محمد وقاص گل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 23، 2013
- پیغامات
- 1,033
- ری ایکشن اسکور
- 1,711
- پوائنٹ
- 310
سوال: اگر کسی روای پر کچھ محدثین نے جرح کی ہو اور کچھ نے اسی کی تعدیل بیان کی ہو تو پھر کس کی بات کو مقدم کیا جائے گا ؟
لیکن اگر جرح وتعدیل دونوں مبہم ہوں تو تعدیل جرح پر مقدم ہوتی , اور اگر جرح مفسر ہو تو جرح تعدیل پر مقدم ہوتی ہے ۔
اور اسی طرح جرح وتعدیل کرنے میں ائمہ فن کے کچھ طبقات ہیں , کچھ محدثین جرح کرنے میں بہت ہی متشدد ہیں اورکچھ تعدیل کرنے میں متساہل , اور کچھ معتدل ہیں ۔
معتدلین کے تعدیل کے مقابلہ میں متشددین کی جرح کا کوئی خاص اعتبار نہیں , اور متساہلین کی تعدیل کا معتدلین کی جرح کے مقابلہ میں کوئی خاص وزن نہیں ۔
لیکن اس بات سے یہ نہ سمجھا جائے کہ انکے جرح یا تعدیل کچھ اثر ہی نہیں رکھتی ! اثر ضرور ہوتا ہے ,
مثلا اگر کسی راوی پر متشددین نے جرح کی ہو جبکہ معتدل ائمہ جرح وتعدیل نے اسکی توثیق کی ہو تو ایسی صورت میں وہ راوی ثقہ ہی قرار پائے گا ۔
لیکن حدیث کی علتوں کو جاننے کے لیے اس پر کی گئی جرح کو سامنے رکھتے ہوئے بسا اوقات اس ثقہ کی روایت کو بھی کچھ قرائن کی بناء پر ضعیف قرار دے دیا جائے گا ! کیونکہ ثقہ خواہ جتنا بھی بڑا ثقہ ہو , آخر انسان ہے اور اس سے غلطی کا امکان ہے , اور بالخصوص جب ایسا ثقہ ہو جو کہ مجروح بھی ہے تو اسکی طرف سے غلطی کا امکان بڑھ جاتا ہے ۔ لیکن محض اس امکان کی بناء پر اسکی روایت رد نہیں کی جاتی بلکہ اسکے ثقہ ہونے کی وجہ سے اسکی روایت قبول کی جاتی ہے لیکن جب غلطی کی کوئی دلیل مل جائے تو اسکی روایت کو ترک کرکے ضعیف قرار دے دیا جاتا ہے ۔ ثقہ کی غلطی کی ایک سادہ سی مثال شاذ روایت ہے ۔
اور کچھ لوگ محض جارحین اور معدلین کی تعداد گن کر اکثر کے حق میں فیصلہ کر دیتے ہیں , مثلا اگر راوی پر جرح کرنے والے زیادہ ہیں تو اسے ضعیف قرار دے دیا اور اگر اسکی تعدیل کرنے والے زیادہ ہیں تو اسے ضعیف قرار دے دیا , انکا یہ منہج درست نہیں ہے ۔
کیونکہ بسا اوقات جرح وتعدیل معارض نہیں ہوتی جیسا کہ سابقہ سطور میں بیان کیا گیا ہے , اور پھر جرح یا تعدیل کرنے والے کا اپنا وزن بھی دیکھنا پڑتا ہے کہ وہ اس فن میں کتنا ماہر ہے ۔ اور یہ بھی دیکھنا پڑتا ہے کہ جارح یا معدل کا مجروح یا ثقہ راوی کے ساتھ تعلق کیسا ہے ؟ کیونکہ جو جتنا زیادہ قریبی ہو گا اسکا فیصلہ اسی قدر معتبر اور وزنی ہوگا ۔ اور جو جسقدر زیادہ دور کے زمانہ کا ہوگا اسکے فیصلہ میں اسی قدر کمزوری آتی جائے گی ۔ لیکن قرب وبعد زمانی کا یہ قاعدہ بھی کلیہ نہیں ہے , اسکا فیصلہ بھی قرائن وشواہد کی بناء پر ہوتاہے کیونکہ بسا اوقات قریب زمانے والے کو راوی میں موجود کسی خامی کا علم نہیں ہوتا جبکہ بعد میں وہ نقص مشہور ہو جاتا ہے ۔ یا اسکی مرویات کو پرکھ کر زیادہ بہتر فیصلہ کیا جاسکتا ہے ۔
هذا ؛ والله أعلم , علمه أكمل وأتم , ورد العلم إليه أسلم , والشكر والدعاء لمن نبه وأرشد وقوم
http://www.deenekhalis.ahlulhdeeth.com/play.php?catsmktba=2209#.UrbdTNIW2ak
< جواب >
عام طور پر محدثین ایک ہی راوی پر جرح یا تعدیل کرنے میں متفق ہوتے ہیں ۔ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ظاہری طور پر محدثین کے اقوال میں تضاد معلوم ہو رہا ہوتا ہے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا ۔ مثلا کچھ محدثین ایک راوی پر جرح اور کچھ دوسرے اس کی تعدیل کر رہے ہوں تو عموما تعدیل کرنے والے اسکی عدالت کی گواہی دے رہے ہوتے ہیں اور جرح کرنے والے اسکے حفظ وضبط پر جرح کر رہے ہوتے ہیں ۔ تو ایسی صورت میں ہم کہیں گے کہ راوی عادل ہے مگر ضابط نہیں ۔لیکن اگر جرح وتعدیل دونوں مبہم ہوں تو تعدیل جرح پر مقدم ہوتی , اور اگر جرح مفسر ہو تو جرح تعدیل پر مقدم ہوتی ہے ۔
اور اسی طرح جرح وتعدیل کرنے میں ائمہ فن کے کچھ طبقات ہیں , کچھ محدثین جرح کرنے میں بہت ہی متشدد ہیں اورکچھ تعدیل کرنے میں متساہل , اور کچھ معتدل ہیں ۔
معتدلین کے تعدیل کے مقابلہ میں متشددین کی جرح کا کوئی خاص اعتبار نہیں , اور متساہلین کی تعدیل کا معتدلین کی جرح کے مقابلہ میں کوئی خاص وزن نہیں ۔
لیکن اس بات سے یہ نہ سمجھا جائے کہ انکے جرح یا تعدیل کچھ اثر ہی نہیں رکھتی ! اثر ضرور ہوتا ہے ,
مثلا اگر کسی راوی پر متشددین نے جرح کی ہو جبکہ معتدل ائمہ جرح وتعدیل نے اسکی توثیق کی ہو تو ایسی صورت میں وہ راوی ثقہ ہی قرار پائے گا ۔
لیکن حدیث کی علتوں کو جاننے کے لیے اس پر کی گئی جرح کو سامنے رکھتے ہوئے بسا اوقات اس ثقہ کی روایت کو بھی کچھ قرائن کی بناء پر ضعیف قرار دے دیا جائے گا ! کیونکہ ثقہ خواہ جتنا بھی بڑا ثقہ ہو , آخر انسان ہے اور اس سے غلطی کا امکان ہے , اور بالخصوص جب ایسا ثقہ ہو جو کہ مجروح بھی ہے تو اسکی طرف سے غلطی کا امکان بڑھ جاتا ہے ۔ لیکن محض اس امکان کی بناء پر اسکی روایت رد نہیں کی جاتی بلکہ اسکے ثقہ ہونے کی وجہ سے اسکی روایت قبول کی جاتی ہے لیکن جب غلطی کی کوئی دلیل مل جائے تو اسکی روایت کو ترک کرکے ضعیف قرار دے دیا جاتا ہے ۔ ثقہ کی غلطی کی ایک سادہ سی مثال شاذ روایت ہے ۔
اور کچھ لوگ محض جارحین اور معدلین کی تعداد گن کر اکثر کے حق میں فیصلہ کر دیتے ہیں , مثلا اگر راوی پر جرح کرنے والے زیادہ ہیں تو اسے ضعیف قرار دے دیا اور اگر اسکی تعدیل کرنے والے زیادہ ہیں تو اسے ضعیف قرار دے دیا , انکا یہ منہج درست نہیں ہے ۔
کیونکہ بسا اوقات جرح وتعدیل معارض نہیں ہوتی جیسا کہ سابقہ سطور میں بیان کیا گیا ہے , اور پھر جرح یا تعدیل کرنے والے کا اپنا وزن بھی دیکھنا پڑتا ہے کہ وہ اس فن میں کتنا ماہر ہے ۔ اور یہ بھی دیکھنا پڑتا ہے کہ جارح یا معدل کا مجروح یا ثقہ راوی کے ساتھ تعلق کیسا ہے ؟ کیونکہ جو جتنا زیادہ قریبی ہو گا اسکا فیصلہ اسی قدر معتبر اور وزنی ہوگا ۔ اور جو جسقدر زیادہ دور کے زمانہ کا ہوگا اسکے فیصلہ میں اسی قدر کمزوری آتی جائے گی ۔ لیکن قرب وبعد زمانی کا یہ قاعدہ بھی کلیہ نہیں ہے , اسکا فیصلہ بھی قرائن وشواہد کی بناء پر ہوتاہے کیونکہ بسا اوقات قریب زمانے والے کو راوی میں موجود کسی خامی کا علم نہیں ہوتا جبکہ بعد میں وہ نقص مشہور ہو جاتا ہے ۔ یا اسکی مرویات کو پرکھ کر زیادہ بہتر فیصلہ کیا جاسکتا ہے ۔
هذا ؛ والله أعلم , علمه أكمل وأتم , ورد العلم إليه أسلم , والشكر والدعاء لمن نبه وأرشد وقوم
http://www.deenekhalis.ahlulhdeeth.com/play.php?catsmktba=2209#.UrbdTNIW2ak