یہ اس لئے ہوا ہوگا کہ اہل سنت والجماعت کے لوگ سیرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پرعمل کرتے ہیں کیوں کہ ہم سیرت کی کتابوں پڑھتے ہیں کہ دربار رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں جب یہودی اور نصرانی بھی حاضر ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہیں پتھر نہیں مارا کرتے تھے بلکہ انہیں اسلام کی امن والی دعوت پیش فرماتے اور ان سے اخلاق سے پیش آتے
اب تلبسوا الحق بالباطل کس چڑیا کو کہیں گے کہاوت ہے کہ بات چنا کی اعتراض باجرہ کے ساتھ-
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ سے موازنہ کرنے کے لئے ذرا انکی زندگی کو مندرجہ ذیل پؤانٹ میں تقسیم کرتے ہیں
1۔محمد صلی اللہ علیہ وسلم چالیس سال تک مشرکوں میں رہے توحید کی دوعت نہ دی پس وہ پتھر مارنے کی بجائے آپکو صادق اور امین کہتے تھے
2۔محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مشرکوں کو اصل دین کی دعوت دینی شروع کی تو وہ پتھر مارنے لگے
3۔جب مشرک،یہودی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے تو آپ انکو پتھر نہ مارتے بلکہ خلاق سے پیش آتے
ایک تو آپ کو اوپر والے کسی پؤانٹ پر کوئی اعترض ہے تو بتائیں
اگر اتفاق ہے تو اب انکے اسوہ کے انھی تین پؤانٹس کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی تلبیس ذرا دیکھیں
کسی کے پتھر نہ مارنے والے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ نمبر3 کے مطابق اسوہ رسول پر ہے بلکہ یہ بھی امکان ہو سکتا ہے کہ نمبر1 کے مطابق انکو دعوت ہی نہیں دی گئی تو انھوں نے پتھر نہیں مارے
اب آپکے نام نہاد سنی اور آپ کے اپنے اہل تشیع اگر توحید کی دعوت دینے پر کسی کو بھی پتھر نہیں مارتے تو پھر وہ واقعی آپکی بات کے مطابق نمبر3 میں آتے ہیں مگر اگر وہ کچھ دعوت والوں کو تو نہیں مارتے اور کچھ کو پتھر مارتے ہیں تو پھر تو ان مشرکین کی طرح ہیں جو نمبر 1 کے مطابق نہیں مارتے تھے اور بعد میں توحید کی دعوت دینے پر نمبر3 کے مطابق مارنے لگ گئے جیسا کہ اللہ نے کہا
انھم لا یکذبونک ولکن الظلمین بیات اللہ یجحدون یعنی انکو آپ سے دشمنی نہیں بلکہ توحید کی دعوت سے ہے
اب اگر آپ اوپر والی بحث پر متفق نہیں تو دلائل دیں اگر متفق ہیں تو یہ دیکھتے ہیں کہ آپکے نام نہاد سنی اور شیعہ کیا کسی کو بھی پتھر نہیں مارتے(پتھر مارنے سے مراد رکاوٹیں ڈالنا بھی ہے)
دعوت کے جواب میں کوئیجو دوسرا یہ کہ میں نے دوسرے نقطے کی بات کر کے ثابت کیا تھا کہ حق بات پر پتھر لگتے ہیں جبکہ آپنے جواب میں دوسرے نقطے کی بجائے تیسرے نقطے کی بات کر کے ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ جو پتھر نہیں مارتا وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ پر ہوتا ہےکر کے
دعوت کے لئے کچھ وضاحت کر دوں کہ کسی کے پاس دعوت لے کر جانے پر انکے ردعمل کی مندرجہ ذیل صورتیں ہو سکتی ہیں
1۔دعوت اصل دین کی نہ ہو اور پتھر بھی نہ لگیں
2۔دعوت اصل دین کی نہ ہو مگر پتھر لگیں
3-دعوت اصل دین کی ہو مگر پتھر نہ لگیں
4۔دعوت اصل دین کی ہو اور پتھر بھی لگیں
میرے نزدیک موصوف ڈاکٹر پہلے نمبر کے مطابق ہیں
ویسے ایک مثال سے بھی سمجھاتا چلوں کہ فرض کریں کہ ایک کرپٹ دفتر ہے اس میں کرپٹ افراد کو ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے جبکہ ایماندار اور سچے آدمی کو وہاں دھکے مارے جاتے ہیں اب ایک کرپٹ آدمی اسی دفتر میں آیا تو پہلے سے وہاں موجود ایماندار آدمی نے اس سے کہا کہ چونکہ یہ تو ثابت ہے کہ یہ کرپٹ دفتر ہے پس جب میں نے دیکھا کہ اس میں آپکو دھکے نہیں مارے گئے تو میں کیا سمجھوں----- وہ کرپٹ آدمی کہنے لگا دیکھا انھوں نے مجھے دکھے نہیں مارے پس ثابت ہوا یہ دفتر کرپٹ نہیں ہے کیونکہ انھوں دھکے نہ مار کے اسوہ رسول پر عمل کیا-اس پر ایمان دار آدمی کا سوال ہے کہ پھر مجھے دھکے کیوں مارتے ہیں
حرب بن شداد