جزاک اللہ
کفایت اللہ صاحب آپکی بات اصولی اور عمومی اعتبار سے بالکل درست ہے ۔
اب مزید صرف یہ سمجھادیں کہ
محدثین کا رجال پر حکم لگانا اگر
امر اجتہادی ہے تو کیسے؟؟ امید ہے یہ اشکال بھی دور کرنے میں مدد فرمائیں گے
۔
محترم ابن جوزی صاحب !
جس طرح فقہی امور میں اختلاف ہوتا ہے ایسے ہی جرح وتعدیل کے امورمیں بھی اختلاف ہوتاہے، کیونکہ دونوں میں اہل فن اجتہاد کرتے ہیں۔
امام ترمذي رحمه الله (المتوفى279)فرماتے ہیں:
وَقَدِ اخْتَلَفَ الأَئِمَّةُ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ فِى تَضْعِيفِ الرِّجَالِ كَمَا اخْتَلَفُوا فِى سِوَى ذَلِكَ مِنَ الْعِلْمِ[سنن الترمذى 14/ 199تحت الرقم :4402]۔
راویوں کی تضعیف میں بھی ائمہ کا اسی طرح اختلاف ہے جس طرح دیگرعلوم میں ان کا اختلاف ہے۔
امام ابن تیمہ رحمہ اللہ نے اسی بات کو مزید کھول کربیان کیاچنانچہ:
شيخ الاسلام ابن تيمية رحمه الله (المتوفى728)فرماتے ہیں:
و كلام يحيى بن معين و البخاري و مسلم و أبي حاتم و أبي زرعة و النسائي و أبي أحمد بن عدي و الدارقطني و أمثالهم في الرجال و صحيح الحديث و ضعيفه هو مثل كلام مالك و الثوري و الأوزاعي و الشافعي و أمثالهم في الأحكام و معرفة الحلال من الحرام[الرد على البكري لابن تیمیہ: 1/ 72]۔
حدیث کی تصحیح وتضعیف اور راویوں سے متعلق امام یحیی بن معین ، امام بخاری ، امام مسلم ، امام ابوحاتم ، امام ابوزرعہ ، امام نسائی ، امام ابن عدی ،امام دارقطنی اوران جیسے ائمہ کا کلام ایسے ہی ہے جیسے احکام اور حلال وحرام کی معرفت سے متعلق امام مالک، امام ثوری ، امام اوزاعی ، امام شافعی اور دیگر ائمہ کا کلام ہے۔
امام منذری رحمہ اللہ نے اسی بات کو اورواضح انداز میں بیان کیا ہے ، چنانچہ:
امام منذري رحمه الله (المتوفى656)فرماتے ہیں:
واختلاف هؤلاء كاختلاف الفقهاء، كل ذلك يقتضيه الاجتهاد، فأن الحاكم إذا شهد عنده بجرح شخص، اجتهد في أن ذلك القدرمؤثر أم لا؟ وكذلك المحدث إذا أراد الاحتجاج بحديث شخص ونقل إليه فيه جرح، اجتهد فيه هل هو مؤثر أم لا؟ ويجري الكلام عنده فيما يكون جرحا ، في تفسير الجرح وعدمه، وفي اشتراط العدد في ذلك، كما يجري عند الفقيه، ولا فرق بين أن يكون الجارح مخبرا بذلك للمحدث مشافهة أو ناقلا له عن غيره بطريقه، والله عز وجل أعلم. [جواب الحافظ المنذري عن أسئلة في الجرح والتعديل ص: 83]۔
ان محدثین کا اختلاف فقہاء کے اختلاف کی طرح ہے ، یہ سب کچھ اجتہاد کی بنا پرہوتا ہے ، کیونکہ حاکم کے پاس جب کسی شخص سے متعلق جرح پیش ہوتی ہے تو وہ اجتہاد کرتا ہے کہ یہ جرح اثرانداز ہوگی یا نہیں ، اسی طرح محدث جب کسی راوی کی حدیث سے حجت پکڑنا چاہتا ہے اور اوراس راوی سے متعلق اسے جرح ملتی ہے تو وہ اجتہاد کرتا ہے کہ یہ جرح اثرانداز ہوگی یا نہیں اوراس کے نزیک اس بات کا فیصلہ یہ دیکھ کر ہوتا ہے کہ جرح مفسر ہے یا نہیں ، اسی طرح جارحین کا تعداد کتنی ہے ، ٹھیک ایسا ہی معاملہ فقیہ کے ساتھ بھی ہوتا ہے ، اوراس بات سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ جارح اپنی جرح سے محدث کو براہ راست خبردیتا ہے یا دوسرے کی جرح اپنی سند سے پیش کرتا ہے۔
امام سخاوی رحمہ اللہ بھی انہیں الفاظ میں بات کرتے ہیں چنانچہ:
امام سخاوي رحمه الله (المتوفى902)فرماتے ہیں:
وولاة الجرح والتعديل بعد من ذكرنا يحيى ابن معين وقد سأله عن الرجال غير واحد من الحفاظ ومن ثم اختلفت آراؤه وعبارته في بعض الرجال كاجتهاد الفقهاء وصارت لهم الأقوال والوجوه فاجتهدوا في المسائل كما اجتهد ابن معين في الرجال[الإعلان بالتوبيخ لمن ذم التاريخ للسخاوی :ص: 289]۔
اورمذکورہ ائمہ کے بعد جرح و تعدیل کے ائمہ میں سے امام یحیی بن معین بھی ہیں ان سے راویوں کے بارے میں کئی حفاظ نے سوالات کئے اسی لئے بعض راویوں سے متعلق ان کی آراء وعبارات میں اختلاف ہوا جیساکہ فقہاء کا اختلاف ہوتا ہے اوران سے کئی آراء و اقوال صادر ہوتے ہیں ، پس فقہاء نے مسائل میں جس طرح اجتہاد کیا اسی طرح امام معین نے راویوں سے متعلق اجتہادکیا۔
امام ذہبی رحمہ اللہ کے تعارف کی ضرورت نہیں ہے وہ بھی اسی اسلوب میں بات کرتے ہیں چنانچہ:
امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)فرماتے ہیں:
يحيى بن معين وقد ساله عن الرجال عباس الدوري وعثمان الدرامي وابو حاتم وطائفة واجاب كل واحد منهم بحسب اجتهادات الفقهاء المجتهدين وصارت لهم في المسالة اقوال[ذكر من يعتمد قوله في الجرح والتعديل ص: 185]۔
امام یحیی بن معین سے راویوں کے بارے میں عباس دوری ، عثمان دارمی ، ابوحاتم اور بہت سارے لوگوں نے سوالات کئے ، اورامام ابن معین رحمہ اللہ نے مجتہدین فقہاء کے اجتہاد کے مطابق ہرایک کو جوابات دئے پھر لوگوں کے پاس ایک ہی مسئلہ میں ان کے کئی اقوال ہوگئے۔
حافظ ابن حجررحمہ اللہ کا جرح تعدیل میں کیا مقام ہے محتاج تعارف نہیں انہوں نے بھی یہی کہا ہے ، چنانچہ:
حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)فرماتے ہیں:
فأقام الله طائفة كثيرة من هذه الأمة للذب عن سنة نبيه صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فتكلموا في الرواة على قصد النصيحة ، ولم يعد ذلك من الغيبة المذمومة ، بل كان ذلك واجبا عليهم وجوب كفاية. ثم ألف الحفاظ في أسماء المجروحين كتبا كثيرة ، كل منهم على مبلغ علمه ، ومقدار ما وصل إليه اجتهاده [لسان الميزان لابن حجر: 1/ 191]۔
اللہ تبارک وتعالی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے تحفظ کے لئے اس امت میں کئی گروہ پیداکئے جنہوں نے راویوں کے بار ےمیں خیراخواہی کی نیت سے کلام کیا ، اوریہ مذموم غیبت میں شمار نہیں ہوتا بلکہ ایسا کرنا تو ان پر فرض کفایہ تھا ، پھر حفاظ نے مجروحین کے ناموں پر بہت سی کتابیں تالیف کیں، ان میں سے ہر ایک نے اپنے علم اور اپنے اجتہاد کے بقدرمعلومات پیش کیں۔
امیدہے کہ اہل فن کی ان تصریحات کے سامنے آجانے کے بعد آپ کو اس بارے میں ذرابھی شک نہیں ہونا چاہئے کہ جرح وتعدیل میں اہل فن کا فیصلہ بھی اجتہادی ہوتاہے ، جیساکہ:
امام بدر الدين ، الزركشي (المتوفى: 794 ) فرماتے ہیں:
فلا شك أن في الجرح والتعديل ضربين من الاجتهاد وأئمة النقل يختلفون في الأكثر فبعضهم يوثق الرجل إلى الغاية وبعضهم يوهنه إلى الغاية [النكت على مقدمة ابن الصلاح 3/ 342]۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ جرح و تعدیل میں بھی دو طرح کا اجتہاد ہوتا ہے اورائمہ نقل کا اکثر اختلاف ہوجاتاہے، چنانچہ بعض ایک روای کی حددرجہ توثیق کردیتے ہیں اوربعض اسی راوی کی حددرجہ تضعیف کردیتے ہیں۔
اورجس طرح فقہی امورمیں مجتہد سے غلطی ہوجائے تواس کے لئے ایک اجرہے اسی طرح جرح وتعدیل کے امور میں بھی کسی مجتہدسے غلطی ہوجائے تو اس کے لئے ایک اجرہے یہ بات ہماری نہیں امام ذہبی کی ہے ، چنانچہ:
امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)فرماتے ہیں:
ولكنَّ هذا الدين مؤيَّد محفوظ من الله تعالى ، لم يَجتمع علماؤه على ضلالة ، لا عَمْداً ولا خطأ ، فلا يَجتمِعُ اثنانِ على توثيقِ ضعيف ، ولا على تضعيفِ ثقة ، وإنما يقعُ اختلافُهم في مراتبِ القُوَّةِ أو مراتبِ الضعف . والحَاكمُ منهم يَتكلَّمُ بحسبِ اجتهادِهِ وقُوَّةِ مَعارِفِه ، فإن قُدِّرَ خطؤه في نقده ، فله أجرٌ واحد ، والله الموفق . [الموقظة في علم مصطلح الحديث للذهبي: ص: 20، ]۔
لیکن یہ دین موید اوراللہ کی طرف سے محفوظ ہے، اس فن کے علماء گمراہی پرجمع نہیں ہوئے نہ جان بوجھ کراورنہ ہی غلطی سے ، پس کسی ضعیف راوی کی توثیق پر یا ثقہ راوی کی تضعیف پر دو امام جمع نہیں ہوسکتے ، بلکہ ان کااختلاف قوۃ و ضعف کے مرتبہ پر ہوتا ہے ، اوران میں حکم لگانے والا اپنے اجتہاد اور اپنی معلومات کے بقدرکلام کرتا ہے، پس اگر اپنے نقد میں وہ غلطی کرجائے تب بھی اسے ایک اجرملے گا۔