جی ہاں! آپ درست فرماتے ہیں،چور کو اسی گھر کا زیادہ خیال رہتا ہے جس میں کافی مال ودولت موجود ہو،چونکہ اہل نجد دولت ایمانی سے لبریز ہیں ،اور شرک وبدعات کا قلع قمع کرنے والے ہیں،لہذا شیطان کو وہاں محنت کچھ زیادہ ہی کرنی پڑے گی۔
میری سمجھ میں نہیں آتا کہ نجد میں کون سا ایمان ہے کیوں کہ جب میں صحیح بخاری کا مطالعہ کرتا ہوں تو مجھے یہ معلوم ہوتا کہ رسول اللہﷺ نے نجد کے لئے دعا بھی نہیں فرمائی جبکہ آپ اس قدر رحم دل ہیں کہ طائف والوں کے مظالم کے باوجود آپﷺ نے ان کے لئے دعا فرمائی آئیں صحیح بخاری کی حدیث ملاحظہ فرمائیں
حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا أزهر بن سعد، عن ابن عون، عن نافع، عن ابن عمر، قال ذكر النبي صلى الله عليه وسلم " اللهم بارك لنا في شأمنا، اللهم بارك لنا في يمننا ". قالوا وفي نجدنا. قال " اللهم بارك لنا في شأمنا، اللهم بارك لنا في يمننا ". قالوا يا رسول الله وفي نجدنا فأظنه قال في الثالثة " هناك الزلازل والفتن، وبها يطلع قرن الشيطان ".
ترجمہ داؤد راز
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ازہر بن سعد نے بیان کیا، ان سے ابن عون نے بیان کیا، ان سے نافع نے بیان کیا، ان سے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اللہ! ہمارے ملک شام میں ہمیں برکت دے، ہمارے یمن میں ہمیں برکت دے۔ صحابہ نے عرض کیا اور ہمارے نجد میں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا اے اللہ ہمارے شام میں برکت دے، ہمیں ہمارے یمن میں برکت دے۔ صحابہ نے عرض کی اور ہمارے نجد میں؟ میرا گمان ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری مرتبہ فرمایا وہاں زلزلے اور فتنے ہیں اور وہاں شیطان کا سینگ طلوع ہو گا۔
صحیح بخاری ،کتاب الفتن ،باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانا کہ فتنہ مشرق کی طرف سے اٹھے گا حدیث نمبر 7094
کہا جاتا ہے کہ امام بخاری کی فقیہ ان کے ترجمہ ابواب میں ہے اگر امام بخاری کی فقہ پر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس حدیث نجد کو جس باب کے تحت امام بخاری نے بیان کیا ہے وہ ہے
" نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانا کہ فتنہ مشرق کی طرف سے اٹھے گا " اور پھر اس حدیث نجد کو بیان کیا یعنی امام بخاری کے نزدیک یہ امر مسلم ہے کہ نجد مشرق میں ہے جہاں سے شیطان کا سینگ نکلے گا اب جس سرزمین کے بارے رسول اللہﷺ کا ارشاد یہ ہو کہ وہ فتنوں کی سرزمین ہے آپ ایسے دولت ایمانی والی سرزمین مانتے ہیں تو کیا یہ رسول اللہﷺ کے فرمان کی مخالفت نہیں ؟