اسی سنن ترمذی میں یہ بھی لکھا ہوا ہے:
وقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ المُبَارَكِ: قَدْ ثَبَتَ حَدِيثُ مَنْ يَرْفَعُ، وَذَكَرَ حَدِيثَ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، وَلَمْ يَثْبُتْ حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَرْفَعْ إِلَّا فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ.
اسی سنن ابو داود میں اسی حدیث کے متعلق یہ بھی درج ہے
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ الزُّهْرِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ يَزِيدَ، نَحْوَ حَدِيثِ شَرِيكٍ، لَمْ يَقُلْ: «ثُمَّ لَا يَعُودُ»، قَالَ سُفْيَانُ: قَالَ لَنَا بِالْكُوفَةِ بَعْدُ «ثُمَّ لَا يَعُودُ» قَالَ أَبُو دَاوُدَ: وَرَوَى هَذَا الْحَدِيثَ هُشَيْمٌ، وَخَالِدٌ، وَابْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ يَزِيدَ، لَمْ يَذْكُرُوا «ثُمَّ لَا يَعُودُ»،
اب سند کی بحث کے تو آپ متحمل نہیں ہو سکو گے، وگرنہ ہم آپ کو بتلاتے کہ یزید بن ابی زیاد کون ہیں اور ان کا کیا رتبہ ہے،
ابن حجر نے ، امام حمیدی نے ، امام بیہقی وغیرہ نے اسے «ثُمَّ لَا يَعُودُ» کے الفاظ کو یزید بن ابی زیاد کا اضافہ قرار دیا ہے،
اس حدیث کو امام احمد بن حنبل ، امام بخاری ، امام یحیی بن معین، امام دارمی ، وغیرہ نے ضعیف قرار دیا ہے۔
کیوں نہیں جناب! اس میں تو آپ لوگوں نے اتنی مہارت حاصل کر لی ہے کہ جس راوی کو جب چاہیں جھوٹا ثابت کردیں اور جب ضرورت ہو تو سچا کر دکھائیں۔ احادیث کو جھٹلانے کا بہترین حربہ ’’محدث فورم‘‘ اور چلانے والے’’اہلِ حدیث‘‘؟؟؟؟؟ْ
اس سند کے راوی عبد اللہ بن مبارک کا قول ابھی گزرا دوبارہ پیش کرتا ہوں:
سنن ترمذی میں یہ بھی لکھا ہوا ہے:
وقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ المُبَارَكِ:
قَدْ ثَبَتَ حَدِيثُ مَنْ يَرْفَعُ، وَذَكَرَ حَدِيثَ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، وَلَمْ يَثْبُتْ حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَرْفَعْ إِلَّا فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ.
محترم امتیوں کے اقوال سے حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو رد کرنے کا نام ’’محدث فورم‘‘ اور اس کو چلانے والے ’’اہلِ حدیث‘‘۔واہ کیا بات ہے!!!!!!!!!!
یہ ساری باتیں ذہن میں رکھیں اور آخر میں ملا علی قاری حنفی کا کلام ملاحظہ فرمائیں:
وَمِنْ ذَلِكَ أَحَادِيثُ الْمَنْعِ مِنْ رَفْعِ الْيَدَيْنِ فِي الصَّلَاةِ عِنْدَ الرُّكُوعِ وَالرَّفْعِ مِنْهُ كُلُّهَا بَاطِلَةٌ لَا يَصِحُّ مِنْهَا شَيْءٌ
كَحَدِيثِ ابْنِ مَسْعُودٍ أَلَا أُصَلِّي بِكُمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَصَلَّى فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلَّا فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ قَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ قَدْ ثَبَتَ حَدِيثُ سَالِمٍ عَنْ أَبِيهِ يَعْنِي فِي الرَّفْعِ وَلَمْ يَثْبُتْ حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ
وَكَحَدِيثِهِ الْآخَرِ صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ فَلَمْ يَرْفَعُوا إِلَّا عِنْدَ افْتِتَاحِ الصَّلَاةِ وَهُوَ مُنْقَطِعٌ لَا يَصِحُّ
ویسے مقلدین امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے علم الحدیث میں اسی طرح کی جہالت سے بھرپور باتوں کی ہی امید کی جاسکتی ہے!
علم الحدیث میں مقلدین ا مام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اپنے مقلَد کی طرح یتیم و مسکین ہی ہوا کرتے ہیں!
محترم فقرات صحیح لکھا کریں قارئین کو غلط فہمی ہو جاتی ہے۔ صحیح فقرہ یہ ہے ’’ویسے غیرمقلدین سے علم الحدیث میں اسی طرح کی جہالت سے بھرپور باتوں کی ہی امید کی جاسکتی ہے‘‘اوپراقتباسات ملاحظہ فرما لیں۔ تقلید کو ’شرک‘ اور قیاس کو ’کارِ شیطاں‘ کہتے یہ لوگ نہیں تھکتے مگر احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو امتیوں کے اقوال اور قیاس سے رد کرتے ہیں۔
ابھی کچھ ہی عرصہ قبل ایک آنجہانی پرائمری ٹیچر گزرا ہے جو محدثین کی جرح وتعدیل کا اسی طرح مذاق اڑایا کرتا تھا ۔خود تو گزر گیا تاہم متعدی جراثیم پیچھے چھوڑ گیا ۔۔
وہ صاحب دیوبندیوں کے مجدد فقہ حنفیہ تھے، انہوں نے فقہ حنفی میں خوب تجدیدی کارنامے سرانجام دیئے ہیں!
لیکن یاد رہے، فقہ حنفیہ کے مجدد تھے، دین اسلام سے تو وہ قطعی ''جاہل'' واقع ہوئے تھے!
فقہ دین کی سمجھ کا نام ہے الگ سے کوئی دین نہیں اسی طرح فقہ حنفیہ دینِ اسلام سے الگ کوئی دین نہیں۔ ابوحنیفہ رحمۃ اللہ فقیہہ تھے اور مذکورہ ’’ پرائمری ٹیچر‘‘ کو آپ نے خود ’’فقہ حنفیہ کے مجدد‘‘ تسلیم کیا ہے۔ اس مذکورہ تحریر میں آپ نے کس کا مذاق اڑایا ملاحظہ فرمائیں؛
آقا علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’
من يرد الله به خيرا يفقهه في الدين الحدیث (بخاری)‘‘ اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتے ہیں اسے دین کی سمجھ عطا فرماتے ہیں۔ ایسے شخص کو جاہل کہنا جاہلوں کا ہی کام ہے۔
یاد رکھیں ! کتاب و سنت ( قرآن کریم اور صحیح آحادیث رسول ﷺ ) کے اتباع کے علاوہ دوسرے تمام شخصی طریقے، مذاھب و مسالک کی تقلید کرنا انسان کو ھلاکت کے گڑھے میں پہنچا دیتا ھے۔ جب کہ قرآن کریم اور صحیح آحادیث رسول ﷺ کو کامل و مکمل جان کر اس کی اتباع انسان کو کامیابی اور نجات کی راستے تک پہنچا دیتا ھے۔
یاد رکھیں ! جس نے اپنے محبوب نبی محمد کریم ﷺ کے علاوہ کسی امتی شخص کو شریعت کا امام اعظم جانا اور نبی کریم ﷺ کی اتباع کو چھوڑ کر کسی امتی شخص کو اپنا امام جان کر اس کی تقلید کی تو وہ شخص ہلاک اور تباہ ھوا۔ اپنے رسول ﷺ کی سنت ( صحیح آحادیث ) پر کسی امتی شخص کی بات و قول کو ترجیح دینے والے شخص کا سارا عمل و مشقت ضائع و برباد ھے، اور وہ دنیا اور آخرت میں ذلیل اور خاب و خاسر رھے گا۔
کتاب و سنت ( قرآن و صحیح آحادیث رسول ﷺ) کی اتباع کے بجائے اپنے خود ساختہ بزرگوں اور آئمہ کی اندھی تقلید کرنے والوں کو اگر یقین نہیں آتا تو پڑھیئے الله تعالی کا ارشاد جب قیامت کے دن ہر ظالم یعنی کافر، مشرک، منافق اور مبتدع وغیرہ اپنے انجام کو دیکھ کر دنیاوی زندگی میں مخالفت رسول ﷺ پر افسوس کا اظہار کرکےاپنے ہاتھوں کو اپنے دانتوں سے ہی کاٹ کر کہے گا:
محترم ذرا اپنے گریبان میں بھی جھانک لیں۔ اوپر درج اقتباسات اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ کون احادیث سے اپنے دلائل کو مزین کر رہا ہے اور کون امتیوں کے اقوال سے احادیث کو جھٹلانے میں کوشاں ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟ْ
والسلام