• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جرح وتعدیل میں محدثین وناقدین کا فیصلہ اجتہادی ہوتاہے

شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
420
پوائنٹ
57
کفایت اللہ صاحب نے رضا میاں کے ایک سوال کے جواب مین لکھا ہے۔

وضاحتا عرض ہے کہ امام بیہقی رحمہ اللہ نے عکرمہ سے متعلق امام بخاری رحمہ اللہ کی جرح کو معلوم نہیں کہاں سے نقل کیا ہے کیونکہ امام بخاری رحمہ اللہ سے عکرمہ سے متعلق ان الفاظ سے جرح ثابت نہیں ہے بلکہ امام بخاری رحمہ اللہ کے اصل الفاظ کچھ اور ہیں ، ملاحظہ ہو:

خطيب بغدادي رحمه الله (المتوفى463)نے کہا:
أَخْبَرَنَا ابْن الفضل، أخبرنا عليّ بن إبراهيم المستملي، حدّثنا أبو أحمد بن فارس، حَدَّثَنَا البخاري قَالَ: عكرمة بْن عمار أَبُو عمار العجلي اليمامي مضطرب في حديث يحيى بْن أبي كثير، ولم يكن عنده كتاب، مات ببغداد زمن المهدي.[تاريخ بغداد: 12/ 256 واسنادہ صحیح]۔

غورفرمائین کہ یہاں پر امام بخاری رحمہ اللہ کے الفاظ ہیں:
مضطرب في حديث يحيى بْن أبي كثير، ولم يكن عنده كتاب

ان الفاظ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے عکرمہ کو صرف اورصرف یحیی بن ابی کثیر کے طریق میں مضطرب بتلایا ہے ، اوران پر اختلاط کا الزام قطعا نہیں لگایا ہے۔
امام بیہقی رحمہ اللہ نے جن الفاظ میں امام بخاری رحمہ اللہ کی جرح نقل کیا ہے وہ امام بخاری رحمہ اللہ سے ثابت ہی نہیں
کفایت اللہ صاحب کے جواب سے میرے ذہہن میں اشکالات پیدا ہوئے۔ انہیں رفع کرنا چاہتا ہوں۔ امید ہے رہنمائی فرمائیں گے۔

امام بیہقی نے امام بخاری رحمہ اللہ کی طرف غلط بات منسوب کرکے دھوکہ سے کام لیا ہے
امام بیہقی نے عکرمہ پر جو الزام لگا یا ہے وہ حقیقتآ بہتان ہے
عکرمہ پر امام بیہقی کی تہمت ثابت نہ ہونے کیوجہ سے امام بیہقی جھوٹا ثابت ہوا۔
امام بیہقی نے ناحق ایک مسلمان کی آبرو ریزی کی کو شش کی۔

ہمارے پاس بیہقی کی کتابیں ماننے کا کیا جواز ہے؟؟؟
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
سمجھنے والوں کے لئے صرف اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ رجال پر حکم لگانے میں بھی محدثین سے اجتہادی غلطی ہوجاتی ہے ، اوراجتہادی غلطی کوئی جرم نہیں بلکہ فطری بات ہے، دنیا کا کون سا ایسا مجتہد ہے جس سے کبھی غلطی ہی نہیں ہوئی ؟؟؟؟؟؟ پھر کیا ہرمجتہد کو محض اس کی اجتہادی غلطی کی وجہ سے مجرم گردانیں گے؟؟

ابن جوزی صاحب !
ابن جوزی رحمہ اللہ ابوحنیفہ کے بارے میں فرماتے ہیں:
وبعد هَذَا فاتفق الكل عَلَى الطعن فِيهِ، ثُمَّ انقسموا عَلَى ثلاثة أقسام:
فقوم طعنوا فِيهِ لما يرجع إِلَى العقائد والكلام فِي الأصول.
وقوم طعنوا فِي روايته وقلة حفظه وضبطه.
وقوم طعنوا فِيهِ لقوله بالرأي فيما يخالف الأحاديث الصحاح.

[المنتظم لابن الجوزي: 8/ 132]۔

یعنی بقول ابن الجوزی رحمہ اللہ ابوحنیفہ پر طعن کرنے پرتمام ائمہ دین متفق ہوگئے تھے۔

نیز امام ابن الجوزی رحمہ اللہ نے یہ بھی کہا:
فهذا من مشهور المسائل والمتروك أضعافه، ولكونه خالف مثل هَذِهِ الأحاديث الصحاح سعوا بالألسن فِي حقه، فلم يبق معتبر من الأئمة إلا تكلم فِيهِ [المنتظم لابن الجوزي: 8/ 143]۔

یعنی بقول ابن الجوزی رحمہ اللہ معتبرائمہ میں سے کوئی ایک بھی ایسا امام نہیں بچا جس نے ابوحنیفہ پر طعن نہ کیا ہو۔



کیا امام ابن الجوزی رحمہ اللہ کی یہ بات صحیح ہے ؟؟؟
اگرہاں تو وضاحت فرمادیں اوراگرنہیں تو پھربتلائیں:


  • امام ابن الجوزی نے تمام ائمہ دین کی طرف غلط بات منسوب کرکے دھوکہ سے کام لیا ہے۔
  • امام ابن الجوزی نے ابوحنیفہ پر جو الزام لگا یا ہے وہ حقیقتآ بہتان ہے۔
  • ابوحنیفہ پر امام ابن الجوزی کی تہمت ثابت نہ ہونے کیوجہ سے امام ابن الجوزی جھوٹا ثابت ہوا۔
  • امام ابن الجوزی نے ناحق ایک مسلمان کی آبرو ریزی کی کو شش کی۔
  • ہمارے پاس امام ابن الجوزی کی کتابیں ماننے کا کیا جواز ہے؟؟؟



نیز امام ابن الجوزی رحمہ اللہ نے یہ بھی کہا:
والعجب منه إذا رأى حديثا لا أصل لَهُ هجر القياس ومال إِلَيْهِ، كحديث: نقض الوضوء بالضحك. فإنه شيء لا يثبت، وقد ترك القياس لأجله[المنتظم لابن الجوزي: 8/ 143]۔

یعنی بقول ابن الجوزی ابوحنیفہ بے اصل حدیث دیکھ اسی کو اپنا لیتا اورقیاس ترک کردیتا تھا ۔
یعنی بے اصل حدیث ہی سے استدلال کرکے دین کا مسئلہ بتاتا۔


اب سوال یہ ہے کہ:
  • امام ابوحنیفہ نے دین کی طرف غلط بات منسوب کرکے دھوکہ سے کام لیا ہے۔
  • امام ابوحنیفہ نے غیرثابت حدیث سے استدلال کرکے جو فتوی دیا وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ ہے۔
  • قہقیہ سے وضوء ٹوٹنے کی حدیث ثابت نہ ہونے کیوجہ سے ابوحنیفہ جھوٹا ثابت ہوا۔
  • ابوحنیفہ نے ناحق دین کے نام پر غلط بات پھیلانے کی کو شش کی۔
  • ہمارے پاس امام ابوحنیفہ کی باتیں ماننے کا کیا جواز ہے؟؟؟
 
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
420
پوائنٹ
57
سمجھنے والوں کے لئے صرف اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ رجال پر حکم لگانے میں بھی محدثین سے اجتہادی غلطی ہوجاتی ہے ، اوراجتہادی غلطی کوئی جرم نہیں بلکہ فطری بات ہے، دنیا کا کون سا ایسا مجتہد ہے جس سے کبھی غلطی ہی نہیں ہوئی ؟؟؟؟؟؟ پھر کیا ہرمجتہد کو محض اس کی اجتہادی غلطی کی وجہ سے مجرم گردانیں گے؟؟
جزاک اللہ کفایت اللہ صاحب آپکی بات اصولی اور عمومی اعتبار سے بالکل درست ہے ۔

اب مزید صرف یہ سمجھادیں کہ محدثین کا رجال پر حکم لگانا اگر امر اجتہادی ہے تو کیسے؟؟ امید ہے یہ اشکال بھی دور کرنے میں مدد فرمائیں گے
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
420
پوائنٹ
57
گویا آپ کو اعتراف ہے کہ آپ کا اعتراض غلط تھا؟!
اعتراض توکوئی نہیں تھا البتہ اشکال تھا جو رفع ہوا۔ اور اسکا کھلے دل سے اعتراف بھی ہے۔ ایک اشکال اور ذکر کیا ہے۔ اسکے جواب کا منتظر ہوں۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
جزاک اللہ کفایت اللہ صاحب آپکی بات اصولی اور عمومی اعتبار سے بالکل درست ہے ۔
اب مزید صرف یہ سمجھادیں کہ محدثین کا رجال پر حکم لگانا اگر امر اجتہادی ہے تو کیسے؟؟ امید ہے یہ اشکال بھی دور کرنے میں مدد فرمائیں گے
۔

محترم ابن جوزی صاحب !
جس طرح فقہی امور میں اختلاف ہوتا ہے ایسے ہی جرح وتعدیل کے امورمیں بھی اختلاف ہوتاہے، کیونکہ دونوں میں اہل فن اجتہاد کرتے ہیں۔


امام ترمذي رحمه الله (المتوفى279)فرماتے ہیں:
وَقَدِ اخْتَلَفَ الأَئِمَّةُ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ فِى تَضْعِيفِ الرِّجَالِ كَمَا اخْتَلَفُوا فِى سِوَى ذَلِكَ مِنَ الْعِلْمِ[سنن الترمذى 14/ 199تحت الرقم :4402]۔
راویوں کی تضعیف میں بھی ائمہ کا اسی طرح اختلاف ہے جس طرح دیگرعلوم میں ان کا اختلاف ہے۔
امام ابن تیمہ رحمہ اللہ نے اسی بات کو مزید کھول کربیان کیاچنانچہ:
شيخ الاسلام ابن تيمية رحمه الله (المتوفى728)فرماتے ہیں:
و كلام يحيى بن معين و البخاري و مسلم و أبي حاتم و أبي زرعة و النسائي و أبي أحمد بن عدي و الدارقطني و أمثالهم في الرجال و صحيح الحديث و ضعيفه هو مثل كلام مالك و الثوري و الأوزاعي و الشافعي و أمثالهم في الأحكام و معرفة الحلال من الحرام[الرد على البكري لابن تیمیہ: 1/ 72]۔
حدیث کی تصحیح وتضعیف اور راویوں سے متعلق امام یحیی بن معین ، امام بخاری ، امام مسلم ، امام ابوحاتم ، امام ابوزرعہ ، امام نسائی ، امام ابن عدی ،امام دارقطنی اوران جیسے ائمہ کا کلام ایسے ہی ہے جیسے احکام اور حلال وحرام کی معرفت سے متعلق امام مالک، امام ثوری ، امام اوزاعی ، امام شافعی اور دیگر ائمہ کا کلام ہے۔
امام منذری رحمہ اللہ نے اسی بات کو اورواضح انداز میں بیان کیا ہے ، چنانچہ:
امام منذري رحمه الله (المتوفى656)فرماتے ہیں:
واختلاف هؤلاء كاختلاف الفقهاء، كل ذلك يقتضيه الاجتهاد، فأن الحاكم إذا شهد عنده بجرح شخص، اجتهد في أن ذلك القدرمؤثر أم لا؟ وكذلك المحدث إذا أراد الاحتجاج بحديث شخص ونقل إليه فيه جرح، اجتهد فيه هل هو مؤثر أم لا؟ ويجري الكلام عنده فيما يكون جرحا ، في تفسير الجرح وعدمه، وفي اشتراط العدد في ذلك، كما يجري عند الفقيه، ولا فرق بين أن يكون الجارح مخبرا بذلك للمحدث مشافهة أو ناقلا له عن غيره بطريقه، والله عز وجل أعلم. [جواب الحافظ المنذري عن أسئلة في الجرح والتعديل ص: 83]۔
ان محدثین کا اختلاف فقہاء کے اختلاف کی طرح ہے ، یہ سب کچھ اجتہاد کی بنا پرہوتا ہے ، کیونکہ حاکم کے پاس جب کسی شخص سے متعلق جرح پیش ہوتی ہے تو وہ اجتہاد کرتا ہے کہ یہ جرح اثرانداز ہوگی یا نہیں ، اسی طرح محدث جب کسی راوی کی حدیث سے حجت پکڑنا چاہتا ہے اور اوراس راوی سے متعلق اسے جرح ملتی ہے تو وہ اجتہاد کرتا ہے کہ یہ جرح اثرانداز ہوگی یا نہیں اوراس کے نزیک اس بات کا فیصلہ یہ دیکھ کر ہوتا ہے کہ جرح مفسر ہے یا نہیں ، اسی طرح جارحین کا تعداد کتنی ہے ، ٹھیک ایسا ہی معاملہ فقیہ کے ساتھ بھی ہوتا ہے ، اوراس بات سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ جارح اپنی جرح سے محدث کو براہ راست خبردیتا ہے یا دوسرے کی جرح اپنی سند سے پیش کرتا ہے۔
امام سخاوی رحمہ اللہ بھی انہیں الفاظ میں بات کرتے ہیں چنانچہ:
امام سخاوي رحمه الله (المتوفى902)فرماتے ہیں:
وولاة الجرح والتعديل بعد من ذكرنا يحيى ابن معين وقد سأله عن الرجال غير واحد من الحفاظ ومن ثم اختلفت آراؤه وعبارته في بعض الرجال كاجتهاد الفقهاء وصارت لهم الأقوال والوجوه فاجتهدوا في المسائل كما اجتهد ابن معين في الرجال[الإعلان بالتوبيخ لمن ذم التاريخ للسخاوی :ص: 289]۔
اورمذکورہ ائمہ کے بعد جرح و تعدیل کے ائمہ میں سے امام یحیی بن معین بھی ہیں ان سے راویوں کے بارے میں کئی حفاظ نے سوالات کئے اسی لئے بعض راویوں سے متعلق ان کی آراء وعبارات میں اختلاف ہوا جیساکہ فقہاء کا اختلاف ہوتا ہے اوران سے کئی آراء و اقوال صادر ہوتے ہیں ، پس فقہاء نے مسائل میں جس طرح اجتہاد کیا اسی طرح امام معین نے راویوں سے متعلق اجتہادکیا۔
امام ذہبی رحمہ اللہ کے تعارف کی ضرورت نہیں ہے وہ بھی اسی اسلوب میں بات کرتے ہیں چنانچہ:
امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)فرماتے ہیں:
يحيى بن معين وقد ساله عن الرجال عباس الدوري وعثمان الدرامي وابو حاتم وطائفة واجاب كل واحد منهم بحسب اجتهادات الفقهاء المجتهدين وصارت لهم في المسالة اقوال[ذكر من يعتمد قوله في الجرح والتعديل ص: 185]۔
امام یحیی بن معین سے راویوں کے بارے میں عباس دوری ، عثمان دارمی ، ابوحاتم اور بہت سارے لوگوں نے سوالات کئے ، اورامام ابن معین رحمہ اللہ نے مجتہدین فقہاء کے اجتہاد کے مطابق ہرایک کو جوابات دئے پھر لوگوں کے پاس ایک ہی مسئلہ میں ان کے کئی اقوال ہوگئے۔
حافظ ابن حجررحمہ اللہ کا جرح تعدیل میں کیا مقام ہے محتاج تعارف نہیں انہوں نے بھی یہی کہا ہے ، چنانچہ:
حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)فرماتے ہیں:
فأقام الله طائفة كثيرة من هذه الأمة للذب عن سنة نبيه صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فتكلموا في الرواة على قصد النصيحة ، ولم يعد ذلك من الغيبة المذمومة ، بل كان ذلك واجبا عليهم وجوب كفاية. ثم ألف الحفاظ في أسماء المجروحين كتبا كثيرة ، كل منهم على مبلغ علمه ، ومقدار ما وصل إليه اجتهاده [لسان الميزان لابن حجر: 1/ 191]۔
اللہ تبارک وتعالی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے تحفظ کے لئے اس امت میں کئی گروہ پیداکئے جنہوں نے راویوں کے بار ےمیں خیراخواہی کی نیت سے کلام کیا ، اوریہ مذموم غیبت میں شمار نہیں ہوتا بلکہ ایسا کرنا تو ان پر فرض کفایہ تھا ، پھر حفاظ نے مجروحین کے ناموں پر بہت سی کتابیں تالیف کیں، ان میں سے ہر ایک نے اپنے علم اور اپنے اجتہاد کے بقدرمعلومات پیش کیں۔
امیدہے کہ اہل فن کی ان تصریحات کے سامنے آجانے کے بعد آپ کو اس بارے میں ذرابھی شک نہیں ہونا چاہئے کہ جرح وتعدیل میں اہل فن کا فیصلہ بھی اجتہادی ہوتاہے ، جیساکہ:
امام بدر الدين ، الزركشي (المتوفى: 794 ) فرماتے ہیں:
فلا شك أن في الجرح والتعديل ضربين من الاجتهاد وأئمة النقل يختلفون في الأكثر فبعضهم يوثق الرجل إلى الغاية وبعضهم يوهنه إلى الغاية [النكت على مقدمة ابن الصلاح 3/ 342]۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ جرح و تعدیل میں بھی دو طرح کا اجتہاد ہوتا ہے اورائمہ نقل کا اکثر اختلاف ہوجاتاہے، چنانچہ بعض ایک روای کی حددرجہ توثیق کردیتے ہیں اوربعض اسی راوی کی حددرجہ تضعیف کردیتے ہیں۔
اورجس طرح فقہی امورمیں مجتہد سے غلطی ہوجائے تواس کے لئے ایک اجرہے اسی طرح جرح وتعدیل کے امور میں بھی کسی مجتہدسے غلطی ہوجائے تو اس کے لئے ایک اجرہے یہ بات ہماری نہیں امام ذہبی کی ہے ، چنانچہ:
امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)فرماتے ہیں:
ولكنَّ هذا الدين مؤيَّد محفوظ من الله تعالى ، لم يَجتمع علماؤه على ضلالة ، لا عَمْداً ولا خطأ ، فلا يَجتمِعُ اثنانِ على توثيقِ ضعيف ، ولا على تضعيفِ ثقة ، وإنما يقعُ اختلافُهم في مراتبِ القُوَّةِ أو مراتبِ الضعف . والحَاكمُ منهم يَتكلَّمُ بحسبِ اجتهادِهِ وقُوَّةِ مَعارِفِه ، فإن قُدِّرَ خطؤه في نقده ، فله أجرٌ واحد ، والله الموفق . [الموقظة في علم مصطلح الحديث للذهبي: ص: 20، ]۔
لیکن یہ دین موید اوراللہ کی طرف سے محفوظ ہے، اس فن کے علماء گمراہی پرجمع نہیں ہوئے نہ جان بوجھ کراورنہ ہی غلطی سے ، پس کسی ضعیف راوی کی توثیق پر یا ثقہ راوی کی تضعیف پر دو امام جمع نہیں ہوسکتے ، بلکہ ان کااختلاف قوۃ و ضعف کے مرتبہ پر ہوتا ہے ، اوران میں حکم لگانے والا اپنے اجتہاد اور اپنی معلومات کے بقدرکلام کرتا ہے، پس اگر اپنے نقد میں وہ غلطی کرجائے تب بھی اسے ایک اجرملے گا۔
 
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
420
پوائنٹ
57
جزاک اللہ کفایت اللہ صاحب
قرآن کریم اور احادیث کے تراجم عام دستیاب ہیں انہیں دیکھ کر عبارت سمجھ لیتے ہیں۔ کوئی بھائی ان عبارات کا ترجمہ اگر کردے تو مشکور ہونگا۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
جزاک اللہ کفایت اللہ صاحب
قرآن کریم اور احادیث کے تراجم عام دستیاب ہیں انہیں دیکھ کر عبارت سمجھ لیتے ہیں۔ کوئی بھائی ان عبارات کا ترجمہ اگر کردے تو مشکور ہونگا۔
پیش کردہ عربی عبارات کا ترجمہ کردیا گیا ہے دوبارہ ملاحظہ فرمالیں۔
 
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
420
پوائنٹ
57
جزاک اللہ کفایت اللہ صاحب!

آپ نے مجھے بڑے احسن انداز میں سمجھانے کی کوشش کی۔ اپنی مصروفیات میں سے وقت نکال کر عبارات کا ترجمہ کر دینے پر میں آپکا شکرگزار ہوں۔ میرے خیال میں اجتہاد وہی معتبر ہے جس کی بنا قرآن و حدیث پر ہو۔ فقہی مسائل میں مجتھد کا اجتھاد جب قرآن و حدیث سے مستنبط ہو تا ہے تو معتبر کہلاتا ہے۔ نرا اٹکل کوئی حجت نہیں۔ میں نے جو رجال پر حکم کا پوچھا تو یہی سوچ کر کہ شائد یہ اجتہاد بھی قرآن و حدیث سے مستنبط اصولوں پر مبنی ہو۔ اس لئے سوال کیا کہ اگر اجتھاد ہے تو کیسے۔ آپ نے امت کے معتبر علماء کی تصریحات بیان کیں کہ انکے زعم میں محدثین کا رجال پر حکم لگانا اجتہاد ہے۔ بزرگوں کی تصریحات سے مجھے کیسے کا علم تو نا ہوسکا ہاں اتنا ہوا کہ وہ اسے اجتہاد ہی سمجھتے ہیں۔ اب میرے پاس صرف ایک راستہ ہے کہ میں ان بزرگوں کے اقوال کو تقلیدآ مان لوں۔ یا آپ میں سے کوئی مزید تفصیل سے جواب دے کر سمجھائے۔
یہ سب میرے ذاتی خیالات ہیں جو میں نے آپ کے ساتھ اس امید پر شئیر کیں تاکہ سمجھ سکوں اور فاسئلو اہل الذکر پر عمل کرلوں۔ شائد آپ نے بات بالکل کلئیر سمجھادی ہو اور کم فہمی و کم علمی کیوجہ سے میں نا سمجھ پایا ہوں یا آپکی مرکزی سوچ تک نا پہنچ پایا ہوں۔ بہر حال مجھے اپنی کم فہمی و کم علمی کا اعتراف ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اجتھاد شرعی کا دائرہ وسیع ہو اور اسکی وسعت کا مجھے علم نا ہو۔
مین نے فیصلہ کر لیا ہے کہ تعصبات سے پاک، آزاد اور نئے ذہن کیساتھ دین اور اسکی اساس کو سوال جواب اور مکالمے و بحث سے سمجھوں۔ اس سلسلے مین آپ لوگوں سے تعاون کا امیدوار ہوں اوراشکالات کے دور کرنے میں مدد کا طالب ہوں۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
آپ کا سوال تھا :
اب مزید صرف یہ سمجھادیں کہ محدثین کا رجال پر حکم لگانا اگر امر اجتہادی ہے تو کیسے؟؟ امید ہے یہ اشکال بھی دور کرنے میں مدد فرمائیں گے
یہ سوال پڑھ کرہرکوئی اندازہ لگاسکتاہے کہ آپ رجال پرحکم لگانے کو امراجتہادی کہنے سے حیران ہیں اور غالبا آپ نے اس سوال سے قبل یہی سمجھاتھا کہ رجال پر حکم لگانا امر اجتہادی نہیں ہے، واللہ اعلم۔

میں نے جواب میں اہل فن کی تصریحات پیش کیں جن میں اہل فن نے رجال پرحکم لگانے کو اجتہادی قرار دیا اور ساتھ میں اس کی وجہ بھی بتادی کہ یہ کیسے اجتہادی امرہے لیکن اس کے باوجود بھی آپ نے لکھا:
آپ نے امت کے معتبر علماء کی تصریحات بیان کیں کہ انکے زعم میں محدثین کا رجال پر حکم لگانا اجتہاد ہے۔ بزرگوں کی تصریحات سے مجھے کیسے کا علم تو نا ہوسکا ہاں اتنا ہوا کہ وہ اسے اجتہاد ہی سمجھتے ہیں۔ اب میرے پاس صرف ایک راستہ ہے کہ میں ان بزرگوں کے اقوال کو تقلیدآ مان لوں۔ یا آپ میں سے کوئی مزید تفصیل سے جواب دے کر سمجھائے۔
آپ نے بزرگوں کی تصریحات کو غورسے نہیں پڑھا ورنہ ان میں آپ کو ’’کیسے‘‘ کا جواب بھی مل جاتا ۔
بہرحال میں آپ کو کچھ مقدمات سمجھانے کی کوشش کرتاہوں اگر یہ مقدمات آپ کی سمجھ میں آگئے توبزرگوں کی تصریحات میں آپ کو ’’کیسے‘‘ کا جواب بھی نظر آجائے گا۔

آپ مجھے یہ بتادیں کہ :
  • کیا شرعی مسائل میں اہل علم کے اجتہاد کے آپ قائل ہیں یا نہیں ؟؟؟
  • اگرہاں تو کیسے ؟؟ کیا آپ اس لئے اس بات کے قائل ہیں کہ اہل علم نے تصریح کی ہے کہ شرعی مسائل میں اجتہاد ہوتا ہے ،اورآپ ان اہل علم کی تقلید کررہے ہیں؟ یا آپ کے پاس یہ چیز ماننے کی کوئی دلیل بھی ہے؟؟
  • اگرشرعی مسائل میں اجتہاد کے لئے آپ کے پاس کوئی دلیل ہے تو اسے پیش کردیں ۔




امید کرتاہوں کہ آپ کی طرف سے مطلوبہ وضاحت کے بعد مجھے اپنی بات سمجھانے میں آسانی ہوگی۔
 
Top