عیدعربی زبان کا لفظ ہے اور عید کا معنی ہے ،
وہ دن ، یا وہ اجتماع اور حالت جو بار بار لوٹ کر آئے ،
امام ابن تیمیہ لکھتے ہیں :
"العيد اسم لما يعود من الاجتماع العام على وجه معتاد، عائدٌ إما بعود السنة، أو بعود الأسبوع، أو الشهر، أو نحو ذلك.
فالعيد يجمع أموراً:
منها: يوم عائد كيوم الفطر ويوم الجمعة.
ومنها اجتماع فيه.
ومنها أعمال تتبع ذلك من العبادات والعادات، وقد يختص العيد بمكان بعينه، وقد يكون مطلقاً، وكل من هذه الأمور قد يسمى عيداً ))
یعنی عید اس (زمان و مکان ) کو کہا جاتا ہے جو بار بار لوٹ آئے ، خواہ سال کے بعد آئے یا ہفتہ کے بعد یا مہینہ کے بعد ؛
تو عید میں چند امور جمع ہیں : ایک تو وہ کوئی دن ہوگا جیسے عید الفطر اور روز جمعہ
یا اس میں اجتماع ہوگا
تیسرا اس میں کوئی اعمال ہونگے از قسم عبادات و عادات اور کبھی عید کسی خاص جگہ سے مخصوص ہوگی
(کسی مزار پر عرس جو صرف اسی مزار پر ہی منعقد ہوتا ہے )‘‘ اقتضاء الصراط المستقیم
ان تینوں قسم کی عید کیلئے شرع کی اجازت اور حکم ہونا لازم ہے ، کیونکہ :
پیارے نبی ﷺ جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو دیکھا :
عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ وَلَهُمْ يَوْمَانِ يَلْعَبُونَ فِيهِمَا، فَقَالَ: مَا هَذَانِ الْيَوْمَانِ؟ قَالُوا: كُنَّا نَلْعَبُ فِيهِمَا فِي الْجَاهِلِيَّةِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَبْدَلَكُمْ بِهِمَا خَيْرًا مِنْهُمَا: يَوْمَ الْأَضْحَى، وَيَوْمَ الْفِطْرِ "
انس ؓ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ مدینہ تشریف لائے (تو دیکھا کہ) ان کے لیے (سال میں) دو دن ہیں جن میں وہ کھیلتے کودتے ہیں تو آپ نے پوچھا : ” یہ دو دن کیسے ہیں ؟ “ ، تو ان لوگوں نے کہا : جاہلیت میں ہم ان دونوں دنوں
میں کھیلتے کودتے تھے ، تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” اللہ نے تمہیں ان دونوں کے عوض ان سے بہتر دو دن عطا فرما دیئے ہیں : ایک عید الاضحی کا دن اور دوسرا عید الفطر کا دن “
یعنی سابقہ جاہلیت کی عیدوں کے مقابل یہ نہیں فرمایا کہ تم اپنے لیئے کوئی اور دن عید کیلئے مقرر کرلو ،
بلکہ فرمایا : جاہلیت والی عیدوں کے بدلے اللہ تعالی نے تمہارے لئے سال میں دو اور دن مقرر فرمادیئے ہیں ؛(جو اجتماعی عبادت اور اس پر خوشی کے دن ہیں )
تو جس طرح سال کے بعد آنے والے بطور عید دو دن ہیں ، اسی طرح خود اللہ تعالی نے ہفتہ کے بعد ایک دن جس میں اجتماعی عبادت ہوتی ہے جمعہ کا دن مقرر فرمادیا ؛
قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ هَذَا يَوْمُ عِيدٍجَعَلَهُ اللَّهُ لِلْمُسْلِمِينَ
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’یہ (جمعہ )عید کا دن ہے جو خود اللہ نے مسلمانوں کے لیے مقرر کیا ہے۔
اور
عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ مِنَ اليَهُودِ لِعُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ: يَا أَمِيرَ المُؤْمِنِينَ، لَوْ عَلَيْنَا أُنْزِلَتْ هَذِهِ الآيَةَ: {اليَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلَامَ دِينًا} [المائدة: 3] لَاتَّخَذْنَا ذَلِكَ اليَوْمَ عِيدًا، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ بْنُ الخَطَّابِ: «أَنِّي لَأَعْلَمُ أَيَّ يَوْمٍ أُنْزِلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ، أُنْزِلَتْ يَوْمَ عَرَفَةَ فِي يَوْمِ جُمُعَةٍ»
کہ ایک یہودی نے عمر بن خطاب ؓ سے کہا : امیر المؤمنین ! اگر یہ آیت « اليوم أكملت لكم دينكم وأتممت عليكم نعمتي ورضيت لكم الإسلام دينا » ” آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو کامل کر دیا اور تم پر اپنا انعام بھرپور کر دیا اور تمہارے لیے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہو گیا “ (المائدہ : ۳) ، ہمارے اوپر (ہماری توریت میں) نازل ہوتی تو ہم اس دن کو عید بنا لیتے جس دن وہ نازل ہوئی تھی ، عمر بن خطاب ؓ نے اس سے کہا : مجھے خوب معلوم ہے کہ یہ آیت کس دن نازل ہوئی تھی ۔ یہ آیت یوم عرفہ (نویں ذی الحجہ) کو جمعہ کے دن نازل ہوئی تھی ۔ (
صحیح بخاری و الترمذی )
یعنی سیدنا عمرؓ نے یہ نہیں فرمایا کہ ہم اس دن کو تکمیل شریعت کا تہوار بناکر ہرسال منائیں گے بلکہ فرمایا :
اللہ نے تکمیل دین کی آیت خود اس دن نازل فرمائی جس دن ہماری دو عیدیں تھیں ، ایک عرفہ کی اور دوسری جمعہ کی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔