• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جائزہ محمدی فی تردید دلائل کاظمی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207

کاظمی: حدیث میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب آدم علیہ السلام کو پیدا کیا تو نور مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی پشت مبارک میں رکھ دیا اور نور پاک ایسا شدید چمک والا کہ باوجود پشت آدم میں ہونے کے پیشانی آدم علیہ السلام سے چمکتا تھا اور آدم علیہ السلام کے باقی انوار پر وہ غالب ہو جاتا تھا ۔(میلاد النبی ص:۶۵)
محمدی: نہ تو زرقانی نے اس روایت کا اتا پتا دیا ہے اور نہ کاظمی صاحب نے یہ زحمت برداشت کی کہ اس کا حوالہ تلاش کر کے عوام کے سامنے پیش کرتے ، بغیر کسی باسند کتاب حدیث میں موجود ہونے کے کون ایسی روایات پر کان دھر سکتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207

کاظمی: شبہ… معلوم ہوا کہ تمام بنی آدم کی ارواح آدم علیہ السلام کی پشت میں تھیں، اس کا جواب یہ ہے کہ پشت آدم علیہ السلام سے ان کی اولاد کی ارواح نہیں نکالی گئی تھیں بلکہ وہ ان کے اشخاص مثالیہ تھے جو مثالی صورتوں میں ان کی پشت مبارک سے بہ قدرت ایزدی ظاہر کئے گئے تھے کیونکہ ہم ابھی حدیث صحیحین سے ثابت کر چکے ہیں کہ مائوں کے پیٹ میں نفخ روح کیا جاتا ہے الخ۔
محمدی:
اول: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
ان اللہ مسح صلب آدم فاستخرج منہ کل نسمۃ ہو خلقھا الی یوم القیمۃ فاخذ منہم المیثاق ان یعبدوہ ولا یشر کوابہ شیئا الخ۔(ابن کثیر ج: دوم، ص:۲۹۱ بحوالہ ابن جریر)
کہ تحقیق اللہ تعالیٰ نے پیٹھ آدم کو مسح کیا پس اس نے اس سے ہر نسمہ (روح) نکالا قیامت تک جس کو وہ پیدا کرنے والا تھا پس ان سے میثاق لیا کہ وہ اس کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گے اور ترمذی شریف میں ایک روایت حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مذکور ہے:
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لما خلق اللہ آدم مسح ظہرہ فسقط من ظہر کل نسمۃ ہو خالقھا من ذریتہ الی یوم القیمۃ الخ۔(ترمذی ج:۲، ص:۱۳۳)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا تو اس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا پس اس کی پیٹھ سے ہر وہ روح گرا جس کو وہ پیدا کرنے والا تھا اس کی اولاد سے قیامت تک الخ اور نسمہ روح کو کہتے ہیں چنانچہ حاشیہ مولانا احمد علی سہارن پوری اور نفح قوت المغتذی دونوں میں امام طیبی سے نقل کیا ہے : کل ذی روح کہ نسمہ سے مراد ہر ذی روح ہے تو مطلب یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اولاد آدم کو ان کی اپنی اپنی صورتوں میں جو روح کے ساتھ تھیں نکالا اور مشکوٰۃ کے حاشیہ میں بھی مرقات ملا علی قاری کے حوالہ سے ہر ذی روح لکھا ہے (مشکوٰۃ ص:۲۳)
دوم: عام ذریت آدم اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان اگر یہ فرق ہے تو جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ماں کے پیٹ میں تھے تو کیا اس وقت آپ کیلئے نفخ روح نہیں کیا گیا تھا؟ اور کیا یہ بات اللہ تعالیٰ سے بعید ہے کہ وہاں آدم علیہ السلام کی پیٹھ میں ارواح کے طور پر نکالے اور جب اس کی پیدائش کا وقت آئے تو پھر اس میں بھی نفخ روح ہو جائے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207


کاظمی: صاحب روح المعانی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اول خلق ہونے کے بارے میں ارقام فرماتے ہیں:
واذا کان نورہ صلی اللہ علیہ وسلم اول المخلوقات ففی الخبر اول ما خلق اللہ تعالی نور نبیک یا جابر۔(تفسیر روح المعانی پ:۱۷، ص:۹۶)
ترجمہ: چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم وصول قبض میں واسطہ عظمی ہیں اسی لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نور اول مخلوقات ہے چنانچہ حدیث شریف میں وارد ہے سب سے پہلی وہ چیز جو اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمائی وہ تیرے نبی کا نور ہے اے جابر۔
محمدی: جب کتب احادیث خصوصاً مصنف عبد الرزاق میں یہ حدیث ہے ہی نہیں تو کسی کا نقل کرنا خواہ وہ صاحب روح المعانی کا ہو یا صاحب نشر الطیب کا ہو ہرگز ہرگز مفید اور کار آمد نہیں ہو سکتا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207

کاظمی: حدیث حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ ، امام احمد بیہقی و حاکم نے حدیث عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے روایت فرمائی ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا بیشک میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک خاتم النبین ہو چکا تھا اور آدم علیہ السلام ابھی اپنے خمیر میں تھے الخ… اس حدیث کا مطلب یہی ہے کہ میں فی الواقع خاتم النبین ہو چکا تھا نہ کہ میرا خاتم النبین ہونا علم میں مقدر تھا الخ ایک اور حدیث بھی لکھی ہے ۔
محمدی: پتہ نہیں کاظمی صاحب نے یہ بے فائدہ ہیر پھیر کیوں کی ہے جبکہ الفاظ مکتوب کے ہیں یعنی میرے نام ختم النبوت اس وقت لکھ دی گئی تھی جب آدم علیہ السلام ابھی اپنے خمیر سے تھے، چنانچہ مرقات ملا علی قاری کے حوالہ سے حاشیہ مشکوٰۃ ص:۵۱۳ میں ہے: ای کتبت خاتم الانبیاء فی الحال الخ کہ میں خاتم الانبیاء اس وقت لکھ دیا گیا تھا جب آدم علیہ السلام ابھی حالت خمیر میں تھے الخ۔ اگر کاظمی صاحب کی مراد یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت اور ختم نبوت فی الواقع چالو ہو چکی تھی تو پھر تورات زبور، انجیل کیوں آئیں اور حضرات انبیاء کرام اپنی اپنی نبوت لے کر کیوں آئے؟ حالانکہ قرآنِ مجید میں نبوت محمد اور ختم النبوت ان کےانبیاء کے دوران یا بعد میں آنے کا اشارہ موجود ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
واذ اخذ اللہ میثاق النبین لما آتیتکم من کتاب وحکمۃ ثم جاء کم رسول مصدق لما معکم الخ ۔(ال عمران:۸۱، ۸۲)
کہ ان انبیا ء کرام کا آنا اور کتاب و حکمت کا دیا جانا پہلے ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا آنا اور نبوت و رسالت اور خاتم النبین ہونا بعد میں ہے۔ ثم جاء کم کا جملہ اسی طرف اشارہ کر رہا ہے۔
جیسے ہر انسان کے پیدا ہونے سے پہلے اس کی تقدیر لکھ دی جاتی ہے اور جس طرح زمین و آسمان کی پیدائش سے پچاس ہزار سال پہلے تمام مخلوق کی تقدیر لکھ دی گئی (مسلم مشکوٰۃ ص:۱۹) اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے بھی آدم علیہ السلام کے پیدا ہونے سے پہلے، نبوت اور خاتم النبین کا ہونا لکھ دیا گیا، ورنہ جس طرح اس حدیث میں کتابت کا لفظ ہے اس حدیث میں بھی کتابت کا لفظ ہے(کتب اللہ مقادیر الخلائق الخ) تو پھر جیسے فی الواقع آپ کو نبوت اور ختم نبوت مل چکی تھی تو اسی طرح خلائق کیلئے فی الواقع ان چیزوں کا مل جانا تسلیم کرنا پڑے گا نیز اگر کاظمی صاحب کا مفہوم مان لیا جائے کہ فی الواقع اس وقت آپ نبی ہو چکے تھے اور نبوت کے لوازمات بھی آپ کو عطا ہو چکے تھے تو پھر قرآنِ مجید میں یہ کیوں ہے:
ما کنت تدری ما الکتاب ولا الایمان ۔(شوریٰ آیت:۵۲)
آپ اس سے پہلے یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ کتاب اور ایمان کیا چیز ہے۔
وما کنت ترجو ان یلقی الیک الکتاب الخ ۔(القصص ع:۹،پ:۲۰)
اور آپ کو تو کبھی اس کا خیا ل بھی نہ گذرا کہ آپ کی طرف کتاب نازل کی جائے گی ۔
اور پھر یہ کیوں ہے جو حدیث میں ہے:
کیف علمت انک نبی حتی استیقنت فقال یا اباذر اتانی ملکان وانا ببعض بطحاء مکۃ فوقع احدہما الی الارض وکان الآخر بین السماء والارض فقال احدہما لصاحبہ اہوہو قال نعم قال فزنہ برجل فوزنت بہ فوزنتہ ثم قال زنہ بعشرۃ فوزنت بہ فرجحتہم ثم قال زنہ بمآۃ فوزنت بہم فرجحتہمم ثم قال زنہ بالف فوزنت بہم فرجحتہم ثم قال زند بمئاة فوزنت بہم فرجحتہم ثم قال زند بالف فوزنت بہم فرجحتہم کانی انظر الیہم ینتثرون علی من خفۃ المیزان قال فقال احدہما لصاحبہ لو وزنتہ بامتہ لرجحھا۔(رواہ الدارمی ، مشکوٰۃ ص:۵۱۵)
کہ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ آپ نے کیوں کرجانا کہ بیشک آپ نبی ہیں یہاں تک کہ آپ کو یقین ہو گیا تو فرمایا: اے ابو ذر! میرے پاس دو فرشتے آئے اور میں وادی بطحاء مکہ کے کسی علاقہ میں تھا، تو ایک فرشتہ تو زمین پر اتر آیا دوسرا آسمان و زمین کے درمیان رہا، تو ایک نے کہا کیا یہ وہی ہے تو دوسرے نے کہا ہاں یہ وہی ہے تو کہا کہ اس کا وزن ایک آدمی کے ساتھ کرو، تو میں وزن کیا گیا تو اس سے بھاری رہا تو اس نے کہا کہ اس کا وزن دس آدمیوں کے ساتھ کرو، تو میں دس آدمیوں کے ساتھ وزن کیا گیا تو ان سے بھی بھاری رہا، تو اس نے کہا کہ اس کا وزن سو آدمیوں کے ساتھ کرو، تو میں سو آدمیوں کے ساتھ وزن کیا گیا تو پھر بھی ان پر بھاری رہا تو اس نے کہا کہ اس کا وزن ہزار آدمیوں سے کرو۔ تو میں ہزار کے ساتھ وزن کیا گیا مگر پھر بھی میں بھاری رہا گویا کہ میں ان کو دیکھ رہا تھا کہ وہ اپنے پلڑا کے ہلکا پن کی وجہ سے مجھ پر گرتے ہیں تو ایک نے دوسرے کو کہا کہ اگر تو اس کا وزن اس کی امت سے بھی کرے تب بھی یہ اپنی امت سے بھاری رہے گا۔
اس روایت میں واضح ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی نبوت کا یقین اس وقت ہوا جب فرشتے نے آپ کے مقابلہ میں آپ کی امت کا وزن کرنے کا کہا کیونکہ امت نبی کی ہوتی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207

کاظمی: امام زین العابدین اپنے والد ماجد سیدنا حسین سے وہ اپنے والد مکرم حضرت علی سے روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں پیدائش آدم علیہ السلام سے چودہ ہزار سال پہلے اپنے پروردگار کے حضور میں ایک نور تھا (انسان العیون ج:۱، ص:۲۹)
محمدی: اس روایت کا حوالہ بھی کاظمی صاحب نے کسی باسند حدیث کی کتاب سے نہیں دیا، نام رکھ لیا مقالات کاظمی مگر مقالات میں تو تحقیقی کام ہوتا ہے جو یہاں نہیں ہے فقط انسان العیون کا حوالہ کافی نہیں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207

کاظمی: حدیث ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے دریافت کیا آپ کی عمر کتنے سال ہے، عرض کیا کہ حضور اس کے سوا میں کچھ نہیں جانتا کہ چوتھے حجاب عظمت میں ہر ستر ہزار برس کے بعد ایک ستارہ طلوع ہوتا تھا جسے میں اپنی عمر میں ستر ہزار مرتبہ دیکھا، حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ اے جبرائیل میرے رب کی عزت و جلال کی قسم وہ ستارہ میں ہوں۔(انسان العیون ج:۱، ص:۲۹ روح البیان جلد:۳، ص:۵۴۳)
محمدی: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ آخر زمان میں دجال کذاب قسم لے لوگ ہوں گے جو تمہارے (امت مسلمہ کے) پاس وہ احادیث روایات لائیں گے بیان کریں گے جن کو نہ تم نے سنا ہو گا اور نہ تمہارے آبا و اجداد نے سنا ہو گا تم ان سے بچ کے رہنا، تمہیں گمراہ نہ کر دیں اور تمہیں فتنہ میں نہ ڈال دیں۔(مشکوٰۃ ص:۲۸)
یہ بھی فرماتے ہیں کہ آدمی کے جھوٹے ہونے کیلئے یہی بات کافی ہے کہ ہر وہ چیز بیان کرے جو اس نے سنا (یعنی تحقیق نہیں کرتا کہ یہ حدیث صحیح ہے یا ضعیف، سچ ہے یا جھوٹ)۔(مسلم مشکوٰۃ ص:۲۸) حدیث میں ہے: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو آدمی میرے نام سے حدیث بیان کرے جو جھوٹ ہو پس وہ جھوٹوں میں سے ایک جھوٹا ہے(مشکوٰۃ ص:۳۲) ایک حدیث میں ہے کہ جو جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ بولتا ہے تو وہ اپنی جگہ جہنم میں بنا لے(مشکوٰۃ ص:۳۲) ایک اور حدیث میں ہے مجھ سے حدیث بیان کرنے سے بچو مگر وہ جو تم جانتے ہو (کہ یہ حدیث آپ نے فرمائی ہے) کیونکہ جس نے مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ بولا پس وہ اپنی جگہ جہنم میں بنا لے (مشکوٰۃ ص:۳۵) لہٰذا کاظمی صاحب پر لازم تھا کہ وہ اس حدیث پیش کردہ کی صحت کی تحقیق کرتے اور اس کی سند کے راویوں کی توثیق نقل کرتے جب یہ نہیں کیا تو نتیجہ جو سامنے ہے واضح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
روایت: جب نور محمد عبدالمطلب میں منتقل ہوا…
کاظمی صاحب ایسا لکھ کر اپنے عوام کو تو مطمئن کر سکتے ہیں مگر تحقیق پسند آدمی ایسی بات پر مطمئن نہیں ہو سکتا۔
کاظمی صاحب نے ولادت محمدی کا عنوان قائم کیا ہے اور لکھا ہے کہ حافظ ابو سعید نیساپوری، ابوبکر بن ابی مریم سے اور وہ ابو سعید بن عمرو انصاری سے اور وہ اپنے والد ماجد سے ان کے والد ماجد، سیدنا کعب احبار رضی اللہ عنہ سے نقل فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نور مبارک جب حضرت عبد المطلب میں منتقل ہونا اور وہ جوان ہو گئے تو ایک دن حطیم کعبہ الخ۔
محمدی : اول کاظمی صاحب عوام الناس کو کعب احبار کے ساتھ رضی اللہ عنہ لکھ کر یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ کعب احبار صحابی رسول ہیں اور یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کر رہے ہیں حالانکہ یہ کعب احبار صحابی نہیں ہیں تابعی ہیں۔
دوم: اس تابعی سابق یہودی نے آگے کسی صحابی کا نام نہیں لیا گویا اس کی اپنی بات ہے اور موقوف تابعی ہے۔
سوم : یہ تابعی اگرچہ نو مسلم یہودیوں سے سب سے بہتر سمجھے جاتے ہیں اور مسلمان بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ہوئے ہیں (اسماء الرجال مشکوٰۃ ص:۶۱۴) تاہم امام بخاری رحمہ اللہ اس کے کذب کا تجربہ نقل کرتے ہیں (تاریخ صغیر ص:۳۶ مکتبہ اثریہ) اسلام میں اسرائیلیات اور عجیب و غریب حوادث کی روایات کے سرچشمہ یہی ہیں کعب احبار ہیں۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :
کان اھل الکتاب یقرؤن التورات بالعبرانیۃ ویفسرونھا بالعربیۃ لاھل الاسلام فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا تصدقوا اھل الکتاب ولا تکذبوھم وقولوا آمنا باللہ وما انزل الینا الآیۃ۔(رواہ البخاری مشکوٰۃص:۲۸)
اہل کتاب (یہودی لوگ) تورات کو پڑھتے تھے عبرانی زبان میں اور اس کی تفسیر مسلمانوں کیلئے عربی زبان میں کرتے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اہل کتاب کی تصدیق کرو اور نہ ان کی تکذیب کرو اور کہو ہم ایمان لائے اللہ پر اور اس پر جو ہماری طرف اتارا گیا الآیۃ۔
جس کا واضح مطلب ہے کہ یہود کی بتائی ہوئی باتوں پر یقین نہیں کرنا اور نہ ان کی باتوں پر کوئی شرعی مسئلہ کی بنیاد رکھی جائے ۔ چنانچہ ملاعلی قاری اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے آخر میں لکھتے ہیں:
وفیہ اشارۃ الی التوقف فیما اشکل من العلوم والامور۔ مرقات (حاشیہ مشکوٰۃ ص:۲۸)
اور اس حدیث میں اشارہ ہے ان علوم و امور میں توقف کرنے کا جن میں اشکال ہو۔
چہارم: ابوبکر بن ابی مریم باتفاق ضعیف ہے اور اس کا حافظہ کسی گھریلو حادثہ کی بنا پر مختلط بھی ہو گیا تھا۔(تقریب ص:۳۹۶)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207

کاظمی: ابونعیم اور خرائطی اور ابن عساکر نے بطریق عطاء ، سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہا سے روایت کیا کہ جب حضرت عبد المطلب اپنے فرزند جلیل جناب عبد اللہ کو نکاح کرنے کی غرض سے لے کر چلے تو راستہ میں ایک کاہنہ ملی جو یہودیہ ہو گئی تھی اور وہ کتب سابقہ پڑھی ہوئی تھی، اس کو فاطمہ خشعمیہ کہتے تھے، اس نے حضرت عبد اللہ کے چہرے میں نور نبوت چمکتا ہوا دیکھا تو حضرت عبد اللہ کو اپنی طرف بلانے لگی مگر عبد اللہ نے انکار فرمایا (مواھب لدنیہ جلد اول ص:۱۹)
محمدی: ہم نے اس کی تحقیق علامہ سلیمان ندوی کی کتاب کے حوالہ سے پہلے (ہم میلاد کیوں نہیں مناتے) میں لکھ دی ہے وہاں حدیث نمبر:۵ کی تنقید میں پڑھیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207

کاظمی: متاخرین کے نزدیک آزر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد نہیں بلکہ چچا ہیں محاورات عرب میں چچا پر باپ کا اطلاق اکثر ہوتا ہے الخ۔
محمدی: حضرت ابراہیم کے باپ آزر کو باپ حقیقی نہ سمجھنا اور اس سے مراد چچا ہونا، بے ثبوت اور حقائق کے خلاف ہے کیونکہ عربی میں اب کا لفظ باپ اصل کیلئے استعمال ہوتا ہے اور یہ حقیقت ہے اور کبھی مجازا دوسروں کیلئے بھی بولا جاتا ہے جب قرینہ موجود ہو، اور یہاں کوئی قرینہ موجود نہیں ہے اور امام ابن جریر نے کہا صحیح یہ ہے کہ آزر حضرت ابراہیم کے باپ کا نام ہے اور نسابین (نسب بیان کرنے والے) نے جو تارخ نام کہا ہے ہو سکتا ہے کہ اس کے دو نام ہوں (تارخ۔ آزر) جیسا کہ لوگوں کے دو دو نام ہوتے ہیں یا ایک نام ہو اور دوسرا لقب ہو (تفسیر ابن کثیر ج:۲، ص:۱۶۸ انعام: ۷۴) اور جلالین ص:۱۱۸ میں ہے ہو لقبہ واسمہ تارخ کہ ابراہیم علیہ السلام کے باپ کا لقب آزر ہے اور نام تارخ اور حاشیہ میں ہےقولہ اسمہ تارخ …
وقال البخاری فی تاریخہ الکبیر ابراہیم بن آزر وہو فی التورات تارخ فعلی ہذا یکون لابی ابراہیم اسمان آزر وتارخ مثل یعقوب واسرائیل اسمان لرجل واحد فیحتمل ان یکون اسمہ آزر وتارخ لقبہ وبالعکس فاللہ سماہ آزر وان کان عند النسابین و المورخین اسمہ تارخ لیعرف بذلک من الخطیب وعبارۃ الکبیر واما قولہم اجمع النسابون ان اسمہ کان تارخ فنقول ہذا ضعیف لان ذلک الاجماع انما حصل لان بعضہم یقلد بعضا وبالآخر یرجع ذلک الاجماع الی قول الواحد والاثنین مثل قول وھب وکعب ونحوہما وربما تعلقوا بما یجدونہ من اخبار الیہود والنصاری ولا عبرۃ بذلک فی مقابلة ۔ صریح القرآن انتہی
(تعلیقات جدیدہ من التفاسیر المعتبرۃ لحل جلالین ص:۱۱۸) اس کا نام تارخ ہے… اور امام بخاری نے اپنی تاریخ کبیر میں کہا ہے کہ ابراہیم بن آزر اور یہ تورات میں تارخ ہے پس اس بنا پر ابراہیم علیہ السلام کے باپ کے دو نام آزر ، تارخ ہوئے جیسے یعقوب اور اسرائیل دو نام ہیں ایک آمی کے پس احتمال ہے کہ اس کا نام آزر ہو اور تارخ اس کا لقب اور بالعکس (کہ نام تارخ ہو اور لقب آزر ہو) پس اللہ تعالیٰ نے اس کا نام (قرآنِ مجید میں) آزر بیان فرمایا ہے اگرچہ نسب بیان کرنے والوں اور مورخین کے نزدیک اس کا نام تارخ ہے۔ باقی رہا ان کا قول کہ نسابوں نے اجماع کیا ہے کہ اس کا نام تارخ تھا تو ہم کہیں گے کہ یہ قول ضعیف ہے اس لئے کہ یہ اجماع صادر ہوا ہے اس بنا پر کہ بعض نے بعض کی تقلید کی ہے اور بالآخر یہ اجماع ایک قول یا دو قولوں کی طرف لوٹے گا مثل قول وھب وکعب اور ان کی طرح کے اور بسا اوقات اس کا تعلق اخبار یہود و نصاریٰ سے بناتے ہیں جو موجود پاتے ہیں اور قرآن کی تصریح کے مقابلہ ان کی بات کا کوئی اعتبار نہیں ہے انتھی اور مفردات القرآن لراغب ص:۳۰، اردو میں ہے اور آیت کریمہ واذ قال ابراہیم لابیہ آزر۔(۷۳۶) اور وہ وقت بھی یاد کرنے کے لائق ہے جب ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ آزر سے کہا کی تفسیر میں بعض نے کہا کہ حضرت ابراہیم کے باپ کا نام تارخ تھا اور آزر اسی کا معرب ہے اور بعض نے کہا کہ یہ لقب ہے اور ان کی زبان میں آزر کے معنی گمراہ کے ہیں انتھی اور بخاری شریف کی روایت سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کے باپ کانام آزر ہے ۔
عن ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال یلقی ابراہیم اباہ آزر یوم القیمۃ وعلی وجہ آزر قترۃ وغبرۃ فیقول لہ ابراہیم الم اقل لک لا تعصنی فیقول لہ ابوہ فلیوم لا اعصیک فیقول ابراہیم یارب انک وعدتنی ان لا تخزینی یوم یبعثون ، فای خزی اخزی من ابی الابعد الخ ۔(بخاری ص:۴۷۳، ج:۱، مشکوۃ ص:۴۷۵)
کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابراہیم علیہ السلام قیامت کے دن اپنے باپ آزر کو ملیں گے اس حال میں کہ آزر کا چہرہ رنج و غم سے سیاہ ہو گا، تو ابراہیم علیہ السلام اس سے کہیں گے کہ میں تم سے نہیں کہا کرتا تھا کہ تو میری نافرمانی نہ کر۔ ابراہیم علیہ السلام کو ان کا باپ کہے گا کہ آج میں تمہاری نافرمانی نہیں کروں گا، ابراہیم علیہ السلام فرمائیں گے اے پروردگار تو نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ تو مجھ کو اس روز ذلیل و خوار نہ کرے گا جس دن کہ لوگوں کو اٹھایا جائے گا پس اس سے زیادہ اور کون سی رسوائی ہے کہ میرا باپ اللہ کی رحمت سے دور ہے الخ۔ الغرض قرآن و حدیث میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے باپ کا نام آزر بتایا گیا ہے اور قرآن و حدیث میں کسی جگہ آزر کا لفظ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے چچا کیلئے نہیں بولا گیا۔
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین کے دوبارہ زندہ ہونے کی کہانی بے ثبوت اور غلط ہے اور کہانی میں جو کچھ مذکور ہے اس سے الٹا ظاہر یہ ہوتا ہے کہ وہ کفر پر فوت ہوئے تھے ، اگر بقول کاظمی صرف ایمان کی فضیلت ان کو حاصل نہیں ہوئی تھی تو وہ اتنا غمگین نہ ہوتے اور اتنا نہ روتے کیونکہ علامہ نبھانی نے جو نقل کیا ہے وہ یہ ہے :
ورواہ ابو حفص بن شاہین بلفظ قالت عائشۃ رضی اللہ عنھا حج بنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع فمربی علی عقبۃ الحجون وہو باک حزین مغتم فبکیت لبکائہ ثم انہ نزل فقال یا حمیرا استمسکی فاستندت الی جنب البعیر فمکثت ملیاثم عاد الی وہو فرح متبسم فقال ذھبت لقبرامی فسالت ربی ان یحییھا فاحیاھا فآمنت بی الخ (حجۃ اللہ علی اللعالمین فی معجزات سید المرسلین ص:۴۱۲)
ابو حفص بن شاہین نے روایت کیا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے ساتھ حجۃ الوداع ادا فرمایا اور آپ میرے ساتھ عقبہ حجون کی جگہ پر گزرے تو آپ نہایت غمناک ہو کر رونے لگے تو میں بھی آپ کے رونے کی وجہ سے رونے لگ گئی پھر آپ سواری سے اترے اور فرمایا اے حمیرا اس (سواری) کو قابو کر، تو میں اونٹ کے ساتھ ٹیک لگ کر بیٹھ گئی، تھوڑی دیر ہوئی تو آپ میرے پاس تشریف لائے تو تبسم فرما رہے تھے، اور فرمایا کہ میں اپنی والدہ کی قبر پر گیا اور اپنے رب سے سوال کیا کہ یا اللہ اس کو زندہ فرما دے تو اللہ نے زندہ فرما دیا پس وہ مجھ پر ایمان لائی الخ۔
جس سے واضح ہے کہ اتنی غمگینی سوائے ان کے کفر پر ہونے کے فقط فضیلت ایمان حاصل کرنے میں کوئی عقل مند انسان نہیں کہہ سکتا۔
 
Top