• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جمعہ کے دن ایک دفعہ ہی اذان کہی جائے گی ، جب امام منبر پر بیٹھ جائے

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
دارالعلوم دیوبند کا فتوی بھی ملاحظہ ہو ، جس میں صاف اقرار ہے کہ جمعہ کیلئے پہلے ایک ہی اذان ہوتی تھی ،امیر المومنین سیدنا عثمانؓ نے
دوسر اذان جاری کی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 791-125/B=5/1433

Indiaسوال # 38260
کیا اذان ثانی جمعہ میں حضور کے زمانے سے چلی آرہی ہے یا صحابہ کے زمانے میں شروع ہوا؟ صحابہ نے کیوں شروع کیا؟ یہ کس لئے ہے جب پہلے اذان میں سب جمع ہو جاتے ہیں تو اس اذان کا کیا مقصد ہے؟ دونوں اذانوں کے بارے میں روشنی ڈالیں؟
اگر کوئی شخص تنہا نماز پڑھ رہا ہو تو وہ اذان اقامت کہہ کر نماز میں قرات زور سے کر سکتا ہے یا نہیں ؟بہتر کیا ہے؟ نیز قضا نماز میں بھی اذان اقامت اور قرات زور سے کرنا بہتر ہے یا آہستہ؟ کیا قضا نماز کی جماعت ہو سکتی ہے؟
ایک شخص نے عصرسے پہلے ۴ رکعت کی نیت کی پھر اچانک یا جان بوجھ کر گھڑی پر نظر گئی تو دیکھا کہ جماعت کھڑی ہونے میں۱ منٹ باقی ہے تو کیا کرے سننت پڑھے یا جماعت میں شریک ہو ؟ اگر اس نے نیت کے بعد نماز شروع نہیں کی تو کیا اسے اس فرض کے بعد ادا کرنا ضروری ہے یا نہیں کیونکہ اس نے نیت تو کر لی تھی لیکن نماز شروع نہیں کی تھی؟اسی طرح جب جماعت میں ۱ یا ۲ منٹ ہوں تو ظہر کی ۴ سنّت کے بجاے ۲ سنّت پڑھ سکتے ہیں یا نہیں؟ میں نے سنا ہے کہ ۲ سنّت بھی ثابت ہے اور اگر ۲ سنّت پڑھ لی تو کیا فرض اور ۲ سنّت بعد کی پڑھنے کے بعد ۴ سنّت اور پڑھنا ضروری ہے یا یا نہیں۔
..................................

جواب # 38260
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 791-125/B=5/1433

جمعہ کے دن خطبہ سے پہلے جو اذان دی جاتی ہے یہی اذان اول ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے چلی آرہی ہے، پھر جب اسلامی فتوحات زیادہ ہوئیں اور لوگ اسلام میں کثرت سے داخل ہوئے تو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں پہلی والی اذان کا صحابہٴ کرام کے مشورہ سے اضافہ کیا گیا، اور اس لیے کیا گیا کہ خطبہ والی اذان سن کر سب لوگ خطبہ میں شریک نہیں ہوپاتے تھے، کثرت تعداد کی وجہ سے۔ پھر جب یہ پہلی اذان کا اضافہ ہوا تو لوگ اذان سن کر جمعہ کے لیے آتے آتے خطبہ سے پہلے تک سارا مجمع اکٹھا ہوجاتا اور اطمینان سے سب کو خطبہ اور جمعہ پڑھنے کا موقع ملنے لگا۔ اب اصل اذان غائبین کو بلانے کے لیے یہی پہلی اذان متعین ہوگئی اور خطبہ کی اذان حاضرین کو اطلاع دینے کے لیے متعین ہوئی کہ اب خطبہ ہونے والا ہے، سب لوگ تیار ہوجائیں خطبہ سننے کے لیے۔

واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،دارالعلوم دیوبند
http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Jumuah--Eid-Prayers/38260
تقلید نہ کریں دلائل سے بات کریں۔ شکریہ
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے ایک اذان ہی ثابت ہے ، جو صرف اس سنت پر عامل ہے ، اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ کسی صحابی کو بدعتی سمجھتا ہے ۔جو لوگ دو اذانیں دیتے ہیں ، ان کا ان صحابہ کے بارے میں کیا خیال ہے ، جو صرف ایک ہی اذان پر اکتفا کیا کرتے تھے ؟
اس کے دلائل؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,567
پوائنٹ
791
کیا علامہ عینی رحمۃ اللہ کو غلطی نہیں لگ سکتی؟
چہ خوب !
آپ نے بڑی دلیری سے تسلیم کرلیا کہ علامہ عینی ؒ جیسے مشہور محدث و فقیہ کو بھی غلطی لگی ہے ، وہ حدیث شریف کا مطلب نہیں سمجھ پائے
اور حدیث کا حقیقی مفہوم ایک عامی نے پندرھویں صدی میں سمجھ لیا ۔
اب اگر اسی صدی کا کوئی غیرحنفی یہی بات کہے تو اوکاڑوی پارٹی ۔۔غیر مقلد۔۔ کا واویلا مچاتی ہے ، فتوے بازی کرتی ہے ،
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
چہ خوب !
آپ نے بڑی دلیری سے تسلیم کرلیا کہ علامہ عینی ؒ جیسے مشہور محدث و فقیہ کو بھی غلطی لگی ہے ، وہ حدیث شریف کا مطلب نہیں سمجھ پائے
اور حدیث کا حقیقی مفہوم ایک عامی نے پندرھویں صدی میں سمجھ لیا ۔
اب اگر اسی صدی کا کوئی غیرحنفی یہی بات کہے تو اوکاڑوی پارٹی ۔۔غیر مقلد۔۔ کا واویلا مچاتی ہے ، فتوے بازی کرتی ہے ،
میں نے اپنے دلائل کو قرآن و حدیث سے مزین کیا اور ثابت کیا کہ عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے کسی آذان کا اضافہ نہیں فرمایا بلکہ پہلی آذان جو مسجد سے ملحقہ جگہ پر دی جاتی تھی اس کو زوراء مقام پر دینے کا حکم فرمایا۔ آپ کو اگر یہ نہیں پسند تو نہ مانیں کوئی زبردستی تھوڑی ہےمگر خواہ مخواہ کے ابحاث نہ چھیڑیں۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,567
پوائنٹ
791
میں نے اپنے دلائل کو قرآن و حدیث سے مزین کیا اور ثابت کیا کہ عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے کسی آذان کا اضافہ نہیں فرمایا
لیکن علامہ عینی فرماتے ہیں :
دوسری اذان کا اضافہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے مبارک دور میں ایک ضرورت کے تحت کیا ، پہلے یہ اذان نہیں تھی ،
اور یہی بات مرکز تقلید دارالعلوم دیوبند کا مفتی بھی لکھتا ہے ،
تو ثابت ہوا کہ :
اس مسئلہ پر حدیث کو نہ امام عینی سمجھ سکے اور نہ ہی دیوبند کا مفتی ۔۔۔
یہ حدیث کسی کی سمجھ میں آئی تو پاکستان کے ایک مقلد کی سمجھ میں آئی ۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
لیکن علامہ عینی فرماتے ہیں :
دوسری اذان کا اضافہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے مبارک دور میں ایک ضرورت کے تحت کیا ، پہلے یہ اذان نہیں تھی ،
اور یہی بات مرکز تقلید دارالعلوم دیوبند کا مفتی بھی لکھتا ہے ،
تو ثابت ہوا کہ :
اس مسئلہ پر حدیث کو نہ امام عینی سمجھ سکے اور نہ ہی دیوبند کا مفتی ۔۔۔
یہ حدیث کسی کی سمجھ میں آئی تو پاکستان کے ایک مقلد کی سمجھ میں آئی ۔
آپ قرآن و حدیث سے متفق ہیں یا ”مقلد“ سے؟
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
کسی کی بلادلیل بات کو مان لینے والا تو اہلحدیث کہلائے اور قرآن و حدیث پیش کرنے والے کو ”مقلد“ کہہ کر معیوب باور کرانے کی ناکام سعی!!!!!!!
تعجب ہے!!!!!!!!!!!
 
شمولیت
اکتوبر 24، 2016
پیغامات
216
ری ایکشن اسکور
22
پوائنٹ
35
بسم الله الرحمن الرحیم

غلط فہمی :-
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق خلفائے راشدین کی سنت کو داڑھوں سے مضبوط پکڑنا لازم ہے۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ جن کی سنت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مضبوطی سے پکڑنے کا حکم فرمائیں وہ دین میں بدعات جاری کرنے والے ہوں؟
ازالہ :- حدیث درج ذیل ہے ملاحضہ کیجیے :
فَقَالَ الْعِرْبَاضُ صَلَّی بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا فَوَعَظَنَا مَوْعِظَةً بَلِيغَةً ذَرَفَتْ مِنْهَا الْعُيُونُ وَوَجِلَتْ مِنْهَا الْقُلُوبُ فَقَالَ قَائِلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ کَأَنَّ هَذِهِ مَوْعِظَةُ مُوَدِّعٍ فَمَاذَا تَعْهَدُ إِلَيْنَا فَقَالَ أُوصِيکُمْ بِتَقْوَی اللَّهِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِ وَإِنْ عَبْدًا حَبَشِيًّا فَإِنَّهُ مَنْ يَعِشْ مِنْکُمْ بَعْدِي فَسَيَرَی اخْتِلَافًا کَثِيرًا فَعَلَيْکُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَائِ الْمَهْدِيِّينَ الرَّاشِدِينَ تَمَسَّکُوا بِهَا وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ وَإِيَّاکُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ فَإِنَّ کُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَکُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ
عرباض نے کہا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ایک روز ہمیں نماز پڑھائی پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے اور ہمیں ایک بلیغ اور نصیحت بھرا وعظ فرمایا کہ جسے سن کر آنکھیں بہنے لگے اور قلوب اس سے ڈر گئے تو ایک کہنے والے نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) گویا کہ یہ رخصت کرنے والے کی نصیحت ہے۔ تو آپ ہمارے لئے کیا مقرر فرماتے ہیں فرمایا کہ میں تمہیں اللہ سے ڈرنے اور تقوی کی وصیت کرتا ہوں اور سننے کی اور ماننے کی اگرچہ ایک حبشی غلام تم پر مقرر کیا جائے پس جو شخص تم میں سے میرے بعد زندہ رہے گا تو عنقریب وہ بہت زیادہ اختلافات دیکھے گا پس ﺍﯾﺴﯽ ﺣﺎﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﺗﻢ ﭘﺮ ﻻﺯﻡ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﺳﻨﺖ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﮮ ﮨﺪﺍﯾﺖ ﯾﺎﻓﺘﮧ ﺧﻠﻔﺎﺋﮯ ﺭﺍﺷﺪﯾﻦ کے طریقہ (کی ﻃﺮﺡ ﻣﯿﺮﯼ ﺳﻨﺖ ) ﮐﻮ ﻻﺯﻡ ﭘﮑﮍﮮ ﺭﮨﻨﺎ، اور اسے نواجذ (ڈاڑھوں) سے محفوظ پکڑ کر رکھو اور دین میں نئے امور نکالنے سے بچتے رہو کیونکہ ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔
(سنن ابوداؤد:جلد سوم:حدیث نمبر 1219 ) صحیح
(نوٹ : یہ حدیث جامع ترمزی اور ابن ماجہ میں بھی موجود ہے ، متن کے کچھ الفاظ آگے پیچھے ہیں )

تبصرہ : -
اس حدیث سے غلط استدلال لے رہے ہیں ۔کہ
دین کی بنیاد قرآن ،حدیث اور خلفاءراشدین کی سنت یعنی تین چیزوں پر ہے تو یہ استدلال اتنی بڑی غلطی ہے کہ ایسا کرنے والوں کو اپنے ایمان پر غور کرنا چاہیئے – کیونکہ دین رسول اللہ ﷺکی حیات میں مکمل ہوگیا تھااور الله نے اس بات کا اعلان بھی کروا دیا تھا
لہٰذاصرف اور صرف قران و حدیث ہی دین ہے کوئی تیسری چیز قانون یا دین نہیں ہے۔
رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی ایک جامع ترین نصیحت ہے مندرجہ بالا حدیث نبوی میں
۔

خط کشیدہ عبارتوں پر غور کریں ۔اختلاف کسے کہتے ہیں یعنی سنت کے خلاف کا م ۔۔۔خلاف کا معنی ہے الٹا چلنا ۔الٹا کام کرنا۔تو اس سے بھی واضح ہوا کہ جب امیر اور خلفا ء سنت کے خلاف چلیں یا چلنے کا حکم دیں تو ان کی بات نہ مانو بلکہ سنت کو پکڑو ۔جس طرح ہدایت یافتہ خلفاء

کرتے تھے۔کہ وہ اختلافات میں اللہ اور رسول کی سنت کیطرف رجوع کرتے تھے ۔
درست ترجمہ اور تفسیر''تم میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی طرح (میری سنت ) کو لازم پکڑو، اسے (یعنی میری سنت کو(واحد))مضبوطی سے تھام لو اور دانتوں کے ذریعہ اسے(یعنی میری سنت کو(واحد))سختی سے پکڑ لو"
مسلمین بھائیو! اس حدیث پر گرائمر جاننے والا کوئی بھی شخص آسانی سے نتیجہ نکا ل سکتا ہے کہ اس سے کیا مراد ہے۔آئیے دیکھتے ہیں۔
عَلَيْکُمْ بِسُنَّتِی تم پر میری سنت فرض ہے۔
وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِيْنَ الْمَهْدِيِّينَ یعنی میرے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کےطریقہ (کی طرح)
کسی ایک بھی حدیث سےثابت نہیں ہوتا کہ صر ف ابوبکر وعمر ہی ہدایت یافتہ خلفا ء تھے بلکہ اس سے مراد یہ ہے اس کے علاوہ بھی جتنے بھی خلفا ء اور امراء اپنے اپنے دور میں ہوں گے ان کی اطاعت اور سنت یعنی جیسے وہ رسول اللہ کے سنت کو مضبوطی سے پکڑے اسی طرح تم بھی سنت رسول کو مضبوطی سے پکڑو۔کیونکہ اگر کوئی خلیفہ اور امیر سنت کے خلاف کرتا ہے تو وہ اس معاملہ میں ہدایت پر ہوتا ہی نہیں۔لہذا اس معاملہ میں اس کی اطاعت نہیں اگرچہ وہ ابو بکر و عمر ہی کیوں نہ ہوں۔کیونکہ ہدایت کا دارومدار ہے ہی سنت رسولﷺ۔
وَإِنْ تُطِيعُوهُ تَهْتَدُوا [24 ۔ 54 ) اگر رسول کی اطاعت کرو گے تو ہدایت پاؤ گے۔
اور پھر خلفا ء ہوں یا امراء اگر وہ سنت کے خلاف چلیں تو ان کی کوئی اطاعت نہیں۔بلکہ ان سے جھگڑا کرنے کا حکم ہے۔ان کو مجبور کردو کہ وہ اللہ کے رسول کے سنت کی طرف رجوع کریں۔
اللہ تعالیٰ مومنین کو اس موضوع کی طرف دعوت دیتا ہے اورفرماتا ہے :
یا اٴَیُّہَا الَّذینَ آمَنُوا اٴَطیعُوا اللَّہَ وَ اٴَطیعُوا الرَّسُولَ وَ اٴُولِی الْاٴَمْرِ مِنْکُمْ فَإِنْ تَنازَعْتُمْ فی شَیْء ٍ فَرُدُّوہُ إِلَی اللَّہِ وَ الرَّسُولِ إِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّہِ وَ الْیَوْمِ الْآخِرِ ذلِکَ خَیْرٌ وَ اٴَحْسَنُ تَاٴْویلاً(سورہ نساء ، آیت ۵۹) ۔
ایمان والو اللہ کی اطاعت کرو رسول اور امیروں(اورخلفاء) کی اطاعت کرو جو تم ہی میں سے (تم پر ) ہیں پھر اگر آپس میں کسی بات میں اختلاف ہوجائے تو اسے 1اللہ اور 2رسول کی طرف پلٹا دو اگر تم اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھنے والے ہو- یہی تمہارے حق میں خیر اور انجام کے اعتبار سے بہترین بات ہے ۔


تَمَسَّکُوْا بِهَا
اسے (واحد)مضبوطی سے تھام لو یعنی صرف سنت رسول ﷺ

"ھا" اسم ضمیر واحدمونث غائب کے لیے ہے۔


وَعَضُّوْا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ
اور دانتوں کے ذریعہ اسے (یعنی صرف سنت رسول ﷺ (واحد))سختی سے پکڑ لو۔

یہاں بھی "ھا" اسم ضمیر واحد مونث غائب کے لیے ہے
یعنی دونوں میں یہ حکم ہے کہ صرف سنت رسول ﷺ کو تھام لو ۔اور دانتوں سے بھی صرف سنت رسول ﷺ کو ہی تھام لو ۔یعنی باقی سب کچھ جو بھی سنت رسول کے خلاف ہو اسے چھوڑ دو۔ایک مثال دے رہا ہوں ۔اور اس کے علاوہ بھی کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔
پہلی مثال : -
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ أَخْبَرَنِي يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ صَالِحِ بْنِ کَيْسَانَ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ أَنَّ سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَهُ أَنَّهُ سَمِعَ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ الشَّامِ وَهُوَ يَسْأَلُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ عَنْ التَّمَتُّعِ بِالْعُمْرَةِ إِلَی الْحَجِّ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ هِيَ حَلَالٌ فَقَالَ الشَّامِيُّ إِنَّ أَبَاکَ قَدْ نَهَی عَنْهَا فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ أَرَأَيْتَ إِنْ کَانَ أَبِي نَهَی عَنْهَا وَصَنَعَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَأَمْرَ أَبِي نَتَّبِعُ أَمْ أَمْرَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ الرَّجُلُ بَلْ أَمْرَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَقَدْ صَنَعَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
عبد بن حمید، یعقوب بن ابراہیم بن سعد، ابوصالح بن کیسان، ابن شہاب سے روایت ہے کہ ان سے سالم بن عبداللہ نے بیان کیا کہ انہوں نے ایک شامی کو حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے حج کے ساتھ عمرے کو ملانے (یعنی تمتع) کے متعلق سوال کرتے ہوئے سنا۔ عبداللہ بن عمر (رض) نے فرمایا یہ جائز ہے شامی نے کہا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے والد نے اس سے منع کیا ہے۔ حضرت ابن عمر (رض) نے فرمایا دیکھو اگر میرے والد کسی کام سے منع کریں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہی کام کریں تو میرے والد کی اتباع کی جائے گی یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی۔ شامی نے کہا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی۔ ابن عمر (رض) نے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمتع کیا ہے یہ حدیث صحیح ہے۔ (جامع ترمذی:جلد اول:حدیث نمبر 810 )
مزید وضاحت : -
"وایاکم ومحدثات الامور" یعنی دین کے معاملہ میں نئی نئی باتیں ایجاد ہوں تو ان سے بچو "وإیاکم ومحدثات الامور" اپنے کو بچاؤ او ربچو، یعنی لوگ اپنے فائدوں کی غرض سے محض اندازوں سے دین کے اندر نئی باتیں کرتے رہتے ہیں ان سے بچو اور یہ دین کے معاملہ میں ہے ، دنیا کے معاملہ میں نہیں ، دنیا کے معاملہ میں آدمی کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اپنی پسند کے مطابق کام کرے، لیکن دین کے معاملہ میں جہاں الله تعالیٰ کی رضا کا معاملہ ہوتا ہے اس میں اگر کوئی نئی بات ایجاد کی جاتی ہے جو رسول صلی الله علیہ وسلم نے نہیں بتائی تو وہ "محدث" ہے، یعنی نئی کر دی گئی ہے ، نئے نئے اختیار کردہ معاملات سے بچو، جن کو لوگ دین بناتے ہیں حالاں کہ وہ دین نہیں ہے ، جس کو الله اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے بتایا او رکہا یا کیا ہے اس کے علاوہ جو نئی چیز اختیار کی جائے گی اور وہ دین نہیں بلکہ بدعت ہے یا بدعت کامطلب دین میں نئی بات ایجاد کرنا ہے اور دین کے اندر نئی بات کا ایجاد کرنا کسی کا حق نہیں، کیوں کہ دین مکمل کر دیا گیا او راعلان کر دیا گیا ﴿الیوم اکملت لکم دینکم﴾ میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا، دین مکمل ہو گیا، اب کوئی نئی بات دین میں داخل نہیں ہو گی۔
الله تعالیٰ حق بات کو پڑھنے ، سمجھنے ، اسے دل سے قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے !
والحمد للہ رب العالمین
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
بسم الله الرحمن الرحیم

غلط فہمی :-

ازالہ :- حدیث درج ذیل ہے ملاحضہ کیجیے :
فَقَالَ الْعِرْبَاضُ صَلَّی بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا فَوَعَظَنَا مَوْعِظَةً بَلِيغَةً ذَرَفَتْ مِنْهَا الْعُيُونُ وَوَجِلَتْ مِنْهَا الْقُلُوبُ فَقَالَ قَائِلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ کَأَنَّ هَذِهِ مَوْعِظَةُ مُوَدِّعٍ فَمَاذَا تَعْهَدُ إِلَيْنَا فَقَالَ أُوصِيکُمْ بِتَقْوَی اللَّهِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِ وَإِنْ عَبْدًا حَبَشِيًّا فَإِنَّهُ مَنْ يَعِشْ مِنْکُمْ بَعْدِي فَسَيَرَی اخْتِلَافًا کَثِيرًا فَعَلَيْکُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَائِ الْمَهْدِيِّينَ الرَّاشِدِينَ تَمَسَّکُوا بِهَا وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ وَإِيَّاکُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ فَإِنَّ کُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَکُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ
عرباض نے کہا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ایک روز ہمیں نماز پڑھائی پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے اور ہمیں ایک بلیغ اور نصیحت بھرا وعظ فرمایا کہ جسے سن کر آنکھیں بہنے لگے اور قلوب اس سے ڈر گئے تو ایک کہنے والے نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) گویا کہ یہ رخصت کرنے والے کی نصیحت ہے۔ تو آپ ہمارے لئے کیا مقرر فرماتے ہیں فرمایا کہ میں تمہیں اللہ سے ڈرنے اور تقوی کی وصیت کرتا ہوں اور سننے کی اور ماننے کی اگرچہ ایک حبشی غلام تم پر مقرر کیا جائے پس جو شخص تم میں سے میرے بعد زندہ رہے گا تو عنقریب وہ بہت زیادہ اختلافات دیکھے گا پس ﺍﯾﺴﯽ ﺣﺎﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﺗﻢ ﭘﺮ ﻻﺯﻡ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﺳﻨﺖ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﮮ ﮨﺪﺍﯾﺖ ﯾﺎﻓﺘﮧ ﺧﻠﻔﺎﺋﮯ ﺭﺍﺷﺪﯾﻦ کے طریقہ (کی ﻃﺮﺡ ﻣﯿﺮﯼ ﺳﻨﺖ ) ﮐﻮ ﻻﺯﻡ ﭘﮑﮍﮮ ﺭﮨﻨﺎ، اور اسے نواجذ (ڈاڑھوں) سے محفوظ پکڑ کر رکھو اور دین میں نئے امور نکالنے سے بچتے رہو کیونکہ ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔
(سنن ابوداؤد:جلد سوم:حدیث نمبر 1219 ) صحیح
(نوٹ : یہ حدیث جامع ترمزی اور ابن ماجہ میں بھی موجود ہے ، متن کے کچھ الفاظ آگے پیچھے ہیں )

تبصرہ : -
اس حدیث سے غلط استدلال لے رہے ہیں ۔کہ
دین کی بنیاد قرآن ،حدیث اور خلفاءراشدین کی سنت یعنی تین چیزوں پر ہے تو یہ استدلال اتنی بڑی غلطی ہے کہ ایسا کرنے والوں کو اپنے ایمان پر غور کرنا چاہیئے – کیونکہ دین رسول اللہ ﷺکی حیات میں مکمل ہوگیا تھااور الله نے اس بات کا اعلان بھی کروا دیا تھا
لہٰذاصرف اور صرف قران و حدیث ہی دین ہے کوئی تیسری چیز قانون یا دین نہیں ہے۔

رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی ایک جامع ترین نصیحت ہے مندرجہ بالا حدیث نبوی میں
۔
خط کشیدہ عبارتوں پر غور کریں ۔اختلاف کسے کہتے ہیں یعنی سنت کے خلاف کا م ۔۔۔خلاف کا معنی ہے الٹا چلنا ۔الٹا کام کرنا۔تو اس سے بھی واضح ہوا کہ جب امیر اور خلفا ء سنت کے خلاف چلیں یا چلنے کا حکم دیں تو ان کی بات نہ مانو بلکہ سنت کو پکڑو ۔جس طرح ہدایت یافتہ خلفاء
کرتے تھے۔کہ وہ اختلافات میں اللہ اور رسول کی سنت کیطرف رجوع کرتے تھے
۔
درست ترجمہ اور تفسیر''تم میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی طرح (میری سنت ) کو لازم پکڑو، اسے (یعنی میری سنت کو(واحد))مضبوطی سے تھام لو اور دانتوں کے ذریعہ اسے(یعنی میری سنت کو(واحد))سختی سے پکڑ لو"
مسلمین بھائیو! اس حدیث پر گرائمر جاننے والا کوئی بھی شخص آسانی سے نتیجہ نکا ل سکتا ہے کہ اس سے کیا مراد ہے۔آئیے دیکھتے ہیں۔
عَلَيْکُمْ بِسُنَّتِی تم پر میری سنت فرض ہے۔
وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِيْنَ الْمَهْدِيِّينَ یعنی میرے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کےطریقہ (کی طرح)
کسی ایک بھی حدیث سےثابت نہیں ہوتا کہ صر ف ابوبکر وعمر ہی ہدایت یافتہ خلفا ء تھے بلکہ اس سے مراد یہ ہے اس کے علاوہ بھی جتنے بھی خلفا ء اور امراء اپنے اپنے دور میں ہوں گے ان کی اطاعت اور سنت یعنی جیسے وہ رسول اللہ کے سنت کو مضبوطی سے پکڑے اسی طرح تم بھی سنت رسول کو مضبوطی سے پکڑو۔کیونکہ اگر کوئی خلیفہ اور امیر سنت کے خلاف کرتا ہے تو وہ اس معاملہ میں ہدایت پر ہوتا ہی نہیں۔لہذا اس معاملہ میں اس کی اطاعت نہیں اگرچہ وہ ابو بکر و عمر ہی کیوں نہ ہوں۔کیونکہ ہدایت کا دارومدار ہے ہی سنت رسولﷺ۔
وَإِنْ تُطِيعُوهُ تَهْتَدُوا [24 ۔ 54 ) اگر رسول کی اطاعت کرو گے تو ہدایت پاؤ گے۔
اور پھر خلفا ء ہوں یا امراء اگر وہ سنت کے خلاف چلیں تو ان کی کوئی اطاعت نہیں۔بلکہ ان سے جھگڑا کرنے کا حکم ہے۔ان کو مجبور کردو کہ وہ اللہ کے رسول کے سنت کی طرف رجوع کریں۔
اللہ تعالیٰ مومنین کو اس موضوع کی طرف دعوت دیتا ہے اورفرماتا ہے :
یا اٴَیُّہَا الَّذینَ آمَنُوا اٴَطیعُوا اللَّہَ وَ اٴَطیعُوا الرَّسُولَ وَ اٴُولِی الْاٴَمْرِ مِنْکُمْ فَإِنْ تَنازَعْتُمْ فی شَیْء ٍ فَرُدُّوہُ إِلَی اللَّہِ وَ الرَّسُولِ إِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّہِ وَ الْیَوْمِ الْآخِرِ ذلِکَ خَیْرٌ وَ اٴَحْسَنُ تَاٴْویلاً(سورہ نساء ، آیت ۵۹) ۔
ایمان والو اللہ کی اطاعت کرو رسول اور امیروں(اورخلفاء) کی اطاعت کرو جو تم ہی میں سے (تم پر ) ہیں پھر اگر آپس میں کسی بات میں اختلاف ہوجائے تو اسے 1اللہ اور 2رسول کی طرف پلٹا دو اگر تم اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھنے والے ہو- یہی تمہارے حق میں خیر اور انجام کے اعتبار سے بہترین بات ہے ۔


تَمَسَّکُوْا بِهَا
اسے (واحد)مضبوطی سے تھام لو یعنی صرف سنت رسول ﷺ
"ھا" اسم ضمیر واحدمونث غائب کے لیے ہے۔


وَعَضُّوْا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ
اور دانتوں کے ذریعہ اسے (یعنی صرف سنت رسول ﷺ (واحد))سختی سے پکڑ لو۔
یہاں بھی "ھا" اسم ضمیر واحد مونث غائب کے لیے ہے
یعنی دونوں میں یہ حکم ہے کہ صرف سنت رسول ﷺ کو تھام لو ۔اور دانتوں سے بھی صرف سنت رسول ﷺ کو ہی تھام لو ۔یعنی باقی سب کچھ جو بھی سنت رسول کے خلاف ہو اسے چھوڑ دو۔ایک مثال دے رہا ہوں ۔اور اس کے علاوہ بھی کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔
پہلی مثال : -
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ أَخْبَرَنِي يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ صَالِحِ بْنِ کَيْسَانَ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ أَنَّ سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَهُ أَنَّهُ سَمِعَ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ الشَّامِ وَهُوَ يَسْأَلُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ عَنْ التَّمَتُّعِ بِالْعُمْرَةِ إِلَی الْحَجِّ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ هِيَ حَلَالٌ فَقَالَ الشَّامِيُّ إِنَّ أَبَاکَ قَدْ نَهَی عَنْهَا فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ أَرَأَيْتَ إِنْ کَانَ أَبِي نَهَی عَنْهَا وَصَنَعَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَأَمْرَ أَبِي نَتَّبِعُ أَمْ أَمْرَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ الرَّجُلُ بَلْ أَمْرَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَقَدْ صَنَعَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
عبد بن حمید، یعقوب بن ابراہیم بن سعد، ابوصالح بن کیسان، ابن شہاب سے روایت ہے کہ ان سے سالم بن عبداللہ نے بیان کیا کہ انہوں نے ایک شامی کو حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے حج کے ساتھ عمرے کو ملانے (یعنی تمتع) کے متعلق سوال کرتے ہوئے سنا۔ عبداللہ بن عمر (رض) نے فرمایا یہ جائز ہے شامی نے کہا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے والد نے اس سے منع کیا ہے۔ حضرت ابن عمر (رض) نے فرمایا دیکھو
اگر میرے والد کسی کام سے منع کریں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہی کام کریں تو میرے والد کی اتباع کی جائے گی یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی۔ شامی نے کہا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی۔ ابن عمر (رض) نے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمتع کیا ہے یہ حدیث صحیح ہے۔ (جامع ترمذی:جلد اول:حدیث نمبر 810 )
مزید وضاحت : -
"وایاکم ومحدثات الامور" یعنی دین کے معاملہ میں نئی نئی باتیں ایجاد ہوں تو ان سے بچو "وإیاکم ومحدثات الامور" اپنے کو بچاؤ او ربچو، یعنی لوگ اپنے فائدوں کی غرض سے محض اندازوں سے دین کے اندر نئی باتیں کرتے رہتے ہیں ان سے بچو اور یہ دین کے معاملہ میں ہے ، دنیا کے معاملہ میں نہیں ، دنیا کے معاملہ میں آدمی کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اپنی پسند کے مطابق کام کرے، لیکن دین کے معاملہ میں جہاں الله تعالیٰ کی رضا کا معاملہ ہوتا ہے اس میں اگر کوئی نئی بات ایجاد کی جاتی ہے جو رسول صلی الله علیہ وسلم نے نہیں بتائی تو وہ "محدث" ہے، یعنی نئی کر دی گئی ہے ، نئے نئے اختیار کردہ معاملات سے بچو، جن کو لوگ دین بناتے ہیں حالاں کہ وہ دین نہیں ہے ، جس کو الله اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے بتایا او رکہا یا کیا ہے اس کے علاوہ جو نئی چیز اختیار کی جائے گی اور وہ دین نہیں بلکہ بدعت ہے یا بدعت کامطلب دین میں نئی بات ایجاد کرنا ہے اور دین کے اندر نئی بات کا ایجاد کرنا کسی کا حق نہیں، کیوں کہ دین مکمل کر دیا گیا او راعلان کر دیا گیا ﴿الیوم اکملت لکم دینکم﴾ میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا، دین مکمل ہو گیا، اب کوئی نئی بات دین میں داخل نہیں ہو گی۔
الله تعالیٰ حق بات کو پڑھنے ، سمجھنے ، اسے دل سے قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے !
والحمد للہ رب العالمین
السلام علیکم
راشدبھائی ابوداؤد میں حدیث نمبر 1219 پر تو دوسری حدیث ہے ۔ برائے مہربانی اس کا حوالہ چیک کر کے بتادیں۔

. سنن ابي داود --- کتاب: نماز سفر کے احکام و مسائل --- باب : دو نمازوں کو جمع کرنے کا بیان ۔ [سنن ابي داود]
حدیث نمبر: 1219 --- حکم البانی: صحيح... اس طریق سے بھی عقیل سے یہی روایت اسی سند سے منقول ہے البتہ اس میں اضافہ ہے کہ مغرب کو مؤخر فرماتے یہاں تک کہ جب شفق غائب ہو جاتی تو اسے اور عشاء کو ملا کر پڑھتے ۔ ... (ص/ح) ... حدیث متعلقہ ابواب: مغرب اور عشاء کو جمع کرنا ۔ مغرب کی نماز اور عشاء کی نماز اکٹھی کرنا ۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,567
پوائنٹ
791
سنت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے منکر ایک تو وہ جو برملا کہتے ہیں کہ ہمیں حدیث و سنت کی ضرورت نہیں ،
اور سنت رسول ﷺ کے دوسرے مخالف وہ ہیں جو فرمان نبی ﷺ کا مطلب اپنی ڈیڑھ چھٹانک عقل کے مطابق نکالتے اور بتاتے ہیں ۔
یہ پہلے والے منکرین حدیث سے زیادہ خطرناک ہیں ، کیونکہ یہ حدیث سناکر سنت سے دور کرتے ہیں ،
اپنی خواہش نفس کو بریکٹوں یعنی قوسین (۔۔ ) میں اس طرح فٹ کرنا کہ حدیث کا مطلب کچھ کا کچھ ہوجائے ۔
اسی کو تحریف کہا جاتا ہے ۔
 
Last edited:
Top