئے تھے (بخاری و مسلم مشکوٰۃ ص:۵۰۷۔محمدی) اور نورانیت نہ ہوتی تو آلہ بھی درکار ہوتا خون بھی ضرور بہتا۔
محمدی: سینہ اقدس سے اس وقت خون نہ نکلناضروری نہیں کہ یہ نورانیت کی دلیل ہو بلکہ بشر ہوتے ہوئے خون نہ نکلے یہ آپ کا معجزہ ہے۔ آپ کی خلقت بشری ہے اور لباس بھی بشری ہے اور جن کی خلقت نوری تھی جب کبھی وہ لباس بشری میں آتے تھے تو وہ نہ کھاتے تھے اور نہ پیتے تھے جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس لباس بشریت میں آنے والے نوری فرشتے آئے تھے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان کیلئے بھنا گوشت تیار کر کے آگے آن رکھا تو انہوں نے نہیں کھایا اور کہا ہم تو لوط کی طرف بھیجے گئے ہیں (انا ارسلنا الی قوم لوط) یعنی ہم نوری فرشتے ہیں ہم کو اللہ تعالیٰ نے حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کی بربادی کیلئے روانہ فرمایا ہے (لہٰذا ہم کھانا نہیں کھاتے کہ نوری مخلوق کبھی کھانا نہیں کھاتی) اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خلقت نور ہوتی اور لباس بشریت والا ہوتا تو آپ بھی ہرگز ہرگز طعام نہ کھاتے مگر آپ کی حالت تو یہ تھی کہ ہر صبح و شام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھانے پینے کی چاہت رکھتے تھے کھاتے پیتے تھے، سحری بھی کھاتے تھے افطاری بھی فرماتے تھے اور آپ کو بھوک بھی لگتی تھی اور پیٹ پر پتھر بھی باندھتے تھے (کتب احادیث) یہ جو لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ قادر ہے کہ جب چاہے اپنی حکمت کے مطابق بشری احوال کو نورانیت پر غالب کر دے اور جب چاہے نورانیت کو احوال بشریت پر غلبہ دے دے الخ۔ یہ بھی یہاں بے تکی سی بات معلوم ہوتی ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جہاں خون نکل آیا وہ بشریت کی دلیل ہے اور جہاں خون نہیں نکلا وہ آپ کا معجزہ ہے ورنہ لباس بشری میں آنے والے نورانی فرشتے کبھی تو ان پر بھی بشریت غالب آ جاتی اور وہ بھی کبھی تو طعام کھا لیتے اور کبھی کبھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت جبرئیل علیہ السلام کو ناشتہ تو کرا دیتے اور آپ کی خلقت بشری ہونے پر دلیل یہی حدیث بھی ہے جس میں کاظمی صاحب تسلیم کرتے ہیں کہ یہ لوتھڑا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مبارک سے دور کر دیا گیا الخ (میلاد النبی ص:۸۶) اگر آپ کی خلقت ہی نورانی ہوتی تو سرے سے لوتھڑا اللہ تعالیٰ اس مقام پر بناتا ہی نہ۔ جیسے فرشتوں (نورانی مخلوق) میں ایسا لوتھڑا اللہ تعالیٰ نے سرے سے پیدا ہی نہیں کیا۔ اور کاظمی صاحب نے غلبہ کی بات تسلیم کرکے گویا یہ تسلیم کر لیا کہ کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نورانیت کی تنقیص نہیں ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207

کاظمی: شب میلاد مبارک، لیلۃ القدر سے افضل ہے اس لئے کہ میلاد کی رات خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کی رات ہے اور شب قدر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کی گئی ہے اور ظاہر ہے کہ جس رات کو ذات قدسیہ سے شرف ملا وہ اس رات سے ضرور افضل قرار پائے گی جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دئیے جانے کی وجہ سے شرف والی ہے الخ۔
محمدی: نص قرآنی کے مقابلہ میں یہ کاظمی ظن اور کشید ہے۔ نص کے مقابلہ میں ظن لاشئ ہے اور لیلۃ القدر کی خیریت اور افضلیت خود اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں بیان فرما دی ہے۔ لیلۃ القدر خیر من الف شہر الخ۔ اس کے مقابلہ میں کسی غزالی زمان ، رازی دران کی ذھنی اٹکل پچو کو کون قبول کر سکتا ہے اگر یہ ذھنی پیداوار کوئی حیثیت رکھتی ہوتی تو سب سے پہلے خود اللہ تعالیٰ اس کی استثناء فرما دیتا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم وضاحت فرما دیتے، اصحاب کرام میں سے کسی نے ایسی بات کہی ہوتی، لیلۃ القدر کی رات کی فضیلت اور شان صرف نزول الملائکۃ کی وجہ سے نہیں ہے ورنہ بیت المعمور کو بیت اللہ شریف سے افضل ہونا چاہئے کیونکہ وہاں ہر دم فرشتوں کا نزول ہوتا رہتا ہے ایک منٹ کیلئے بھی فرشتوں سے خالی نہیں رہتا (کتب احادیث) بلکہ قرآنِ مجید کی ان آیات پر غور کرنے سے الٹا یہ معلوم ہوتا ہے کہ لیلۃ القدر ، شب میلاد مبارک سے افضل ہے کیونکہ تنزل الملائکۃ والروح فیھا باذن ربہم من کل امر سلام۔ یہ صرف لیلۃ القدر کی خصوصیت ہے شب میلاد میں یہ خصوصیات نہیں ہیں اور نہ آج تک کسی نے یہ خصوصیات شب میلاد کی بیان کی ہیں چنانچہ خزائن العرفان ص:۸۶۰ میں لیلۃ القدر کے متعلق لکھتا ہے اس شب میں سال بھر کے احکام نافذ کئے جاتے ہیں اور ملائکہ کو سال بھر کے وظائف و خدمات پر مامور کیا جاتا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس رات کی شرافت و قدر کے باعث اسے شب قدر کہتے ہیں اور یہ بھی منقول ہے کہ چونکہ اس شب میں اعمال صالح منقول ہوتے ہیں اور بارگاہ الٰہی میں ان کی قدر کی جاتی ہے اس لئے اس کو شب قدر کہتے ہیں اور احادیث میں اس شب کی بہت فضیلتیں وارد ہوئی ہیں ۔ بخاری و مسلم میں ہے کہ جس نے اس رات میں ایمان واخلاص کے ساتھ شب بیداری کر کے عبادت کی اللہ تعالیٰ اس کے سال بھر کے گناہ بخش دیتا ہے الخ۔ تو کیا یہی فضائل شب میلاد کے متعلق کوئی میلادی سعیدی، کاظمی ابن کاظمی دکھا سکتا ہے؟
کاظمی نے پھر آگے قرآنی آیات: قل بفضل اللہ وبرحمتہ بذلک فلیفرحوا الخ۔(ص:۹۵) اور آیت: واما بنعمۃ ربک فحدث۔(ص:۹۶) لکھی ہے، ان آیات کے متعلق مکمل بحث ، ہم نے پہلے (ہم میلاد کیوں نہیں مناتے ) میں لکھ دی ہے وہاں دیکھ لیں۔ آگے کاظمی نے حدیث بخاری لکھی ہے جس میں ثویبہ کی آزادی والا واقعہ اور پھر خواب والا بیان ہے الخ۔
ہم نے اس کے متعلق بھی پوری اور کافی وافی تحقیق لکھ دی ہے وہاں دیکھ لیں۔ ابو طالب کی تخفیف عذاب کا بیان تو خود حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیا ہے ۔ اور وہ ایسا کافر بھی نہیں تھا جس نے آپ کے ساتھ ابو لہب والا کردار ادا کیا ہو بلکہ وہ تو صرف لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کہنے سے رکا رہا باقی ہر قسم کا تعاون تو اس کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہا، جب تک یہ زندہ رہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی دست درازی بھی نہیں کرتا تھا، مگر ابولہب کے متعلق تو خود اللہ تعالیٰ نے فرمادیا : ما اغنی عنہ مالہ وما کسب الخ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو لہب کے متعلق یہ تخفیف کی کہانی نہیں بیان فرمائی پھر یہ دونوں ایک جیسی تخفیف والے کیسے بن گئے اور علامہ ابن منیر نے جو اس مسئلہ پر توقف کرنے کو کہا ہے جیسا کہ خود کاظمی صاحب نے لکھا ہے (میلاد النبی ص:۹۹) تو واضح ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تخفیف کے متعلق نہیں بتایا جیسا کہ ابو طالب کے متعلق بتایا ہے۔ کاظمی صاحب اس توقف کی وضاحت اپنے لفظوں میں یوں کرتے ہیں (یعنی تخفیف عذاب کی نفی واثبات کا قول ورد نص پر موقوف ہے جس کے حق میں جو کچھ نص میں وارد ہو اس کی اتباع کی جائے گی ص:۹۹) تو چونکہ ابو لہب کے بارے میں تخفیف کی نص قرآن و حدیث سے ثابت نہیں ہے لہٰذا اس کیلئے تخفیف نہیں مانی جائے گی اور ابو طالب کے بارے میں تخفیف کی نص نبوی وارد ہے تو ابو طالب کے متعلق تخفیف مانی جائے گی ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اھو اھل النار عذابا ابو طالب وہون منتعل بنعلین یغلی منھا دماغہ (بخاری مشکوٰۃ ص:۵۰۲) اہل نار میں سے سب سے نرم عذاب جس کو ہو گا وہ ابو طالب ہے اس کو دو جوتیاں عذاب جہنم کی پہنائی جائیں گیں جس سے اس کا دماغ ابل رہا ہو گا اور غیر مسلم کا خواب حجت شرعیہ نہیں ہے خود کاظمی صاحب نے تسلیم کیا ہے ص:۹۹۔ کاظمی صاحب کی لیکن ویکن کے متعلق عرض ہے کہ یوسف علیہ السلام کے دو ساتھیوں کے خواب کی حقانیت کی تصدیق خود حضرت یوسف علیہ السلام نے فرما دی اور اس خواب کے اصلی حقائق بھی سامنے نظر آ گئے، مگر ابو لہب والے خواب کے حقائق تو آخرت سے متعلق ہیں اس کی تائید و تصدیق حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں ہوئی، لہٰذا اس غیر حجت شرعیہ سے ایک ایسا مسئلہ استنباط کرنا جو نص قرآن کے صریح خلاف ہو کیسے قبول کیا جا سکتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
کاظمی: امام قسطلانی شارح بخاری، مواھب لدنیہ میں اقام فرماتے ہیں:
ولا زال اھل الاسلام یحتفلون بشھر مولدہ صلی اللہ علیہ وسلم الخ۔
محمدی: کاظمی نے اگر مواھب لدنیہ دیکھی ہے تو اس نے شرح مواھب زرقانی بھی ضرور دیکھی ہو گی اس کے شارح نے جب ان اہل اسلام کا حدود اربعہ متعین فرما دیا ہے کہ :
بعد القرون الثلاثۃ التی شھد صلی اللہ علیہ وسلم بخیریتھا فہو بدعۃ۔(شرح مواھب لدنیہ للزرقانی ج:۱، ص:۱۶۳)
کہ اہل اسلام سے مراد قرون ثلاثہ (عہد نبوی، عہد صحابہ عہد تابعین) کے بعد والے لوگ مراد ہیں جن تین زمانوں کی تعریف نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی ہے لہٰذا یہ میلاد بدعت ہے الخ۔
اس پر بحث پہلے بھی ہم نے کردی ہے۔ اسی طرح فرحم اللہ امرأ اتخذ لیالی الشھر الخ پر بھی بحث پہلے مکمل کر دی گئی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
کاظمی: علامہ ابن الحاج نے مدخل میں جو انکار کیا ہے وہ انعقاد محفل میلاد پر نہیں، ان بدعات اور نفسانی خواہشات پر ہے جو لوگوں نے محافل میلاد میں شامل کر دی تھیں، آلات محرمہ کے ساتھ گانا بجانا میلاد شریف کی محفلوں میں شامل کر دیا گیا تھا، ایسے منکرات پر صاحب مدخل نے انکار فرمایا اور ایسے ناجائز امور پر ہر سنی مسلمان انکار کرتا ہے۔
محمدی: امام ابن الحاج کے بارے میں یہ تاویل غلط ہے کیونکہ ان کے الفاظ مدخل میں یہ ہیں
ومن جملۃ ما احدثوہ من البدع من اعتقادہم ان ذلک من اکبر العبادات واظہار الشعائر ما یفعلون فی شھر الربیع الاول من المولد وقد احتوی ذلک علی بدع ومحرمات (الی ان قال) وھذہ المفاسد مترتبۃ علی فعل المولد اذا عمل بالسماع فان خلا منہ وعمل طعام فقط ونوی بہ المولد۔ ودعی علیہ اخوان وسلم من کل ما تقدم ذکرہ فہو بدعۃ بنفس نیۃ فقط لان ذلک زیادۃ فی الدین ولیس من عمل السلف الماضیین واتباع السلف اولی ولم ینقل من احد منہم انہ نوی المولد ونحن نتبع السلف فیسعناما وسعہم الخ انتھی ۔(فتاوی رشیدیہ ص:۲۳۵)
کہ ان بدعات میں سے جو انہوں نے ایجاد کر لی ہیں ، ان کا یہ اعتقاد بھی ہے کہ سب سے بڑی عبادت اور شعائر اللہ کا اظہار یہ ہے جو وہ ماہ ربیع الاول میں میلاد کرتے ہیں جس میں کئی بدعتیں اور حرام باتیں ہوتی ہیں (یہاں تک) کہ یہ تمام مفاسد مرتب ہیں، میلاد کے کرنے پر۔ جب اس میں سماع بھی ہو اور اگر سماع نہ ہو اور صرف کھانا پکایا جائے اور اس سے مولود کی نیت کی جائے اور اس کی طرف لوگوں کو بلایا جائے اور جو کچھ باتیں اوپر لکھی گئی ہیں ان سے سلامت ہے تو بھی فقط نفس نیت کی وجہ سے یہ بدعت ہے اس لئے کہ یہ دین میں زیادتی ہے اور گزرے ہوئے سلف صالحین لوگوں کا یہ عمل نہیں ہے اور سلف کی پیروی بہتر ہے اور سلف میں کسی سے بھی یہ منقول نہیں ہے کہ انہوں نے مولود کی نیت کی ہو اور ہم سلف کا اتباع کرتے ہیں تو ہمارے لئے بھی اتنی وسعت ہے جو ان کیلئے ہو سکتی تھی۔ انتھی۔ ابن الحاج کے آخری جملے کاظمی کی تاویل کو غلط ثابت کر رہے ہیں۔
اگر کاظمی صاحب نے قسطلانی کی عبارت سے گیارہ امور ثابت کئے ہیں تو ہم بھی امام ابن الحاج کی عبارت سے گیارہ امور ثابت کرتے ہیں (۱) میلاد منانا بھی دیگر بدعات کی طرح ایک بدعت ہے۔ (۲) بدعتی لوگ یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ میلاد عبادات میں سے ایک بڑی عبادت ہے اور شعائر اللہ کا اظہار ہے۔ (۳) اس بدعت میلاد میں دیگر کئی بدعتیں اور حرام باتیں بھی شامل ہو گئی ہیں۔ (۴)یہ مفاسد میلاد کو شامل ہیں جس میں سماع بھی ہو۔ (۵) اگر سماع شامل نہ ہو صرف طعام کھلانا ہو اور اس سے میلاد کرنے کی نیت ہو اور (بدعتی) بھائیوں کو مدعو کیا گیا ہو اور دیگر ہر کام سے اجتناب کیا گیا ہو تو بھی نیت کی بنا پر یہ بدعت ہے۔ (۶)کیونکہ یہ دین میں زیادتی ہے اور سلف صالحین کا یہ عمل اور طریقہ نہیں ہے۔ (۷)سلف صالحین کی اتباع اور پیروی بہتر ہے (کہ وہ میلاد نہیں مناتے تھے ہم بھی نہ منائیں)۔ (۸)سلف صالحین میں سے کسی کے متعلق یہ منقول نہیں کہ انہوں نے مولود کی نیت کی ہو۔ (۹)اور سلف کی پیروی کرتے ہوئے ہم جو میلاد نہیں مناتے ہمارے لئے بھی وسعت ہے جیسے ان کیلئے تھی ۔ (۱۰)یعنی میلاد نہ منا کر اگر وہ گستاخ نبی غیر محب نہیں سمجھے جاتے تھے تو ہم بھی میلاد نہ منا کر گستاخ اور نبی کے غیر محب نہیں سمجھے جائیں گے۔ (۱۱)امام ابن الحاج کے قول کی یہ جو تاویل گھڑی ہے بالکل غلط ہے اور اس کے واضح قول کے خلاف ہے اور امام ابو ذکریا احمد بن ابراہیم بن النحاس الدمشقی الشافعی رحمہ اللہ نے بھی امام ابن الحاج کے یہی الفاظ نقل کئے ہیں کہ :
فان خلا المولد من السماع وعمل طعاما فقط ونوی المولد ودعا الیہ الاخوان وسلم من کل ما تقدم ذکرہ فہو بدعۃ بنفس نیتہ اذ ان ذلک زیادۃ فی الدین ولیس من عمل السلف الماضیین واتباع السلف اولی بل اوجب الخ۔(تنبیہ الغافلین ص:۴۹۹)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
کاظمی: امام جلال الدین نے فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت پر شکر ظاہر کرنا ہمارے لئے مستحب ہے۔
محمدی: ایک طرف علماء فرماتے ہیں کہ یہ میلاد منانا بدعت ہے اور دین میں زیادتی کے بمنزلہ ہے یعنی سنت نہیں ہے ، دوسری طرف ایک دو کہتے ہیں کہ یہ میلاد منانا مستحب ہے۔ کاظمی صاحب چونکہ حنفی ہیں اس لئے ان کو فقہ کی تعلیم پر عمل کرنا چاہئے ۔
اذا تردد الحکم بین سنۃ وبدعۃ کان ترک السنۃ راجحا علی فعل البدعۃ ۔(رد المختار ج:۱، ص:۴۷۵)
کہ جب سنت اور بدعت کا حکم لگانے میں تردد اور شک ہو (کہ یہ کام سنت ہے یا بدعت ہے) تو ایسے موقعہ پر ایسی سنت کو چھوڑنا بدعت پر عمل کرنے سے بہتر ہے اور یہ میلاد تو بقول شما مستحب ہے سنت نہیں ہے اور واجب ہونے کی تو تمہارے علماء تردید کرتے ہیں چنانچہ مفتی احمد یار گجراتی لکھتا ہے کہ اگر کوئی واجب سمجھے تو اس کا یہ سمجھنا بہت برا ہو گا (جاء الحق) تو فقہ حنفی کے نزدیک سنت و بدعت میں جب تردد ہو تو اس سنت کو چھوڑنا ضروری ہے (تا کہ بدعتی نہ ہو جائے) اور یہاں میلاد میں تو مستحب اور بدعت میں تردد ہے تو یہ بدعت میلاد بطریق اولیٰ چھوڑنا چاہئے، اپنی فقہ حنفی کو چھوڑ کر قول شافعی سیوطی کو پلے باندھنے والے ایسے حنفی کو کیا نام دو گے، جبکہ یہ سیوطی شافعی امام رکوع کے رفع الیدین کرنے کو سنت آمین بالجھر کو سنت امام کے پیچھے فاتحہ کی قرات کو فرض واجب سمجھتا ہے تو اس کے ان مختارات کو کاظمی صاحب کیوں قبول نہیں کرتا کیا یہ تو نہیں کہ میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا تھو تھو۔ اور ملا علی قاری حنفی علامہ طیبی رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں:
قال الطیبی من اصہ علی امر مندوب وجعل عزما ولم یعمل بالرخصۃ فقد اصاب منہ الشیطان من الاضلال فکیف من اصر علی بدعۃ او منکر الخ ۔(فتاوی رشیدیہ ص:۲۳۹)
طیبی نے فرمایا کہ جو شخص امر مستحب کے کرنے پر اصرار کرے اور اس کو لازم قرار دے لے اور اجازت پر عمل نہ کرے تو اس نے شیطان کی گمراہی کا حصہ پا لیا تو پھر اس شخص کا کیا حال ہو گا جو بدعت پر مصر ہو الخ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
کاظمی: فاکھانی مالکی کا عمل مولد مقدس کو معاذ اللہ بدعت مذمومہ لکھنا خود مذموم ہے۔
محمدی: فقط فاکھانی نے عمل المولد کو بدعت نہیں لکھا دیگر علماء نے بھی اسے بدعت اور بدعت شنیعہ قرار دیا ہے علامہ ابن الحاج علامہ عبد الرحمن مغربی نے اپنے فتاویٰ میں اس کو بدعت لکھا ہے: ان عمل المولد بدعۃ لم یقل بہ ولم یفعل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم والخلفاء والائمۃ کہ میلاد کا کرنا بدعت ہے جس کو نہ کہا اور نہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور نہ خلفاء وائمہ نے۔ مولانا نصیر الدین اودی شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں بجواب سائل :
لا یفعل لانہ لم ینقل عن السلف الصالح وانما حدث بعد القرون الثلثۃ فی الزمان الطالح ونحن لا نتبع الخلف فی ما اھملہ السلف لانہ یکفی بہم الاتباع ، فای حاجۃ الی الابتداع انتھی۔
سائل کے جواب میں فرمایا کہ نہ کرے اس لئے کہ یہ سلف صالح سے منقول نہیں ہے بلکہ قرون ثلاثہ کے بعد بدبخت زمانے میں لوگوں نے اس کی ایجاد کی ہے اور سلف نے جس کو چھوڑ دیا ہے اس میں ہم پیروی خلف نہیں کر سکتے اس لئے کہ سلف کی پیروی ہی کافی ہے تو نئی چیز نکالنے کی کیا ضرورت ہے۔ شیخ الحنابلہ شرف الدین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ان ما یعمل بعض الامراء فی کل سنۃ احتفا لا لمولدہ صلی اللہ علیہ وسلم فمع اشتمالہ علی التکلفات الشنیعۃ بنفسہ بدعۃ احدثہ من یتبع ھواہ ولا یعلم ما امرہ صلی اللہ علیہ وسلم صاحب الشریعہ ونھاہ انتھی کذافی قول المعتمد۔
یہ جو بعض امراء ہر سال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی میلاد پر جشن مناتے ہیں تو اس میں علاوہ اس کے کہ تکلفات شنیعہ ہیں، بنفسہ بدعت ہے اس کو اس نے ایجاد کیا جو اپنی خواہش کی پیروی کرتا ہے اور نہیں جانتا کہ صاحب شریعت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا حکم کیا ہے اور کس بات سےمنع فرمایا ہے۔ قول معتمد میں اسی طرح ہے اور قاضی شہاب الدین دولت آبادی رحمۃ اللہ علیہ اپنے فتاوی تحفۃ القضاۃ میں فرماتے ہیں (سئل القاضی عن مجلس المولد الشریف)
قال لا ینعقد لانہ محدث وکل محدث ضلالۃ وکل ضلالۃ فی النار وما یفعلون من الجھال علی رأس کل حول فی شھر ربیع الاول لیس بشیئی ویقومون عند ذکر مولدہ صلی اللہ علہ وسلم ویزعمون ان روحہ صلی اللہ علیہ وسلم یجئی وحاضر فزعمہم باطل بل ہذا الاعتقاد شرک وقد منع الائمۃ عن مثل ہذا انتھی۔
قاضی سے مجلس مولود شریف کے متعلق دریافت کیا گیا تو فرمایا نہ منعقد کی جائے اس لئے کہ یہ بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور گمراہی جہنم میں جانے والی ہے اور یہ جو جاہل قسم کے لوگ ربیع الاول کے مہینہ میں ہر سال کی ابتداء پر کرتے ہیں یہ کوئی چیز نہیں اور وہ ذکر ولادت کے وقت کھڑے ہو جاتے ہیں اور خیال کرتے کہ آپ کی روح صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لاتی ہے اور حاضر ہوتی ہے تو یہ ان کا خیال باطل ہے بلکہ یہ اعتقاد شرک ہے اور ائمہ نے اس جیسی باتوں سے منع فرمایا ہے اور صاحب سیرت شامی فرماتے ہیں۔
جرت عادت کثیر من المحبین اذا سمعوا بذکر وضعہ صلی اللہ علیہ وسلم ان یقوموا تعظیما لہ صلی اللہ علیہ وسلم وہذا القیام بدعۃ لا اصل لہ ۔
اور بہت سے محبین کی یہ عادت ہو گئی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کا ذکر کیا جاتا ہے تو وہ آپ کی تعظیم کیلئے کھڑے ہو جاتے ہیں حالانکہ یہ قیام بدعت ہے جس کی کوئی اصل نہیں ہے اور مولانا فضل اللہ جونپوری رحمۃ اللہ بھجۃ العشاق میں فرماتے ہیں:
ما یفعلہ العوام فی القیام عند ذکر وضع خیر الامام علیہ التحیۃ والسلام لیس بشیئی بل ہو مکروہ۔
اور قاضی نصیر الدین گجراتی رحمۃ اللہ علیہ طریقہ السلف میں فرماتے ہیں:
وقد احدث بعض جھال المشائخ امور اکثیرۃ لا نجدلھا اثرا ولا رسما فی کتاب ولافی سنۃ منھا القیام عند ذکر ولادۃ سید الانام علیہ التحیۃ والسلام۔
اور بعض جاہل مشائخ نے بہت سی باتوں کو ایجاد کر لیا ہے جس کا کوئی اثر نہ رسم ہم نہ کتاب میں پائے ہیں نہ سنت میں ، انہیں میں سے ایک سید الانام علیہ التحیة کے ولادت کے ذکر کے وقت کھڑے ہونا ہے اور سید احمد سرہندی مکتوبات میں فرماتے ہیں
بنظر انصاف بیند اگر حضرت ایشاں فرضاً دریں زمان موجود بودند ودردنیا زندہ می بووند، وایں مجالس واجتماع کہ منعقد می شد نہ آیا بایں راضی می شدند وایں اجتماع ا پسندید ند یانہ یقین فقیر آنست کہ ہرگز ایں معنی را تجویز نمی فرمودند بلکہ انکار مے نمودند مقصود فقیر اعلان بود قبول کنند یا نکنند ہیچ مضائقہ نیست وگنجائش شاجرہ نہ اگر مخدوم زاد ہا ویاراں آ نجا برہماں وضع مستقیم باشند ما فقیراں را از صحبت ایشاں غیر از حرمان چارہ نیست انتھی زیادہ چہ تصدیعہ دہد والسلام۔
بنظر انصاف دیکھو کہ اگر بالفرض حضور اس زمانہ میں موجود ہوتے اور دنیا میں زندہ ہوتے اور یہ مجالس و اجتماع منعقد ہوتے تو کیا اس سے راضی ہوتے اور اس اجتماع کو پسند فرماتے یا نہ۔ فقیر کا یقین یہ ہے کہ آپ ہرگز اس بات کو منظور نہ فرماتے بلکہ انکار ہی فرماتے۔ فقیر کا مقصد تو صرف اطلاع دہی ہے قبول کریں یا نہ کریں کوئی حرج نہیں اور جنگ کی کوئی ضرورت نہیں اگر وہاں کے مخدوم زادے اور احباب اسی وضع پر ثابت قدم رہنا چاہیں تو ہم فقیروں کو ان کی صحبت سے بجز محرومی کے کوئی چارہ نہیں۔ فقط زیادہ کیا تکلیف دی جائے۔(فتاویٰ رشیدیہ ص:۲۳۵،۲۳۶، ۲۳۷)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
کاظمی:
وقد استخرج لہ الحافظ ابن حجر اصلا من السنۃ وکذا الحافظ السیوطی وردا علی الفاکھانی المالکی فی قولہ ان عمل المولد بدعۃ مذمومۃ انتھی۔(سیرت حلبیہ جلد:۱، ص:۸۱)

محمدی:
اس پر مکمل بحث اور ان کی اصلوں پر مکمل کلام پہلے ہم لکھ آئے ہیں (دیکھئے ہم میلاد کیوں نہیں مناتے ص:۳۱ تا ص:۳۶) باقی رہا مجمع بحار الانوار والے کا لکھنا : وانہ شھر امرنا باظہار الحبور فیہ کل عام ۔(مجمع بحار الانوار ج:۳، ص:۵۵) یہ ایسا مہینہ ہے جس میں ہر سال ہمیں سرور کا حکم دیا گیا ہے۔
تو اس کے متعلق عرض ہے کہ ہر سال اس کا حکم دینے والاکون ہے اللہ تعالیٰ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام و تابعین عظام اور ائمہ محدثین و ائمہ اربعہ حالانکہ اللہ تعالیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، اصحاب کرام تابعین وائمہ اربعہ نے ہرگز ایسا حکم نہیں دیا تو بتائو کس نے ایسا حکم دیا ہے۔ سنی سنت کا پیرو ہوتا ہے، حنفی امام ابو حنیفہ کا پیرو ہوتا ہے نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور نہ امام صاحب نے ایسا حکم دیا ہے پتہ نہیں کاظمی صاحب کس کے حکم کی پاسداری کر رہے ہیں اور لازال اہل الاسلام یحتفلون الخ کی حقیقت پہلے بیان کر دی گئی ہے اور ابن جزری شافعی کا تمام بلا و عرب و عجم میں محافل میلاد کے انعقاد کا ذکر کرنا دلیل نہیں بن جاتا کہ یہ سنت نبوی ، سنت صحابہ ، سنت خلفاء راشدین ہے، بلکہ یہ سب کارستانیاں قرون ثلاثہ فاضلہ مبارکہ کے بعد والے لوگوں کی ہیں اور میلاد کے موقعہ پر قیام تعظیمی بدعت مذمومہ ہے اس کے متعلق بھی پہلے لکھ دیا گیا ہے اور سیرت حلبیہ والے کا: وہذا القیام بدعۃ لا اصل لھا کے بعد لکھنا کہ ای لکن ہی بدعۃ حسنۃ لانہ لیس کل بدعۃ مذمومۃ کہ یہ بدعت حسنہ ہے کیونکہ ہر بدعت مذمومہ نہیں ہوتی غلط ہے کیونکہ بدعت حسنہ بقول شما اس وقت ہوتی ہے جب نص کے خلاف نہ ہو اور یہ قیام صریحاً نص کے خلاف ہے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں اپنے لئے قیام کرنے کو مکروہ فرمایا تھا اور صحابہ کرام نے آپ کی کراہت کی بنا پر آپ کیلئے قیام نہیں کرتے تھے جیسا کہ پہلے ہم نے (ہم میلاد کیوں نہیں مناتے) میں بیان کر دیا ہے۔ کاظمی صاحب اب کون ہے جو نص کے مقابلہ میں ایسے قیام کو بدعت حسنہ کہے، یہ الٹی چال تم کو کس نے سکھائی ہے ، نام اہل سنت والا کام اہل خواہشات کے۔ تعظیم نبوی کے گھڑے گھڑائے طریقے کیوں استعمال کرتے ہو: وما آتاکم الرسول فخذوہ وما نھاکم عنہ فانتھوا پر عمل کیوں نہیں کرتے۔ صحابہ و تابعین و تبع تابعین کے انداز تعظیم کو چھوڑ کر ، بعد کے بدبخت زمانوں والے تعظیم کے طریقہ کو اپنانا اور ان کے طور تعظیم کے قیام تعظیمی کو دلیل بنانا صرف نام کے سنی غزالی زمان رازی دوران کا کام ہو سکتا ہے ، اگر اس طریق اور طرز تعظیم کو امام سبکی شافعی اور اس کی متابعت کرنے والے دیگر مشائخ نے اپنایا ہے تو ان کے برخلاف خود صاحب مولد، صاحب شریعۃ اور آپ کے تابعداران صحابہ کرام نے اسے مکروہ بتایا ہے اور دیگر علماء کرام نے بھی ایسے تعظیمی طریق کو باطل اور اس اعتقاد کو شرک بتایا ہے جیسا کہ پہلے مذکور ہوا۔ اگر امام سبکی کی اقتداء آپ کے نزدیک اتنی اہم ہے تو صرف قیام کے معاملہ میں نہیں ہونی چاہئے، ان کے دوسرے مسائل میں بھی اقتداء کرنی چاہئے، وہ نماز میں رکوع کے اندر رفع الیدین کیا کرتے تھے، امام سبکی نے رفع الیدین کے مسئلہ میں ایک چھوٹا سا رسالہ جزء رفع الیدین لکھا ہے جو بنام جزء رفع الیدین امام سبکی طبع شدہ موجود ہے اس میں بھی آپ اس کی اقتداء کرو اور کرو بسم اللہ۔ آج سے کاظمی بن کاظمی اور دیگرتلامیذان باوفا۔ امام سبکی کی اقتدا کرتے ہوئے رکوع میں رفع الیدین کرنا شروع کر دیں تا کہ تمہاری دوسرے معاملات میں اپنے مقتداء سبکی کی اقتداء ثابت ہو جائے کیونکہ کاظمی صاحب لکھتے ہیں ثابت ہو اکہ مسئلہ قیام میں امام سبکی اور ان کے ہمعصر مشائخ و علماء کی اقتداء کافی ہے(میلاد النبی مقالات کاظمی ص:۱۰۶ ج:اول) تو پھر رفع الیدین کے مسئلہ میں بھی ان کی اقتداء کرنی چاہئے اور حاجی امداد اللہ صاحب کا قول ہمارے لئے حجت نہیں ہے اور خود ان کے مریدان خاص، مولانا رشید احمد گنگوہی کے نزدیک بھی ان کا قول وعمل حجت نہیں ہے۔ فتاویٰ رشیدیہ میں ہے سوال… اور سنا ہے کہ آپ کے پیر صاحب حاجی امداد اللہ صاحب بھی مولود سنتے ہیں جواب تفصیل سے فرمائیے جواب۔ مجلس مولود کا مفصل ذکر براھین قاطعہ میں دیکھیں اور حجت قول و فعل مشائخ سے نہیں ہوتی بلکہ قول و فعل شارع علیہ الصلوٰۃ والسلام سے اور اقوال مجتھدین رحمہم اللہ سے ہوتی ہے، حضرت نصیر الدین چراغ دہلی قدس سرہ فرماتے ہیں جب ان کے سلطان پیر نظام الدین قدس سرہ کے فعل کی حجت کو کوئی لاتا کہ وہ ایسا کرتے ہیں تم کیوں نہیں کرتے تو فرماتے کہ فعل مشائخ حجۃ نباشد (کہ مشائخ کا قول حجت نہیں ہے) اور اس جواب کو حضرت سلطان الاولیاء بھی پسند فرماتے تھے لہٰذا جناب حاجی صاحب سلمہ اللہ کا ذکر کرنا سوالات شرعیہ میں بے جا ہے فقط واللہ تعالیٰ اعلم۔ (فتاویٰ رشیدیہ ص:۲۳۱، ۲۳۲)۔ تمت بالخیر۔
الحمد للہ رب العالمین ہم نے اختصار کے ساتھ میلاد النبی کے بارے میں دلائل کاظمی کے جوابات لکھ دئیے ہیں ، اللہ تعالیٰ ہم کو کتاب و سنت پر عمل کرنے اور بدعات اور خواہشات سے اجتناب کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین۔
ہذا آخرما ارونا ایرا وہ فی بذا المقام۔
فقط ابوداؤد عبد الغفار محمدی
خطیب جامع مسجد اہلحدیث و مہتمم
مدرسہ محمدیہ تعلیم القرآن والحدیث خان بیلہ تحصیل جلالپور پیروالہ۔
ضلع ملتان
شوال ۱۴۲۶ نومبر ۲۰۰۵۔


ہم میلاد کیوں نہیں مناتے؟
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
جزاكم الله خير
الله تعالى آپکے علم میں برکت دے ۔ صالحانہ انداز ۔ عالمانہ فکر
تنقید میں احترام کو لازم رکها اور اقوال پر تنقید فرمائی ۔
اللہ آپ پر مهربانی فرمائے ۔
 
Top