• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جس نے یہ حدیث سنی اور رفع الیدین نہ کیا تو اس کی نماز ناقص ہے "

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
امام ابن قیم رحمہ اللہ" القصیدۃ النونیۃ" میں فرماتے ہیں:

إذ أجمع العلماء أن مقلدا للناس والأعمى هما أخوان والعلم معرفة الهدى بدليله ما ذاك والتقليد مستويان

"علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ مقلد اور اندھا دونوں برابر ہیں اور علم دلیل کی بنیاد پرمسئلہ سمجھنے کو کہتے ہیں جبکہ کسی کی رائے پر چلنے کا نام تقلید ہے اور اس رائے پر چلنے والے کو یہ معلوم بھی نہ ہو کہ یہ رائے حق پر مبنی ہے یا خطا پر"
محترم! آپ نے جو ترجمہ کیا ہے اس میں موجود یہ الفاظ ’’ اور اس رائے پر چلنے والے کو یہ معلوم بھی نہ ہو کہ یہ رائے حق پر مبنی ہے یا خطا پر‘‘کس عربی عبارت کا ہے؟؟؟؟؟
اہلِ حدیث کی بنیاد ہی ’جھوٹ‘ اور ’دھوکہ دہی‘ ہے

محترم! یقیناً مقلد وہی ہوتا ہے فقہی علوم نہیں رکھتا اس میں اس کی مثال اندھے کی سی ہے۔ مگر جب یہ اندھا کسی بینا کی انگلی پکڑ لیتا ہے تو وہ اندھا نہیں رہتا وہ بینا کی راہنمائی میں ہر کھائی اور مضر رساں گھاٹیوں سے بچ رہا ہوتا ہے یہی آنکھوں کا مقصد ہے۔
ہاں البتہ اگر کوئی اندھا ہو وہ کسی بینا (چاروں اماموں میں سے کسی ایک) کی انگلی بھی نہ پکڑے یا کوئی اندھا کسی دوسرے اندھے (اہلِ حدیث النفس) کی انگلی پکڑ لے تو انجام آپ کے سامنے ہے۔ قرآنِ پاک کی جو آیات محکم ہیں ان کو متشابہ بنا رہے ہیں اور جو متشابہ ہیں ان کو محکم کرکے ظاہر کر رہے ہیں۔
والسلام
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
احادیث کے ساتھ بھی یہی معاملہ کرتے ہیں۔ جو حدیث ان کے نفس پر بھاری ہوتی ہے اس کے لئے ’’خورد بین‘‘ لے کر مل بیٹھتے ہیں اورراویوں کی بحث چھیڑلیتے ہیں۔ جو اپنی من پسند ہو اس میں دوسروں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش میں سرگرداں رہتے ہیں۔
والسلام
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
آدمی اپنی نماز میں اپنے ہاتھ کے ساتھ جو اشارہ کرتا ہے اس کے عوض اس کے لیے دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں ہر انگلی کے بدلے ایک نیکی ملتی ہے.
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رفع الیدین نماز کی زینت ہے ایک مرتبہ رفع الیدین کرنے سے دس نیکیاں ملتی ہیں ہر انگلی کے بدلے ایک نیکی.
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

رفع الیدین کرنا نیکیوں کو بڑھا دیتا ہے.
محترم! درج ذیل اَسِّی( 80) نیکیوں سے کیوں محروم رہتے ہو؛
سنن النسائي: كِتَاب التَّطْبِيقِ بَاب رَفْعِ الْيَدَيْنِ لِلسُّجُودِ
1086 . أخبرنا محمد بن المثنى قال حدثنا ابن أبي عدي عن شعبة عن قتادة عن نصر بن عاصم عن مالك بن الحويرث أنه رأى النبي صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته وإذا ركع وإذا رفع رأسه من الركوع وإذا سجد وإذا رفع رأسه من السجود حتى يحاذي بهما فروع أذنيه .(حکم : صحیح)


سنن النسائي: رکوع کے درمیان میں تطبیق کا بیان سجدے میں جاتے وقت رفع الیدین کرنا
حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ اپنی نماز میں جب رکوع کرتے یا رکوع سے سر اٹھاتے یا سجدے میں جاتے یا سجدے سے سر اٹھاتے تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے حتی کہ انھیں کانوں کے کناروں کے برابر کرتے۔

والسلام
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
السلام علیکم ورحمۃ اللہ

محترم! آپ نے جو ترجمہ کیا ہے اس میں موجود یہ الفاظ ’’ اور اس رائے پر چلنے والے کو یہ معلوم بھی نہ ہو کہ یہ رائے حق پر مبنی ہے یا خطا پر‘‘کس عربی عبارت کا ہے؟؟؟؟؟
اہلِ حدیث کی بنیاد ہی ’جھوٹ‘ اور ’دھوکہ دہی‘ ہے

محترم! یقیناً مقلد وہی ہوتا ہے فقہی علوم نہیں رکھتا اس میں اس کی مثال اندھے کی سی ہے۔ مگر جب یہ اندھا کسی بینا کی انگلی پکڑ لیتا ہے تو وہ اندھا نہیں رہتا وہ بینا کی راہنمائی میں ہر کھائی اور مضر رساں گھاٹیوں سے بچ رہا ہوتا ہے یہی آنکھوں کا مقصد ہے۔
ہاں البتہ اگر کوئی اندھا ہو وہ کسی بینا (چاروں اماموں میں سے کسی ایک) کی انگلی بھی نہ پکڑے یا کوئی اندھا کسی دوسرے اندھے (اہلِ حدیث النفس) کی انگلی پکڑ لے تو انجام آپ کے سامنے ہے۔ قرآنِ پاک کی جو آیات محکم ہیں ان کو متشابہ بنا رہے ہیں اور جو متشابہ ہیں ان کو محکم کرکے ظاہر کر رہے ہیں۔
والسلام
و علیکم السلام و رحمت الله -

کیا قرآن و احادیث نبوی سے یہ بات ثابت ہے کہ چار آئمہ کرام ہی حق ہیں؟؟ - اور جو انسان ان کی تقلید (یعنی انگلی نہ پکڑے) تو کیا گمراہ ہو گا ؟؟- حضرت عیسیٰ علیہ سلام اپنے آمد ثانی کے وقت کس امام کے مقلد ہونگے ؟؟ یا ان کی اپنی کوئی فقہ ہوگی ؟؟-

مزید یہ کہ جن آئمہ کرام کی انگلی پکڑنے کی شدو مد سے تلقین کی جاتی ہے - کیا وہ خود پیدائشی امام تھے - یا انہوں نے بھی کسی کی انگلی پکڑی تھی (یعنی تقلید کی تھی) ؟؟؟- اور اگر ایسا تھا تو کس کی تقلید کی تھی انہوں نے ؟؟

قرآن میں تو تقلید کا لفظ ان جانوروں کے لئے استعمال ہوا ہے جن کے گلے میں پٹہ ڈالا جاتا ہے - ملاحظه ہو قرآن کی آیت :-

جَعَلَ اللَّهُ الْكَعْبَةَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ قِيَامًا لِلنَّاسِ وَالشَّهْرَ الْحَرَامَ وَالْهَدْيَ وَالْقَلَائِدَ ۚ ذَٰلِكَ لِتَعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَأَنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ سوره المائدہ ٩٧
الله نے کعبہ کو جو بزرگی والا گھر ہے لوگوں کے لیے قیام کا باعث کر دیا ہے اور عزت والے مہینے کو اور حرم میں قربانی والے جانور کو بھی اور جن کے گلے میں پٹہ ڈال کر کر کعبہ کو لے جائیں- یہ اس لیے ہے کہ تم جان لو کہ بے شک الله کو معلوم ہے کہ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اور بے شک الله ہر چیز کو جاننے والا ہے-
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
ہم نماز میں رفع الیدین کیوں کرتے ہیں

اس لیے کہ ہم ﷲ کے فضل سے اہل حدیث ہیں اورقرآن وحدیث پر عمل کرنا اہل حدیث کا مذہبی شعار ہے۔ جب رفع یدین سنت ہے جو صحیح ترین احادیث سے ثابت ہے تو ہم اس سنت پر عمل کیوں نہ کریں۔ رفع یدین کی احادیث مختلف صحابہ رضی اللہ عنہما سے تمام کتب احادیث میں مروی ہیں۔
سب سے صحیح حدیث حضرت عبد ﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ کی ہے جو صحاح ستہ اور دیگر تمام کتب حدیث میں مذکور ہے۔ وھو ہذا:
((عَنْ عَبْدِ اللہ بْنِ عُمَرَ قَالَ رَأیْتُ رَسُوْلَ اللہ اِذَا قَامَ فِی الصَّلاَۃِ رَفَعَ یَدَیْہِ حَتّٰی تَکُوْنَا حَذْوَ مَنْکِبَیْہِ وَ کَانَ یَفْعَلُ ذٰلِکَ حِیْنَ یُکَبِّرُ لِلرَّکُوْعِ وَ یَفْعَلُ ذٰلِکَ اِذَا رَفَعَ رَاْسَہ‘ مِنَ الرَّکُوْعِ وَ یَقُوْلُ سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہ‘ وَ لاَ یَفْعَلُ ذٰلِکَ فِی السُّجُوْدِ))۱

عبدﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ‘ میں نے رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ و سلم کودیکھا کہ وہ شروع نماز میں اور رکوع میں جاتے اور رکوع سے سراٹھاتے وقت رفع یدین کیا کرتے تھے اور سجدہ میں آپ ایسا نہیں کرتے تھے۔


ماننے والوں کے لیے رفع یدین کے ثبوت میں رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ و سلم کی ایک یہی حدیث کافی ہے کیونکہ یہ سب سے صحیح ہے ۔ا س کے مقابلے میں کوئی ایک حدیث صحیح تو درکنار اس کے پاسنگ بھی نہیں۔

امام بخاری کے استاد امام علی بن مدینی اسحدیث کے بارے میں فرماتے ہیں۔

رَفْعُ الْیَدَیْنِ حَقٌّ عَلَی الْمُسْلِمِیْنَ حُجَّۃٌ عَلَی الْخَلْقِ کُلُّ مَنْ سَمِعَہ‘ فَعَلَیْہِ اَنْ یَّعْمَلَ بِہِ۔۲

یعنی اس حدیث کی رو سے رفع یدین کرنا ہر مسلمان پر حق ہے۔ یہ حدیث اتنی صحیح ہے کہ مخلوق پر حجت ہے جو اس کو سنے اس کو چاہیے کہ اس پرعمل کرے۔

مولانا انور شاہ کشمیری حنفی دیوبندی جو حنفیوں میں بہت بڑے محدث ہو گزرے ہیں او ر دارالعلوم دیو بند میں حدیث کے استاد رہے ہیں۔ ان کو بھی اپنے رسالہ ’’ نیل الفرقدین‘‘ صفحہ 26میں یہ حقیقت تسلیم کرنا پڑی ۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:


’’اَمَّا حَدِیْثُ ابْنِ عُمَرَ فَھُوَ حُجَّۃٌ عَلَی الْخَلْقِ کَمَا ذَکَرَہ‘ عَنِ ابْنِ الْمَدِیْنِیْ‘‘۳

یعنی امام علی ابن مدینی نے بالکل ٹھیک کہا ہے۔ یہ حدیث ہر لحاظ سے اتنی صحیح ہے کہ سچ مچ ہی مسلمانوں پر رفع الیدین کو لازم کرتی ہے۔

کتاب الام میں امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’لاَ یَجُوْزُ لِاَحَدٍ عَلِمَہ‘ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ عِنْدِیْ اَنْ یَّتْرُکَہ‘‘‘

امام ابن جوزی بھی اپنی کتاب ’’نزہۃ الناظر‘‘ میں امام شافعی رحمہ اللہ کا ایک ایسا ہی قول نقل کرتے ہیں:

’’لاَ یَحِلُّ لِاَحَدٍ سَمِعَ حَدِیْثَ رَسُوْلِ اللہ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ رَفْعِ الْیَدَیْنِ اَنْ یَّتْرُکَ الْاِقْتِدَاءَ بِفِعْلِہ وَ ھٰذَا صَرِیْحٌ اِنَّہ‘ یُوْجِبُ ذٰلِکَیعنی

کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی صحیح حدیث سنے اور پھر رفع یدین نہ کرے۔

ایسی صحیح حدیث ہو تو اس پر عمل کرنا خود بخود واجب ہو جاتا ہے۔ اسی وجہ سے بعض ائمہ نماز میں رفع یدین کو واجب قرار دیتے ہیں۔ ایسی صحیح اور صریح حدیث کے بعد کسی اور حوالے کی ضرورت تو نہ تھی ‘


لیکن حنفیوں کے مزید اطمینان کے لیے ترمذی شریف سے ایک حوالہ نقل کیا جاتا ہے۔

امام ترمذی فرماتے ہیں رفع الیدین کی حدیث کے راوی صرف حضرت عبد ﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ ہی نہیں بلکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ‘ حضرت علی رضی اللہ عنہ ‘ حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ ‘ حضرت کعب بن مالک بن الحویرثؓ رضی اللہ عنہ ‘ حضرت انس رضی اللہ عنہ ‘ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ‘ حضرت ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ ‘ حضرت ابواسید رضی اللہ عنہ ‘ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ‘ حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ ‘ حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ‘ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ‘ حضرت جابر رضی اللہ عنہ حضرت عمیر اللیثی رضی اللہ عنہ ۔۔۔ یہ صحابہ کرام بھی رفع الیدین کی حدیث کے راوی ہیں۔ دیگر کتابوں میں اور بہت سے صحابہ سے رفع یدین کی روایات آتی ہیں‘ لیکن سب کے نقل کرنے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ مسئلے کے ثبوت کے لیے تو ایک ہی صحیح حدیث کافی ہے


رفع یدین منسوخ بھی نہیں

حنفی علما یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ یہ حدیث تو صحیح ہے ‘ لیکن رفع یدین شروع میں تھی‘ پھر منسوخ ہو گئی‘ کیوں کہ:

1- جن صحابہ سے رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کا رفع یدین کرنا مروی ہے ‘ ان میں سے کوئی بھی یہ نہیں کہتا کہ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے بعد میں ترک کر دی تھی۔

2- حضرت عبد ﷲ بن عمررضی ﷲ عنہ جو رفع یدین کی صحیح ترین روایت کے راوی ہیں حضور ﷺ کی وفات کے بعد بھی رفع یدین کیا کرتے تھے۔۶بلکہ جو رفع یدین نہ کرتا تو وہ اس کو کنکر مارتے۷

3- حضرت مالک بن الحویرث 9 ھ میں گرمی میں مسلمان ہوئے‘ انھوں نے رسول ﷲ ﷺ کو متنازعہ رفع یدین کرتے دیکھا۔۸

4- حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ 9ھ میں سردی میں مسلمان ہوئے انھوں نے اس وقت بھی رسول ﷲ ﷺ کو رفع یدین کرتے دیکھا۔ پھر جب اگلے سال 10ھ میں وہ سردیوں میں دوبارہ مدینہ آئے تو انھوں نے اس وقت بھی رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کو رفع یدین کرتے دیکھا۔

اس سے ثابت ہوا کہ رسول ﷲ ﷺ 10ھ یعنی اپنی آخری زندگی میں رفع الیدین کرتے تھے۔

5- رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد صحابہ کا رفع یدین کرنا ۔


چنانچہ امام حسن بصری رحمہ اللہ اور امام حمید بن ہلال رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:

((کَانَ اَصْحَابُ رَسُوْلِ اﷲِ یَرْفَعُوْنَ))۱۰قریباً تمام صحابہ رفع یدین کرتے تھے۔


6- حضرت سعید بن جبیر جو جلیل القدر تابعی ہیں وہ بھی گواہی دیتے ہیں کہ حضور ﷺ کے صحابہ نماز میں رفع یدین کیا کرتے تھے۔

7- حضرت ابوحمید ساعدی کا دس صحابہ کی موجودگی میں حضور صلی ﷲ علیہ وسلم کی نماز پڑھ کر دکھانا اور اس میں رفع یدین کرنا اسی طرح حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کا رفع یدین کے ساتھ نماز پڑھنا اور پھر کہنا کہ اس طرح نماز پڑھا کرو اور خاص کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا حضور صلی ﷲ علیہ وسلم کی وفات کے بعد رفع یدین کرکے نماز پڑھنا (تلخیص اور بیھقی )


یہ سب ایسے دلائل ہیں جن سے قطعیت کے ساتھ ثابت ہوتا ہے کہ رفع یدین منسوخ نہیں ہوئی۔ اسی وجہ سے مولانا انور شاہ کشمیری کو ماننا پڑا۔

’لَمْ یُنْسَخْ وَ لاَ حَرفٌ مِنْہُ‘‘

رفع یدین کی سنت کا منسوخ ہونا تو درکنار‘ رفع یدین کا ایک حرف بھی منسوخ نہیں ہوا۔


یعنی ان کو بھی تسلیم ہے کہ رفع یدین رسول ﷲ ﷺ کی دائمی اورمستقل سنت ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے جب رفع یدین رسول ﷲ ﷺ کی مستقل اور دائمی سنت ہے جو صحیح احادیث سے ثابت ہے اور منسوخ بھی قطعاً نہیں تو پھر حنفی نماز میں رفع یدین کیوں نہیں کرتے‘ کیا حنفی رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کی احادیث کو نہیں مانتے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ حنفی ‘ حنفی مذہب کا پابند ہوتا ہے ۔ چونکہ حنفی مذہب میں رفع یدین نہیں اس لیے حنفی رفع یدین نہیں کرتے۔ رہ گیا احادیث کے ماننے کا سوال تو حنفی صرف ان حدیثوں کو مانتے ہیں جو ان کے مذہب کے مطابق ہوں ‘ جو احادیث ان کے مذہب کے خلاف ہوں خواہ وہ کتنی بھی صحیح کیوں نہ ہوں حنفی ان کو نہیں مانتے۔ اگر حنفی احادیث کو مانیں تو وہ حنفی نہیں رہ سکتے۔ اگر انھوں نے احادیث کو ماننا ہو تو وہ حنفی کیوں بنیں؟ یہی وجہ ہے حنفیوں کے بہت سے مسائل حدیث کے خلاف ہیں۔ حنفیوں کا اصل مذہب حنفی ہے‘ وہ فقہ حنفی پر ہی چلتے ہیں خواہ وہ حدیث کے موافق ہو یا مخالف۔ حنفی اہل حدیث نہیں جو وہ حدیث پر چلیں۔ حدیث پر چلنا تو اہل حدیث کا کام ہے۔ اہل حدیث کسی کی تقلید نہیں کرتے کہ کسی کی فقہ ان کا مذہب ہو۔ ان کا مذہب تو حدیث ہے‘ جب حدیث صحیح ثابت ہو گئی تو وہ اس پر عمل کریں گے۔

انتباہ :

بعض حنفی مولوی یہ کہہ کر عوام کو دھوکا دیتے ہیں کہ رفع یدین شروع اسلام میں تھی پھر منسوخ ہو گئی۔ اب ہم نے یہ ثابت کر دیا کہ 10ھ تک بلکہ وفات تک رسول ﷲ ﷺ کا رفع یدین کرنا صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ جیسا کہ حضرت وائل اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ خاص کر


عبدﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ کے عمل اور بیان سے واضح ہے۔

فَمَا زَالَتْ تِلْکَ صَلٰوتُہ‘ حَتّٰی لَقِیَ اﷲَ۱۵یعنی ’’ رسول اﷲﷺ دنیا سے رخصت ہونے تک رفع یدین کرتے رہے‘‘ ۔۔۔


ملاحظہ ہو حنفیوں کی مشہور کتاب ’’ نصب الرایۃ فی تخریج احایث الھدایۃ‘‘ اب جس مولوی یا مفتی کا یہ دعویٰ ہو کہ رفع یدین منسوخ ہے تو اس کا فرض ہے کہ 10ھ کے بعد کی کوئی ایسی صحیح حدیث دکھائے جس میں یہ صراحت ہو کہ 10ھ کے بعد رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے رفع یدین بالکل ترک کردی تھی۔ رہ گئی عبدﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی روایات جن کو اکثر حنفی مولوی پیش کرتے ہیں تو اولا تو وہ سخت ضعیف ہیں‘ بڑے بڑے ائمہ محدثین

مثلا امام بخاری‘ امام احمد‘ امام ابوداؤد ‘ امام دار قطنی‘ وغیرھم ان کو ضعیف کہتے ہیں۔ ثانیا ان ضعیف احادیث کی تاریخ کا کوئی پتا نہیں کہ وہ 10ھ سے پہلے کی ہیں یا بعد کی۔ رفع یدین کو منسوخ ثابت کرنے کے لیے 10ھ کے بعد کی کوئی صحیح حدیث ہونی چاہیے۔ پہلے کی کسی حدیث کا کوئی فائدہ نہیں۔ اگر حنفی مولوی یہ ثابت نہ کر سکیں کہ یہ حدیث10ھ کے بعد کی ہے اور صحیح ہے جس سے ان کا دعویٰ ثابت ہوتا ہے۔ اور وہ ہر گز ثابت نہیں کر سکتے(لَوْ کاَنَ بَعْضُھُمْ لِبَعْضٍ ظَہِیْرًا)[17:الاسراء:88]

تو ان کو اللہ سے ڈرنا چاہیے ۔ انھیں رسول ﷲ ﷺ کی ثابت شدہ سنت رفع یدین کی مخالفت ہر گز نہیں کرنی چاہیے۔ جب رسولؐ ﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی سنت کا ترک بہت بڑا جرم ہے تو اس کی مخالفت کرنا کتنا بڑا جرم ہوگا۔ترک سنت کی سزا


حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا:

((سِتَّۃٌ لَعَنْتُھُم وَ لَعْنَھُمُ ﷲُ وَ کُلُّ نَبِیٍّ کَانَ الزاءِدُ فِی کِتَابِ ﷲِ وَالْمُکَذِّبُ بِقَدَرِ ﷲِ وَالْمُتَسَلِّطُ بِالْجَبَرُوْتِ لِیُعِزَّمَنْ اَذَلَّ ﷲُ وَ یُذِلَّ مَنْ اَعَزَّ ﷲُ وَالْمُسْتَحِّلُ لِحَرَمِ ﷲِ وَالْمُسْتَحِلُّ مِن عِتْرَتِیْ مَا حَرَّمَ ﷲُ وَالتَّارِکُ لِسُنَّتِیْ))۱۶

یعنی چھ شخصوں پر ﷲ کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی لعنت کرتا ہے اور ﷲ بھی لعنت کرتا ہے اور ان چھ شخصوں میں سے ایک وہ شخص ہے جو سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا تارک ہو۔


کیا ان کو ﷲ اور اس کے رسول صلی ﷲ علیہ وسلم کی لعنت سے ڈر نہیں لگتا جو رفع یدین جیسی اہم اور دائمی سنت کے صرف تارک ہی نہیں بلکہ مخالف بھی ہیں۔ جو اس سنت پر عمل کرتا ہے وہ اس کو برا جانتے ہیں۔ انجام بخیر چاہنے والے ہر حنفی کو چاہیے کہ وہ تعصب کوچھوڑ کر ٹھنڈے دل سے اس رسالہ کو پڑھے اور اپنے مولوی اور مفتی کو بھی پڑھائے پھر ان سے قرآن پر ہاتھ رکھوا کر قسم د ے کر پوچھے کہ کیا رفع یدین سنت نبوی نہیں ؟ کیا واقعی یہ منسوخ ہے جس مولوی یا مفتی کے دل میں ذرا بھی آخرت کا خوف ہوگا وہ یہ رسالہ پڑھ کر کبھیبھی قرآن پر ہاتھ کر قسم نہیں کھائے گا کہ رفع یدین سنت نبوی نہیں۔یا یہ منسوخ ہے۔ برعکس اس کے کہ ہم اہل حدیث ہر وقت قرآن پر ہاتھ رکھ کر قسم کھا سکتے ہیں اور بڑے دعوے سے کہ سکتے ہیں کہ مذہب اہل حدیث ﷲ اور رسول کا مذہب ہے جو یقیناً حق ہے۔

رفع یدین سنت رسول ہے صحیح ترین احادیث سے ثابت ہے جس پر آپ صلی ﷲ علیہ وسلم آخر تک عمل کرتے رہے۔ یہ سنت ہر گز منسوخ نہیں جو جھوٹ پر قسم کھائے گا اس پر یقیناً اللہ کی لعنت ہوگی۔ ﷲ ہر مسلمان کو حق پر چلنے اور رفع یدین جیسی سنت نبوی صلی ﷲ علیہ وسلم پر عمل کرنے کی توفیق دے تاکہ وہ ترک سنت کی وجہ سے ﷲ اور رسول صلی ﷲ علیہ وسلم کی لعنت سے بچ جائے۔


والھدایۃ بیداﷲ ولا حول و لا قوۃ الا باﷲ

*****************************************

۱ (بخاری ‘ کتاب الاذان‘ باب الی این یرفع یدیہ ‘رقم 736:۔۔۔ مسلم: کتاب الصلٰوۃ ‘ باب استحباب رفع الیدین حذوالمنکبین مع تکبیرہ الاحرام والرکوع و فی الرفع من الرکوع و انہ لا یفعلہ اذا رفع من السجود ‘ رقم 211:۔۔۔ ابوداؤد: کتاب الصلوۃ‘ باب رفع الیدین فی الصلوۃ ‘رقم721:۔۔۔ ترمذی: کتاب الصلٰوۃ ‘ باب رفع الیدین عند الرکوع ‘ رقم 255:۔۔۔ نسائی : کتاب الافتتاح ‘ باب رفع الیدین حذوا المنکبین ‘رقم879: ۔۔۔ ابن ماجۃ : کتاب ابواب اقامۃ الصلوات و السنۃ فیھا ص2548‘ رقم (858:

۲ (جزء رفع الیدین رقم (2:

۳ (نیل الفرقدین ص (26:

۴ (کتاب الام ‘ باب رفع الیدین فی التکبیر فی الصلٰوہ ج 1 ص(91

۵ (ترمذی :ابواب الصلٰوہ ‘ باب رفع الیدین عند الرکوع ‘ رقم(256:

۶ (بخاری:کتاب الاذان‘ باب رفع الیدین اذا قام من الرکعتین‘ رقم (739:

۷ (جزء رفع الیدین رقم (15:

۸ (بخاری : کتاب الاذان ‘ باب رفع الیدین اذا کبر و اذا رکع وا ذا رفع‘ رقم 737۔۔۔مسلم: کتاب الصلوۃ ‘ باب استحباب رفع الیدین حذو المنکبین مع تکبیرۃ الاحرام والرکوع و فی الرفع من الرکوع و انہ لا یفعلہ اذا رفع من السجود‘ عن مالک بن حویرث ‘رقم (23:

۹ (نسائی :کتاب التطبیق ‘ باب مکان الیدین من السجود ‘رقم 1103:۔۔ ابوداؤد: ابواب تفریع استفتاح الصلوۃ ‘ باب رفع الیدین فی الصلوۃ ‘ رقم (726:

۱۰(جزء رفع الیدین رقم (30:۱۱(جزء رفع الیدین رقم (39:

۱۲ (ابوداؤد: ابواب تفریع استفتاح الصلوۃ ‘ باب افتتاح الصلوۃ ‘ رقم 73:۔۔۔صحیح ابن خزیمہ کتاب الصلوۃ ‘ باب الاعتدال فی الرکوع والتجانی و وضع الیدین علی الرکبتین 297/1رقم 587: عن ابی حمید الساعدی )

۱۳(بیہقی کتاب الصلوۃ ‘ باب رفع الیدین عند الرکوع و عند رفع الراس منہ ج 2ص 73

( ۱۴ (نیل الفرقدین ص (22:

۱۵ (تلخیص الحبیر 218/1‘کتاب الصلوۃ ‘ باب صفۃ الصلوۃ رقم 328:‘ نصب الرایۃ ‘کتاب الصلٰوۃ ‘ باب صفۃ الصلٰوۃ ‘ ج 1ص 483)

۱۶ (ترمذی‘ کتاب القدر‘ باب اعظام امرالایمان بالقدر‘ ص 1868‘رقم الحدیث2154: ۔۔ مشکٰوۃ المصابیح ‘ کتاب الایمان ‘ باب الایمان بالقدر‘ 38/1 رقم الحدیث109:)


 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
قرآن میں تو تقلید کا لفظ ان جانوروں کے لئے استعمال ہوا ہے جن کے گلے میں پٹہ ڈالا جاتا ہے - ملاحظه ہو قرآن کی آیت :-
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
محترم! دھوکہ فریب جھوٹ مکاری جیسی تمام بیماریاں ’اہلِ حدیث الفنس‘ میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہیں۔ یہ سب اندھی تقلید اور مجتہدین سے جھگڑا کرنے کا نتیجہ ہے۔
محترم آپ جانور نہیں جو جانوروں کی روایت پیش کرتے ہو۔ انسان بنو اور انسانوں کی روایت پیش کرو۔ یہ لفظ ’’قلادۃ‘‘ کے معنیٰ کیا ہیں جب یہ انسانوں کے لئے استعمال ہوتا ہے تو اس کا کیا معنیٰ ہو تا ہے۔صحیح بخاری کتاب تفسیر القرآن میں عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ہار مستعار لینے کا واقعہ درج ہے اس میں لفظ ’’ قلادۃ ‘‘ ہار کے لئے استعمال ہؤا ہے اور ایک قابلِ احترام ہستی کیلئے استعمال ہؤاہے۔ ملاحظہ فرمائیں؛
حَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ أَخْبَرَنَا عَبْدَةُ عَنْ هِشَامٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ
هَلَكَتْ قِلَادَةٌ لِأَسْمَاءَ فَبَعَثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي طَلَبِهَا رِجَالًا فَحَضَرَتْ الصَّلَاةُ وَلَيْسُوا عَلَى وُضُوءٍ وَلَمْ يَجِدُوا مَاءً فَصَلَّوْا وَهُمْ عَلَى غَيْرِ وُضُوءٍ فَأَنْزَلَ اللَّهُ يَعْنِي آيَةَ التَّيَمُّمِ (صحیح بخاری)


والسلام
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
محترم! دھوکہ فریب جھوٹ مکاری جیسی تمام بیماریاں ’اہلِ حدیث الفنس‘ میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہیں۔ یہ سب اندھی تقلید اور مجتہدین سے جھگڑا کرنے کا نتیجہ ہے۔
محترم آپ جانور نہیں جو جانوروں کی روایت پیش کرتے ہو۔ انسان بنو اور انسانوں کی روایت پیش کرو۔ یہ لفظ ’’قلادۃ‘‘ کے معنیٰ کیا ہیں جب یہ انسانوں کے لئے استعمال ہوتا ہے تو اس کا کیا معنیٰ ہو تا ہے۔صحیح بخاری کتاب تفسیر القرآن میں عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ہار مستعار لینے کا واقعہ درج ہے اس میں لفظ ’’ قلادۃ ‘‘ ہار کے لئے استعمال ہؤا ہے اور ایک قابلِ احترام ہستی کیلئے استعمال ہؤاہے۔ ملاحظہ فرمائیں؛
حَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ أَخْبَرَنَا عَبْدَةُ عَنْ هِشَامٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ
هَلَكَتْ قِلَادَةٌ لِأَسْمَاءَ فَبَعَثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي طَلَبِهَا رِجَالًا فَحَضَرَتْ الصَّلَاةُ وَلَيْسُوا عَلَى وُضُوءٍ وَلَمْ يَجِدُوا مَاءً فَصَلَّوْا وَهُمْ عَلَى غَيْرِ وُضُوءٍ فَأَنْزَلَ اللَّهُ يَعْنِي آيَةَ التَّيَمُّمِ (صحیح بخاری)


والسلام
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم بھٹی صاحب!
اب ہر مقلد کے لیے ضروری ہے کہ اُس نے عورتوں والا ہار پہنا ہو تا کہ پتا چل سکے کہ مقلد کون ہے؟۔۔۔ابتسامہ!!!
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
محترم! دھوکہ فریب جھوٹ مکاری جیسی تمام بیماریاں ’اہلِ حدیث الفنس‘ میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہیں۔ یہ سب اندھی تقلید اور مجتہدین سے جھگڑا کرنے کا نتیجہ ہے۔
محترم آپ جانور نہیں جو جانوروں کی روایت پیش کرتے ہو۔ انسان بنو اور انسانوں کی روایت پیش کرو۔ یہ لفظ ’’قلادۃ‘‘ کے معنیٰ کیا ہیں جب یہ انسانوں کے لئے استعمال ہوتا ہے تو اس کا کیا معنیٰ ہو تا ہے۔
قلادہ اور تقلید کی لغوی بحث یہاں محل نظر نہیں
بلکہ شرعی اور فقہی احکام میں ’’ تقلید ‘‘ زیر بحث ہے ۔۔
اور دیکھنا یہ ہے کہ دین اسلام جو علم ۔دلیل ۔۔تحقیق۔۔اور آزادی فکر کا داعی دین ہے ،کیا اس دین میں ۔۔دلیل کے بغیر کسی کی بات ۔۔مان لینا
اور وحی کے نصوص کو ترک کرکے علماء کے اقوال کو گلے کا ہار بنا لینا جائز ہے ۔۔یا۔۔نہیں ؟


اور تقلید کیا ہے ؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ عاشقان تقلید حنفی علماء بتاتے ہیں :
(التقليد العمل بقول من ليس قوله إحدى الحجج بلا حجة منها)
یعنی اصطلاح میں تقلید :
ایسے شخص کی بات پر بغیر دلیل عمل کرنا ،جس کا قول شرعاً حجت نہیں ‘‘

تیسیر التحریر ج۴۔۔ص ۲۴۱ )
یعنی تقلید ایسا گورکھ دھندا ہے جس میں مقلد بے چارہ یہ جانتا اور مانتا ہے کہ :
جس کا قول شرعاً حجت و دلیل نہیں اس کی تقلید میں نے اپنے آپ پر واجب کرلی ہوئی ہے ‘‘

جبکہ اسلام کی تعلیم تو یہ ہے کہ بغیر علم و دلیل کے کسی بات کو قبول نہ کیا جائے
وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا ( الاسراء ۔36) ؀
اور ایسی بات کے پیچھے نہ پڑو جس کا تجھے علم نہیں کیونکہ اس بات کے متعلق کان، آنکھ اور دل سب کی باز پرس ہوگی ‘‘
 
Last edited:

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
محترم! دھوکہ فریب جھوٹ مکاری جیسی تمام بیماریاں ’اہلِ حدیث الفنس‘ میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہیں۔ یہ سب اندھی تقلید اور مجتہدین سے جھگڑا کرنے کا نتیجہ ہے۔
محترم آپ جانور نہیں جو جانوروں کی روایت پیش کرتے ہو۔ انسان بنو اور انسانوں کی روایت پیش کرو۔ یہ لفظ ’’قلادۃ‘‘ کے معنیٰ کیا ہیں جب یہ انسانوں کے لئے استعمال ہوتا ہے تو اس کا کیا معنیٰ ہو تا ہے۔صحیح بخاری کتاب تفسیر القرآن میں عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ہار مستعار لینے کا واقعہ درج ہے اس میں لفظ ’’ قلادۃ ‘‘ ہار کے لئے استعمال ہؤا ہے اور ایک قابلِ احترام ہستی کیلئے استعمال ہؤاہے۔ ملاحظہ فرمائیں؛
حَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ أَخْبَرَنَا عَبْدَةُ عَنْ هِشَامٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ
هَلَكَتْ قِلَادَةٌ لِأَسْمَاءَ فَبَعَثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي طَلَبِهَا رِجَالًا فَحَضَرَتْ الصَّلَاةُ وَلَيْسُوا عَلَى وُضُوءٍ وَلَمْ يَجِدُوا مَاءً فَصَلَّوْا وَهُمْ عَلَى غَيْرِ وُضُوءٍ فَأَنْزَلَ اللَّهُ يَعْنِي آيَةَ التَّيَمُّمِ (صحیح بخاری)


والسلام
وعلیکم السلام -

محترم -یہ تو قیامت کا دن پتا چل جائے گا کہ دھوکہ فریب جھوٹ مکاری جیسی تمام بیماریاں کس کس مسلک میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہیں اور کون ان بیماریوں سے مبرّا ہے -

یہ الگ بات ہے کہ یہ حنفی مقلد دن رات اپنے امام کی دہائی دینے کے باوجود کئی ایک معاملات میں انہی کے مخالفت میں عمل کرتے ہی نظر آتے ہیں ( یعنی بدعات جیسے سوئم ، دوئم ، چلّہ، چالیسواں جو ان کے امام سے ثابت نہیں اس پر عمل کرتے ہیں وغیرہ)- تو پھر صحیح احادیث نبوی پر عمل تو ان کے لئے کسی جوئے شیر لانے سے کم نہیں - اور پھر کہتے اپنے امام کو "امام اعظم " ہیں - جب کہ اگر ان میں ذرا بھی اسلامی غیرت ہوتی تو یہ ابو حنیفہ کے بجاے نبی کریم محمّد مصطفیٰ صل الله علیہ و آ له وسلم کو اپنا امام اعظم مانتے-

بہر حال میں نے اپنی پوسٹ میں قرآن کی آیت میں لفظ قلادۃ‘ کو اس لئے بیان کیا ہے کہ تا کہ آپ اس کی شرعی حیثیت کو سمجھیں - جیسے لفظ "کفر" کے لغوی معنی عربی میں کسی بھی چیز کو چھپانے کے ہیں - اور کبھی یہ لفظ اندھیری رات کے لئے بھی استمعال ہوتا ہے - لیکن قرآن میں یہ لفظ الله کے واضح احکامات اور قرانی نصوص کے انکارکے معنوں میں استمعال ہوا ہے-

لہذا آپ کی پیش کردہ صحیح بخاری کی حدیث میں لفظ "قلادۃ" سے تقلید کا جواز نکالنا آپ جیسے مقلدین کا ہی ظرف ہے-
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
قلادہ اور تقلید کی لغوی بحث یہاں محل نظر نہیں
بلکہ شرعی اور فقہی احکام میں ’’ تقلید ‘‘ زیر بحث ہے ۔۔
اور دیکھنا یہ ہے کہ دین اسلام جو علم ۔دلیل ۔۔تحقیق۔۔اور آزادی فکر کا داعی دین ہے ،کیا اس دین میں ۔۔دلیل کے بغیر کسی کی بات ۔۔مان لینا
اور وحی کے نصوص کو ترک کرکے علماء کے اقوال کو گلے کا ہار بنا لینا جائز ہے ۔۔یا۔۔نہیں ؟
محترم! مجتہد فقیہہ کیا وحی متلو اور وحی خفی جیسی نصوص کو ترک کرکے اپنی بات پیش کرتے ہیں یا ان سے جو صحیح فہم ہے وہ ہم تک پہنچاتے ہیں؟؟؟؟؟؟؟
آقا علیہ السلام کا فرمان ہے؛

ابن ماجه کتاب المقدمہ باب من بلغ علما
عن أنس بن مالك قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم نضر الله عبدا سمع مقالتي فوعاها ثم بلغها عني فرب حامل فقه غير فقيه ورب حامل فقه إلى من هو أفقه منه


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی تروتازہ رکھے اس بندے کو جو سنے مجھ سے کوئی بات اور اسے یاد رکھے پھر میری طرف سے دوسروں کو پہنچادے- ممکن ہے فقہ (کی حدیث) کا حامل غیر فقیہہ ہو اور ممکن ہے وہ اس فقہ (والی حدیث) کو پہنچا دے اس کی طرف جو اس سے زیادہ فقیہہ ہو -
محترم! فقیہہ کا کام حدیث میں مخفی فقہ کو سامنے لانا ہوتا ہے تاکہ مسائل سمجھ آسکیں۔
ایسے شخص کی بات پر بغیر دلیل عمل کرنا ،جس کا قول شرعاً حجت نہیں ‘‘
محترم! مجتہد کی بات بلا دلیل نہیں ہوتی لیکن وہ جو بات کہہ رہا ہوتا ہے اس کی دلیل موجود ہوتی ہے۔ عامی کو دلائل کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس کا کام ہے کہ جو واقعی مجتہد اور فقیہہ ہو اس پر اعتماد کرتے ہوئے اس کی بات پر عمل کر لے۔ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق مجتہد فقیہہ ماجور ہی ہوتا ہے تو اس کی تقلید کرنے والا بھی ماجور ہی ہوتا ہے۔
یہ کھلا دھوکہ ہے کہ بغیر دلیل کے بات نہ مانو۔ یہ جتنے بھی غیر مقلد ’’مجتہد‘‘ بنے بیٹھے ہیں ان کو سوائے اختلافی احادیث کے اورکچھ نہیں آتا۔ آزمائش شرط ہے۔
دوسرا دھوکہ یہ ہے کہ کہتے ہیں جس امام کی بات قرآن اور حدیث کے مطابق ہو اسے مان لو۔ ان کی بلا سے کہ یہ بات جج کرنے کی صلاحیت کسی میں ہے بھی کہ نہیں۔ اسی فورم پر اب تک جو کچھ لکھا گیا ہےاس کو ملاحظہ فرمالیں۔
جبکہ اسلام کی تعلیم تو یہ ہے کہ بغیر علم و دلیل کے کسی بات کو قبول نہ کیا جائے
محترم! کہنا آسان اور کرنا مشکل۔کیا تمام لوگ دینی علوم اس حد تک حاصل کر سکتے ہیں کہ ہر کوئی مجتہد و فقیہہ بن جائے؟؟؟؟؟
محترم! جو چیز کسی پر فرض ہو اس کا علم حاصل کرنا تو اس پر فرض ہے اس کے دلائل جاننا اس پر فرض نہیں اور نہ ہی یہ سب کے لئے ممکن ہے۔
محترم! غیر مقلد’اہلِ حدیث‘ کیا ہر ایک ہر عمل کے دلائل رکھتا ہے؟؟؟؟؟
تمام غیر مقلدین رافضی شیعوں کی طرح صرف اختلافی احادیث کو رٹا لگائے ہوتے ہیں اپنے بڑوں سے سن کر خود انہوں نے احادیث کی کتب کو ہاتھ بھی نہیں لگایا ہوتا۔

یہ الگ بات ہے کہ یہ حنفی مقلد دن رات اپنے امام کی دہائی دینے کے باوجود کئی ایک معاملات میں انہی کے مخالفت میں عمل کرتے ہی نظر آتے ہیں ( یعنی بدعات جیسے سوئم ، دوئم ، چلّہ، چالیسواں جو ان کے امام سے ثابت نہیں اس پر عمل کرتے ہیں وغیرہ)- تو پھر صحیح احادیث نبوی پر عمل تو ان کے لئے کسی جوئے شیر لانے سے کم نہیں - اور پھر کہتے اپنے امام کو "امام اعظم " ہیں - جب کہ اگر ان میں ذرا بھی اسلامی غیرت ہوتی تو یہ ابو حنیفہ کے بجاے نبی کریم محمّد مصطفیٰ صل الله علیہ و آ له وسلم کو اپنا امام اعظم مانتے-
محترم! سوئم ، چلّہ، چالیسواں جو کرتے ہیں وہ جانیں اور ان کا کام۔
محترم! تعصب اور ضد میں آقا علیہ السلام کا مقام نہ گھٹاؤ آقا علیہ السلام ’’امام الانبیاء‘‘ ہیں اور ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ فقہ کے ’’امام اعظم‘‘ ہیں۔

لہذا آپ کی پیش کردہ صحیح بخاری کی حدیث میں لفظ "قلادۃ" سے تقلید کا جواز نکالنا آپ جیسے مقلدین کا ہی ظرف ہے-
محترم! اس حدیث سے تقلید ثابت کرنا مقصود نہ تھا بلکہ تقلید کے جو معنیٰ سوچے سمجھے طریقہ سے غلط کیئے جاتے ہیں ان کی نشان دہی مقصد تھا۔
والسلام
 
Top