حضرت نتیجہ نکالنے میں اتنی جلدی نا فرمائیں ابھی بات چل رہی ہے ہو سکتا ہے آخر میں آپ ہی کی غلطی نکل آئے۔ زعم سے نہیں دلائل سے چلیں۔ جزاک اللہیہ صاحب موجودہ عرب علماء کو پیش کرکے دل خوش کر رہے ہیں ،
حضرت نتیجہ نکالنے میں اتنی جلدی نا فرمائیں ابھی بات چل رہی ہے ہو سکتا ہے آخر میں آپ ہی کی غلطی نکل آئے۔ زعم سے نہیں دلائل سے چلیں۔ جزاک اللہیہ صاحب موجودہ عرب علماء کو پیش کرکے دل خوش کر رہے ہیں ،
اس روایت کا ترجمہ غلط کیا گیا ہے۔حالاں کہ جورابوں کے نیچے چمڑا نہیں لگا تھا‘‘
امام ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ کی اس روایت کو امام ترمذی بیان کر رہے ہیں جس کی سند اور تخریج اور متن سارے ہی محتاج وضاحت و تحقیق ہیں۔ یعنی اس روایت کی پوری سند کیا ہے اس سند کادرجہ کیا ہے اور روائت میں بیان کردہ اصطلاحات کی کیفیات کیا ہیں ۔ اور اس قول کی فقہ کی کتب میں نا ہونے کی وجوہات کیا ہیں حالانکہ وہاں تو امام ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ کے غیر مفتی بہ اقوال بھی نقل کئے گئے ہیں۔وغیرہامام ابو حنیفہ کا آخری موقف بھی جرابوں پر مسح کے جواز کا تھا
سب کچھ دیکھ کر ہی میں نے لکھا تھا لیکن شاید آپ دیکھتے نہیںاس مضمون کا عنوان پڑھیں۔ کس کے حوالے سے لکھا گیا ہے؟
میر القرون کے تین پہلو ہیںزمانہ جس قدر خیرالقرون سے دور ہوتا جارہا ہے، ا
استغفر اللہ من ذلک!علمی گفتگو میں یہ طرز تکلم غیر مناسب ہے۔ دوسرے کو بھی مشتعل کر کے جھگڑے کی طرف لے جانے والا ہے فرقہ واریت کو فروغ دیتا ہے اور بے دین طبقے کو دینداروں پر ہنسنے اور دین سے مزید دور کرنے میں تقویت دیتا ہے اور اسلام میں حرام ہے۔ عین ممکن ہو کہ آخر میں بات یہ نکلے کہ آپ کو خو ہی غلط فہمی ہو گئی تھی بات یہ نہیں تھی۔
علماء اسے علمی سرقہ کا نام دیتے ہیں اور اب آپ تاویلات کرکے اپنا گریبان بچانے کی کوشش کر رہے ہیں؟؟؟ اس کےایک دفعہ پھر عرض کروں گا کہ دینی اور علمی گفتگو میں تہذیب اور اخلاق کا دامن کبھی ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہئے۔ اخلاق سے گرے الفاظ وہ استعمال کرتے ہیں جن کے ہاس دلائل کمزور ہوں اور وہ ان کی کمی قوت بیان اور طرز تخاطب سے پوری کرنا چاہتے ہیں۔
دوسرا عنوان پڑھئے جس کاُمطلب ہے کہ جرابوں پر مسح کی احادیث کے متعلق عرب علما کی تحقیق کیا ہے! چونکہ اوپر سلفی بھائی نے احادیث سے مسح جوربین ثابت کرنے کی کوشش کی تھی اس لئے میں نے ان احادیث پر اپنی تحقیق پیش کرنے کی بجائے عرب حنبلی علما کی تحقیق پیش کی ہے۔ انہوں نے ان احادیث سے استدلال ہر گز نہیں لیا جس سے آپ لینے کی کوشش فرما رہے ہیں۔ اگر آپ جرابوں پر مسح ثابت کرنا چاہتے ہیں تو ضعیف روایات کا سہارا نا لیں بلکہ جہاں سے عرب علما نے استدلال لیا ہے وہی پیش کریں اور اسی پر علمی مکالمہ کریں۔
فقہ نام ہے غیر منصوص میں خیرالقرون کے آئمہ مجتہدین اور ان کے شاگرد فقہا سے بواسطہ متصل بالعلم مفتیان و علما، پوچھ کر چلنے کا۔ یہ مقتیان اور علما اجتہادی و غیر منصوص مسائل میں وہ رائے و تحقیق بتاتے ہیں جو خیرالقرون سے چلی آرہی ہو۔ خود سے اجتہاد کر کے نہیں بتاتے۔ اور اس کو انہی سے منسوب کرتے ہیں جیسے عندالاحناف، عندالشافعی وغیرہاپنی خواہشات نفسانی کے پیش نظر قرآن وسنت کی وہ تشریح کرتا ہے جو ان کے خود ساختہ مذہب واعمال کے مطابق ہو۔
دوسرا قطع نظر اس روائت کی تحقیق کے اس با
یعنی آپ امام ابو حنیفہ رح کی تقلید سے نکل کر ان کے شاگردوں کی تقلید میں چلے گئے ہیں؟فقہ حنفی میں امام ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ کے تمام اقوال کو فقہ کا حصہ نہیں بنایا گیا ہے۔
بہت اچھے۔۔۔۔۔۔۔۔اس لئے یہ استدلال کے امام ابوحنیفہ نے ایسا کہہ دیا تھا کافی نہیں
اس مسئلے پر کوئی علمی بحث کرنے سے پہلے آپ فیصلہ کر لیں کہ اس پر دلیل آپ کو امام ابو حنیفہ رح سے چاہیئے یا ان کے شاگردوں سے ؟آیا اس کو شاگرد فقہا نے بھی قبول کیا اور جمہور علما نے اسے فقہ کا حصہ بھی بنایا یہ دیکھنا بھی ضروری ہے
اس حدیث میں تساخین کے لفظ آئے ہیں جس کا معنی آپ نے کیا ھے ،،پاؤں کو گرم کرنے والی اشیاء،، یہ معنی کس ڈکشنری سے لئے گئے ہیں؟قال الامام ابو داود :حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ ثَوْرٍ، عَنْ رَاشِدِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ ثَوْبَانَ، قَالَ: «بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَرِيَّةً، فَأَصَابَهُمُ الْبَرْدُ فَلَمَّا قَدِمُوا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَهُمْ أَنْ يَمْسَحُوا عَلَى الْعَصَائِبِ وَالتَّسَاخِينِ» (سنن ابي داود 146 )
ترجمہ:
سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجاہدین کی ایک جماعت بھیجی….انہیں حکم دیا کہ پگڑیوں اور پاؤں کوگرم کرنے والی اشیاء (جرابوں اورموزوں) پر مسح کریں۔