• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جمعہ عید کا دن ؟

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
سنن ابن ماجه: كِتَابُ إِقَامَةِ الصَّلَاةِ وَالسُّنَّةُ فِيهَا (بَابُ مَا جَاءَ فِي الزِّينَةِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ)
1098 . حَدَّثَنَا عَمَّارُ بْنُ خَالِدٍ الْوَاسِطِيُّ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ غُرَابٍ عَنْ صَالِحِ بْنِ أَبِي الْأَخْضَرِ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُبَيْدِ بْنِ السَّبَّاقِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ هَذَا يَوْمُ عِيدٍ جَعَلَهُ اللَّهُ لِلْمُسْلِمِينَ فَمَنْ جَاءَ إِلَى الْجُمُعَةِ فَلْيَغْتَسِلْ وَإِنْ كَانَ طِيبٌ فَلْيَمَسَّ مِنْهُ وَعَلَيْكُمْ بِالسِّوَاكِ
حکم : حسن


سنن ابن ماجہ: کتاب: نماز کی اقامت اور اس کا طریقہ (باب: جمعے کے دن 1098 . سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’یہ عید کا دن ہے جو اللہ نے مسلمانوں کے لیے مقرر کیا ہے۔ لہٰذا جو شخص جمعہ پڑھنے آئے اسے چاہیے کہ غسل کر کے آئے۔ اگر خوشبو موجود ہو تو لگالے اور مسواک ضرور کیا کرو۔‘​
 
Last edited by a moderator:

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
سنن ابن ماجه: كِتَابُ إِقَامَةِ الصَّلَاةِ وَالسُّنَّةُ فِيهَا (بَابُ مَا جَاءَ فِي الزِّينَةِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ)
1098 . حَدَّثَنَا عَمَّارُ بْنُ خَالِدٍ الْوَاسِطِيُّ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ غُرَابٍ عَنْ صَالِحِ بْنِ أَبِي الْأَخْضَرِ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُبَيْدِ بْنِ السَّبَّاقِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ هَذَا يَوْمُ عِيدٍ جَعَلَهُ اللَّهُ لِلْمُسْلِمِينَ فَمَنْ جَاءَ إِلَى الْجُمُعَةِ فَلْيَغْتَسِلْ وَإِنْ كَانَ طِيبٌ فَلْيَمَسَّ مِنْهُ وَعَلَيْكُمْ بِالسِّوَاكِ
حکم : حسن


سنن ابن ماجہ: کتاب: نماز کی اقامت اور اس کا طریقہ (باب: جمعے کے دن 1098 . سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’یہ عید کا دن ہے جو اللہ نے مسلمانوں کے لیے مقرر کیا ہے۔ لہٰذا جو شخص جمعہ پڑھنے آئے اسے چاہیے کہ غسل کر کے آئے۔ اگر خوشبو موجود ہو تو لگالے اور مسواک ضرور کیا کرو۔‘
@خضر حیات
@اسحاق سلفی
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
اس حدث کا معنی و مفہوم بالکل واضح ہے ۔
شاید آپ کو اشکال یہ ہے کہ ہم تو کہتے ہیں کہ اسلام میں کوئی تیسری عید نہیں تو پھر فطر اور اضحی کے علاوہ جمعہ کو کیوں عید کہا جاتا ہے ؟
وہ بڑی عیدیں ہیں ، جو سال بعد آتی ہیں ، اسی لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی انہیں دو ہی کہا ہے ۔
جمعہ کا دن چھوٹی عید ہے ، جو ہر ہفتے آتی ہے ۔
دونوں عیدوں اور جمعہ کے دن کو عید قرار دینا احادیث سے ثابت ہے ۔
اگر کسی اور عید کا بھی ثبوت ہے تو ان دو بڑی عیدوں یعنی فطر اور اضحی اور چھوٹی عید جمعہ کی طرح اس کے ثبوت دکھانا چاہیے ۔
عیدمیلاد اور عید جمعہ
عید اور جمعہ
جمعہ کے دن کی مبارکباد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تھریڈ کو عمومی عنوان ( مثلا: حدیث کی تحقیق یا شرح مطلوب ہے ) کی بجائے ، متعلقہ حدیث کے قریب تر عنوان دیں ، تاکہ آپ کو اور دیگر لوگوں کو بعد میں تلاش کرنے میں آسانی ہو ۔ عنوان صحیح لکھنے سے بعد دفعہ تھریڈ شروع کرنے سے پہلے ہی پہلے سے موجود جواب سامنے آجاتا ہے ۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
بعض لوگ چھوٹی عید بڑی عید کی تفریق کرتے ہیں اسی طرح جمعہ کو حکمی عید کہتے ہیں. اسکی کیا حقیقت ہے؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
إِنَّ هَذَا يَوْمُ عِيدٍ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جمعہ عید کا دن ؟
عیدعربی زبان کا لفظ ہے اور عید کا معنی ہے ،
وہ دن ، یا وہ اجتماع اور حالت جو بار بار لوٹ کر آئے ،
امام ابن تیمیہ لکھتے ہیں :
"العيد اسم لما يعود من الاجتماع العام على وجه معتاد، عائدٌ إما بعود السنة، أو بعود الأسبوع، أو الشهر، أو نحو ذلك.
فالعيد يجمع أموراً:
منها: يوم عائد كيوم الفطر ويوم الجمعة.
ومنها اجتماع فيه.
ومنها أعمال تتبع ذلك من العبادات والعادات، وقد يختص العيد بمكان بعينه، وقد يكون مطلقاً، وكل من هذه الأمور قد يسمى عيداً ))

یعنی عید اس (زمان و مکان ) کو کہا جاتا ہے جو بار بار لوٹ آئے ، خواہ سال کے بعد آئے یا ہفتہ کے بعد یا مہینہ کے بعد ؛
تو عید میں چند امور جمع ہیں : ایک تو وہ کوئی دن ہوگا جیسے عید الفطر اور روز جمعہ
یا اس میں اجتماع ہوگا
تیسرا اس میں کوئی اعمال ہونگے از قسم عبادات و عادات اور کبھی عید کسی خاص جگہ سے مخصوص ہوگی
(کسی مزار پر عرس جو صرف اسی مزار پر ہی منعقد ہوتا ہے )‘‘ اقتضاء الصراط المستقیم

ان تینوں قسم کی عید کیلئے شرع کی اجازت اور حکم ہونا لازم ہے ، کیونکہ :
پیارے نبی ﷺ جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو دیکھا :
عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ وَلَهُمْ يَوْمَانِ يَلْعَبُونَ فِيهِمَا، فَقَالَ: مَا هَذَانِ الْيَوْمَانِ؟ قَالُوا: كُنَّا نَلْعَبُ فِيهِمَا فِي الْجَاهِلِيَّةِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَبْدَلَكُمْ بِهِمَا خَيْرًا مِنْهُمَا: يَوْمَ الْأَضْحَى، وَيَوْمَ الْفِطْرِ "
انس ؓ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ مدینہ تشریف لائے (تو دیکھا کہ) ان کے لیے (سال میں) دو دن ہیں جن میں وہ کھیلتے کودتے ہیں تو آپ نے پوچھا : ” یہ دو دن کیسے ہیں ؟ “ ، تو ان لوگوں نے کہا : جاہلیت میں ہم ان دونوں دنوں
میں کھیلتے کودتے تھے ، تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” اللہ نے تمہیں ان دونوں کے عوض ان سے بہتر دو دن عطا فرما دیئے ہیں : ایک عید الاضحی کا دن اور دوسرا عید الفطر کا دن “
یعنی سابقہ جاہلیت کی عیدوں کے مقابل یہ نہیں فرمایا کہ تم اپنے لیئے کوئی اور دن عید کیلئے مقرر کرلو ،
بلکہ فرمایا : جاہلیت والی عیدوں کے بدلے اللہ تعالی نے تمہارے لئے سال میں دو اور دن مقرر فرمادیئے ہیں ؛(جو اجتماعی عبادت اور اس پر خوشی کے دن ہیں )
تو جس طرح سال کے بعد آنے والے بطور عید دو دن ہیں ، اسی طرح خود اللہ تعالی نے ہفتہ کے بعد ایک دن جس میں اجتماعی عبادت ہوتی ہے جمعہ کا دن مقرر فرمادیا ؛
قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ هَذَا يَوْمُ عِيدٍجَعَلَهُ اللَّهُ لِلْمُسْلِمِينَ
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’یہ (جمعہ )عید کا دن ہے جو خود اللہ نے مسلمانوں کے لیے مقرر کیا ہے۔
اور
عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ مِنَ اليَهُودِ لِعُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ: يَا أَمِيرَ المُؤْمِنِينَ، لَوْ عَلَيْنَا أُنْزِلَتْ هَذِهِ الآيَةَ: {اليَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلَامَ دِينًا} [المائدة: 3] لَاتَّخَذْنَا ذَلِكَ اليَوْمَ عِيدًا، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ بْنُ الخَطَّابِ: «أَنِّي لَأَعْلَمُ أَيَّ يَوْمٍ أُنْزِلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ، أُنْزِلَتْ يَوْمَ عَرَفَةَ فِي يَوْمِ جُمُعَةٍ»
کہ ایک یہودی نے عمر بن خطاب ؓ سے کہا : امیر المؤمنین ! اگر یہ آیت « اليوم أكملت لكم دينكم وأتممت عليكم نعمتي ورضيت لكم الإسلام دينا » ” آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو کامل کر دیا اور تم پر اپنا انعام بھرپور کر دیا اور تمہارے لیے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہو گیا “ (المائدہ : ۳) ، ہمارے اوپر (ہماری توریت میں) نازل ہوتی تو ہم اس دن کو عید بنا لیتے جس دن وہ نازل ہوئی تھی ، عمر بن خطاب ؓ نے اس سے کہا : مجھے خوب معلوم ہے کہ یہ آیت کس دن نازل ہوئی تھی ۔ یہ آیت یوم عرفہ (نویں ذی الحجہ) کو جمعہ کے دن نازل ہوئی تھی ۔ (
صحیح بخاری و الترمذی )
یعنی سیدنا عمرؓ نے یہ نہیں فرمایا کہ ہم اس دن کو تکمیل شریعت کا تہوار بناکر ہرسال منائیں گے بلکہ فرمایا :
اللہ نے تکمیل دین کی آیت خود اس دن نازل فرمائی جس دن ہماری دو عیدیں تھیں ، ایک عرفہ کی اور دوسری جمعہ کی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Last edited:

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
لفظ عید کی شرح درکاہے
اس حدث کا معنی و مفہوم بالکل واضح ہے ۔
شاید آپ کو اشکال یہ ہے کہ ہم تو کہتے ہیں کہ اسلام میں کوئی تیسری عید نہیں تو پھر فطر اور اضحی کے علاوہ جمعہ کو کیوں عید کہا جاتا ہے ؟
وہ بڑی عیدیں ہیں ، جو سال بعد آتی ہیں ، اسی لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی انہیں دو ہی کہا ہے ۔
جمعہ کا دن چھوٹی عید ہے ، جو ہر ہفتے آتی ہے ۔
دونوں عیدوں اور جمعہ کے دن کو عید قرار دینا احادیث سے ثابت ہے ۔
اگر کسی اور عید کا بھی ثبوت ہے تو ان دو بڑی عیدوں یعنی فطر اور اضحی اور چھوٹی عید جمعہ کی طرح اس کے ثبوت دکھانا چاہیے ۔
عیدمیلاد اور عید جمعہ
عید اور جمعہ
جمعہ کے دن کی مبارکباد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تھریڈ کو عمومی عنوان ( مثلا: حدیث کی تحقیق یا شرح مطلوب ہے ) کی بجائے ، متعلقہ حدیث کے قریب تر عنوان دیں ، تاکہ آپ کو اور دیگر لوگوں کو بعد میں تلاش کرنے میں آسانی ہو ۔ عنوان صحیح لکھنے سے بعد دفعہ تھریڈ شروع کرنے سے پہلے ہی پہلے سے موجود جواب سامنے آجاتا ہے ۔
جزاک اللہ خیر
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
عیدعربی زبان کا لفظ ہے اور عید کا معنی ہے ،
وہ دن ، یا وہ اجتماع اور حالت جو بار بار لوٹ کر آئے ،
امام ابن تیمیہ لکھتے ہیں :
"العيد اسم لما يعود من الاجتماع العام على وجه معتاد، عائدٌ إما بعود السنة، أو بعود الأسبوع، أو الشهر، أو نحو ذلك.
فالعيد يجمع أموراً:
منها: يوم عائد كيوم الفطر ويوم الجمعة.
ومنها اجتماع فيه.
ومنها أعمال تتبع ذلك من العبادات والعادات، وقد يختص العيد بمكان بعينه، وقد يكون مطلقاً، وكل من هذه الأمور قد يسمى عيداً ))

یعنی عید اس (زمان و مکان ) کو کہا جاتا ہے جو بار بار لوٹ آئے ، خواہ سال کے بعد آئے یا ہفتہ کے بعد یا مہینہ کے بعد ؛
تو عید میں چند امور جمع ہیں : ایک تو وہ کوئی دن ہوگا جیسے عید الفطر اور روز جمعہ
یا اس میں اجتماع ہوگا
تیسرا اس میں کوئی اعمال ہونگے از قسم عبادات و عادات اور کبھی عید کسی خاص جگہ سے مخصوص ہوگی
(کسی مزار پر عرس جو صرف اسی مزار پر ہی منعقد ہوتا ہے )‘‘ اقتضاء الصراط المستقیم

ان تینوں قسم کی عید کیلئے شرع کی اجازت اور حکم ہونا لازم ہے ، کیونکہ :
پیارے نبی ﷺ جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو دیکھا :
عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ وَلَهُمْ يَوْمَانِ يَلْعَبُونَ فِيهِمَا، فَقَالَ: مَا هَذَانِ الْيَوْمَانِ؟ قَالُوا: كُنَّا نَلْعَبُ فِيهِمَا فِي الْجَاهِلِيَّةِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَبْدَلَكُمْ بِهِمَا خَيْرًا مِنْهُمَا: يَوْمَ الْأَضْحَى، وَيَوْمَ الْفِطْرِ "
انس ؓ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ مدینہ تشریف لائے (تو دیکھا کہ) ان کے لیے (سال میں) دو دن ہیں جن میں وہ کھیلتے کودتے ہیں تو آپ نے پوچھا : ” یہ دو دن کیسے ہیں ؟ “ ، تو ان لوگوں نے کہا : جاہلیت میں ہم ان دونوں دنوں
میں کھیلتے کودتے تھے ، تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” اللہ نے تمہیں ان دونوں کے عوض ان سے بہتر دو دن عطا فرما دیئے ہیں : ایک عید الاضحی کا دن اور دوسرا عید الفطر کا دن “
یعنی سابقہ جاہلیت کی عیدوں کے مقابل یہ نہیں فرمایا کہ تم اپنے لیئے کوئی اور دن عید کیلئے مقرر کرلو ،
بلکہ فرمایا : جاہلیت والی عیدوں کے بدلے اللہ تعالی نے تمہارے لئے سال میں دو اور دن مقرر فرمادیئے ہیں ؛(جو اجتماعی عبادت اور اس پر خوشی کے دن ہیں )
تو جس طرح سال کے بعد آنے والے بطور عید دو دن ہیں ، اسی طرح خود اللہ تعالی نے ہفتہ کے بعد ایک دن جس میں اجتماعی عبادت ہوتی ہے جمعہ کا دن مقرر فرمادیا ؛
قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ هَذَا يَوْمُ عِيدٍجَعَلَهُ اللَّهُ لِلْمُسْلِمِينَ
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’یہ (جمعہ )عید کا دن ہے جو خود اللہ نے مسلمانوں کے لیے مقرر کیا ہے۔
اور
عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ مِنَ اليَهُودِ لِعُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ: يَا أَمِيرَ المُؤْمِنِينَ، لَوْ عَلَيْنَا أُنْزِلَتْ هَذِهِ الآيَةَ: {اليَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلَامَ دِينًا} [المائدة: 3] لَاتَّخَذْنَا ذَلِكَ اليَوْمَ عِيدًا، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ بْنُ الخَطَّابِ: «أَنِّي لَأَعْلَمُ أَيَّ يَوْمٍ أُنْزِلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ، أُنْزِلَتْ يَوْمَ عَرَفَةَ فِي يَوْمِ جُمُعَةٍ»
کہ ایک یہودی نے عمر بن خطاب ؓ سے کہا : امیر المؤمنین ! اگر یہ آیت « اليوم أكملت لكم دينكم وأتممت عليكم نعمتي ورضيت لكم الإسلام دينا » ” آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو کامل کر دیا اور تم پر اپنا انعام بھرپور کر دیا اور تمہارے لیے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہو گیا “ (المائدہ : ۳) ، ہمارے اوپر (ہماری توریت میں) نازل ہوتی تو ہم اس دن کو عید بنا لیتے جس دن وہ نازل ہوئی تھی ، عمر بن خطاب ؓ نے اس سے کہا : مجھے خوب معلوم ہے کہ یہ آیت کس دن نازل ہوئی تھی ۔ یہ آیت یوم عرفہ (نویں ذی الحجہ) کو جمعہ کے دن نازل ہوئی تھی ۔ (
صحیح بخاری و الترمذی )
یعنی سیدنا عمرؓ نے یہ نہیں فرمایا کہ ہم اس دن کو تکمیل شریعت کا تہوار بناکر ہرسال منائیں گے بلکہ فرمایا :
اللہ نے تکمیل دین کی آیت خود اس دن نازل فرمائی جس دن ہماری دو عیدیں تھیں ، ایک عرفہ کی اور دوسری جمعہ کی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جزاک اللہ خیر
 
شمولیت
اکتوبر 24، 2016
پیغامات
216
ری ایکشن اسکور
22
پوائنٹ
35
سنن ابن ماجه: كِتَابُ إِقَامَةِ الصَّلَاةِ وَالسُّنَّةُ فِيهَا (بَابُ مَا جَاءَ فِي الزِّينَةِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ)
1098 . حَدَّثَنَا عَمَّارُ بْنُ خَالِدٍ الْوَاسِطِيُّ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ غُرَابٍ عَنْ صَالِحِ بْنِ أَبِي الْأَخْضَرِ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُبَيْدِ بْنِ السَّبَّاقِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ هَذَا يَوْمُ عِيدٍ جَعَلَهُ اللَّهُ لِلْمُسْلِمِينَ فَمَنْ جَاءَ إِلَى الْجُمُعَةِ فَلْيَغْتَسِلْ وَإِنْ كَانَ طِيبٌ فَلْيَمَسَّ مِنْهُ وَعَلَيْكُمْ بِالسِّوَاكِ
حکم : حسن

سنن ابن ماجہ: کتاب: نماز کی اقامت اور اس کا طریقہ (باب: جمعے کے دن 1098 . سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’یہ عید کا دن ہے جو اللہ نے مسلمانوں کے لیے مقرر کیا ہے۔ لہٰذا جو شخص جمعہ پڑھنے آئے اسے چاہیے کہ غسل کر کے آئے۔ اگر خوشبو موجود ہو تو لگالے اور مسواک ضرور کیا کرو۔‘
قال الشيخ زبیر علی زئی في انوار الصحیفة فی احادیث ضعیفة من السنن الاربعة:
تعديلات سنده ضعيف ¤ صالح بن أبى الأخضر لينه الجمهور وعلي بن غراب والزهري مدلسان وعنعنا إن صح السند إلى الزهري ۔
 
شمولیت
اکتوبر 24، 2016
پیغامات
216
ری ایکشن اسکور
22
پوائنٹ
35
سند میں علی بن غراب اور صالح بن ابی الأخضر ضعیف ہیں
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حدثنا عمار بن خالد الواسطي ، ‏‏‏‏‏‏حدثنا علي بن غراب ، ‏‏‏‏‏‏عن صالح بن ابي الاخضر ، ‏‏‏‏‏‏عن الزهري ، ‏‏‏‏‏‏عن عبيد بن السباق ، ‏‏‏‏‏‏عن ابن عباس ، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:‏‏‏‏ "إن هذا يوم عيد جعله الله للمسلمين، ‏‏‏‏‏‏فمن جاء إلى الجمعة فليغتسل، ‏‏‏‏‏‏وإن كان طيب فليمس منه، ‏‏‏‏‏‏وعليكم بالسواك".
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ عید کا دن ہے، اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے اسے عید کا دن قرار دیا ہے، لہٰذا جو کوئی جمعہ کے لیے آئے تو غسل کر کے آئے، اور اگر خوشبو میسر ہو تو لگا لے، اور تم لوگ اپنے اوپر مسواک کو لازم کر لو“ ۱؎۔

رواہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۵۸۷۰، ومصباح الزجاجة: ۳۹۰)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الطہارة ۳۲ (۱۱۳) (حسن) (شواہد کی بناء پر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں علی بن غراب اور صالح بن ابی الأخضر ضعیف ہیں، علامہ منذری نے اس کو حسن کہا ہے، الترغیب و الترہیب ۱/۴۹۸، نیز ملاحظہ ہو: مصباح الزجاجة: ۳۹۴ بتحقیق الشہری
__________________
اور یہی حدیث صحیح البخاری (884 )میں بھی موجود ہے:
عن الزهري، ‏‏‏‏‏‏قال طاوس:‏‏‏‏ قلت لابن عباس:‏‏‏‏ ذكروا ان النبي صلى الله عليه وسلم، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ "اغتسلوا يوم الجمعة واغسلوا رءوسكم، ‏‏‏‏‏‏وإن لم تكونوا جنبا واصيبوا من الطيب"، ‏‏‏‏‏‏قال ابن عباس:‏‏‏‏ اما الغسل فنعم، ‏‏‏‏‏‏واما الطيب فلا ادري.
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں شعیب نے زہری سے خبر دی کہ طاؤس بن کیسان نے بیان کیا کہ میں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ لوگ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جمعہ کے دن اگرچہ جنابت نہ ہو لیکن غسل کرو اور اپنے سر دھویا کرو اور خوشبو لگایا کرو۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ غسل کا حکم تو ٹھیک ہے لیکن خوشبو کے متعلق مجھے علم نہیں۔
اور دوسری اسناد سے :
عن طاوس، ‏‏‏‏‏‏عن ابن عباس رضي الله عنهما"انه ذكر قول النبي صلى الله عليه وسلم في الغسل يوم الجمعة، ‏‏‏‏‏‏فقلت لابن عباس:‏‏‏‏ ايمس طيبا او دهنا إن كان عند اهله، ‏‏‏‏‏‏فقال:‏‏‏‏ لا اعلمه".
جناب طاؤس سے مروی ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے جمعہ کے دن غسل کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کا ذکر کیا تو میں نے کہا کہ کیا تیل اور خوشبو کا استعمال بھی ضروری ہے؟ آپ نے فرمایا کہ مجھے معلوم نہیں۔
----------------------------
اور مسند امام احمد(8025 ) اور مسند اسحاق بن راہویہ 524 میں حدیث مبارکہ ہے کہ :
حدثنا عبد الرحمن، عن معاوية يعني ابن صالح، عن أبي بشر، عن عامر بن لدين الأشعري، عن أبي هريرة، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " إن يوم الجمعة يوم عيد، فلا تجعلوا يوم عيدكم يوم صيامكم، إلا أن تصوموا قبله أو بعده "
ترجمہ :
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب نبی کریم ﷺ نے فرمایا : جمعہ کا دن عید کا دن ہے ، اس لیئے عید کے دن روزہ کا دن نہ بناؤ ، ہاں اگر ایک دن پہلے یا ایک بعد ( بھی روزہ رکھ لو تو جمعہ کے دن روزہ رکھنا ٹھیک ہوگا )

اور صحیحین میں سیدنا ابوہریرہ کی یہی حدیث یوں ہے:
عن ابي هريرة رضي الله عنه، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ سمعت النبي صلى الله عليه وسلم، ‏‏‏‏‏‏يقول:‏‏‏‏ "لا يصومن احدكم يوم الجمعة، ‏‏‏‏‏‏إلا يوما قبله او بعده".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی بھی شخص جمعہ کے دن اس وقت تک روزہ نہ رکھے جب تک اس سے ایک دن پہلے یا اس کے ایک بعد روزہ نہ رکھتا ہو۔(صحیح البخاری 1985 )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Last edited:
Top