- شمولیت
- اگست 25، 2014
- پیغامات
- 6,372
- ری ایکشن اسکور
- 2,589
- پوائنٹ
- 791
بسم الله الرحمن الرحیم
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم کَانَ يُصَلِّيْ الْجُمُعَةَ حِينَ تَمِيلُ الشَّمْسُ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ.
أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الجمعة، باب وقت الجمعة إذا زالت الشمس 1 / 307، الرقم : 862، وأحمد بن حنبل فی المسند، 3 / 150، الرقم : 12537، والترمذي فی السنن، کتاب الجمعة، باب ما جاء فی وقت الجمعة، 2 / 377، الرقم : 503، والطيالسي في المسند، 1 / 285، الرقم : 2139، وابن الجارود فی المنتقٰی، 1 / 81، الرقم : 389، والبيهقي في السنن الکبری 3 / 190، الرقم : 5460.
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُس وقت نماز جمعہ پڑھا کرتے جب سورج ڈھل جاتا۔
اس حدیث کو امام بخاری، احمد اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه يَقُولُ : کَانَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم إِذَا اشْتَدَّ الْبَرْدُ بَکَّرَ بِالصَّلَاةِ وَإِذَا اشْتَدَّ الْحَرُّ أَبْرَدَ بِالصَّلَاةِ يَعْنِي الْجُمُعَةَ.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.
: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الجمعة، باب إذا اشتد الحر يوم الجمعة، 1
سیدناانس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ جب سخت سردی ہوتی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز جمعہ جلد پڑھ لیتے اور جب سخت گرمی ہوتی تو نماز جمعہ ٹھنڈی کر کے پڑھتے۔
اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔
عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيْدَ رضی الله عنه قَالَ : إِنَّ التَّأْذِينَ الثَّانِيَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ أَمَرَ بِهِ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ رضی الله عنه حِينَ کَثُرَ أَهْلُ الْمَسْجِدِ وَکَانَ التَّأْذِينُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ حِينَ يَجْلِسُ الإِمَامُ
. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.
أخرجه البخاري فی الصحيح، کتاب الجمعة، باب الجلوس علی المنبر عند التأذين، 1 / 310، الرقم : 873.
سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جمعہ کے روز دوسری اذان کہنے کا حکم عثمان رضی اللہ عنہ نے دیا جب کہ مسجد میں آنے والوں کی تعداد بڑھ گئی اور پہلے جمعہ کے روز صرف اُس وقت اذان ہوتی تھی جب امام منبر پر بیٹھ جاتا تھا ‘‘
اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔
عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، قَالَ: «كَانَ النِّدَاءُ يَوْمَ الجُمُعَةِ أَوَّلُهُ إِذَا جَلَسَ الإِمَامُ عَلَى المِنْبَرِ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، فَلَمَّا كَانَ عُثْمَانُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، وَكَثُرَ النَّاسُ زَادَ النِّدَاءَ الثَّالِثَ عَلَى الزَّوْرَاءِ» قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ: " الزَّوْرَاءُ: مَوْضِعٌ بِالسُّوقِ بِالْمَدِينَةِ )صحیح البخاری ۹۱۲ )
جناب سائب بن یزید نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے زمانے میں جمعہ کی پہلی اذان اس وقت دی جاتی تھی جب امام منبر پر خطبہ کے لیے بیٹھتے لیکن عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں جب مسلمانوں کی کثرت ہو گئی تو وہ مقام زوراء سے ایک اور اذان دلوانے لگے۔ امام ابوعبداللہ (بخاری رحمہ اللہ) فرماتے ہیں کہ زوراء مدینہ کے بازار میں ایک جگہ ہے۔
: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الجمعة، باب التأذين عند الخطبة، 1 / 310، الرقم : 874، وأبوداود في السنن، کتاب الصلاة، باب النداء يوم الجمعة، 1 / 285، الرقم : 1087، والنسائي في السنن، کتاب الجمعة، باب الأذان للجمعة 3 / 100، الرقم : 1392، والطبراني فيالمعجم الکبير، 7 / 147، الرقم : 6648، والبيهقي في السنن الکبير، 3 / 205، الرقم : 5535.
اور صحیح البخاری میں ہے :
عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ السَّائِبَ بْنَ يَزِيدَ، يَقُولُ: «إِنَّ الأَذَانَ يَوْمَ الجُمُعَةِ كَانَ أَوَّلُهُ حِينَ يَجْلِسُ الإِمَامُ، يَوْمَ الجُمُعَةِ عَلَى المِنْبَرِ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، فَلَمَّا كَانَ فِي خِلاَفَةِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، وَكَثُرُوا، أَمَرَ عُثْمَانُ يَوْمَ الجُمُعَةِ بِالأَذَانِ الثَّالِثِ، فَأُذِّنَ بِهِ عَلَى الزَّوْرَاءِ، فَثَبَتَ الأَمْرُ عَلَى ذَلِكَ»
ترجمہ :
سائب بن یزید رضی الله عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے عہد میں جمعہ کے روز کی پہلی اذان وہی ہوتی جس وقت امام جمعہ کے روز منبر پر بیٹھتا۔ جب عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں لوگ بڑھ گئے تو آپ رضی الله عنہ نے جمعہ کے روز تیسری اذان کہنے کا حکم فرمایا۔ پس وہ زوراء کے مقام پر کہی جاتی تھی اور یہی معمول قرار پایا۔‘‘
تیسری اذان سے مراد یہ کہ پہلے صرف ایک اذٓن اور اقامت کہی جاتی تھی ، اب ایک اور اذان بھی جاری کی جو مسجد سے باہر بازار میں دی جاتی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور امام ابن حجر فتح الباری شرح صحیح البخاری میں اس کے تحت لکھتے ہیں :
قَوْلُهُ عَلَى الزَّوْرَاءِ بِفَتْحِ الزَّايِ وَسُكُونِ الْوَاوِ وَبَعْدَهَا رَاءٌ مَمْدُودَةٌ وَقَوْلُهُ قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ هُوَ الْمُصَنِّفُ وَهَذَا فِي رِوَايَةِ أَبِي ذَرٍّ وَحْدَهُ وَمَا فَسَّرَ بِهِ الزَّوْرَاء هُوَ الْمُعْتَمد وَجزم بن بَطَّالٍ بِأَنَّهُ حَجَرٌ كَبِيرٌ عِنْدَ بَابِ الْمَسْجِدِ وَفِيه نظر لما فِي رِوَايَة بن إِسْحَاق عَن الزُّهْرِيّ عِنْد بن خُزَيْمَة وبن مَاجَهْ بِلَفْظِ زَادَ النِّدَاءَ الثَّالِثَ عَلَى دَارٍ فِي السُّوقِ يُقَالُ لَهَا الزَّوْرَاءُ وَفِي رِوَايَتِهِ عِنْدَ الطَّبَرَانِيِّ فَأَمَرَ بِالنِّدَاءِ الْأَوَّلِ عَلَى دَارٍ لَهُ يُقَالُ لَهَا الزَّوْرَاءُ فَكَانَ يُؤَذَّنُ لَهُ عَلَيْهَا فَإِذَا جَلَسَ عَلَى الْمِنْبَرِ أَذَّنَ مُؤَذِّنُهُ الْأَوَّلُ فَإِذَا نَزَلَ أَقَامَ الصَّلَاةَ وَفِي رِوَايَةٍ لَهُ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ فَأَذَّنَ بِالزَّوْرَاءِ قَبْلَ خُرُوجِهِ لِيَعْلَمَ النَّاسُ أَنَّ الْجُمُعَةَ قَدْ حَضَرَتْ (فتح الباری )
یعنی امام بخاری نے کہا کہ ( زوراء ) سے مراد مدینہ منورہ کے بازار میں ایک اونچی جگہ کا نام ہے ، اور یہی معتبر ہے ، امام ابن بطال نے فرمایا کہ زوراء ایک بڑا پتھر ہے جو مسجد نبوی کے دروازے کے قریب ہے ‘‘
جبکہ صحیح ابن خزیمہ اور سنن ابن ماجہ میں ہے کہ سیدنا عثمان نے (پہلے سے جاری اذان و اقامت کے علاوہ ) ایک تیسری اذان کا اضافہ کیا جو بازار میں زوراء نامی حویلی پر دی جاتی تھی ،
اور تحفۃالاحوذی میں ہے قَالَ الْإِمَامُ الْبُخَارِيُّ فِي صَحِيحِهِ الزَّوْرَاءُ مَوْضِعٌ بِالسُّوقِ بِالْمَدِينَةِ قَالَ الْحَافِظُ مَا فَسَّرَ بِهِ الْبُخَارِيُّ هُوَ المعتمد وجزم بن بَطَّالٍ بِأَنَّهُ حَجَرٌ كَبِيرٌ عِنْدَ بَابِ الْمَسْجِدِ
کہ صحیح بخاری میں امام بخاریؒ نے فرمایا ہے کہ ۔۔ زوراء ۔۔ مدینہ کے بازار میں ایک جگہ کا نام ہے ، اور ابن حجرؒ فرماتے ہیں کہ یہی اعتماد کے قابل تفسیر ہے ، اور ابن بطال کا کہنا کہ یہ مسجد کے پاس ایک پتھر کا نام ہے ( جس پر دوسر اذان دی جاتی تھی )
اور تحفۃ الاحوذی میں میں ہے
قال بن خُزَيْمَةَ قَوْلُهُ أَذَانَيْنِ يُرِيدُ الْأَذَانَ وَالْإِقَامَةَ يَعْنِي تَغْلِيبًا أَوْ لِاشْتِرَاكِهِمَا فِي الْإِعْلَامِ كَذَا فِي فَتْحِ الْبَارِي
والحمدلله رب العالمین
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم کَانَ يُصَلِّيْ الْجُمُعَةَ حِينَ تَمِيلُ الشَّمْسُ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ.
أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الجمعة، باب وقت الجمعة إذا زالت الشمس 1 / 307، الرقم : 862، وأحمد بن حنبل فی المسند، 3 / 150، الرقم : 12537، والترمذي فی السنن، کتاب الجمعة، باب ما جاء فی وقت الجمعة، 2 / 377، الرقم : 503، والطيالسي في المسند، 1 / 285، الرقم : 2139، وابن الجارود فی المنتقٰی، 1 / 81، الرقم : 389، والبيهقي في السنن الکبری 3 / 190، الرقم : 5460.
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُس وقت نماز جمعہ پڑھا کرتے جب سورج ڈھل جاتا۔
اس حدیث کو امام بخاری، احمد اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه يَقُولُ : کَانَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم إِذَا اشْتَدَّ الْبَرْدُ بَکَّرَ بِالصَّلَاةِ وَإِذَا اشْتَدَّ الْحَرُّ أَبْرَدَ بِالصَّلَاةِ يَعْنِي الْجُمُعَةَ.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.
: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الجمعة، باب إذا اشتد الحر يوم الجمعة، 1
سیدناانس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ جب سخت سردی ہوتی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز جمعہ جلد پڑھ لیتے اور جب سخت گرمی ہوتی تو نماز جمعہ ٹھنڈی کر کے پڑھتے۔
اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔
عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيْدَ رضی الله عنه قَالَ : إِنَّ التَّأْذِينَ الثَّانِيَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ أَمَرَ بِهِ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ رضی الله عنه حِينَ کَثُرَ أَهْلُ الْمَسْجِدِ وَکَانَ التَّأْذِينُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ حِينَ يَجْلِسُ الإِمَامُ
. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.
أخرجه البخاري فی الصحيح، کتاب الجمعة، باب الجلوس علی المنبر عند التأذين، 1 / 310، الرقم : 873.
سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جمعہ کے روز دوسری اذان کہنے کا حکم عثمان رضی اللہ عنہ نے دیا جب کہ مسجد میں آنے والوں کی تعداد بڑھ گئی اور پہلے جمعہ کے روز صرف اُس وقت اذان ہوتی تھی جب امام منبر پر بیٹھ جاتا تھا ‘‘
اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔
عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، قَالَ: «كَانَ النِّدَاءُ يَوْمَ الجُمُعَةِ أَوَّلُهُ إِذَا جَلَسَ الإِمَامُ عَلَى المِنْبَرِ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، فَلَمَّا كَانَ عُثْمَانُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، وَكَثُرَ النَّاسُ زَادَ النِّدَاءَ الثَّالِثَ عَلَى الزَّوْرَاءِ» قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ: " الزَّوْرَاءُ: مَوْضِعٌ بِالسُّوقِ بِالْمَدِينَةِ )صحیح البخاری ۹۱۲ )
جناب سائب بن یزید نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے زمانے میں جمعہ کی پہلی اذان اس وقت دی جاتی تھی جب امام منبر پر خطبہ کے لیے بیٹھتے لیکن عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں جب مسلمانوں کی کثرت ہو گئی تو وہ مقام زوراء سے ایک اور اذان دلوانے لگے۔ امام ابوعبداللہ (بخاری رحمہ اللہ) فرماتے ہیں کہ زوراء مدینہ کے بازار میں ایک جگہ ہے۔
: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الجمعة، باب التأذين عند الخطبة، 1 / 310، الرقم : 874، وأبوداود في السنن، کتاب الصلاة، باب النداء يوم الجمعة، 1 / 285، الرقم : 1087، والنسائي في السنن، کتاب الجمعة، باب الأذان للجمعة 3 / 100، الرقم : 1392، والطبراني فيالمعجم الکبير، 7 / 147، الرقم : 6648، والبيهقي في السنن الکبير، 3 / 205، الرقم : 5535.
اور صحیح البخاری میں ہے :
عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ السَّائِبَ بْنَ يَزِيدَ، يَقُولُ: «إِنَّ الأَذَانَ يَوْمَ الجُمُعَةِ كَانَ أَوَّلُهُ حِينَ يَجْلِسُ الإِمَامُ، يَوْمَ الجُمُعَةِ عَلَى المِنْبَرِ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، فَلَمَّا كَانَ فِي خِلاَفَةِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، وَكَثُرُوا، أَمَرَ عُثْمَانُ يَوْمَ الجُمُعَةِ بِالأَذَانِ الثَّالِثِ، فَأُذِّنَ بِهِ عَلَى الزَّوْرَاءِ، فَثَبَتَ الأَمْرُ عَلَى ذَلِكَ»
ترجمہ :
سائب بن یزید رضی الله عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے عہد میں جمعہ کے روز کی پہلی اذان وہی ہوتی جس وقت امام جمعہ کے روز منبر پر بیٹھتا۔ جب عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں لوگ بڑھ گئے تو آپ رضی الله عنہ نے جمعہ کے روز تیسری اذان کہنے کا حکم فرمایا۔ پس وہ زوراء کے مقام پر کہی جاتی تھی اور یہی معمول قرار پایا۔‘‘
تیسری اذان سے مراد یہ کہ پہلے صرف ایک اذٓن اور اقامت کہی جاتی تھی ، اب ایک اور اذان بھی جاری کی جو مسجد سے باہر بازار میں دی جاتی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور امام ابن حجر فتح الباری شرح صحیح البخاری میں اس کے تحت لکھتے ہیں :
قَوْلُهُ عَلَى الزَّوْرَاءِ بِفَتْحِ الزَّايِ وَسُكُونِ الْوَاوِ وَبَعْدَهَا رَاءٌ مَمْدُودَةٌ وَقَوْلُهُ قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ هُوَ الْمُصَنِّفُ وَهَذَا فِي رِوَايَةِ أَبِي ذَرٍّ وَحْدَهُ وَمَا فَسَّرَ بِهِ الزَّوْرَاء هُوَ الْمُعْتَمد وَجزم بن بَطَّالٍ بِأَنَّهُ حَجَرٌ كَبِيرٌ عِنْدَ بَابِ الْمَسْجِدِ وَفِيه نظر لما فِي رِوَايَة بن إِسْحَاق عَن الزُّهْرِيّ عِنْد بن خُزَيْمَة وبن مَاجَهْ بِلَفْظِ زَادَ النِّدَاءَ الثَّالِثَ عَلَى دَارٍ فِي السُّوقِ يُقَالُ لَهَا الزَّوْرَاءُ وَفِي رِوَايَتِهِ عِنْدَ الطَّبَرَانِيِّ فَأَمَرَ بِالنِّدَاءِ الْأَوَّلِ عَلَى دَارٍ لَهُ يُقَالُ لَهَا الزَّوْرَاءُ فَكَانَ يُؤَذَّنُ لَهُ عَلَيْهَا فَإِذَا جَلَسَ عَلَى الْمِنْبَرِ أَذَّنَ مُؤَذِّنُهُ الْأَوَّلُ فَإِذَا نَزَلَ أَقَامَ الصَّلَاةَ وَفِي رِوَايَةٍ لَهُ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ فَأَذَّنَ بِالزَّوْرَاءِ قَبْلَ خُرُوجِهِ لِيَعْلَمَ النَّاسُ أَنَّ الْجُمُعَةَ قَدْ حَضَرَتْ (فتح الباری )
یعنی امام بخاری نے کہا کہ ( زوراء ) سے مراد مدینہ منورہ کے بازار میں ایک اونچی جگہ کا نام ہے ، اور یہی معتبر ہے ، امام ابن بطال نے فرمایا کہ زوراء ایک بڑا پتھر ہے جو مسجد نبوی کے دروازے کے قریب ہے ‘‘
جبکہ صحیح ابن خزیمہ اور سنن ابن ماجہ میں ہے کہ سیدنا عثمان نے (پہلے سے جاری اذان و اقامت کے علاوہ ) ایک تیسری اذان کا اضافہ کیا جو بازار میں زوراء نامی حویلی پر دی جاتی تھی ،
اور تحفۃالاحوذی میں ہے قَالَ الْإِمَامُ الْبُخَارِيُّ فِي صَحِيحِهِ الزَّوْرَاءُ مَوْضِعٌ بِالسُّوقِ بِالْمَدِينَةِ قَالَ الْحَافِظُ مَا فَسَّرَ بِهِ الْبُخَارِيُّ هُوَ المعتمد وجزم بن بَطَّالٍ بِأَنَّهُ حَجَرٌ كَبِيرٌ عِنْدَ بَابِ الْمَسْجِدِ
کہ صحیح بخاری میں امام بخاریؒ نے فرمایا ہے کہ ۔۔ زوراء ۔۔ مدینہ کے بازار میں ایک جگہ کا نام ہے ، اور ابن حجرؒ فرماتے ہیں کہ یہی اعتماد کے قابل تفسیر ہے ، اور ابن بطال کا کہنا کہ یہ مسجد کے پاس ایک پتھر کا نام ہے ( جس پر دوسر اذان دی جاتی تھی )
اور تحفۃ الاحوذی میں میں ہے
قال بن خُزَيْمَةَ قَوْلُهُ أَذَانَيْنِ يُرِيدُ الْأَذَانَ وَالْإِقَامَةَ يَعْنِي تَغْلِيبًا أَوْ لِاشْتِرَاكِهِمَا فِي الْإِعْلَامِ كَذَا فِي فَتْحِ الْبَارِي
والحمدلله رب العالمین
Last edited: