• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جرابوں پر مسح جائز ہے یا نہیں؟

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
اس حدیث میں تساخین کے لفظ آئے ہیں جس کا معنی آپ نے کیا ھے ،،پاؤں کو گرم کرنے والی اشیاء،، یہ معنی کس ڈکشنری سے لئے گئے ہیں؟
کیونکہ مجھے تساخین کہیں نہیں مل رہے
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
قال الامام ابو داود :
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ ثَوْرٍ، عَنْ رَاشِدِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ ثَوْبَانَ، قَالَ: «بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَرِيَّةً، فَأَصَابَهُمُ الْبَرْدُ فَلَمَّا قَدِمُوا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَهُمْ أَنْ يَمْسَحُوا عَلَى الْعَصَائِبِ وَالتَّسَاخِينِ»
(سنن ابي داود 146 )
ترجمہ:
سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجاہدین کی ایک جماعت بھیجی….انہیں حکم دیا کہ پگڑیوں اور پاؤں کوگرم کرنے والی اشیاء (جرابوں اورموزوں) پر مسح کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کی شرح میں عون المعبود میں لکھتے ہیں :

قال الجوهري هي الخفاف ولا واحد لها انتهى
قال بن رسلان في شرحه يقال أصل ذلك كل ما يسخن به القدم من خف وجورب ونحوهما ولا واحد لها من لفظها وقيل واحدها تسخان وتسخين
انتهى
(عون المعبود )
یعنی لغت کے مشہور امام أبو نصر إسماعيل بن حماد الجوهري الفارابي (المتوفى: 393هـ) فرماتے ہیں کہ "التساخین " موزوں " کا کہا جاتا ہے ،
جبکہ علامہ ابن رسلان (المتوفی 775ھ) سنن ابو داود کی شرح میں فرماتے ہیں کہ اصل یہ ہے کہ
تساخین ہر اس چیز پر بولا جاتا ھے جس سے پاؤں سردی سے بچ سکے خواہ موزہ ہو یا جراب یا اس جیسی کوئی بھی چیز "


اور امام بغویؒ (محيي السنة، أبو محمد الحسين بن مسعود البغوي (المتوفى: 516هـ)نے شرح السنۃ میں "التساخین " کا معنی یہ لکھا ہے :
أصل التساخين كل ما يسخن القدم من خف، وجورب، ونحوه.
تساخین اصل میں ہر اس چیز پر بولا جاتا ھے جس سے پاؤں سردی سے بچ سکے خواہ موزہ ہو یا جراب یا اس جیسی کوئی بھی چیز "
اور لغت اور حدیث کے مشہور و مستند امام أبو سليمان حمد بن محمد المعروف بالخطابي (المتوفى: 388 هـ)
لکھتے ہیں :
ومن العرب من يسمى الخفاف التساخين.
قال أبو العباس ثعلب ولا واحد لها من لفظها.
وقال بعضم: التساخين كل ما يسخن به القدم من خف وجورب ونحو ذلك.

تساخین کا معانی بتاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ کچھ اہل عرب موزوں کو تساخین کہتے ہیں اوربعض کا کہنا ہے کہ تساخین ہر اس چیز پر بولا جاتا ھے جس سے پاؤں گرم رہیں، خواہ موزہ ہو یا جراب "

نیز دیکھئے شرح بلوغ المرام علامہ صفی الرحمن مبارکپوریؒ
https://archive.org/details/BulughAlMaramVolume1/page/n67
 
Last edited:

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
الحمدللہ یونیکوڈ بھی موجود ہے:
لغوی تشریح :
«سَرِیَّةٌ» ”سین“ کے فتحہ ”را“ کے کسرہ اور ”یا“ کی تشدید کے ساتھ ہے ۔ چھوٹا سا لشکر جسے دشمن کے علاقے میں بھیجا جاتا ہے ۔ اہل مغازی نے سریہ اس کو قرار دیا ہے جس میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بنفسِ نفیس شامل نہ ہوئے ہوں ۔ اور جس میں آپ نے شمولیت بصورت قیادت فرمائی ، اسے علمائے مغازی کی اصطلاح میں غزوہ کہتے ہیں ۔ اور اس مقام پر اصطلاحی معنی مراد ہیں ۔
«عَصَائِب» «عِصَابَةٌ» کی جمع ہے ۔
«عَمَائِم» «عِمَامَةٌ» کی جمع ہے ۔ «عصابة» کے معنی کسی راوی نے پگڑی کے کیے ہیں ۔ وجہ تسمیہ یہ ہے کہ عصب کے معنی باندھنے کے ہیں اور اس کے ساتھ بھی سر کو باندھا جاتا ہے ۔ عصابة دراصل پٹیوں کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔ یہاں اس کے حقیقی معنی نہیں بلکہ مراوی معنی ہیں ۔
«تَسَاخِینَ» یہ «تَسْخَانٌ» کی جمع ہے اور مفرد کی ”تا“ مفتوح ہے ۔ اس کے معنی کسی راوی نے موزے کے کیے ہیں ۔ ابن ارسلان نے کہا: ہے کہ «اَلتَّسَاخِین» ہر اس چیز پر بولا جاتا ہے جس سے پاؤں سردی سے بچ سکیں ، خواہ وہ موزہ ہو یا جراب ۔
فوائد ومسائل :
➊ پٹیوں سے مراد ایسی پٹیاں ہیں جو زخموں پر باندھی جاتی ہیں یا کسی کا بازو یا ٹانگ ٹوٹنے کی صورت میں لکڑی کی پھٹیاں رکھ کر باندھ دیتے ہیں ۔ انہی کو عصائب کہا: جاتا ہے ۔
➋ جنگ کے لیے روانہ کرتے وقت اس قسم کا حکم دینا بظاہر تو یہی معنی رکھتا ہے کہ معرکہ آرائی کے دوران میں زخمی حضرات اعضائے وضو دھونے کی بجائے زخم کی پٹیوں ہی پر مسح کرلیا کریں ۔
➌ ابوداود میں ہے کہ سریہ سے واپسی پر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے سردی کی شکایت کی تو آپ نے پگڑی اور موزوں پر مسح کا حکم دیا ۔ ( سنن ابي داود ، الطهارة ، باب المسح على العمامة ، حديث : 146)
راویٔ حدیث : ( سیدنا ثوبان بن بُجْدُد بن جحدر رضی اللہ عنہ) ان کی کنیت ابوعبداللہ تھی ۔ ثوبان ”ثا“ پر فتحہ اور ”واؤ“ ساکن کے ساتھ ہے ۔ بجدد میں ”با“ مضموم ، جیم ساکن ، دال اول مضموم اور دال ثانی ساکن ہے ۔ اور جحدر میں ”جیم“ پر فتحہ ، ”حا“ ساکن اور ”دال“ پر فتحہ ہے ۔ یہ سراۃ کے باشندے تھے جو مکہ ومدینہ کے مابین ایک جگہ کا نام ہے ۔ اور یہ بھی کہا: گیا ہے کہ حمیر قبیلے میں سے تھے ۔ زندگی بھر حضر وسفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم رکاب رہے اور ہر طرح کی خدمت بجا لاتے رہے ۔ ان کو نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خرید کر آزادی سے ہمکنار کیا تھا ۔ آپ کی وفات کے بعد شام میں رہائش پذیر ہوگئے ۔ شام سے پھر حمص کی طرف نقل مکانی کرگئے اور وہیں 54 ہجری میں وفات پائی ۔
 
شمولیت
جون 13، 2018
پیغامات
109
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
44
السلام علیکم
محترم اسحاق سلفی صاحب
تساخین کا معنی شروحات سے نہیں بلکہ لغت کی کسی کتاب کا حوالہ دے دیں جس میں یہ معنی کیا گیا ھو
جزاک اللہ
 
شمولیت
جون 13، 2018
پیغامات
109
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
44
قال الجوهري هي الخفاف ولا واحد لها انتهى
قال بن رسلان في شرحه يقال أصل ذلك كل ما يسخن به القدم من خف وجورب ونحوهما ولا واحد لها من لفظها وقيل واحدها تسخان وتسخين
انتهى (عون المعبود )
کیونکہ عون المعبود میں یہ عبارت بھی موجود ہے
فإن قلت لما كان الجورب من الصوف أيضا احتمل أن الجوربين الذين مسح عليهما النبي صلى الله عليه و سلم كانا من صوف أو قطن إذ لم يبين الراوي قلت نعم الاحتمال في كل جانب سواء يحتمل كونهما من صوف وكذا من أديم وكذا من قطن لكن ترجح الجانب الواحد وهو كونه من أديم لأنه يكون حينئذ في معنى الخف ويجوز المسح عليه قطعا وأما المسح على غير الأديم فثبت بالاحتمالات التي لم تطمئن النفس بها وقد قال النبي صلى الله عليه و سلم دع ما يريبك إلى ما لا يريبك أخرجه أحمد في مسنده والنسائي عن الحسن بن على وغير واحد من الأئمة وهو حديث صحيح
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
تساخین کا معنی شروحات سے نہیں بلکہ لغت کی کسی کتاب کا حوالہ دے دیں جس میں یہ معنی کیا گیا ھو
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ
محترم بھائی !
آپ نے میری پوسٹ شاید توجہ سے نہیں پڑھی،اس میں ایک حوالہ امام خطابیؒ کی " غریب الحدیث " کا ہے ،یہ کتاب لغات الحدیث میں اعلی درجہ کی کتاب ہے ،
اور اس موضوع پر قدیم کتب میں اس کا شمار ہے ،
امام أبو سليمان حمد بن محمد المعروف بالخطابي (المتوفى: 388 ھ)
غریب الحدیث جلد دوم ص61
https://archive.org/stream/waq1243waq/02_1244#page/n59
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
وضو میں جرابوں پر مسح

توحید ڈاٹ کام

عن ثوبان قال : بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم سرية۔۔۔ أمرهم أن يمسحوا على العصائب و التساخين
’’ ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجاہدین کی ایک جماعت بھیجی . . . انہیں حکم دیا کہ پگڑیوں اور پاؤں کو گرم کرنے والی اشیاء (جرابوں اور موزوں) پر مسح کریں۔ “ [سنن ابي داود : ج1ص21ح146]
اس روایت کی سند صحیح ہے۔
اسے امام حاکم رحمہ اللہ اور امام ذہبی رحمہ اللہ دونوں نے صحیح کہا ہے۔
[المستدرك و التلخيص ج 1ص169ح602]
اس پر امام احمد رحمہ اللہ کی جرح کے جواب کے لئے نصب الرایہ [ج1ص165] وغیرہ دیکھیں۔
امام ابوداود فرماتے ہیں کہ جرابوں پر درج ذیل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے مسح کیا ہے۔
”علی بن ابی طالب، ابومسعود، (ابن مسعود)، براء بن عازب، انس بن مالک، ابوامامہ اور سہل بن سعد وغیرہم رضی اللہ عنہم“ [سنن ابي داود ج 1ص24قبل ح160]

امام ابوداؤد السجستانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ومسح على اجوربين على بن أبى طالب و أبو مسعود و البراء بن عازب و أنس بن مالك و أبو أمامة و سهل بن سعد و عمر و بن حريث، وروي ذلك عن عمر بن الخطاب و ابن عباس .

اور علی بن ابی طالب، ابومسعود (ابن مسعود ) اور براء بن عازب، انس بن مالک، ابوامامہ، سہل بن سعد اور عمرو بن حریث نے جرابوں پر مسح کیا اور عمر بن خطاب اور ابن عباس سے بھی جرابوں پر مسح مروی ہے۔ (رضی اللہ عنہم اجمعین) [سنن ابي داؤد : 1؍24ح159]
صحابہ کرام کے یہ آثار مصنف ابن ابی شیبہ [1؍188، 189] مصنف عبدالرزاق [1؍199، 200] محلیٰ ابن حزم [2؍84] الکنیٰ للدولابی [1؍181] وغیرہ میں باسند موجود ہیں۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا اثر الاوسط لابن المنذر [ج 1ص462] میں صحیح سند کے ساتھ موجود ہے، جیسا کہ آگے آرہا ہے۔
امام ابن قدامہ فرماتے ہیں :
ولأ ن الصحابة رضي الله عنهم مسحو ا على الجوارب ولم يظهر لهم مخالف فى عصرهم فكان اجماعا .

’’ اور چونکہ صحابہ نے جرابوں پر مسح کیا ہے اور ان کے زمانے میں ان کا کوئی مخالف ظاہر نہیں ہوا۔ لہذا اس پر اجماع ہے کہ جرابوں پر مسح کرنا صحیح ہے۔ [المغني : 1 ؍181 مسئله 426]
صحابہ کے اس اجماع کی تائید میں مرفوع روایات بھی موجود ہیں۔ مثلا دیکھئے : [المستدرک : ج1ص169ح602]
خفین پر مسح متواتر احادیث سے ثابت ہے۔ جرابین بھی خفین کی ایک قسم ہیں جیسا کہ انس رضی اللہ عنہ، ابراہیم نخعی اور نافع وغیرہم سے مروی ہے۔
جو لوگ جرابوں پر مسح کے منکر ہیں، ان کے پاس قرآن، حدیث اور اجماع سے ایک بھی صریح دلیل نہیں ہے۔
① امام ابن المنذر النیسابوری رحمہ اللہ نے فرمایا :
حدثنا محمد بن عبدالوهاب : ثنا جعفر بن عون : ثنا يزيد بن مردانبة : ثنا الوليد بن سريع عن عمرو بن حريث قال : رأيت عليا بال ثم توضأ ومسح على الجوربين .

مفہوم : سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے پیشاب کیا پھر وضو کیا اور جرابوں پر مسح کیا۔ [الاوسط ج 1ص 462 وسنده صحيح]
② ابوامامہ رضی اللہ عنہ نے جرابوں پر مسح کیا، دیکھئے : [مصنف ابن ابي شيبه 1؍188ح 1979 و سنده حسن]
③ براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے جرابوں پر مسح کیا، دیکھئے : [مصنف ابن ابي شيبه 1؍189ح 1984، وسنده صحيح]
④ عقبہ بن عمر و رضی اللہ عنہ نے جرابوں پر مسح کیا، دیکھئے : [مصنف ابن ابي شيبه 1؍189ح1987 وسنده صحيح]
⑤ سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے جرابوں پر مسح کیا، دیکھئے : [مصنف ابن ابي شيبه 1؍189ح 1990 و سنده حسن]
◈ ابن منذر نے کہا: کہ امام اسحاق بن راہویہ نے فرمایا کہ ”صحابہ کا اس مسئلے پر کوئی اختلاف نہیں ہے۔“ [الاوسط لابن المنذر 1؍464، 465]
◈ تقریبا یہی بات ابن حزم نے کہی ہے۔ [المحلي 2؍86، مسئله نمبر 212]
◈ ابن قدامہ نے کہا: اس پر صحابہ کا اجماع ہے۔ [المغني ج 1ص181، مسئله426]

معلوم ہوا کہ جرابوں پر مسح کے جائز ہونے کے بارے میں صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کا اجماع ہے اور اجماع شرعی حجت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”اللہ میری امت کو گمراہی پر کبھی جمع نہیں کرے گا۔“ [المستدرك للحاكم : 1 ؍116ح397، 398] نیز دیکھئے : [ابراء اهل الحديث و القرآن مما فى الشواهد من التهمة و البهتان ’’ ص 32، تصنيف حافظ عبدالله محدث غازي پوري (متوفي 1337ه) تلميذ سيد نذير حسين محدث الدهلوي رحمهما الله تعاليٰٰ]
مزید معلومات :
◈ ابراہیم النخعی رحمہ اللہ جرابوں پر مسح کرتے تھے۔ [مصنف ابن ابي شيبه 1؍188ح1977 وسنده صحيح]

◈ سعید بن جبیر رحمہ اللہ نے جرابوں پر مسح کیا۔ [ايضا1؍189ح 1989 وسنده صحيح]
◈ عطاء بن ابی رباح جرابوں پر مسح کے قائل تھے۔ [المحلي2؍86]
معلوم ہوا کہ تابعین کا بھی جرابوں پر مسح کے جواز پر اجماع ہے۔
والحمد لله
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ خفین(موزوں) جوربین مجلدین اور جوربین منعلین پر مسح کے قائل تھے مگر جوربین (جرابوں)پر مسح کے قائل نہیں تھے ۔
ملامرغینانی لکھتے ہیں:
’’وعنہ انہ رجع الی قولھما وعلیہ الفتویٰ‘‘
اور امام صاحب سے مروی ہے کہ انہوں نے صاحبین کے قول پر رجوع کرلیاتھا اور اسی پر فتویٰ ہے۔(الھدایہ ۱؍۶۱)
https://archive.org/details/AlHidayahVol1AlBushra/page/n107
 
Top