• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جرابوں پر مسح جائز ہے یا نہیں؟

شمولیت
مارچ 20، 2018
پیغامات
172
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
64
اس روایت کی سند صحیح ہے، اسے حاکم نیشاپوری رحمہ اللہ اور حافظ ذھبیؒ دونوں نے صحیح کہاہے۔
مسح جراب کی احادیث اور عرب علما

والجَورب كما قال الخليل الفراهيدي : هو لِفافةُ الرَّجلِ . ينظر : "العين" (6/113).
وفي "مواهب الجليل" (1/318) : " الْجَوْرَبُ مَا كَانَ عَلَى شَكْلِ الْخُفِّ مِنْ كَتَّانٍ ، أَوْ قُطْنٍ ، أَوْ غَيْرِ ذَلِكَ " انتهى .
والفرق بين الجورب وبين الخف : أن الخف يكون مصنوعاً من الجلد ، أما الجورب فلا يكون من الجلد ، بل من الصوف أو الكتان ، أو القطن ، ونحو ذلك .
وفي وقتنا الحاضر يصنع الجورب أيضاً من النايلون .

جراب خلیل فراہیدی کے مطابق: پاؤں کے لفافے کو کہتے ہیں۔ "العين" (6/113)
اسی طرح "مواهب الجليل" (1/318) میں ہے کہ:
" موزے کی شکل میں کاٹن، سوت یا کسی اور چیز سے بنے ہوئے پاؤں کے لفافے کو جراب کہتے ہیں"
اس سے جراب اور موزے میں فرق معلوم ہوتا ہے کہ : موزے چمڑے کے بنے ہوتے ہیں جبکہ جرابیں چمڑے کی نہیں ہوتیں بلکہ اون ، سن یا سوت وغیرہ کی بنی ہوتی ہیں۔
اور آج کل نائلون کی جرابیں بھی موجود ہیں۔

لم يصح عن النبي صلى الله عليه وسلم شيء في المسح على الجوربين .
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جرابوں پر مسح کرنے کے بارے میں کوئی روایت ثابت نہیں ہے۔
وأما الحديث الذي رواه الترمذي (99) من طريق أبي قيس عن هُزَيل بن شُرَحبيل عن المُغيرِة بن شُعبة قال: " تَوَضَّأَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَسَحَ عَلَى الْجَوْرَبَيْنِ وَالنَّعْلَيْنِ " .
فهو حديث شاذ ضعيف.
جس روایت کو ترمذی: (99) نے بسند: " أبي قيس عن هُزَيل بن شُرَحبيل عن المُغيرِة بن شُعبة "روایت کیا ہے کہ : "نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور جرابوں سمیت جوتوں پر مسح کیا" تو یہ حدیث شاذ اور ضعیف ہے۔

قال أبو داود في "السنن" (159) : " كَانَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ لَا يُحَدِّثُ بِهَذَا الْحَدِيثِ ؛ لِأَنَّ الْمَعْرُوفَ عَنْ الْمُغِيرَةِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَسَحَ عَلَى الْخُفَّيْنِ ". انتهى
امام ابو داود رحمہ اللہ سنن ابو داود: (159) میں کہتے ہیں کہ:
"عبد الرحمن بن مہدی رحمہ اللہ اس حدیث کو بیان ہی نہیں کیا کرتے تھے؛ کیونکہ مغیرہ بن شعبہ کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مشہور روایت میں صرف موزوں پر مسح کا ذکر ہے"

وقال علي بن المديني : "حَدِيثُ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ فِي الْمَسْحِ ، رَوَاهُ عَنِ الْمُغِيرَةَ : أَهْلُ الْمَدِينَةِ ، وَأَهْلُ الْكُوفَةِ ، وَأَهْلُ الْبَصْرَةِ ، وَرَوَاهُ هُزَيْلُ بْنُ شُرَحْبِيلَ عَنِ الْمُغِيرَةِ إِلَّا أَنَّهُ قَالَ: وَمَسَحَ عَلَى الْجَوْرَبَيْنِ ، وَخَالَفَ النَّاسَ " انتهى من "السنن الكبرى" للبيهقي (1/284).
اسی طرح امام علی بن مدینی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"مسح کے بارے میں مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کو اہل مدینہ، اہل کوفہ، اہل بصرہ نے روایت کیا ہے، لیکن ہزیل بن شرحبیل نے ان سب کی مخالفت کرتے ہوئے مغیرہ بن شعبہ سے اسے روایت کیا اور اس میں جرابوں کا مسح نقل کیا "
"السنن الكبرى" از: بیہقی (1/284)

وَقَالَ الْمُفَضَّلُ بْنُ غَسَّانَ: سَأَلْت يَحْيَى بْنَ مَعِينٍ عَنْ هَذَا الْحَدِيث؟.
فَقَالَ : "النَّاس كُلّهمْ يَرْوُونَهُ على الخفين ، غير أبي قيس".
انتهى من "السنن الكبرى" للبيهقي (1/284).
اسی طرح مفضل بن غسان کہتے ہیں کہ:
"میں نے یحیی بن معین سے اس حدیث کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے کہا: "ابو قیس کے علاوہ تمام راوی موزوں پر مسح کا ذکر کرتے ہیں" انتہی
"السنن الكبرى" از: بیہقی (1/284)

وممن ضعفه أيضاً: سفيان الثوري ، والإمام أحمد ، وابن معين ، ومسلم ، والنسائي ، والعُقيلي ، والدارقطني ، والبيهقي .
نیز اس روایت کو سفیان ثوری، امام احمد، ابن معین، مسلم، نسائی، عقیلی، دارقطنی اور بیہقی نے ضعیف قرار دیا ہے۔

قال النووي : " وَهَؤُلَاءِ هُمْ أَعْلَامُ أَئِمَّةِ الْحَدِيثِ ، وَإِنْ كَانَ التِّرْمِذِيُّ قَالَ: حَدِيثٌ حَسَنٌ ، فهؤلاء مقدمون عليه ، بل كل واحد من هؤلاء لَوْ انْفَرَدَ قُدِّمَ عَلَى التِّرْمِذِيِّ ، بِاتِّفَاقِ أَهْلِ الْمَعْرِفَةِ ".
انتهى من "المجموع شرح المهذب" (1/500).
امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
" امام ترمذی کے قول کہ یہ حدیث حسن ہے ، پر علم حدیث کے ان بلند پایہ ماہرین کی رائے کو ترجیح دی جائے گی، بلکہ اگر ان سب کا اتفاق نہ بھی ہوتا تو ان میں سے ہر ایک کی انفرادی رائے بھی امام ترمذی کی اس بات پر مقدم ہوگی، اس بات پر تمام ماہرین علم حدیث کا اتفاق ہے" "المجموع شرح المهذب" (1/500

وما علینا الالبلاغ
- ابوحنظلہ
 
شمولیت
مارچ 20، 2018
پیغامات
172
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
64
مسح جراب کی احادیث اور عرب علما

والجَورب كما قال الخليل الفراهيدي : هو لِفافةُ الرَّجلِ . ينظر : "العين" (6/113).
وفي "مواهب الجليل" (1/318) : " الْجَوْرَبُ مَا كَانَ عَلَى شَكْلِ الْخُفِّ مِنْ كَتَّانٍ ، أَوْ قُطْنٍ ، أَوْ غَيْرِ ذَلِكَ " انتهى .
والفرق بين الجورب وبين الخف : أن الخف يكون مصنوعاً من الجلد ، أما الجورب فلا يكون من الجلد ، بل من الصوف أو الكتان ، أو القطن ، ونحو ذلك .
وفي وقتنا الحاضر يصنع الجورب أيضاً من النايلون .

جراب خلیل فراہیدی کے مطابق: پاؤں کے لفافے کو کہتے ہیں۔ "العين" (6/113)
اسی طرح "مواهب الجليل" (1/318) میں ہے کہ:
" موزے کی شکل میں کاٹن، سوت یا کسی اور چیز سے بنے ہوئے پاؤں کے لفافے کو جراب کہتے ہیں"
اس سے جراب اور موزے میں فرق معلوم ہوتا ہے کہ : موزے چمڑے کے بنے ہوتے ہیں جبکہ جرابیں چمڑے کی نہیں ہوتیں بلکہ اون ، سن یا سوت وغیرہ کی بنی ہوتی ہیں۔
اور آج کل نائلون کی جرابیں بھی موجود ہیں۔

لم يصح عن النبي صلى الله عليه وسلم شيء في المسح على الجوربين .
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جرابوں پر مسح کرنے کے بارے میں کوئی روایت ثابت نہیں ہے۔
وأما الحديث الذي رواه الترمذي (99) من طريق أبي قيس عن هُزَيل بن شُرَحبيل عن المُغيرِة بن شُعبة قال: " تَوَضَّأَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَسَحَ عَلَى الْجَوْرَبَيْنِ وَالنَّعْلَيْنِ " .
فهو حديث شاذ ضعيف.
جس روایت کو ترمذی: (99) نے بسند: " أبي قيس عن هُزَيل بن شُرَحبيل عن المُغيرِة بن شُعبة "روایت کیا ہے کہ : "نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور جرابوں سمیت جوتوں پر مسح کیا" تو یہ حدیث شاذ اور ضعیف ہے۔

قال أبو داود في "السنن" (159) : " كَانَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ لَا يُحَدِّثُ بِهَذَا الْحَدِيثِ ؛ لِأَنَّ الْمَعْرُوفَ عَنْ الْمُغِيرَةِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَسَحَ عَلَى الْخُفَّيْنِ ". انتهى
امام ابو داود رحمہ اللہ سنن ابو داود: (159) میں کہتے ہیں کہ:
"عبد الرحمن بن مہدی رحمہ اللہ اس حدیث کو بیان ہی نہیں کیا کرتے تھے؛ کیونکہ مغیرہ بن شعبہ کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مشہور روایت میں صرف موزوں پر مسح کا ذکر ہے"

وقال علي بن المديني : "حَدِيثُ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ فِي الْمَسْحِ ، رَوَاهُ عَنِ الْمُغِيرَةَ : أَهْلُ الْمَدِينَةِ ، وَأَهْلُ الْكُوفَةِ ، وَأَهْلُ الْبَصْرَةِ ، وَرَوَاهُ هُزَيْلُ بْنُ شُرَحْبِيلَ عَنِ الْمُغِيرَةِ إِلَّا أَنَّهُ قَالَ: وَمَسَحَ عَلَى الْجَوْرَبَيْنِ ، وَخَالَفَ النَّاسَ " انتهى من "السنن الكبرى" للبيهقي (1/284).
اسی طرح امام علی بن مدینی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"مسح کے بارے میں مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کو اہل مدینہ، اہل کوفہ، اہل بصرہ نے روایت کیا ہے، لیکن ہزیل بن شرحبیل نے ان سب کی مخالفت کرتے ہوئے مغیرہ بن شعبہ سے اسے روایت کیا اور اس میں جرابوں کا مسح نقل کیا "
"السنن الكبرى" از: بیہقی (1/284)

وَقَالَ الْمُفَضَّلُ بْنُ غَسَّانَ: سَأَلْت يَحْيَى بْنَ مَعِينٍ عَنْ هَذَا الْحَدِيث؟.
فَقَالَ : "النَّاس كُلّهمْ يَرْوُونَهُ على الخفين ، غير أبي قيس".
انتهى من "السنن الكبرى" للبيهقي (1/284).
اسی طرح مفضل بن غسان کہتے ہیں کہ:
"میں نے یحیی بن معین سے اس حدیث کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے کہا: "ابو قیس کے علاوہ تمام راوی موزوں پر مسح کا ذکر کرتے ہیں" انتہی
"السنن الكبرى" از: بیہقی (1/284)

وممن ضعفه أيضاً: سفيان الثوري ، والإمام أحمد ، وابن معين ، ومسلم ، والنسائي ، والعُقيلي ، والدارقطني ، والبيهقي .
نیز اس روایت کو سفیان ثوری، امام احمد، ابن معین، مسلم، نسائی، عقیلی، دارقطنی اور بیہقی نے ضعیف قرار دیا ہے۔

قال النووي : " وَهَؤُلَاءِ هُمْ أَعْلَامُ أَئِمَّةِ الْحَدِيثِ ، وَإِنْ كَانَ التِّرْمِذِيُّ قَالَ: حَدِيثٌ حَسَنٌ ، فهؤلاء مقدمون عليه ، بل كل واحد من هؤلاء لَوْ انْفَرَدَ قُدِّمَ عَلَى التِّرْمِذِيِّ ، بِاتِّفَاقِ أَهْلِ الْمَعْرِفَةِ ".
انتهى من "المجموع شرح المهذب" (1/500).
امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
" امام ترمذی کے قول کہ یہ حدیث حسن ہے ، پر علم حدیث کے ان بلند پایہ ماہرین کی رائے کو ترجیح دی جائے گی، بلکہ اگر ان سب کا اتفاق نہ بھی ہوتا تو ان میں سے ہر ایک کی انفرادی رائے بھی امام ترمذی کی اس بات پر مقدم ہوگی، اس بات پر تمام ماہرین علم حدیث کا اتفاق ہے" "المجموع شرح المهذب" (1/500

وما علینا الالبلاغ
- ابوحنظلہ
 
شمولیت
مارچ 20، 2018
پیغامات
172
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
64
مسح جراب کی احادیث اور عرب علما

والجَورب كما قال الخليل الفراهيدي : هو لِفافةُ الرَّجلِ . ينظر : "العين" (6/113).
وفي "مواهب الجليل" (1/318) : " الْجَوْرَبُ مَا كَانَ عَلَى شَكْلِ الْخُفِّ مِنْ كَتَّانٍ ، أَوْ قُطْنٍ ، أَوْ غَيْرِ ذَلِكَ " انتهى .
والفرق بين الجورب وبين الخف : أن الخف يكون مصنوعاً من الجلد ، أما الجورب فلا يكون من الجلد ، بل من الصوف أو الكتان ، أو القطن ، ونحو ذلك .
وفي وقتنا الحاضر يصنع الجورب أيضاً من النايلون .

جراب خلیل فراہیدی کے مطابق: پاؤں کے لفافے کو کہتے ہیں۔ "العين" (6/113)
اسی طرح "مواهب الجليل" (1/318) میں ہے کہ:
" موزے کی شکل میں کاٹن، سوت یا کسی اور چیز سے بنے ہوئے پاؤں کے لفافے کو جراب کہتے ہیں"
اس سے جراب اور موزے میں فرق معلوم ہوتا ہے کہ : موزے چمڑے کے بنے ہوتے ہیں جبکہ جرابیں چمڑے کی نہیں ہوتیں بلکہ اون ، سن یا سوت وغیرہ کی بنی ہوتی ہیں۔
اور آج کل نائلون کی جرابیں بھی موجود ہیں۔

لم يصح عن النبي صلى الله عليه وسلم شيء في المسح على الجوربين .
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جرابوں پر مسح کرنے کے بارے میں کوئی روایت ثابت نہیں ہے۔
وأما الحديث الذي رواه الترمذي (99) من طريق أبي قيس عن هُزَيل بن شُرَحبيل عن المُغيرِة بن شُعبة قال: " تَوَضَّأَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَسَحَ عَلَى الْجَوْرَبَيْنِ وَالنَّعْلَيْنِ " .
فهو حديث شاذ ضعيف.
جس روایت کو ترمذی: (99) نے بسند: " أبي قيس عن هُزَيل بن شُرَحبيل عن المُغيرِة بن شُعبة "روایت کیا ہے کہ : "نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور جرابوں سمیت جوتوں پر مسح کیا" تو یہ حدیث شاذ اور ضعیف ہے۔

قال أبو داود في "السنن" (159) : " كَانَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ لَا يُحَدِّثُ بِهَذَا الْحَدِيثِ ؛ لِأَنَّ الْمَعْرُوفَ عَنْ الْمُغِيرَةِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَسَحَ عَلَى الْخُفَّيْنِ ". انتهى
امام ابو داود رحمہ اللہ سنن ابو داود: (159) میں کہتے ہیں کہ:
"عبد الرحمن بن مہدی رحمہ اللہ اس حدیث کو بیان ہی نہیں کیا کرتے تھے؛ کیونکہ مغیرہ بن شعبہ کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مشہور روایت میں صرف موزوں پر مسح کا ذکر ہے"

وقال علي بن المديني : "حَدِيثُ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ فِي الْمَسْحِ ، رَوَاهُ عَنِ الْمُغِيرَةَ : أَهْلُ الْمَدِينَةِ ، وَأَهْلُ الْكُوفَةِ ، وَأَهْلُ الْبَصْرَةِ ، وَرَوَاهُ هُزَيْلُ بْنُ شُرَحْبِيلَ عَنِ الْمُغِيرَةِ إِلَّا أَنَّهُ قَالَ: وَمَسَحَ عَلَى الْجَوْرَبَيْنِ ، وَخَالَفَ النَّاسَ " انتهى من "السنن الكبرى" للبيهقي (1/284).
اسی طرح امام علی بن مدینی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"مسح کے بارے میں مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کو اہل مدینہ، اہل کوفہ، اہل بصرہ نے روایت کیا ہے، لیکن ہزیل بن شرحبیل نے ان سب کی مخالفت کرتے ہوئے مغیرہ بن شعبہ سے اسے روایت کیا اور اس میں جرابوں کا مسح نقل کیا "
"السنن الكبرى" از: بیہقی (1/284)

وَقَالَ الْمُفَضَّلُ بْنُ غَسَّانَ: سَأَلْت يَحْيَى بْنَ مَعِينٍ عَنْ هَذَا الْحَدِيث؟.
فَقَالَ : "النَّاس كُلّهمْ يَرْوُونَهُ على الخفين ، غير أبي قيس".
انتهى من "السنن الكبرى" للبيهقي (1/284).
اسی طرح مفضل بن غسان کہتے ہیں کہ:
"میں نے یحیی بن معین سے اس حدیث کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے کہا: "ابو قیس کے علاوہ تمام راوی موزوں پر مسح کا ذکر کرتے ہیں" انتہی
"السنن الكبرى" از: بیہقی (1/284)

وممن ضعفه أيضاً: سفيان الثوري ، والإمام أحمد ، وابن معين ، ومسلم ، والنسائي ، والعُقيلي ، والدارقطني ، والبيهقي .
نیز اس روایت کو سفیان ثوری، امام احمد، ابن معین، مسلم، نسائی، عقیلی، دارقطنی اور بیہقی نے ضعیف قرار دیا ہے۔

قال النووي : " وَهَؤُلَاءِ هُمْ أَعْلَامُ أَئِمَّةِ الْحَدِيثِ ، وَإِنْ كَانَ التِّرْمِذِيُّ قَالَ: حَدِيثٌ حَسَنٌ ، فهؤلاء مقدمون عليه ، بل كل واحد من هؤلاء لَوْ انْفَرَدَ قُدِّمَ عَلَى التِّرْمِذِيِّ ، بِاتِّفَاقِ أَهْلِ الْمَعْرِفَةِ ".
انتهى من "المجموع شرح المهذب" (1/500).
امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
" امام ترمذی کے قول کہ یہ حدیث حسن ہے ، پر علم حدیث کے ان بلند پایہ ماہرین کی رائے کو ترجیح دی جائے گی، بلکہ اگر ان سب کا اتفاق نہ بھی ہوتا تو ان میں سے ہر ایک کی انفرادی رائے بھی امام ترمذی کی اس بات پر مقدم ہوگی، اس بات پر تمام ماہرین علم حدیث کا اتفاق ہے" "المجموع شرح المهذب" (1/500

وما علینا الالبلاغ
- ابوحنظلہ
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
مسح جراب کی احادیث اور عرب علما

والجَورب كما قال الخليل الفراهيدي : هو لِفافةُ الرَّجلِ . ينظر : "العين" (6/113).
وفي "مواهب الجليل" (1/318) : " الْجَوْرَبُ مَا كَانَ عَلَى شَكْلِ الْخُفِّ مِنْ كَتَّانٍ ، أَوْ قُطْنٍ ، أَوْ غَيْرِ ذَلِكَ " انتهى .
والفرق بين الجورب وبين الخف : أن الخف يكون مصنوعاً من الجلد ، أما الجورب فلا يكون من الجلد ، بل من الصوف أو الكتان ، أو القطن ، ونحو ذلك .
وفي وقتنا الحاضر يصنع الجورب أيضاً من النايلون .

جراب خلیل فراہیدی کے مطابق: پاؤں کے لفافے کو کہتے ہیں۔ "العين" (6/113)
اسی طرح "مواهب الجليل" (1/318) میں ہے کہ:
" موزے کی شکل میں کاٹن، سوت یا کسی اور چیز سے بنے ہوئے پاؤں کے لفافے کو جراب کہتے ہیں"
اس سے جراب اور موزے میں فرق معلوم ہوتا ہے کہ : موزے چمڑے کے بنے ہوتے ہیں جبکہ جرابیں چمڑے کی نہیں ہوتیں بلکہ اون ، سن یا سوت وغیرہ کی بنی ہوتی ہیں۔
اور آج کل نائلون کی جرابیں بھی موجود ہیں۔

لم يصح عن النبي صلى الله عليه وسلم شيء في المسح على الجوربين .
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جرابوں پر مسح کرنے کے بارے میں کوئی روایت ثابت نہیں ہے۔
وأما الحديث الذي رواه الترمذي (99) من طريق أبي قيس عن هُزَيل بن شُرَحبيل عن المُغيرِة بن شُعبة قال: " تَوَضَّأَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَسَحَ عَلَى الْجَوْرَبَيْنِ وَالنَّعْلَيْنِ " .
فهو حديث شاذ ضعيف.
جس روایت کو ترمذی: (99) نے بسند: " أبي قيس عن هُزَيل بن شُرَحبيل عن المُغيرِة بن شُعبة "روایت کیا ہے کہ : "نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور جرابوں سمیت جوتوں پر مسح کیا" تو یہ حدیث شاذ اور ضعیف ہے۔

قال أبو داود في "السنن" (159) : " كَانَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ لَا يُحَدِّثُ بِهَذَا الْحَدِيثِ ؛ لِأَنَّ الْمَعْرُوفَ عَنْ الْمُغِيرَةِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَسَحَ عَلَى الْخُفَّيْنِ ". انتهى
امام ابو داود رحمہ اللہ سنن ابو داود: (159) میں کہتے ہیں کہ:
"عبد الرحمن بن مہدی رحمہ اللہ اس حدیث کو بیان ہی نہیں کیا کرتے تھے؛ کیونکہ مغیرہ بن شعبہ کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مشہور روایت میں صرف موزوں پر مسح کا ذکر ہے"

وقال علي بن المديني : "حَدِيثُ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ فِي الْمَسْحِ ، رَوَاهُ عَنِ الْمُغِيرَةَ : أَهْلُ الْمَدِينَةِ ، وَأَهْلُ الْكُوفَةِ ، وَأَهْلُ الْبَصْرَةِ ، وَرَوَاهُ هُزَيْلُ بْنُ شُرَحْبِيلَ عَنِ الْمُغِيرَةِ إِلَّا أَنَّهُ قَالَ: وَمَسَحَ عَلَى الْجَوْرَبَيْنِ ، وَخَالَفَ النَّاسَ " انتهى من "السنن الكبرى" للبيهقي (1/284).
اسی طرح امام علی بن مدینی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"مسح کے بارے میں مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کو اہل مدینہ، اہل کوفہ، اہل بصرہ نے روایت کیا ہے، لیکن ہزیل بن شرحبیل نے ان سب کی مخالفت کرتے ہوئے مغیرہ بن شعبہ سے اسے روایت کیا اور اس میں جرابوں کا مسح نقل کیا "
"السنن الكبرى" از: بیہقی (1/284)

وَقَالَ الْمُفَضَّلُ بْنُ غَسَّانَ: سَأَلْت يَحْيَى بْنَ مَعِينٍ عَنْ هَذَا الْحَدِيث؟.
فَقَالَ : "النَّاس كُلّهمْ يَرْوُونَهُ على الخفين ، غير أبي قيس".
انتهى من "السنن الكبرى" للبيهقي (1/284).
اسی طرح مفضل بن غسان کہتے ہیں کہ:
"میں نے یحیی بن معین سے اس حدیث کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے کہا: "ابو قیس کے علاوہ تمام راوی موزوں پر مسح کا ذکر کرتے ہیں" انتہی
"السنن الكبرى" از: بیہقی (1/284)

وممن ضعفه أيضاً: سفيان الثوري ، والإمام أحمد ، وابن معين ، ومسلم ، والنسائي ، والعُقيلي ، والدارقطني ، والبيهقي .
نیز اس روایت کو سفیان ثوری، امام احمد، ابن معین، مسلم، نسائی، عقیلی، دارقطنی اور بیہقی نے ضعیف قرار دیا ہے۔

قال النووي : " وَهَؤُلَاءِ هُمْ أَعْلَامُ أَئِمَّةِ الْحَدِيثِ ، وَإِنْ كَانَ التِّرْمِذِيُّ قَالَ: حَدِيثٌ حَسَنٌ ، فهؤلاء مقدمون عليه ، بل كل واحد من هؤلاء لَوْ انْفَرَدَ قُدِّمَ عَلَى التِّرْمِذِيِّ ، بِاتِّفَاقِ أَهْلِ الْمَعْرِفَةِ ".
انتهى من "المجموع شرح المهذب" (1/500).
امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
" امام ترمذی کے قول کہ یہ حدیث حسن ہے ، پر علم حدیث کے ان بلند پایہ ماہرین کی رائے کو ترجیح دی جائے گی، بلکہ اگر ان سب کا اتفاق نہ بھی ہوتا تو ان میں سے ہر ایک کی انفرادی رائے بھی امام ترمذی کی اس بات پر مقدم ہوگی، اس بات پر تمام ماہرین علم حدیث کا اتفاق ہے" "المجموع شرح المهذب" (1/500

وما علینا الالبلاغ
- ابوحنظلہ
مسح جراب کی احادیث اور عرب علما

والجَورب كما قال الخليل الفراهيدي : هو لِفافةُ الرَّجلِ . ينظر : "العين" (6/113).
وفي "مواهب الجليل" (1/318) : " الْجَوْرَبُ مَا كَانَ عَلَى شَكْلِ الْخُفِّ مِنْ كَتَّانٍ ، أَوْ قُطْنٍ ، أَوْ غَيْرِ ذَلِكَ " انتهى .
والفرق بين الجورب وبين الخف : أن الخف يكون مصنوعاً من الجلد ، أما الجورب فلا يكون من الجلد ، بل من الصوف أو الكتان ، أو القطن ، ونحو ذلك .
وفي وقتنا الحاضر يصنع الجورب أيضاً من النايلون .

جراب خلیل فراہیدی کے مطابق: پاؤں کے لفافے کو کہتے ہیں۔ "العين" (6/113)
اسی طرح "مواهب الجليل" (1/318) میں ہے کہ:
" موزے کی شکل میں کاٹن، سوت یا کسی اور چیز سے بنے ہوئے پاؤں کے لفافے کو جراب کہتے ہیں"
اس سے جراب اور موزے میں فرق معلوم ہوتا ہے کہ : موزے چمڑے کے بنے ہوتے ہیں جبکہ جرابیں چمڑے کی نہیں ہوتیں بلکہ اون ، سن یا سوت وغیرہ کی بنی ہوتی ہیں۔
اور آج کل نائلون کی جرابیں بھی موجود ہیں۔

لم يصح عن النبي صلى الله عليه وسلم شيء في المسح على الجوربين .
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جرابوں پر مسح کرنے کے بارے میں کوئی روایت ثابت نہیں ہے۔
وأما الحديث الذي رواه الترمذي (99) من طريق أبي قيس عن هُزَيل بن شُرَحبيل عن المُغيرِة بن شُعبة قال: " تَوَضَّأَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَسَحَ عَلَى الْجَوْرَبَيْنِ وَالنَّعْلَيْنِ " .
فهو حديث شاذ ضعيف.
جس روایت کو ترمذی: (99) نے بسند: " أبي قيس عن هُزَيل بن شُرَحبيل عن المُغيرِة بن شُعبة "روایت کیا ہے کہ : "نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور جرابوں سمیت جوتوں پر مسح کیا" تو یہ حدیث شاذ اور ضعیف ہے۔

قال أبو داود في "السنن" (159) : " كَانَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ لَا يُحَدِّثُ بِهَذَا الْحَدِيثِ ؛ لِأَنَّ الْمَعْرُوفَ عَنْ الْمُغِيرَةِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَسَحَ عَلَى الْخُفَّيْنِ ". انتهى
امام ابو داود رحمہ اللہ سنن ابو داود: (159) میں کہتے ہیں کہ:
"عبد الرحمن بن مہدی رحمہ اللہ اس حدیث کو بیان ہی نہیں کیا کرتے تھے؛ کیونکہ مغیرہ بن شعبہ کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مشہور روایت میں صرف موزوں پر مسح کا ذکر ہے"

وقال علي بن المديني : "حَدِيثُ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ فِي الْمَسْحِ ، رَوَاهُ عَنِ الْمُغِيرَةَ : أَهْلُ الْمَدِينَةِ ، وَأَهْلُ الْكُوفَةِ ، وَأَهْلُ الْبَصْرَةِ ، وَرَوَاهُ هُزَيْلُ بْنُ شُرَحْبِيلَ عَنِ الْمُغِيرَةِ إِلَّا أَنَّهُ قَالَ: وَمَسَحَ عَلَى الْجَوْرَبَيْنِ ، وَخَالَفَ النَّاسَ " انتهى من "السنن الكبرى" للبيهقي (1/284).
اسی طرح امام علی بن مدینی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"مسح کے بارے میں مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کو اہل مدینہ، اہل کوفہ، اہل بصرہ نے روایت کیا ہے، لیکن ہزیل بن شرحبیل نے ان سب کی مخالفت کرتے ہوئے مغیرہ بن شعبہ سے اسے روایت کیا اور اس میں جرابوں کا مسح نقل کیا "
"السنن الكبرى" از: بیہقی (1/284)

وَقَالَ الْمُفَضَّلُ بْنُ غَسَّانَ: سَأَلْت يَحْيَى بْنَ مَعِينٍ عَنْ هَذَا الْحَدِيث؟.
فَقَالَ : "النَّاس كُلّهمْ يَرْوُونَهُ على الخفين ، غير أبي قيس".
انتهى من "السنن الكبرى" للبيهقي (1/284).
اسی طرح مفضل بن غسان کہتے ہیں کہ:
"میں نے یحیی بن معین سے اس حدیث کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے کہا: "ابو قیس کے علاوہ تمام راوی موزوں پر مسح کا ذکر کرتے ہیں" انتہی
"السنن الكبرى" از: بیہقی (1/284)

وممن ضعفه أيضاً: سفيان الثوري ، والإمام أحمد ، وابن معين ، ومسلم ، والنسائي ، والعُقيلي ، والدارقطني ، والبيهقي .
نیز اس روایت کو سفیان ثوری، امام احمد، ابن معین، مسلم، نسائی، عقیلی، دارقطنی اور بیہقی نے ضعیف قرار دیا ہے۔

قال النووي : " وَهَؤُلَاءِ هُمْ أَعْلَامُ أَئِمَّةِ الْحَدِيثِ ، وَإِنْ كَانَ التِّرْمِذِيُّ قَالَ: حَدِيثٌ حَسَنٌ ، فهؤلاء مقدمون عليه ، بل كل واحد من هؤلاء لَوْ انْفَرَدَ قُدِّمَ عَلَى التِّرْمِذِيِّ ، بِاتِّفَاقِ أَهْلِ الْمَعْرِفَةِ ".
انتهى من "المجموع شرح المهذب" (1/500).
امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
" امام ترمذی کے قول کہ یہ حدیث حسن ہے ، پر علم حدیث کے ان بلند پایہ ماہرین کی رائے کو ترجیح دی جائے گی، بلکہ اگر ان سب کا اتفاق نہ بھی ہوتا تو ان میں سے ہر ایک کی انفرادی رائے بھی امام ترمذی کی اس بات پر مقدم ہوگی، اس بات پر تمام ماہرین علم حدیث کا اتفاق ہے" "المجموع شرح المهذب" (1/500

وما علینا الالبلاغ
- ابوحنظلہ
جہاں سے کاپی کیا کم از کم اپنا نام لکھنے کے بجائے اسکی طرف احالہ کر دیتے۔ لیکن آپ نے دو انتہائی غلط حرکت کی۔ ایک تو کاپی کرکے اپنا نام لکھ دیا اور شاید اس کو اپنی کاوش قرار دینے کی کوشش کی۔ دوسری غلط (بلکہ گھٹیا) حرکت یہ کی کہ آپ نے وہاں سے آدھی بات لی اور آدھی چھوڑ دی۔ آپ نے جہاں سے کاپی کیا ہے وہیں یہ بھی موجود ہے:
لیکن جرابوں پر مسح کرنا صحابہ کرام سے ثابت ہے۔
پورا فتوی پڑھیں۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
یہ صاحب موجودہ عرب علماء کو پیش کرکے دل خوش کر رہے ہیں ،
جبکہ اپنی موت سے قبل
امام ابو حنیفہ کا آخری موقف بھی جرابوں پر مسح کے جواز کا تھا
امام ترمذیؒ ان کا جدید موقف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
سَمِعْت صَالِحَ بْنَ مُحَمَّدٍ التِّرْمِذِيَّ قَال: سَمِعْتُ أَبَا مُقَاتِلٍ السَّمَرْقَنْدِيَّ، يَقُولُ: ( دَخَلْتُ عَلَى أَبِي حَنِيفَةَ فِي مَرَضِهِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ، فَدَعَا بِمَاءٍ فَتَوَضَّأَ وَعَلَيْهِ جَوْرَبَانِ، فَمَسْحَ عَلَيْهِمَا، ثُمَّ قَالَ: (( فَعَلْتُ الْيَوْمَ شَيْئًا لَمْ أَكُنْ أَفْعَلُهُ، مَسَحْتُ عَلَى الْجَوْرَبَيْنِ وَهُمَا غَيْرُ مُنَعَّلَيْنِ )) )
("الجامع" للترمذي [ج1/ص: 167) تحقيق و تعليق شيخ احمد شاكر
’’میں نے صالح بن محمد سنا وہ کہتے ہیں میں نے میں ابو مقاتل سمرقندی سے سنا وہ کہتے ہیں کہ میں جس بیماری میں امام ابوحنیفہ صاحب کی وفات ہوئی تھی اس بیماری کے ایام میں میرا امام صاحب کے ہاں جانا ہوا تو انھوں نے پانی منگوایا اور انھوں نے جرابیں پہنے ہوئے وضو کیا پس آپ ان پر مسح کیا پھر فرمایا: میں نے آج ایسا کام کیا ہے جو میں اس سے پہلے نہیں کرتا تھا یعنی میں نے جورابوں پر مسح کیا ہے حالاں کہ جورابوں کے نیچے چمڑا نہیں لگا تھا‘‘
https://archive.org/stream/waq4822/suntrmsh1#page/n167/mode/2up
ـــــــــــــــــــــــــــــــــ
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
المسح علی الجوربین ، جرابوں پر مسح کے بارے میں علمی بحث
لعہ


زمانہ جس قدر خیرالقرون سے دور ہوتا جارہا ہے، اتنا ہی فتنوں کی تعداد اور افزائش میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ہر روزایک نیا فتنہ سر اٹھاتا ہے اور عوام الناس کو اپنے نئے اعتقاد ،افکار اور اعمال کی طرف دعوت دیتاہے۔ اپنی خواہشات نفسانی کے پیش نظر قرآن وسنت کی وہ تشریح کرتا ہے جو ان کے خود ساختہ مذہب واعمال کے مطابق ہو۔عوام چونکہ ان کے مکروفریب سے ناواقف ہوتے ہیں ۔لہذا ان کے دام میں پھنس جاتے ہیں اور بعض اوقات اپنے ایمان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ۔انہی فتنوں میں ایک تقلید کا فتنہ ہے،جس نے لوگوں کے اذہان کو جامد کر کے رکھ دیا ہے۔موزوں پر مسح کرنے کے بارے میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں ہے جبکہ جرابوں پر مسح کرنے کے حوالے سے اہل علم کے ہاں دو مختلف رائے پائی جاتی ہیں۔اس اختلاف کاسبب فقہا میں یہ رہا ہے کہ بعض فقہا کے نزدیک وہ روایت جس میں جرابوں پر مسح کا ذکر ہوا ہے، اتنی قوی نہیں ہے یا ان تک وہ روایت نہیں پہنچی ہے۔ چنانچہ یہ استدلال کیا گیا ہے کہ صرف انہی جرابوں پر مسح کیا جا سکتا ہے جن میں نمی اندر نہ جا سکتی ہو۔ ہمارے نزدیک چمڑا ہو یا کپڑا مسح کی اجازت رخصت کے اصول پر مبنی ہے۔ جرابوں کی ساخت کی نوعیت اس رخصت کا سبب نہیں ہے۔ رخصت کاسبب رفعِ زحمت ہے۔ جس اصول پر اللہ تعالیٰ نے پانی کی عدم دستیابی یا بیماری کے باعث اس بات کی اجازت دی ہے کہ لوگ تیمم کر لیں، اسی اصول پر قیاس کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کی حالت میں جرابیں پہنی ہوں تو پاؤں پر مسح کرنے کی اجازت دی ہے۔ اصول اگر رخصت، یعنی رفعِ زحمت ہے تو اس شرط کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ یہ جرابیں چمڑے کی بنی ہوئی ہوں۔ زیر تبصرہ کتاب" المسح علی الجوربین ،جرابوں پر مسح کے بارے میں ایک علمی بحث"علامہ جمال الدین قاسمیؒ کی عربی تصنیف ہے ،جس کا اردو ترجمہ محترم مولانا محمد عبدہ الفلاح صاحب﷫ نے کیا ہے۔جبکہ تحقیق اور حواشی حافظ احمد شاکر ؒاور امام البانی ؒکے ہیں۔مولف موصوف نے اس کتاب میں متعدد دلائل سے یہ ثابت کیا ہے کہ جرابوں پر مسح کرنا بھی اسی طرح درست ہے جس طرح موزوں پر مسح کرنا ثابت ہے۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف کی اس کاوش کو قبول فرمائے اوران کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ
)
 
شمولیت
مارچ 20، 2018
پیغامات
172
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
64
آپ نے دو انتہائی غلط حرکت کی۔
علمی گفتگو میں یہ طرز تکلم غیر مناسب ہے۔ دوسرے کو بھی مشتعل کر کے جھگڑے کی طرف لے جانے والا ہے فرقہ واریت کو فروغ دیتا ہے اور بے دین طبقے کو دینداروں پر ہنسنے اور دین سے مزید دور کرنے میں تقویت دیتا ہے اور اسلام میں حرام ہے۔ عین ممکن ہو کہ آخر میں بات یہ نکلے کہ آپ کو خو ہی غلط فہمی ہو گئی تھی بات یہ نہیں تھی۔
 
شمولیت
مارچ 20، 2018
پیغامات
172
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
64
دوسری غلط (بلکہ گھٹیا) حرکت یہ کی کہ آپ نے وہاں سے آدھی بات لی اور آدھی چھوڑ دی
ایک دفعہ پھر عرض کروں گا کہ دینی اور علمی گفتگو میں تہذیب اور اخلاق کا دامن کبھی ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہئے۔ اخلاق سے گرے الفاظ وہ استعمال کرتے ہیں جن کے ہاس دلائل کمزور ہوں اور وہ ان کی کمی قوت بیان اور طرز تخاطب سے پوری کرنا چاہتے ہیں۔
دوسرا عنوان پڑھئے جس کاُمطلب ہے کہ جرابوں پر مسح کی احادیث کے متعلق عرب علما کی تحقیق کیا ہے! چونکہ اوپر سلفی بھائی نے احادیث سے مسح جوربین ثابت کرنے کی کوشش کی تھی اس لئے میں نے ان احادیث پر اپنی تحقیق پیش کرنے کی بجائے عرب حنبلی علما کی تحقیق پیش کی ہے۔ انہوں نے ان احادیث سے استدلال ہر گز نہیں لیا جس سے آپ لینے کی کوشش فرما رہے ہیں۔ اگر آپ جرابوں پر مسح ثابت کرنا چاہتے ہیں تو ضعیف روایات کا سہارا نا لیں بلکہ جہاں سے عرب علما نے استدلال لیا ہے وہی پیش کریں اور اسی پر علمی مکالمہ کریں۔
 
شمولیت
مارچ 20، 2018
پیغامات
172
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
64
جرابوں پر مسح کرنا صحابہ کرام سے ثابت ہے۔پورا فتوی پڑھیں۔
اگر جرابوں ہر مسح “صحابہ اکرام“ سے ثابت ہے تو صحابہ کے اقوال و آثار کو ہی پیش فرمائیں ضعیف روایات کا سہارا کیوں لیتے ہیں؟
دوسرا ہم کسی کے فتوے کے مقلد نہیں قرآن حدیث کے متبع ہیں۔ اگر یہ فتوی قرآن و حدیث سے ثابت ہوگا تو لیں گے ورنہ رد کر دیں گے۔ محدثین کی اہمیت صرف روایات کے سحیح اور ضعیف ہونے کے تعین میں ہے جہاں تک ان روایات میں ترجیح اور معنی و مفہوم کے تعین کا تعلق ہے تو اس میں خیرالقرون کےفقہا کی طرف رجوع کیا جائیگا۔ آجکل کے لوگوں کی تحقیق کا اعتبار نہیں کیا جائیگا۔ اور جس کی رائے اقرب من قرآن و سنہ اور زیادہ صائب ہو گی اس کو اختیار کیا جائیگا۔ یہی اہلحدیث کا منہج ہے۔
 
Top